حیات عبداللہ
اہلِ کشمیر کی دل گیر آہیں اور لِیرولِیر نوحے، سنگلاخ خمیر سے بنے عالمی ضمیر سے ٹکرا کر لَوٹ آتے ہیں۔کشمیری حسب و نسب کے حامل پاکستانی سیاست دانوں کے بھارت کے ساتھ وابستہ ہٹّے کٹّے مفادات اور وہاں پر سانڈھ بنے ذاتی کاروبار نے ان کی فہم کو غلام، بصارتوں کو ناتواں اور منطقوں کو بالکل ہی اندھا بنا کر رکھ دیا ہے۔بھارتی مَحبّت کے کاجل سے آراستہ اِن کے کٹیلے نَین اور ذاتی مفادات کے بدنما غازے سے لتھڑے احساسات، اتنے شرمیلے بن چکے ہیں کہ ان کی قوتِ گویائی تک مسلوب ہو کر رہ گئی ہے۔پاکستان کی تاریخ میں مسئلہ ء کشمیر پر اتنے سرد مزاج اور ٹھنڈے پیٹ رکھنے والے سیاست دان تو اِس سے قبل کبھی نہیں دیکھنے، سُننے میں آئے۔جب بھی پاکستانی سیاسی پہلوان کشمیر پر کوئی بیان دیتے ہیں تو وہ اتنا نپا تُلا ہوتا ہے کہ جس سے بھارت کے دل اور احساسات پر کسی قسم کی ناگواری کا بوجھ نہیں پڑتا۔اِتنے مصلحت آمیز بیانات کہ جس سے بھارت کے ماتھے پر کوئی ایک لکیر بھی نمودار تک نہیں ہوتی۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستانی سیاست دانوں کے سُرخ لبوں کی نازکی، دلوں کی نرماہٹ اور فراستوں کی نزاکتوں سے بھارت خوب واقف ہے۔کشمیر کو اپنی شہہ رگ بھی کہا جاتا ہے اور اس شہہ رگ کو بھارت کے قبضے میں دیکھ کے بے چینی پر مشتمل کوئی ایک لمحہ، گھبراہٹ سے وابستہ کوئی ایک پَل اور بے کلی پر مبنی کوئی ایک ثانیہ بھی اِن سیاست دانوں کی زندگیوں میں آج تک دِکھائی نہ دیا۔عمران خان نے بھی محض ایک بار عالمی سطح پر اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے سوا کچھ بھی نہ کیا۔
بھارت کی ہمہ قسم کی بہیمیت پر کسی پشیمانی اور پچھتاوے کی بجائے بھارتی سیاست دان بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ”کشمیر کی صورتِ حال بھارت کا اندرونی معاملہ ہے“ اگر واقعی یہ بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے تو بھارت کے اِس”اندرون“ میں پاکستان زندہ باد کے نعرے کیوں لگ رہے ہیں؟ اگر یہ بھارت کا داخلی مسئلہ ہے تو اس کے”اندر“ بھارت کی بجائے پاکستان کی مَحبّت کس طرح داخل ہو گئی ہے؟ اگر واقعی یہ بھارت کا اپنا مسئلہ ہے تو گولیوں کی بوچھاڑ میں درندہ صفت فوجیوں کے سامنے کشمیری لوگ سینہ تان کر”کشمیر بنے گا پاکستان“ کے نعرے کیوں لگاتے ہیں؟ عقیدتوں سے سَرسبز، سُندر جذبوں اور کومل وفاؤں سے شاداب ان رشتوں کا کوئی ایک سلسلہ بھارت کے لیے نمودار کیوں نہیں ہوتا؟ اگر بھارت کے اس”اندرون“ میں پاکستان کے ساتھ مَحبّتوں کے تلاطم خیز طوفان، آشفتہ سَری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تو اس کا مطلب ہے کہ بھارت کو اپنے”بیرون“کی بھی فکر کرنی چاہیے، اس لیے کہ”اندرون“ جس کا ہوتا ہے، ہزاروں قربانیوں کے بعد ہی سہی”بیرون“ بھی اُسی کا ہو کر رہتا ہے۔
اگر بدخواہ بھارت کی سفّاکیت کے باعث کشمیریوں کے خون کی ارزانی اور بے توقیری دنیا دیکھ رہی ہے تو کشمیریوں کے جذبوں کی جولانی میں حرّیّت کی تڑپ کی فراوانی نے بھی دنیا کو ورطہ ء حیرت میں ڈال دیا ہے۔بات صرف حرّیّت کے بے پایاں جذبوں تک موقوف اور محدود نہیں، ان کے دل کے صحنوں میں پاکستان کے لیے جو مَحبّت انگیز یاسمین مہکتے ہیں، ان کو دیکھ کر بھی دنیا سٹپٹا کر رہ گئی ہے۔برہان مظفّر وانیؒ کی شہادت کے بعد سے اب تک سیکڑوں کشمیری شہید ہو چکے ہیں، آج بھی بھارتی جبر و استبداد کے باعث ہزاروں کشمیری زخمون سے لہولہان ہیں، بعض کی حالت اتنی نازک ہے کہ زندگی اور موت کے درمیان کش مکش میں مبتلا ہیں۔شاہدہ لطیف نے کچھ ایسا ہی منظر اِس طرح بیان کیا ہے۔
یہ کیسی آگ ہے ابرِ بہار جلتے ہیں
چراغ جلتے نہیں ہیں، چنار جلتے ہیں
اگرچہ سیکڑوں افراد بصارت سے محروم ہو چکے ہیں لیکن ان کے جذبے بڑے ہی بصیرت افروز ہیں، وہ پاکستان کے ساتھ وفاؤں کے ایسے جنون اور بندھن میں بندھے ہیں کہ بصارت چِھن جانے کے باوجود، پاکستان کی طرف آس اور امید کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔
خوش رنگ مقبوضہ جمّوں وکشمیر کو صرف بھارتی فوج ہی نہیں بلکہ آر ایس ایس کے غنڈے اور تربیت یافتہ بدمعاش عورتیں بھی بڑے دھڑلّے کے ساتھ تلواریں اور لاٹھیاں اٹھا کر مظاہرہ کرتی ہیں۔ہمدم کاشمیری کے دو شعر ہیں۔
وحشت ہے بہت کم، تو ہے زنجیر زیادہ
چھوٹا سا مرا خواب ہے تعبیر زیادہ
کیا جان میری صرف سُلگنے کے لیے ہے
کیجے نہ مرے جسم کی تفسیر زیادہ
بھارت اور اس کے بہی خواہوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ آزادی کی جو راہیں شہید متعیّن کرتے ہیں، ان پر چلنے سے یہ گولیاں کب روک سکتی ہیں؟ حرّیّت کی جن راہوں پر برہان مظفّر وانیؒ اور ابوالقاسمؒ جیسے شہدا اپنے خون سے جو شمع روشن کر گئے، ان پر آٹھ لاکھ تو کیا اَسّی لاکھ بھارتی فوج بھی بٹھا دی جائے تو ان راہوں کو مسدود نہیں کیا جا سکتا۔شہادتوں کے یہ سلسلے، جذبوں میں خلوص کی انتہائیں اور ولولوں میں تازگی، پختگی اور استقلال کو دوام بخشتے ہیں۔شہادتوں کو پہاڑوں، وادیوں، صحراؤں اور ریگستانوں میں کھوجتے ان نوجوانوں کے سینے ستایش کی افزایش سے پاک و پوتر ہوتے ہیں۔ان کے دلوں میں اُگنے والی تمنّائیں، جاہ ومنصب کی آلایشوں سے تہی ہوتی ہیں۔کیا دنیا اندھی ہے کہ اسے دِکھائی نہیں دے رہا کہ کشمیر کے لوگ، شہدا کے مطہّر و مقدّس جسموں کو پاکستانی پرچموں میں لپیٹ کر دفن کرتے ہیں؟ شہدا نے شہادتوں کے پھول کِھلائے تو اہلِ کشمیر نے پاکستان کے ساتھ چاہتوں کے سلسلوں کو اتنا دراز کیا کہ ہر طرح کی صعوبتوں اور مصیبتوں کے باوجود انھوں نے اس اَن مول رشتہ ء اخوّت کو فروزاں کیے رکھا۔آج کشمیر پر دو ٹوک موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔آخر ہم اپنی شہہ رگ کو کب تک بھارت جیسے سفاک اور عیّار دشمن کے شکنجوں میں دیکھتے رہیں گے؟
(کالم نگارقومی وسماجی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭