اسلام آباد: (ویب ڈیسک) سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل سے متعلق سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے بعد فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرا دی گئی ہے جس میں انکشاف ہوا ہے کہ ارشد شریف کو منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق ارشد شریف قتل کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی گئی ہے جو کہ 592 صفحات پر مشتمل ہے۔
رپورٹ میں تہلکہ خیز انکشافات ہوئے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف کو ایک منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا، کینیا پولیس نے تحقیقات میں کوئی معاونت نہیں کی، کیس میں کئی غیرملکی کرداروں کا کردار اہمیت کا حامل ہے، ارشد شریف کے کینیا میں میزبان خرم اور وقار کا کردار اہم اور مزید تحقیق طلب ہے جبکہ وقار احمد کمیٹی کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے اطہر وحید اور ڈپٹی ڈی جی آئی بی عمر شاہد نے تیار کی، تحقیقاتی ٹیم کی کینیا اور متحدہ عرب امارات میں کارروائی رپورٹ کا حصہ ہے، ارشد شریف قتل کیس میں زیر استعمال گاڑی، نقشہ جات، کرائم سین کا جائزہ بھی رپورٹ کا حصہ ہے۔
23 اکتوبر سے لے کر ارشد شریف کے قتل تک کینیا میں ہونے والے تمام واقعات رپورٹ کا حصہ ہیں جبکہ ارشد شریف قتل کیس میں استعمال اسلحہ، بیلسٹک رپورٹ بھی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں شامل ہے۔
ارشد شریف کا تمام سفری ریکارڈ بھی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے جبکہ ارشد شریف کے موبائل فون، ڈیوائسز، واٹس ایپ اور ای میل کی جائزہ رپورٹ بھی فیکٹ فائنڈنگ کا حصہ بنایا گیا ہے۔
سینئر صحافی کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کرنے کے محرکات، درج ایف آئی آرز، خیبر پختونخوا سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری تھریٹ الرٹ بھی رپورٹ کا حصہ ہے۔
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹس کے اہم نکات میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف نے مختلف اضلاع میں فوجداری مقدمات کے اندراج کے باعث ملک چھوڑا، ممکن ہے ارشد شریف نے یو اے ای اتھارٹی کے دباؤ پر یو اے ای چھوڑا ہو، کینیا کا جی ایس یو پولیس حکام اور اوسی ٹریننگ کمیپ مالی یا کسی اور اثرورسوخ کے باعث اسعتمال ہوا ، وقار کینیا کی نیشنل انٹیلی جنس سروس، پولیس اور عالمی ایجنسیوں سے ساتھ رابطہ میں تھا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ وقار نے ارشد شریف کا فون اور آئی پیڈ پولیس کی بجائے نیشنل انٹیلی جنس سروس کے حوالہ کیا ، وقار کے کینیا اور عالمی ایجنسیوں کے ساتھ روابط ظاہر کرتے ہیں کہ مزید غیر ملکی کردار ملوث ہو سکتے ہیں، ارشد شریف کے ساتھ ڈرائیونگ سیٹ پر موجود خرم کے بیانات منطق اور حقائق کے برعکس ہیں۔
سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف کی کارسیٹ پر گولی کا کوئی نشان نہیں، سینئر صحافی کے سینے میں دائیں جانب سے گولی نکلی مگر سیٹ کو نہیں لگی، ارشد شریف کی بیٹھنے کی پوزیشن اور گولی لگنے کی پوزیشن میں کوئی مطابقت نہیں لگتی، کینیا پولیس کا شناخت میں غلطی کا دعویٰ تضادات سے بھرا ہوا ہے، جی ایس یو پولیس حکام کا موقف ناقابل یقین ہے۔
رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کا قتل منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ،غیرملکی عناصر ملوث تھے، ارشد شریف پر قتل سے قبل تشدد ہونے کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے۔