لاہور : (ویب ڈیسک) مُریدکے نارووال روڈ پر ایک گاؤں کوٹ عبداللہ ہے۔ گاؤں سے دونوں شہروں کا فاصلہ تقریباً یکساں 40 کلومیٹر ہے۔ اس کی آبادی سڑک کے دونوں اطرف 20 اور 80 فیصد کے تناسب سے منقسم ہے۔
جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب نو سے 10 بجے کے درمیان لاہور کے علاقے شاہدرہ سے آنے والا ایک نوجوان بیگ کندھے سے لٹکائے کوٹ عبداللہ بس سٹاپ پر اُترتا ہے، بس سے اُتر کر گھر کی طرف بڑھتا ہے، تھوڑی دیر بعد ہاتھ میں کلہاڑی، لوہے کا راڈ لے کر گھر سے نکل کر گلی میں قدم رکھتا ہے۔
گاؤں کے چند لوگوں کی نظر پڑتی ہے، وہ سب گھبرا جاتے ہیں اور فونز پر ایک دوسرے کو اطلاع دیتے ہیں۔ کچھ لوگ اس نوجوان کے پیچھے لپک پڑتے ہیں۔ نوجوان گلیوں میں بھاگنا شروع کر دیتا ہے۔ اسی اثنا میں بجلی چلی جاتی ہے اور اندھیرا چھا جاتا ہے۔ گاؤں کی گلیاں شور اور خوف سے بھر جاتی ہیں۔ نوجوان اندھیرے میں کہیں غائب ہو جاتا ہے اور اُس کے تعاقب کرنے والے اپنے اپنے گھروں کو لوٹنا شروع ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو محتاط رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔
یہ نوجوان اندھیرے میں چھپ کر لوگوں سے بچ کر اپنے پُرانے گاؤں کوٹ راجپوتاں کا رُخ کرتا ہے۔ راستے میں ایک نالہ ڈیک کی پُلی کو عبور کرتا ہے، کچھ ہی فاصلے پر کھیتوں میں سوئے ہوئے چچا بھتیجے پر وار کر دیتا ہے اور آناً فاناً دونوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیتا ہے۔نوجوان مقتولین کی جیبیں ٹٹولتا ہے، جو کچھ ہاتھ لگتا ہے، نکالتا ہے اور آگے کی طرف بڑھ جاتا ہے۔
مقتولین کے پاس رائفل بھی تھی مگر اُس کے حفاظتی استعمال کا اُنھیں موقع ہی نہ مل سکا۔ یہاں سے یہ ساتھ ہی گاؤں ہچڑ میں داخل ہو جاتا ہے جو جائے وقوعہ سے محض آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔
اس گاؤں میں لگ بھگ 800 گھر ہیں اور اس کی آبادی اندازے کے مطابق ساڑھے تین ہزار سے چار ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔
جب یہ گاؤں میں داخل ہوتا ہے تو تقریباً رات ساڑھے 12 کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ گاؤں مکمل طور پر خاموشی کی چادر میں ڈوبا ہوا ہے۔ گاؤں کے لوگوں کی بدقسمتی کہ کتے تک خاموش اور سوئے ہوئے تھے۔
یہاں نوجوان سوئے ہوئے چار لوگوں پر باری باری حملہ آور ہوتا ہے۔ چچا بھتیجا ایک حویلی میں سوئے ہوئے تھے، پہلے اُن پر دھاوا بولتا ہے۔ بعدازاں ساتھ ہی ایک شخص اور تھوڑے ہی فاصلے پر کھلے میں سوئے 20 سے 22 سالہ نوجوان جو چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اور کچھ دِنوں میں اُس کے ہاتھوں میں مہندی سجنے والی تھی، کو موت کے گھاٹ اُتارتا ہے اور گاؤں سے نکل کر آگے پیٹرول پمپ پر جا پہنچتا ہے۔ گاؤں کا پیٹرول پمپ بالکل ہی تنہا اور رش سے عاری۔ یہاں ایک نوجوان کو قتل کرتا ہے اور اس کی جیب سے چابیاں نکال کر الماری سے دِن بھر کا جمع شدہ کیش نکالتا ہے اور واپس کوٹ عبداللہ کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ روڈ پر ایک پیٹرول پمپ پر پہنچتا ہے اور ٹائر شاپ پر سوئے نوجوان پر وار کرتا ہے۔ اُس وقت رات کے ڈھائی بج رہے ہوتے ہیں۔
اسی اثنا میں لاہور سے ڈیوٹی سرانجام دے کر آنے والا ایک پولیس کا سپاہی ظفر اقبال سٹاپ پر اُترتا ہے اور پیٹرول پمپ سے مختصر فاصلے پر ایک کریانہ سٹور پر کھڑی موٹر سائیکل اُٹھاتا ہے اور اپنے گھر جانے سے پہلے پیٹرول پمپ پر تیل ڈلوانے آتا ہے تو آگے نوجوان کو کھڑا پاتا ہے۔
ظفر اقبال اس کو کہتا ہے کہ موٹر سائیکل میں پیٹرول ڈال دو۔ وہ جواب دیتا ہے کہ پیٹرول ختم ہو گیا ہے۔ اسی دوران جب وہ اُس نوجوان کو غور سے دیکھتا ہے تو اُسے پسینے میں ڈوبا اور لوہے کا راڈ تھامے پاتا ہے۔
آناً فاناً نوجوان اُس پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتا ہے تو ظفر اقبال موٹر سائیکل بھگا کر تھوڑے فاصلے پر پہنچ کر اُس کو للکارتا ہے اور اپنی پستول نکال کر تان لیتا ہے مگر نوجوان پیٹرول پمپ پر کھڑی موٹر سائیکل کو سٹارٹ کر کے بھاگ پڑتا ہے۔
ظفر اقبال ون فائیو پر کال کرتا ہے۔ اس دوران اور لوگ بھی جمع ہو جاتے ہیں اور یہ نوجوان کا تعاقب کرتے ہیں۔ کچھ ہی فاصلے پر نوجوان ایک مدرسے میں گھس جاتا ہے۔ یہاں ظفر اقبال اپنی موٹر سائیکل پر پہنچ جاتا ہے اور اس کو قابو کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یوں باقی لوگوں کی مدد سے بعد میں پولیس بھی آ جاتی ہے اور یہ قابو میں آ جاتا ہے۔