اسلام آباد: (ویب ڈیسک) عدالت نے نارووال اسپورٹس سٹی ریفرنس میں احسن اقبال کی بریت کی درخواست منظور کرتے ہوئے ریفرنس خارج کر دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں نارووال اسپورٹس سٹی ریفرنس میں مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کی بریت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ سماعت تک آپ کو سی ٹی ڈبلیو پی کا علم تک نہیں تھا اور ایک نامعلوم اخبار پر چیئرمین نیب نے کیس بنا کر انہیں اندر کر دیا۔ کیس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ ایک فلاحی پراجیکٹ تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے ایک ریفرنس کی وجہ سے فلاحی منصوبہ روک گیا اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اور کیا 2009 میں احسن اقبال کوئی پبلک آفس ہولڈر تھے؟
پراسیکیوٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ احسن اقبال 2009 میں کوئی پبلک آفس ہولڈر نہیں تھے۔ جس پر چیف جسٹس نے نیب سے استفسار کیا کہ اس کیس میں کرپشن کیا ہے؟
نیب پراسیکیوٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل آج دستیاب نہیں وہ دلائل دیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو التوا نہیں ملے گا اور یہ منصوبہ سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کی منظوری سے بنا۔ کیس کے تفتیشی افسر کو پتہ بھی نہیں تھا کہ سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کیا ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم اس کیس کو ترمیمی آرڈیننس کے تحت دیکھ رہے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ترمیمی آرڈیننس کا تو اس میں تعلق ہی نہیں۔ کیس میں کرپشن کیا ہے؟ اور اس منصوبے کو کونسی منسٹری دیکھ رہی تھی ؟
چیف جسٹس نے تفتیشی افسر سے مکالمے میں کہا کہ آپ کرپشن کو چھوڑ کر اور باتیں کر رہے ہیں آپ کا کام کرپشن کی تحقیقات کرنا ہے۔ انتظامی امور میں مداخلت کرکے آپ اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں۔
پراسیکیوٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ منصوبے سے قومی خزانے کو نقصان ہوا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا سارا کیس یہ ہے کہ نارووال چھوٹا ڈسٹرکٹ ہے وہاں یہ منصوبہ نہیں بننا چاہیے اور آپ کہہ رہے ہیں منصوبے سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا۔ یہ پروجیکٹ تو آپ کی وجہ سے روکا تو نقصان کے ذمہ دار تو آپ ہوئے۔ کیس میں کرپشن دکھائیں، نقصان کی بات کریں گے تو آپ کو خود پر کیس بنانا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو پی ایس ڈی پی اور سی ٹی ڈبلیو کا کچھ پتہ نہیں، طریقہ کار کا پتہ نہیں۔ نیب کچھ جانے بوجھے بغیر درمیان میں کود پڑا کہ ہم نے حل کرنا ہے۔
پراسیکیوٹر نیب نے عدالت سے درخواست کی کہ ہمیں وقت دے دیں اور بھروانہ اس پر دلائل دیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بہت وقت دے چکے مزید وقت نہیں دیں گے اور جنہوں نے اس پراجیکٹ کو روک کر نقصان پہنچایا ان کو کیوں نہیں پکڑتے؟ اس وقت کس کی حکومت تھی؟ تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ 1999 میں مارشل لا لگ گیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پھر آپ ان کو پکڑتے کیونکہ نقصان تو انہوں نے کیا تھا، آپ نے کیس میں احسن اقبال کو گرفتار کیوں کیا؟ جس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ گواہ ڈر کی وجہ سے بیان نہیں دے رہے تھے۔