ملک منظور احمد
پاکستان کو قیام پاکستان کے بعد سے ہی چند ایسے مسائل کا سامنا ہے،جن کے باعث اس ملک کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں اور یہ ملک حقیقی معنوں میں اپنی صلاحیتوں کا بروئے کار لا کر دنیا میں وہ مقام حاصل نہیں کر سکا ہے جس کا یہ حقدار تھا۔چند انہی مسائل میں سے ایک مسئلہ اس ملک کا نظام انصاف اور فوجداری قوانین ہیں۔اس ملک میں چاہے وہ سول کیس ہو یا پھر فوجداری مقدمہ۔کیسز تو ہو جاتے ہیں لیکن ان کے فیصلے نہیں ہو پاتے ہیں۔پولیس اور عدلیہ کا نظام اس طرح سے ڈلیور نہیں کرپاتا جس طرح کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی تک اس حوالے سے جو قانون رائج ہیں وہ انگریز نے 1898ء میں کیے تھے،اور ابھی تک اس ملک کا نظام انہی قوانین کا تابع ہے اور ملک کے لیے مسائل کا باعث بنا ہوا ہے۔یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں اشرافیہ کو فائدہ ہو تا ہے اور غریب پستے چلے جاتے ہیں۔اور کیونکہ یہ نظام انگریز کا بنایا ہو ا ہے اس لیے اس امر میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے کہ انھوں نے ایک ایسا نظام تیار کیا ہے جو کہ حکمران طبقے کے گھر کی لو نڈی ہے۔لیکن ہماری سب سے بڑی بد قسمتی رہی ہے کہ 75سال میں اس ملک میں کبھی بھی ہمارے ملک میں اس نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے اور جس کا نقصان ہمیں بطور قوم اٹھانا پڑا ہے۔
سابق صدر مشرف کے دور میں پولیس آرڈر 2002ء لایا گیا تھا اور کوشش کی گئی تھی اس حوالے سے بہتر پولیسنگ کو فروغ دیا جائے لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ اس آرڈر پر عمل درآمد میں کئی مسائل آئے اور اگر کہا جائے کہ یہ نظام بڑی حد تک ناکام ہو گیا تو یہ غلط نہیں ہو گا۔اب آخر کار کسی حکومت نے سنجیدگی سے پاکستان پینل کو ڈ،تعزیرات پاکستان اور فوجداری قوانین میں جامع اصلاحات کرنے کا فیصلہ کیا ہے،قانون شہادت میں تبدیلی کی جا رہی ہے،ویڈیو اور الیکٹرانک شہادت سے متعلق قوانین بدلے جا رہے ہیں پلی با رگین کا نفاذکیا جا رہا ہے،مقدمات ختم کرنے کی کے لیے ایک ٹائم فریم مقرر کیا جا رہا ہے،اور اگر ٹرائل جج مقررہ نو ماہ میں مقدمہ کا فیصلہ نہیں سناتا تو اس کو ہائی کو رٹ کو اس حوالے سے وضاحت دینی ہو گی۔اپیل کے لیے زیادہ سے زیادہ مدت 6ماہ مقرر کی گئی ہے۔کوئی بھی جج کسی بھی مقدمے میں 3روز سے زیادہ کا التوا نہیں دے سکے گا۔یہ تو چند مثالیں ہیں لیکن کل ملا کر قوانین میں 750ترامیم کی جا رہی ہیں،جو کہ تمام کی تمام دیکھنے کے لحاظ سے تو بہت اچھی ہیں لیکن سوال وہی آتا ہے کہ کیا ان پر مکمل طو ر پر عمل درآمد یقینی بنایا جاسکے گا؟پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ یہی رہا ہے کہ کاغذوں پر ان پر تو بہت بہترین اصلاحات لانے کی کوشش کی جاتی ہے اور لائی بھی جاتی ہیں لیکن جب عملی میدان میں ان کو نا فذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ ہو نہیں پاتا ہے۔
جیسا کہ حضرت علی عنہؓ کا قول ہے کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن نا انصافی کا نظام نہیں چل سکتا ہے۔سابق آئی جی پولیس افتخار رشید میرے دوست ہیں اور ایک جہاندیدہ شخصیت ہیں۔میری پولیس نظام میں اصلاحات کے حوالے سے ان سے بہت بار گفتگو ہو ئی ہے میں نے ان سے اس حوالے سے انٹر ویو بھی لیے اور ان کا یہی کہنا ہے کہ پاکستان میں اصلاحات کی کوشش تو بہت بار کی گئی ہے لیکن عمل درآمد نہیں ہو سکا اور عمل درآمد نہ ہونے کی کئی وجوہات رہیں،ان میں چند ایک یہ تھیں کبھی تو امریکہ یا یورپ کا نظام یہاں پر لانے کی کو شش کی گئی ہے جو کہ ہمارے ملک کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا تھا اس لیے ناکامی ہو ئی اور کبھی اتنی مہنگی اصلاحات متعارف کروائی گئیں کہ ان پر عمل کے لیے بجٹ ہی موجود نہیں تھا اس لیے ناکامی ان کا مقدر ٹھہری لیکن بہر حال ہمیں اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی تعریف کرنے کی ضرورت ہے کہ کم از کم انھوں نے اس حوالے سے کوشش تو کی ہے۔کامیاب ہو تے ہیں یا نہیں یہ بعد کی بات ہے لیکن اللہ کرے یہ یہ اصلاحات کامیاب ہوں کیونکہ ملک کو اپنے پولیس اور عدل کے نظام میں ڈرامائی بہتری کی ضرورت ہے۔
دور حاضر معاشی ترقی اور معاشی مقابلے کا دور ہے جو ممالک اور جو ریاستیں اس دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گی ان کے لیے اس دنیا میں عزت سے رہنا بہت مشکل ہو تا چلا جائے گا۔اور معاشی ترقی کے لیے کلیدی حیثیت انسانی وسائل کی ترقی اور ان کو ترقی کے لیے سازگار ماحول دینا ہے۔جو کہ ہم آج تک اپنے لوگوں کو نہیں دے سکیں ہیں۔ایک ایسا معاشرہ جہاں پر عدل اور انصاف کا دور دورہ ہو۔ایسے ماحول میں ہی ملک ترقی کیا کرتے ہیں۔ہمیں بھی اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔حال ہی میں نیشنل قومی سلامتی پالیسی کا بھی اجرا کیا گیا ہے اور اس پالیسی کے تحت انسانی ترقی اور عوام کی خوشحالی کو کلیدی حیثیت دی گئی ہے اب ضروری ہے کہ فوجداری قوانین میں اصلاحات سمیت ایسے قوانین لائیں جا ئیں جو کہ اس ہدف کو مکمل کرے میں قومی پالیسی کو تقویت دیں۔پولیس نظام میں مرکزی اہمیت کا حامل تھانہ ہو تا ہے جس سے عوام کا واسطہ پڑتا ہے اگر پولیس نظام میں بہتری لانی ہے تو تھانوں پر خصوصی توجہ دینی ہو گی رویے بہتر بنانے ہوں گے تفتیش معیاری اور سائنسی بنیادوں پر کرنی ہو گی اور تھانہ دار بہتر لگانے ہوں گے انسانی وسائل میں بھی بہتری لانا ہو گی،تھانہ دار کے لیے گریجویشن کی شرط عائد کی گئی ہے اس کے ساتھ دیگر اقدامات کا بھی ذکر ہے لیکن اس حوالے سے میرے خیال میں مزید کام کیا جانا چاہیے اس کے بغیر نظام میں اس طرح کی بہتری نہیں آئے گی جس کی توقع عوام کرتے ہیں یا حکومت لانا چاہتی ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭