تازہ تر ین

اسلام آباد کا اگلا مئیر کون ہو گا؟

ملک منظور احمد
بلدیاتی انتخابات کا دور دورہ ہے،سندھ کو چھوڑ کر ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات مارچ سے مئی تک ہونے جا رہے ہیں، خیبرپختونخوا میں پہلے مرحلے میں کچھ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہو چکے ہیں، جبکہ دوسرے مرحلے کی تیاری جاری ہے۔ پنجاب میں پہلے مرحلے میں چار ڈویژنز میں انتخابات کرانے کا فیصلہ ہوا ہے، جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں میٹرو پولیٹن کی سو یونین کونسلز کے اور میئر کے الیکشن اکٹھے ہونے ہیں۔ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں بیو کرو کریسی کبھی بھی بلدیاتی نظام کو پھلتا پھولتا ہو ا نہیں دیکھ سکی یہی وجہ رہی ہے کہ وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد شہر کے مسائل میں اضافہ ہی ہو تا چلا گیا ہے۔
اسلام آباد کی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں کبھی کوئی مستحکم بلدیاتی ڈھانچہ نہیں رہا، ہمیشہ عارضی بنیادوں پر قانون سازی یا صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کچھ عرصہ کے لئے بلدیاتی ادارے فعال کئے گئے اگرچہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں 12 دیہاتی یونین کونسلز میں الیکشن ہوتے رہے، مگر شہر شروع سے ہی بیوروکریسی کے رحم و کرم پر رہا، جو سی ڈی اے یا آئی سی ٹی ایڈمنسٹریشن میں بیٹھے لوگ شہر اور شہریوں کی قسمت کے فیصلے کرتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے 2000 میں بلدیاتی اور ضلعی نظامت کا نظام متعارف کرایا تھا، اس میں بھی اسلام آباد واحد ضلع تھا جہاں ناظم نہیں تھا اور ڈپٹی کمشنر انتظامی سربراہ تھا۔ 2015 میں مسلم لیگ نون نے شہر اور دیہات میں پچاس یونین کونسلز پر مشتمل میٹروپولیٹن قائم کی جس کا سربراہ میئر تھا۔پچاس یونین چیئرمین نے میئر منتخب کرنا تھا، اس طرح نواز شریف نے حکومتی وسائل استعمال کرتے ہوئے اپنے ایک دوست اور کنٹریکٹر شیخ انصر عزیز کو میئر بنوایا، مگر وہ شہر کو نہ سنبھال سکے، بلکہ سی ڈی اے کو بھی کنٹرول نہ کر سکے اور یہ بھی دنیا نے دیکھا کہ میئر کے خلاف شہر کے سویپرز نے جلوس نکالے، میئر کی شکایات پر نواز شریف نے شیخ انصر عزیز کو سی ڈی اے کا چیئرمین بھی بنا دیا، مگر معاملات درست نہ ہوئے، پھر شیخ انصر عزیز نے عہدے سے ہی استعفیٰ دے دیا، جس کے بعد چند ماہ کی مدت کے لیے ن لیگ نے ایک مقامی رہنما کو میئر تو بنوا دیا لیکن عملی طور پر میئر آفس خالی رہا، اب نئے قوانین کے تحت تحصیل و یونین چیئرمین اور میئر کے الیکشن براہ راست ووٹ سے ہوں گے، اور اسلام آباد کی قومی اسمبلی کے تین حلقوں پر مشتمل پورا شہر اور ضلعی حدود سے براہ راست میئر منتخب کرانا کسی سیاسی جماعت کے بس میں بھی نہیں ہے، اس لئے ابھی تک کسی سیاسی جماعت نے میئر کے امیدوار کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا اور نہ ہی غیر جماعتی طور پر زیادہ دلچسپی نظر آرہی ہے، یہ بات طے ہے کہ اسلام آباد کا میئر وہی ہوسکتا ہے جس کا 100 یونین کونسلز میں ووٹ بینک ہو۔ خیبر پختونخواہ کے پہلے مرحلے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ صرف پارٹی ٹکٹ ہی جیت کی ضمانت نہیں ہوسکتا۔
اسلام آباد ایک مختلف مزاج کا شہر ہے یہاں شہر میں اکثر سرکاری ملازم اور کاروباری افراد بستے ہیں تو ملحقہ دیہات میں قدیم آبادیاں اور برادریاں آباد ہیں، اور اب تو ہاؤسنگ سوسائٹیز کی شکل میں نئی بستیاں بھی بس گئی ہیں، اور ہر ایک کے الگ مسائل اور مطالبات ہیں، میئر کے لیے ضروری ہے کہ اس کو نہ صرف آبادی کے ہر حصے اور طبقے کے مسائل سے آگاہی ہو بلکہ شہر اور دیہات میں اس کی ذاتی پہچان اور تعارف بھی ہو، اگر سیاسی جماعتوں کی مقامی لیڈر شپ کو دیکھا جائے تو کوئی رہنما اس فارمولے پر پورا نہیں اترتا، ابھی تک اس حوالے سے صرف ایک شخصیت سامنے آئی ہے اور انہوں نے اپنا گروپ بھی متعارف کرایا ہے۔موصوف جنرل پرویز مشرف کے دور میں نگران وفاقی وزیر بنے تھے، اگرچہ چند ماہ کی مختصر مدت کے لیے وزارت میں رہ کر کوئی کام کرنا مشکل ہوتا ہے، مگرکچھ کرنے کا جذبہ اور صلاحیت ہو تو مدت یا عرصہ اہمیت نہیں رکھتا، انہوں نے اپنے دور وزارت میں اسلام آباد کے مشرقی اور مغربی حصوں کے دیہات میں نہ صرف ترقیاتی کام کروائے، بلکہ اپنے وسائل سے غریب اور مستحق خاندان کو کفالت کے ذرائع بھی مہیا کیے، اور یہ سلسلہ وزارت سے الگ ہونے کے بعد بھی جاری رہا اور اب اگر اسلام آباد کے کاروباری اور شہری آبادی ان کو اپنا دوست اور ساتھی سمجھتی ہے تو دیہی علاقوں کے عوام بھی ان کو ایک انسان دوست اور ہمدرد انسان کے طور پر جانتے ہیں۔ اگر انہوں نے سو مخلص چیئرمین کی ٹیم بنا لی تو وہ آسانی سے میئر کا الیکشن جیت سکتے ہیں، فی الحال وہ جماعت اسلامی اور پاکستان عوامی تحریک کی قیادت سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، یہ بھی ضروری ہے، مگر ان کو دیہی علاقوں میں اپنے پرانے تعلق اور سورس تلاش کرکے ان کو متحرک کرنا ہوگا۔
اسلام آباد کی شہری آبادی کا مسئلہ یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں ووٹ دینے کو نکلتے ہی نہیں، زیادہ ووٹ دیہی علاقوں میں پول ہوتا ہے اور اس لیے وہاں انتخابی ماحول بنانا پڑتا ہے، ڈاکٹر امجد کا ممکنہ مقابلہ سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کے ساتھ ہو سکتا ہے، کیونکہ مصطفی نواز کھوکھر کے والد حاجی نواز کھوکھر کی خدمات اور تعلق کی بنیاد پر اسلام آباد کے قومی اسمبلی کے تینوں حلقوں میں ووٹ بنک موجود ہے لیکن فی الحال سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر بلدیاتی انتخابات میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
قصہئ مختصریہ کہ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں اسلام آباد کامیئرمصطفی نواز کھوکھر کاکوئی امیدوار بنے یا ڈاکٹرامجد یا پھر کوئی تیسرا اس کا پتا تو وقت آنے پر چل جائے گا۔ فی الوقت امید کی جانی چاہیے کہ بی ڈی الیکشنز آزادانہ اور منصفانہ بنیادوں پر بلاادنیٰ تاخیر منعقد کروائے جائیں۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain