تازہ تر ین

’’کلٹ‘‘ کی پوجا

عید گزرگئی لیکن مزے کی بات یہ رہی کہ ہماری قوم عید پر بوریت سے بچی رہی کیونکہ ان کو اس عید پرتماشالگانے اورتماشابنانے کے لیے بہاولنگرکا واقعہ مل گیا۔پاک فوج پرتنقیدکرنے کے مواقع اور بہانے تلاش کرنے والے پی ٹی آئی کے دوستوں کی توچاندی ہوگئی ۔یہ وہ دوست ہیں جن کو آج کل سول بالادستی سے زیادہ فوج کی نفرت کا بخار چڑھا ہوا ہے۔فوج سے نفرت کسی اصول ،ضابطے یابہتری کے لیے نہیںبلکہ صرف اس لیے ہوگئی ہے کہ ان کے لیڈر کو رہا نہیں کیا جارہا ۔اسی فوج کی آشیرباد سے ان کا لیڈر آج رہا ہوجائے تو یہ نفرت محبت میں بدلتے دیر نہیں لگے گی۔پی ٹی آئی کے ناقدین اس جذبے کو ’’کلٹ ‘‘کانام دیتے ہیں ۔
یہ کلٹ کیا بلا ہوتی ہے ؟ یہ کیسے کام کرتا ہے ؟یہ کیسے افراد کو متاثر کرتا ہے ؟ کیا یہ کلٹ مثبت چیز ہے یا منفی ہے ؟کیا یہ معاشرے کو تعمیر کرتا ہے یا تخریب کا باعث بنتا ہے ؟کیا یہ کلٹ انسانی سوچ کو وسعت دیتا ہے یا اس کو تنگ نظر بنادیتا ہے؟کیا یہ کلٹ انسان کی ترقی کا ذریعہ ہوتا ہے یا اس کو تنزلی کی کھائی میں لے جاتا ہے؟ یہ سوالات انتہائی اہم ہیں ۔آج ان سوالات کا تجزیہ کرلیتے ہیں۔کلٹ چونکہ انگریزی زبا ن کا لفظ ہے تو اس کو سمجھنے کے لیے انگریزی لغات کودیکھ لیتے ہیں ۔ آکسفورڈ سے برناٹیکا اور’’ میریم ویب سٹر‘‘تک جو بھی ڈکشنری اٹھالیں اس میں اس کلٹ کے ملتے جلتے معانی ہی ملتے ہیں ۔اور تمام لغات نے اس کلٹ کو مذہب سے جوڑرکھا ہے۔کیمبرج ڈکشنری نے اس کی تعریف مذہبی گروہ کے حوالے سے مزیدوضاحت سے کی ہے ۔ اس ڈکشنری کے مطابق ’’کلٹ سے مراد ایسا مذہبی گروہ ہے جو ایک جگہ رہتا ہو۔جس کے نظریات انتہاپسندسمجھے جاتے ہوں اور اس کلٹ کے فالوورزکے علاوہ سب کویہ نظریات عجیب لگتے ہوں۔کلٹ کی اسٹڈی کریں تو اس کی کچھ تعریفیں یا استعمال مذہب کے علاوہ سیاسی گروپوں کے طورپر بھی ملتی ہیں ۔سیاسی طورپرکلٹ فالوورز’’ہائی کنٹرول گروپس‘‘کہلاتے ہیں۔یعنی ایسے گروپ پر کسی ایک شخصیت یا مخصوص سیاسی نظریات کااس قدر کنٹرول ہوتا ہے کہ اس کلٹ کی پوجا کرنے والے صرف حکم یا خواہش کے انتظار میں رہتے ہیں ۔وہ کوئی سوال نہیں کرتے ۔یہ لوگ صرف عمل کرتے ہیں ۔ان کو جس طرف لگادیا جائے یہ بغیر کوئی سوال کرے اس طرف لگ جاتے ہیں۔یہ لوگ اس لیڈر کے علاوہ باقی ہر کسی کی مخالفت کرسکتے ہیں یہاں تک کہ اپنی ذات تک کی نفی کرنی پڑے تو کردیتے ہیں۔اس کی اگر کوئی جھلک دیکھنی ہوتو حال ہی میں بالی ووڈ کی ایک فلم ’’شیطان‘‘ ریلیز ہوئی ہے جس میں اجے دیوگن نے بھی مرکزی کردار نبھایا ہے وہ دیکھی جاسکتی ہے۔
تاریخ دان جب اس کلٹ کی بات کرتے ہیں تو اس کاپہلا ریفرنس جو دیاجاتا ہے وہ ’’رومن امپیریل کلٹ‘‘ ہے۔ تاریخ دان یہ مانتے ہیں کہ رومن امپائرکا کھڑاہونا بھی ایک کلٹ ہی کا مرہون منت تھا لیکن بعد میں اس میں اصلاحات لائی گئیں جس سے رومن امپائر کو کلٹ سے نکال کرایک نظام کے تابع کیا گیا۔یہ بات واضح ہے کہ کلٹ میں کوئی نظام نہیں ہوتا۔کلٹ میں لیڈر ہی سب کچھ ہوتا ہے ۔کلٹ کو جمہوریت کی ضد بھی کہاجاتا ہے کیونکہ اس میں سب اختیارات صرف ایک شخص کے پاس ہوتے ہیں۔اس میں نہ کوئی مشاورت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی فیصلہ سازی کا پراسس۔
کلٹ پرلکھاجانے والا سارامواد بیسویں صدی کا ہے ۔کلٹ کو پہلی بار اسٹڈی کا موضوع انیسویں صدی میں بنایا جانے لگا لیکن اس پرباقاعدہ ریسرچ یا لکھے جانے کا کام بیسوی صدی میں کیا گیا۔1930میں کلٹ کو سوشیالوجی کو موضوع بنایا جانے لگا۔کلٹ کوزیادہ ترلٹریچر یا ریسرچ مضامین میں ایک منفی جذبہ کہا گیا ہے۔اس کی تعبیر کسی بھی جگہ مثبت نہیں کی گئی۔اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ کلٹ کی وجہ سے کسی بھی معاشرے میں سدھارکم اور تباہی اور تخریب زیادہ آئی ہے۔یہاں بہت زیادہ کلٹ کے منفی ہونے کا لکھا گیا وہیں 1988میں فارنزک سائیکولوجسٹ ڈک انتھنی جو اکثر برین واشنگ تھیوریزکی وجہ سے تنقید کانشانہ بھی بنتے رہے ہیں انہوں نے کلٹ کو معاشرے کے لیے فائدہ مندبھی کہا ہے۔
کلٹ جہاں اپنے اندرایک الگ دنیارکھتا ہے وہیں اس کلٹ کی مختلف اقسام اورکیٹیگریزبھی بیان کی جاتی ہیں۔ان اقسام میں ایک قسم کو’’ تباہ کن کلٹ‘‘کہاجاتا ہے۔کلٹ کی اس قسم میں انتہاپسندی اس حد تک چلی جاتی ہے کہ اس کا نتیجہ تشدد کی صورت میں نکلتا ہے۔کلٹ کی یہ قسم اتنی خطرناک ہے کہ اس گروہ کے لوگ آپس میں بھی لڑپڑتے ہیں اور اپنے ہی گروہ کے لوگوں کو بھی نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرتے۔اگر ان سے کوئی محفوظ رہتا ہے تووہ ان کا لیڈر ہوتا ہے جس کو سب فالو کرتے ہیں۔کلٹ کی ایک خوبی یا خامی یہ بھی ہوتی ہے کہ لیڈر وفاداروں کی وفاداری ٹیسٹ کرنے کے لیے خود بھی اپنے نیچے کے لوگوں کو آپس میں لڑواسکتا ہے۔یہ لڑائی جھگڑے نچلی سطح تک رکھے جاتے ہیں ۔جب کلٹ کے نیچے عہدوں کی باری آتی ہے تو لیڈر اپنی ہی پارٹی یا گروہ میں اختلافات کو ہوا دیتا ہے اور نیچے والوں کو آپس میں مقابلہ کرنے پرلگادیتا ہے ۔ایسے میں نیچے والوں کو ایک مصروفیت مل جاتی ہے اور پھر جب جھگڑا حد سے بڑھ جاتا ہے تو جھگڑنے والے اپنی لڑائی اسی کلٹ لیڈر کے سامنے رکھتے ہیں جو اس کا فیصلہ کرتا ہے اور اختلافات ختم کرنے کا حکم دیتا ہے۔اس مشق سے لیڈرکا اپنے اوپر اعتماد اور اتفاق ٹیسٹ ہوجاتا ہے۔
تباہ کن کلٹ کو ’’سائیکوپیتھ سنڈروم ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔اس میں کلٹ کے ماننے والے دلیل کی عادت سے کوسوں دورچلے جاتے ہیں ۔جب بحث کرتے ہیں تو موضوع یا دلیل سے نہیں بلکہ اپنے مخالف نظریات رکھنے والے کی شکل دیکھ کر ہی اس کے خلاف رائے قائم کرتے ہیں اور اس کو گالیاں دیتے ہیں۔آج کل کی سوشل میڈیا کی زبان میں اس کو ’’ٹرولنگ‘‘کہاجاسکتا ہے۔میں نے جب کلٹ کی اسٹڈی شروع کی اس پر ریسرچ کی تو اس میں سب سے تکلیف دہ پہلو ایک امریکی کلٹ لیڈر ’’جم جونز‘‘ کی کہانی نکلی۔سب ہی لکھنے والے اس کو کلٹ سے ہی جوڑتے ہیں۔ یہ ایک اجتماعی خود کشی کا واقعہ ہے جس میں جم جونز کے کہنے پر 900لوگوں نے زہر کھاکر خود کشی کی جن میں 276بچے شامل تھے۔
جم جونز 1931میں امریکی ریاست انڈیانا میں پید اہوا۔جوانی میں چرچ سے وابستہ ہوگیا۔ لیڈری کا شوق چڑھا تو سیاست میں آگیا۔پھر سوشلزم کا بخار چڑھ گیا ۔یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا۔جم جونزروس کے قریب ہونے لگا۔جب امریکا کی طرف سے اس کے گرد گھیراتنگ ہونے لگاتو یہ اپنے فالوورزکو لے کر گیانا آگیااور اپنی موت تک وہیں رہا۔اس نے عوامی ٹیمپل کے نام سے ایک ادارہ بنالیا اور وہیں سے اپنا نیٹ ورک چلانے لگا۔اس کلٹ کوتباہ کن کلٹ کی قسم میں شمار کیا جاتا ہے۔امریکی حکومت کو پتہ چلا کہ اس کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں تو امریکی کانگریس نے تحقیقات کے لیے کانگریس مین ’’لیوریان‘‘ کو بھیجوایا تو جم جونز نے اس کو قتل کروادیا۔ اس قتل کے بعد امریکی حکومت نے جم جونز کے نیٹ ورک کو اکھاڑنے کا فیصلہ کیا ۔جب یہ بات جم جونز تک پہنچی تو اس نے سب کو ایک میدان میں جمع کیا اوراس بات کا جائزہ لیا کہ کیاوہ اور اس کے ساتھی فوری روس کی طرف فرارہوسکتے ہیں ۔ جب اس میں ناکامی ہوئی تو جم جونز نے مجمع کے سامنے خطاب کیااور اپنے کلٹ فالووزکو اجتماعی خودکشی کرنے پر راضی کرنا شروع کردیا۔یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ خود کشی کی ساری کارروائی کی آڈیو ریکارڈنگ کی جائے گی ۔یہ چالیس منٹ کی آڈیو ٹیپ آج بھی موجود ہے ۔جس میں جم جونز کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ’’ہم جو کرنے جارہے ہیں کہ عام خودکشی نہیں بلکہ ایک انقلابی خود کشی ہے ‘‘فیصلہ ہوا کہ پہلے بچوں کو زہر دیاجائے گا اور پھر بڑے خود اپنی موت کو گلے لگائیں گے۔یوں یہ کلٹ لیڈراپنے نوسو ساتھیوں سمیت خودکشی کی موت مرگیا۔
میں جب اپنے ملک میں لوگوں کو پی ٹی آئی کو ایک کلٹ کی جماعت کہتے ہوئے سنتاہوں تو کلٹ کی بہت سی تعریفوں پر پرکھنے کے بعد اتفاق کرنے کو دل چاہتا ہے لیکن جب میں جم جونز کا قصہ پڑھتا ہوں تو دل ایسے کلٹ کو ماننے سے انکارکردیتا ہے۔یہ تو میری کیفیت ہے لیکن دنیا کے تاریخ دان جم جونز کو ایک کلٹ لیڈر ہی کے طورپریاد کرتے ہیں۔ کیا کلٹ کی پوجا اتنی خطرناک ہوسکتی ہے


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain