اسلام آباد: (خبریں ڈیجیٹل) نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہےکہ انہیں نہیں معلوم کہ نوازشریف کسی ڈیل کے تحت آرہے ہیں یا نہیں۔
نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ صدر مملکت نے اپنے خط میں الیکشن سے متعلق تجویز دی ہے فیصلہ نہیں کیا، اس خط کی ضرورت سے متعلق صدر مملکت بہتر جواب دے سکتے ہیں، صدر مملکت کی الیکشن سے متعلق رائے اور پوزیشن ہے، صدر کی ایک رائے ہے اور ان کا ایک سیاسی جماعت سے تعلق بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب کی نگران حکومتیں قانونی ہیں اور نگران سیٹ اپ کا مینڈیٹ قانون کے مطابق حکومت کا نظام چلانا ہے، صدر کے خط کا قانونی پہلو تب ہوگا جب اس پر عدالت کوئی فیصلہ دے۔
انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ نیب ترامیم سے متعلق میرا مؤقف ہے کہ قانون بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے اور قانون کی تشریح کرنا عدالت کا کام ہے۔
ایک سوال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ہمارا اچھا تعلق ہے، بلاول بھٹو نے جو تحفظات عوامی سطح پر اٹھائے ہیں ان کا حق ہے۔
انوار الحق کاکڑ نے مزید کہا کہ ہمارا جتنا وقت ہوگا قانون کے مطابق ہوگا، ہم ایک دن رہیں یا ایک ماہ، قانون کے مطابق رہیں گے، میرے خیال میں مناسب وقت میں عام انتخابات ہوجائیں گے، ہم سے وہ سوال نہ کریں جس کا قانونی جواب ہمارے پاس نہیں، کیا الیکشن کمیشن نے ہماری درخواست پر انتخابی شیڈول دینا ہے؟
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بطور سابق وزیراعظم جو سہولیات حق ہیں یقینی بنائیں گے کہ وہ جیل میں دی جائیں جب کہ تحریک انصاف سے متعلق سمری آئی تو میرٹ پر دیکھیں گے۔
نواز شریف کی وطن واپسی پر نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں معلوم کہ نوازشریف کسی ڈیل کے تحت آرہے ہیں یا نہیں۔
ڈی جی آئی ایس آئی کی توسیع سے متعلق سوال پر جواب
ڈی جی آئی ایس آئی کی توسیع سے متعلق سوال پر نگران وزیراعظم نے کہاکہ اس معاملے کا تعلق نیشنل سکیورٹی سے ہے،حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی عوام کے مفاد میں ہوگا، یہ میری صوابدید ہے اور اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کروں گا۔
ڈالر کی قیمت سے متعلق سوال پر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ غیرقانونی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنا ہے، ڈالر کا ریٹ کہاں آتا ہے اس سےلینا دینا نہیں۔
سعودی ولی عہدکے دورے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور محمد بن سلمان سے پاکستان کا تعلق اتناکچا نہیں، بہت گہراہے، آپ کیوں سوچ رہے ہیں کہ وہ وہاں چلے گئےتو ہماری 25 ارب ڈالرکی سرمایہ کار کہاں چلی گئی، ریاستیں اپنے مفادات دیکھتی ہیں اور ہمیں کیوں اعتراض ہےکہ سعودی عرب اپنا مفاددیکھتا ہے، ہم سعودی عرب کے ساتھ بہت اگلے مرحلے پر رابطے میں ہیں جب کہ محمد بن سلمان کے آنے کی تاریخ دونوں طرف سے طے ہونی ہے، توقع ہے وہ طویل دورانیے کے لیے یہاں آئیں گے۔
افغانستان سے متعلق ان کا کہنا تھایہ نہیں کہا کہ افغان حکام نے دہری پالیسی اپنائی ہے، افغانستان کی موجودہ حکومت کو اپنے چیلنجز کا سامنا ہے، افغانستان کی حکومت کوکام کرنے کےلیے کچھ وقت دینا چاہیے۔