تازہ تر ین

امریکہ کی آمرانہ سوچ‘ شکست کا سبب

وزیر احمد جوگیزئی
جدید دنیا کے جتنے مسائل ہیں وہ قدرتی طور پر پیدا نہیں ہوئے ہیں،جتنے بھی معاملات ہیں چاہے وہ محدود ہوں یا پھر لا محدود انسانوں کے پیدا کر دہ ہیں،اور یہاں پر میں عام انسانوں کی بات نہیں کر رہا ہوں،عام انسان تو بیچارے ان تمام معاملات میں بے بس ہیں اور عام لو گ تو ان پالیسیوں اور اس سوچ کے زیر اثر آجاتے ہیں اور ان سے متاثر بھی ہو تے ہیں۔قوم کی زندگی میں ان کے معاملات کو جانچنے کے لیے ان کی تاریخ میں بہت زیادہ دور تک دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی ہے۔بہت زیادہ ان کے ماضی کو نہیں پر کھنا پڑتا۔مثال کے طورپر جنگ عظیم اول کیونکر لڑی گئی تھی، ان وجوہات کو جانے بغیر ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اس جنگ کے کیا اثرات مرتب ہو ئے۔اس جنگ تک اشیا ء یورپ اور افریقہ میں امریکہ کی کوئی دخل اندازی موجود نہیں تھی، کو ئی خاص اثر و رسوخ نہیں تھا۔جنگ عظیم اول کے بعد امریکہ کا دنیا کے معاملات میں کردار بہت زیادہ بڑھ گیا او ر پھر دھیرے دھیرے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں امریکہ کی بلا واسطہ حکمرانی قائم ہو گئی۔
دنیا میں کو ئی ملک کوئی بھی بڑا فیصلہ امریکہ کی رضا مندی کے بغیر نہیں کر سکتاتھا،لیکن یہ بات دیکھنے اور سمجھنے کی ہے کہ امریکہ جو کہ ایک بہت بڑی عسکری،معاشی،اور علمی قوت ہے اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی اس کا کو ئی ثانی نہیں ہے۔ تعلیم عام ہے اور ہنر مند افراد کی بھی کوئی کمی نہیں ہے اور جنگ عظیم دوئم کے بعد اسی قوم نے دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایٹمی ہتھیار استعمال کیے،لیکن اس سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔اتنی بڑی قوت اگر چاہتی کہ دنیا میں امن اور سکون ہو،انصادف اور برابری ہو تو یہ ان کے لیے مشکل نہیں تھا۔ امریکہ دنیا میں امن قائم کر سکتا تھا،لیکن بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ اتنی بڑی قوت جس کو شاید انسانی تاریخ کی سب سے طا قتور قوت مانا جاتا ہے وہ بجائے اپنی قوت اور طاقت کو اچھائی اور دنیا میں امن کے نفاذ کے لیے استعمال کرتی وہ تو کسی اور طرف ہی نکل گئی۔امریکہ نے اپنا پورا زور اپنی وار مشین پر لگا دیا۔انہوں نے اپنی سافٹ پاور کو بجائے دنیا میں امن کی ترویج کے استعمال کرنے کے اسے بھی اپنی جنگوں کی حمایت اور ان کا راستہ ہموارکرنے میں لگا دیا اور اس پالیسی کے نتائج کیا برآمد ہوئے وہ ہم کافی عرصے سے گاہے بگاہے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔پورے کے پورے ملکوں کو اور خوشحال اور ہنستے بستے ممالک کو اجاڑ کر رکھ دیا گیا۔ ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ویتنام میں کیا ہوا؟ کو ریا میں کیا ہو ا؟ عراق میں کیا ہوا؟ لیبیا میں کیا ہوا؟ عراق کو ہی دیکھ لیں،عراق جا ئیں تو ایسا محسوس ہو تا ہے کہ کسی کھنڈر میں کسی آثار قدیمہ کے مقام پر آگئے ہیں۔اور امریکہ اگر افغانستان میں افغان فوج پر 83ارب ڈالر خرچ کرنے کی بجائے افغان عوام کی ترقی اور فلاح پر توجہ دیتا تو شاید اتنا پیسہ خرچ کرنے کے بعد بھی اتنا بے تو قیر ہو کر افغانستان سے نہیں نکلتا۔امریکہ نے دنیا میں حالیہ برسوں میں ایسی پالیسیاں اپنائی ہیں جو کہ کسی بھی صورت میں دانش مندانہ نہیں لگتی ہیں۔
لگتا ایسا ہے کہ امریکی قیادت دانش مندی،دور اندیشی اور عقل سے بہت دور ہو گئی ہے۔اگر افغان قوم کو ترقی کے مواقع فراہم کیے جاتے تو آج افغانستان بھی امریکہ کی ایک ریاست کی مانند ہی ترقی یافتہ ہو چکا ہو تا،لیکن ایسا کیوں نہیں ہو ا؟ اس لیے نہیں ہوا کہ ہر مسئلہ کا فوجی حل نہیں ہوا کرتا ہے۔فوجی عمل کو ایک stop gapکے طور پراستعمال کیا جاسکتا ہے یعنی کہ وقتی طور پر طاقت کے زور پر مسائل کو دبایا جاسکتا ہے لیکن مستقل بنیادوں پر مسائل حل ہونے کی بجائے مزید گھمبیر ہو تے چلے جاتے ہیں اور لا وا بن کر پھٹ پڑتے ہیں۔فوجی مداخلت نے کبھی بھی کسی ملک کے لیے کچھ اچھا نہیں کیا ہے اور اگر فوجی مداخلت کی تاریخ دیکھنی ہے تو پاکستان کو ہی دیکھ لیں۔مجھ سے گزشتہ دنوں ایک سفارت کار ملے۔ ان کو پاکستان کے بارے میں اور پاکستان کی تاریخ کے بارے میں بہت کچھ معلوم تھا،شاید جس ملک میں سفارت کاروں کو بھیجا جاتا ہے ان کو اس ملک کے بارے میں گہرا مطا لعہ بھی کرایا جاتا ہو، اس ملک کی تاریخ اس کی معیشت اور صنعت کی حیثیت سے بھی آشنا کرایا جاتا ہو، بہر حال اس سفارت کار نے مجھ سے کہا کہ 50ء کی دہائی میں تو پاکستان بہت ہی تیزی کے ساتھ ترقی کرتا ہوا ملک تھا اور اگر اسی تیز رفتاری کے ساتھ پاکستان ترقی کرتا رہتا تو آج دنیا کی بڑی اقتصادی قوت ہو تا۔ان صاحب کے سوال کا جواب یہی ہے کہ اس لیے پاکستان ایک بڑی اقتصادی قوت نہیں بن سکا ہے کیونکہ پاکستان مارشل لا کی زد میں آگیا اور مارشل لا کے ادوار میں ملک کے اداروں کو کمزور کیا گیا۔مارشل لا کی سوچ ایک سرنگ کی مانند ہو تی ہے جس کو صرف تصویر کا ایک ہی رخ نظر آرہا ہو تا ہے،جو بھی کر لیں مارشل لا کی سوچ ہمہ پہلو اور کثیر الجہتی ہو ہی نہیں سکتی ہے اور یہی ہمارے ملک کا المیہ رہا ہے۔
بہر حال ہمارا موضوع یہ نہیں تھا ہمارا موضوع ریاست ہائے متحد ہ امریکہ کی بے شمار خوبیوں کے باوجود اس کی دنیا بھر میں ناکامی کے اسباب پر نظرڈالتا تھا۔ایک بہت ہی بڑی طاقت ہو نے کے باوجود امریکہ صرف اور صرف اسی لیے ناکام ہو رہا ہے کہ اس کی سوچ پوری دنیا کے لیے آمرانہ ہے۔آمرانہ سوچ یقینا ناکا م ہوئی ہے اور انسانی تاریخ اس سے بھری پڑی ہے۔لہذا آج کے دور میں ہماری سوچ صرف اور صرف اقتصادی ترقی کی ہونی چاہیے کیونکہ صرف اقتصادی ترقی کے ذریعے ہی آج کی دنیا میں عزت حاصل کی جا سکتی ہے۔ایسا ملک جس کی افرادی قوت ہُنر مند اور بہت ہی جفا کش ہو۔اگر اس ملک کی فکر کریں تو اس ملک میں بہت جان ہے کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ ملک دنیا میں اپنا جائز مقام حاصل نہ کر سکے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain