اسلام آباد: نگران وزیر توانائی محمد علی نے کہا ہے کہ گھریلو گیس کا زیادہ سے زیادہ بل 1300 آئیگا۔
نگران وزیر توانائی محمد علی نے کہا ہے کہ ملک کا خسارہ ختم کرنے کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ضروری تھا، ماضی میں گیس کی قیمتیں بتدریج بڑھائی جاتیں تو آج ہمیں اتنا زیادہ اضافہ نہ کرنا پڑتا۔
اسلام آباد میں نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر توانائی محمد علی نے کہا پریس کانفرنس کا مقصد عوام کو گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات سے آگاہ کرنا ہے، مجبوری کے تحت ملکی مفادات میں یہ فیصلہ کرنا ضروری تھا، ہم نے گھریلو صارفین میں سے 57 فیصد کا بنیادی ٹیرف نہیں بلکہ 400روپے کا فکسڈ چارج لگا دیا تاکہ 57 فیصد عوام پر بوجھ نہ پڑے، اس کے بعد ان کا زیادہ سے زیادہ بل1300آئے گا، اس سے زیادہ کسی کا نہیں آئے گا، اس کے علاوہ دیگر صارفین کا ٹیرف ان کے استعمال کے مطابق بڑھتا جائے گا، تندور کے لیے گیس کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ چند سال قبل تک پاکستان کے اپنے گیس سے ہی پوری گیس عوام کو دے دی جاتی تھی اور انڈسٹری بھی چلا لیتے تھے، گزشتہ 10برس سے ہمارے گیس کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں، اس لیے ہمیں آر ایل این جی درآمد کرنی پڑتی ہے، یہ مہنگی گیس ہوتی ہے جس کی قیمت ہماری مقامی گیس سے دگنی سے بھی زیادہ ہے، جب یہ عوام کو فراہم کی جاتی ہے تو اس کی قیمت میں210ارب روپے کا فرق آتا ہے۔
محمد علی نے کہا ہے کہ اگر گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہوتا تو سوئی کمپنیوں کا ریونیو 513ارب روپے ہوتا جبکہ ضرورت 916 ارب کی تھی، 400 ارب کے اس نقصان میں سے 191ارب کا نقصان ہمارے اپنے ذخائر پر ہوتا، گیس کی قیمتیں نہ بڑھائی جائیں تو گردشی قرضہ بڑھتا رہے گا اوربالآخر ایک دن پاکستان کے پاس ادائیگی کے لیے پیسے نہیں ہوں گے،بجٹ خسارہ بڑھ رہا تھا، اس لیے ہمیں ادھار لینا پڑ رہا تھا جس کے سبب سود کی شرح اور مہنگائی دونوں بڑھتی چلی گئیں۔
تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت گھریلوں صارفین کی سبسڈی ختم کر رہی ہے لیکن فرٹیلائزر اور ٹیکسٹائل سیکٹر کے بارے میں خاموش ہے، جنھوں نے گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس ( جی آئی ڈی سی) کی مد میں 500 ارب روپے ادا کرنے تھے، یہ دونوں سیکٹر ہائی سبسڈی کے حامل ہیں لیکن جی آئی ڈی سی دینے سے انکاری ہیں، جس کی وجہ سے حکومت روس کی تعاون پاکستان گیس اسٹریم پائپ لائن پراجیکٹ پر کام کرنے سے قاصر ہے۔