لاہور: (ویب ڈیسک) سانحہ مری کی تحقیقاتی کمیٹی نے راولپنڈی کی تحصیل مری میں ڈپٹی کمشنر اور آرمی آفیسر پر مشتمل مینجمنٹ کمیٹی کے قیام کی سفارش کر دی۔
پنجاب حکومت نے سانحہ مری کی تحقیقات کی رپورٹ باضابطہ طور پر جاری کردی ۔ رپورٹ ستائیس صفحات پر مشتمل ہے ۔ رپورٹ کے پہلے تحقیقاتی کمیٹی کی تحقیقات کے طریقہ کار، دوسرے حصے میں سانحہ کی ذمہ داری جبکہ تیسرے حصے میں آئندہ ایسے سانحات سے بچنے کیلئے تجاویز شامل کی گئی ہیں۔
سانحہ مری کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کمیٹی نے دس جنوری کو تحقیقات شروع کی، گیارہ جنوری کو کمیٹی نے محمکہ موسمیات کی وارننگ اور ٹریفک پلان کا جائزہ لیا۔ مری میں 4 جنوری کو 22 ہزار گاڑی داخل اور 15 ہزار واپس گئی، 4 دنوں میں 10 ہزار گاڑی اندر پھنسیں۔ گلیات کا راستہ بند کرنے میں پانچ گھنٹے کی تاخیر ہوئی۔ ناقص پلاننگ اور دیر سے فیصلے بھی سانحہ مری کی اہم وجہ بنے۔ برف اور گرے درخت ہٹانے کے لیے مشینری کا موقع پر نہ ہو نا بھی سانحہ کئ وجہ بنی۔ مری بھیجا ٹریفک سٹاف بھی برف باری سے آگاہ نہ تھا نہ ضروری چیزیں انکے پاس تھی ۔ ٹریفک پولیس بھی برف سے بچنے کے لئے محفوظ جگہ تلاش کرنے میں مصروف رہی۔
رپورٹ کے مطابق سانحہ مری کے دوران سرکاری افسران کاغذی کاروائیوں میں مصروف رہے۔ سانحہ سے قبل دو بار برف باری ہوئی اور ایک بار ٹریفک جام ہوا لیکن انتظامیہ کو ہوش نہ آیا۔ مری میں جمعہ کی صبح گیارہ بجے سے حالات خراب ہونا شروع ہوگئے تھے۔ نماز جمعہ کے بعد ٹریفک کا خوفناک ہجوم نظر آیا لیکن ٹول پلازوں پر مزید گاڑیوں کی انٹری نہ روکی گئی۔ شام پانچ بجے گاڑیوں کی انٹری روکنے کا کہا گیا تھا لیکن ڈپٹی کمشنر اور اعلی افسران سارا دن مری جانے کی بجائے رات دس بجے مری پہنچے۔
رپورٹ کے مطابق ریسکیو کا عملہ منظم مدد نہ کرسکا اور نہ ان کا رسپانس فوری تھا۔ برف ہٹانے والی مشینری جمعہ کی شام نکلی لیکن ٹریفک میں پھنس گئی۔ ٹریفک پلان کاغذوں کی حد تک بہترین تھا لیکن عملی طور پر انتظام صفر تھا۔ مری میں چار جنوری سے سات جنوری تک ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں داخل ہوئیں۔ سات جنوری کو تقریباً دس ہزار سیاحوں کی گاڑیاں ٹریفک میں پھنسی رہیں جبکہ دس ہزار لوکل افراد کی گاڑیاں پھنسیں رہیں ۔ گلیات میں انٹری بند کرنے کی شام پانچ بجے درخواست کی گئی لئکن چھ گھنٹے تاخیر سے رات گیارہ بجے انٹری بند کی گئی۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مری میں اموات کی بڑی وجہ گاڑیوں میں کاربن مونو آکسائیڈ بھر جانا تھا۔ دوسری جانب این ڈی ایم اے کی وارننگ کے باوجود سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو مری کی صورتحال سے آگاہ نہیں کیا گیا ۔ کمشنر ، پولیس ، ٹریفک پولیس کسی سوشل میڈی اکاونٹ پر این ڈی ایم اے کی وارننگ موجود نہیں تھی ۔این ڈی ایم اے کی وارننگ کو پنجاب ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے بھی سنجیدگی سے نہ لیا ۔ریسکیو ون ون ٹوٹو کے پاس دس سے زائد ایمرجنسی گاڑیاں مری میں موجود مگر کوئی پھنسے سیاحوں کی مدد کو نہیں گئی ۔ اسسٹنٹ کمشنر اور اسٹیشن کمانڈر کے حکم کے باوجود ریسکیو ون ون ٹو ٹو نے کرین بھی مری میں نہ منگوائی ۔
رپورٹ کے مطابق انتظامیہ اور مری ہوٹلز مالکان کے مابین انتہائی برا رابطہ تھا ۔ مری سانحہ کے متعلق کسی بھی سطح پر پولیس اور انتطامیہ میں درست معلومات کا تبادلہ نہ کیا گیا ۔ واضح ہدایات کے باوجود مری میں خراب صورتحال سے نمٹنے کیلئے کوئی کنٹرول روم بھی قائم نہیں کیا گیا۔ سانحہ مری کی تحقیقاتی کمیٹی نے آئندہ حادثات سے بچنے کے لئے وزیر اعلی کو اپنی تجاویز بھی پیش کی ہیں جس کے بعد وزیر اعلی ٰچمان بزدار نے مری کو ضلع کا درجہ دینے کی منظوری دے دی ہے ۔ مری کو بلدیاتی انتخابات کے بعد ائندہ مالی سال میں باضابطہ ضلع کا درجہ دیا جائے گا ۔ وزیر اعلی کی مری میں محکمہ موسمیات کے دفتر کے قیام کی بھی منظوری دی گئی ہے۔ پنجاب اس ضمن میں وفاق اور متعلقہ وزارت کے ساتھ ملکر اقدامات کرے گا۔
سانحہ مری کی تحقیقاتی کمیٹی نے مری میں ڈپٹی کمشنر اور آرمی آفیسر پر مشتمل مینجمنٹ کمیٹی کے قیام کی سفارش کر دی ہے ۔ کمیٹی نے گائیڈ مری کانام سے سیاحوں کے لئے ایپ کی بھی سفارش کر دی ہے ۔کمیٹی نے مری میں برف ہٹانے کے لئے جدید مشینری کی خریداری کی سفارش کر دی۔
وزیر اعلی نے متعلقہ محکموں کو مشینری کی خریداری کے لئے اقدامات کی ہدایت کر دی ۔ تحقیقاتی کمیٹی نے مری میں ٹریفک کی انٹری اور اخراج کے لئے آٹو میٹڈ سسٹم لگانے کی سفارش کر دی ۔کمیٹی نے مری میں وارننگ سسٹم کے لئے اقدامات کی بھی سفارش کر دی ۔سیاحوں کو خطرناک موسم اور ٹریفک کے بہاؤ سے آگاہ رکھا جائے۔
کمیٹی کی سفارش ہے کہ مری میں غیر قانونی تجاوزات کے خلاف آپریشن بھی کیا جائے ۔ مری رپورٹ کیلئے گیارہ مقامی افراد کے انٹرویوز کیے گئے ۔ رپورٹ میں تین سیاحوں کے بیانات بھی شامل کیے گئے ہیں ۔پولیس اور انتظامیہ کے چودہ افسران اور اہلکاروں کے بیانات کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔