آئی سی سی رینکنگ؛ کوہلی کا چھٹی پوزیشن پر قبضہ، بابراعظم کی 2 درجہ تنزلی

سابق بھارتی کپتان ویرات کوہلی آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں تین درجے ترقی پاکر چھٹے نمبر پر آگئے، بابراعظم خراب فارم کے باعث دو درجہ تنزلی ہوگئی۔

آئی سی سی کی تازہ ٹیسٹ بیٹرز کی رینکنگ کے مطابق نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن 864 ریٹنگ پوائنٹس کے ساتھ پہلی پوزیشن پر قابض ہیں جبکہ انگلینڈ کے جو روٹ 859 پوائنٹس کے ہمراہ دوسری پوزیشن پر موجود ہیں۔

پاکستان کیخلاف تین ٹیسٹ میچوں شاندار کھیل کا مظاہرہ کرنے والے اسٹیو اسمتھ اور مارنوس لبوشین بالترتیب تیسری اور چوتھی پوزیشن پر موجود ہیں، اسی طرح ویرات کوہلی جنوبی افریقہ کیخلاف رنز اُگل کر چھٹی پوزیشن پر آگئے ہیں انہوں نے بابراعظم کو پیچھے دھکیل دیا جو 768 ریٹنگ پوائنٹس کیساتھ 8ویں پوزیشن پر چلے گئے ہیں۔

سڈنی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں محمد رضوان کی شاندار 88 رنز کی اننگز نے ان کے لیے 10 درجے کی نمایاں چھلانگ لگائی اور 668 ریٹنگ پوائنٹس کے ساتھ 17ویں رینک حاصل کی جبکہ سعود شکیل 693 ریٹنگ پوائنٹس کے ساتھ 14ویں نمبر پر چلے گئے۔

پاکستان جی ایس پی پلس اسٹیٹس کا بھرپور فائدہ اٹھائے، سفیر یورپی یونین

کراچی: یورپی یونین کی سفیر رائنا کیونکا نے کہا ہے کہ پاکستان جی ایس پی پلس اسٹیٹس کا بھرپور فائدہ اٹھائے۔

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے دورے کے موقع پر منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یورپی یونین کی سفیر رائنا کیونکا نے کہا ہے کہ پاکستان صرف ٹیکسٹائل کی برآمدات تک محدود رہنے کے بجائے یورپی یونین کو اپنی برآمدات کے دائرہ کار کو وسیع اور متنوع بنائے تاکہ پاکستان یورپی یونین کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاسکے، جسے حال ہی میں 2027 تک مزید 4 سال کیلیے بڑھا دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جی ایس پی پلس پاکستان کی معیشت کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جس سے فائدہ اٹھانے والے نہ صرف ٹیکسٹائل کے پروڈیوسرز ہیں بلکہ وہ تمام لوگ جو ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں، جی ایس پی پلس گزشتہ 10سال کے دوران معاشی لحاظ سے انتہائی مثبت اور مفید رہا ہے کیونکہ اس نے یورپی یونین کو پاکستان کی برآمدات میں 108فیصد اضافہ کرنے میں مدد کی ہے۔

رائنا کیونکا نے کہا کہ پاکستان کے لیے یورپی یونین کا جی ایس پی پلس قواعد کے فریم ورک میں بغیر کسی تبدیلی کے بڑھا دیا گیا ہے، اس لیے 2027 تک سب کچھ ویسا ہی رہے گا، ہمیں توقع ہے کہ نئی پارلیمنٹ اور یورپی یونین کے رکن ممالک کی کونسل ایک بار پھر پاکستان کے ساتھ جی ایس پی پلس کے لیے ایک نئی ہدایت پر مذاکرات شروع کریں گے جو پچھلے سال نہ ہو سکا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگریورپی یونین نئی ہدایت لے کر آتی ہے تو یہ 2027 سے پہلے ہی نافذالعمل ہوجائے گی، پاکستان کے جواہرات اور زیورات کے شعبے میں بہت زیادہ صلاحیت ہے، اس لیے متعلقہ تاجروں کو چاہیے کہ وہ اس کی قدر و قیمت میں اضافہ کریں اور خام مال کو خطے میں برآمد کرکے کسی اور کو کٹنگز، پالش اور جیولری بنانے کا کام دینے کرنے کے بجائے یہ کام خود کریں۔

سپریم کورٹ؛ پی ٹی آئی کی بلے کے نشان کی درخواست خارج

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی بلے کا نشان منسوخی کیخلاف اپیل خارج کردی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے تحریک انصاف کی بلے کا نشان واپس لینے کیخلاف اپیل پر سماعت کی۔ تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست واپس لے لی۔ عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردی۔ امید ہےپشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا سماعت کے بعد پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر گوہر نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ میں بلے کے نشان سے متعلق کیس چل رہا ہے، اس لیے سپریم کورٹ میں ہماری درخواست غیر مؤثر ہوچکی تھی، امید ہےپشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات میں بے ضابطگیوں کے باعث پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لے کر پی ٹی آئی انتخابات کو کالعدم قرار دیا تھا۔ پی ٹی آئی نے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی بلے کا نشان دینے کی اپیل پر بینچ تشکیل دے دیا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی بلے کا نشان دینے کی اپیل پر بینچ تشکیل دے دیا۔

چیف جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ کل بروز بدھ 10 جنوری کو تحریک انصاف کی اپیل پر سماعت کرے گا۔، بینچ میں شامل دیگر ججز جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی ہیں۔

اس سے قبل 4 جنوری کو پاکستان تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم اور انتخابی نشان واپس لینے کے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا تاہم درخواست سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی تھی۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی بلے کے نشان کی بحالی کے لیے درخواست کو 10 جنوری کو مقرر کرنے کا حکم دیا تھا۔

بیرسٹر گوہر علی خان نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے مؤقف اپنایا تھا کہ الیکشن کمیشن کی درخواست قابل سماعت ہی نہیں تھی، انہوں نے سپریم کورٹ سے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے برعکس پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے، الیکشن کمیشن نے بلے کا انتخابی نشان واپس لیتے وقت شواہد کو مدنظر نہیں رکھا، بغیر شواہد فیصلہ کر کے بلے کا انتخابی نشان چھینا گیا، پشاور ہائیکورٹ نے بھی فیصلے میں حقائق کو مدنظر نہیں رکھا، پشاور ہائیکورٹ کے جج نے قانون کی غلط تشریح کی جس کے باعث ناانصافی ہوئی، الیکشن کمیشن کو اس معاملے میں نوٹس جاری کرنا ضروری نہیں تھا۔

اپنی درخواست میں بیرسٹر گوہر خان کا کہنا تھا کہ 26 دسمبر 2023 کو پشاور ہائیکورٹ نے عارضی ریلیف دیا تھا، عبوری ریلیف سے قبل فریقین کو نوٹس دیا جانا ضروری نہیں، ناقابل تلافی نقصان کے خدشات کے تحت عبوری ریلیف دیا جاتا ہے، پشاور ہائیکورٹ کو بتایا کہ بلے کا نشان نہ ملنے سے ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔

پشاور ہائیکورٹ میں بلے پر 6 گھنٹے طویل سماعت، بدھ کا دن فیصلہ کن

پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم اور الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نشان بلا واپس لینے سے متعلق کیس کی سماعت 6 گھنٹے تک جاری رہی لیکن الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کے وکلاء نے دلائل مکمل کر لیے، عدالت نے دیگر فریقین کو مہلت دیتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیے تھے، پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس کامران حیات نے 26 دسمبر کو الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کیا تھا لیکن پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز خان نے 3 جنوری کو معطلی کا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔

پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس ارشد علی نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان واپسی کے خلاف کیس کی سماعت شروع کی تو پی ٹی آئی وکیل شاہ فیصل اتمانخیل اور الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر شاہ مہمند عدالت میں پیش ہوئے۔

پی ٹی آئی وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ بیرسٹر گوہر راستے میں ہیں، کیس کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کردیا جائے۔

اس دوران الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ہم جواب جمع کرتے ہیں، جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آپ ابھی جواب جمع کرلیں۔

عدالت نے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی۔

کافی دیر گزرنے کے بعد بھی بیرسٹر گوہر نہ پہنچے تو پی ٹی آئی وکلاء نے ساڑھے بارہ بجے تک وقت دینے کی استدعا کی تاہم بیرسٹر گوہر ساڑھے 12 بجے بھی پیش نہ ہوسکے۔

عدالت نے برہمی کا اظہار کیا تو ایڈووکیٹ قاضی انور نے کہا کہ بس 5 سے 10 منٹ میں پہنچ جائیں گے۔

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ صبح سے ہم اس کے لیے انتظار کر رہے ہیں، سپریم کورٹ میں جب ہمارے کیسز ہوتے تھے تو ہم صبح پہنچتے تھے، یہ کونسا طریقہ ہےبینچ کوانتظار کروایا جارہا ہے

قاضی انور ایڈووکیٹ نے استدعا کی کہ بس تھوڑا وقت دیا جائے، کچھ دیر میں پہنچ جائیں گے۔ اس کے بعد عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنا جواب جمع کردیا ہے۔

جسٹس اعجاز انور نے پی ٹی آئی وکیل سے استفسار کیا کہ آپ سپریم کورٹ سے سماعت میں تو دلچسپی نہیں لے رہے، آپ یہاں سے آج سماعت چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل قاضی انور نے کہا کہ نہیں ہم یہاں سماعت چاہتے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ پھر ٹھیک ہے وہ آجائیں تو کیس سنتے ہیں۔

عدالت میں بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر ظفر کا انتظار جاری تھا کہ اس دوران جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ اعتراض کرنے والے وکلاء کو بھی طلب کیا جائے۔

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ تحریک انصاف کے انتخابات پر سب سے پہلا اعتراض اکبر ایس بابر کا ہے، وہ کہاں ہیں؟

الیکشن کمیشن میں درخواست دینے والے جہانگیر رضا نے عدالت میں بیان دیا کہ میرا وکیل ہڑتال کی وجہ سے کورٹ میں نہیں آرہا، جس پر جسٹس انور اعجاز نے کہا کہ یہ کورٹ ہے ہمارا ہڑتال سے کوئی سروکار نہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 13 تاریخ کو الیکشن کمیشن امیدوار کو انتخابی نشانات الاٹ کرے گا، پی ٹی آئی کو اگر نشان الاٹ نہیں ہوتا تو وہ آزاد تصور ہوں گے، ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کو عبوری ریلیف دیا تھا وہ ختم ہوگیا ہے۔

جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ اگر ہم آج فیصلہ کرلیں تو یہ مسئلہ ختم ہوسکتا ہے؟ سپریم کورٹ میں کیس کی ضرورت نہیں؟ جس پر الیکشن کمیشن نے کہا کہ بالکل پھر ضرورت نہیں۔

جسٹس اعجاز انور نے پی ٹی آئی وکلاء کو کہا کہ آپ ان کو سمجھا دیں کہ وقت پر آیا کریں، مزید انتظار نہیں ہوگا،ایک بج کر 15 منٹ پر دوبارہ سماعت ہوگی، مزید وقت نہیں دیا جائے گا۔

اتنے میں پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر اور بیرسٹر گوہر علی خان ہائیکورٹ پہنچ گئے۔

سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو بیرسٹر علی ظفر نے عدالت سے تاخیر سے پہنچنے پر معذرت کرلی۔

اس کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کو شکایات دینے والوں نے دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کی استدعا کی تھی، پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات جون 2022 میں کرائے، ہم نے الیکشن کمیشن کو ریکارڈ پیش کیا، بعد میں الیکشن کمیشن نے اس پر سوالات اٹھانا شروع کئے اور آخر میں الیکشن کمیشن نے 20 روز میں دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا حکم دیا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن حکم کے مطابق دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائے، جب الیکشن کرائے تو الیکشن کمیشن نے کہا کہ اعتراض آگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو اعتراضات دینے والے غیر متعلقہ لوگ ہیں، الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات پر کوئی سوال نہیں اٹھایا، الیکشن کمیشن نے کہا سیکرٹری جنرل عمر ایوب کی تعیناتی درست نہیں اور عمر ایوب کی تعیناتی پر انتخابات کو کالعدم قرار دیا۔

بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ انتخابات کالعدم قرار دینے کے بعد انتخابی نشان لے لیا گیا، اب پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد ہوں گے، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے بھی محروم ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ جنہوں نے اعتراضات اٹھائے ہیں ان میں کوئی بھی پارٹی کے ممبر نہیں ہیں، ہمارے 8 لاکھ ووٹرز میں اعتراض کرنے والوں نے نام شامل نہیں۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ہم سے بلے کا نشان لے لیا جاتا ہے تو ہم غیر فعال ہو جائیں گے، پی ٹی آئی مخصوص 227 نشستوں میں اپنے حصے سے محروم ہوجائے گی، اگر آج فیصلہ نہ ہوا تو کروڑوں لوگ پارٹی کے حقوق سے محروم رہ جائیں گے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ اعتراضات کرنے والوں نے کہا ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات پی ٹی آئی آئین کے مطابق نہیں، یہ مسئلہ صرف 14 اعتراضات کرنے والوں کا نہیں پارٹی انتخابات کا ہے، اعتراض کرنے والوں کو کیوں انٹرا پارٹی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی؟

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کسی بھی شخص کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی ، سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا۔

جسٹس سید ارشد علی نے استفسار کیا کہ آپ کو اس بات پر اعتراض ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ الیکشن کمیشن کے اختیار میں نہیں آتا؟

جسٹس سید ارشد علی نے سوال کیا کہ جب 13 جنوری کو انتخابی نشانات الاٹ ہونے ہیں تو ایسے میں انٹرا پارٹی الیکشن ہوسکتے ہیں؟

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کے لئے کسی سے کاغذاتِ نامزدگی طلب ہی نہیں کیے۔

عدالت نے کہا کہ کیوں نہ اس کیس کو پرسوں کے لیے رکھ لیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آپ انٹرم ریلیف کو دوبارہ بحال کردیں، جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ نہیں وہ ہم نے دیکھ لیا، آپ کا انٹرم ریلیف حتمی استدعا ہی ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نہیں پھر بہت دیر ہوجائے گی 13 کو نشانات الاٹ ہوں گے، ہم پھر الیکشن کمیشن کو فہرست بھی نہیں پہنچا سکتے ہیں، جس پر عدالت نے کہا کہ ٹھیک ہیں آپ دلائل جاری رکھیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے حکم کے مطابق 20 دن میں انٹرا پارٹی انتخابات کرائے گئے، بیرسٹر گوہر انتخابات کے نتیجے میں پارٹی چئیرمین منتخب ہوئے، بیرسٹر گوہر نے ریکارڈ پر دستخط کرکے الیکشن کمیشن کو دیے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں، اگر انٹرا پارٹی انتخابات نہ بھی کرائے جائیں تو الیکشن کمیشن کسی پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم نہیں کرسکتا، الیکشن کمیشن صرف ”ریکارڈ کیپر“ ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابی نشان واپس لیا جانا پارٹی کو تحلیل کرنے مترادف ہے، آئین اور الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیرقانونی و غیرآئینی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی قانون میں الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہی نہیں، یہ اختیار شاید ہائیکورٹ کے پاس ہے، جس پر جسٹس ارشد علی نے کہا کہ نہیں ہمارے پاس بھی نہیں ہے۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کوئی کورٹ آف لاء نہیں، ایسے تنازعے کے حل کے لیے ٹرائل ضروری ہے، ایسے تنازعات میں سول کورٹ ہی ٹرائل کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سمری میں فیصلہ کیا ہے، جس پر جسٹس ارشد علی نے کہا کہ ایسے میں تو پھر کیس الیکشن کمیشن کو ریمانڈ ہوگا۔

جوباً بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بالکل ریمانڈ ہوگا لیکن اگر الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہو, الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہی نہیں، الیکشن کمیشن نے صرف یہ اعتراض کیا کہ تعیناتی صحیح نہیں ہوئی.

انہوں نے استدعا کی کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی ہے، اسے کالعدم قرار دیا جائے۔

بیرسٹر علی ظفر نے مسلسل 2 گھنٹے دلائل دیے، جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ چائے پی لیں، آپ نے سفر بھی کیا ہے، 3 بج کر 30 منٹ پر جمع ہوں گے۔

جس کے بعد عدالت نے سماعت میں ساڑھے 3 بجے تک وقفہ کردیا۔

واقعے کے بعد پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے اور انتخابی نشان واپسی کے خلاف کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر مہمند نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کا کیس لفظ بہ لفظ ایک ہے، لاہور ہائیکورٹ نے 3 وجوہات کی بنیاد پر کیس کو خارج کیا ہے، پہلا یہ کہ کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، دوسرا یہ کہ کیس پشاور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے، تیسرا یہ کہ کیس میں قانون کو براہ راست چیلنج ہی نہیں کیا گیا۔

سکندر مہمند نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کیس ہونے کی صورت میں ہائیکورٹ مداخلت نہیں کرسکتا، یہ کیس قابل سماعت بھی نہیں۔

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کو عزت دی ہے، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کیس ہونے کی صورت میں ہائیکورٹ مداخلت نہیں کرسکتا یہ کیس قابل سماعت بھی نہیں، ایک ریلیف کے لیے دو عدالتوں سے رجوع نہیں کیا سکتا، الزام لگایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے سمری فیصلہ کیا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی کو کئی مواقع دئیے گئے کہ عملدرآمد کیا جائے جبکہ 20 دن پھر دیے گئے، الیکشن کمیشن نے واضح کیا تھا کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے کی صورت میں نشان لیا جاسکتا ہے، الیکشن کمیشن نے یہ بات پہلے ہی نوٹس میں واضح کی تھی، پی ٹی آئی نے کوڈ کے باعث انتخابات نہ کرانے پر ایک سال مانگا الیکشن کمیشن نے دیا، الیکشن کمیشن نے اس کے بعد بھی کئی نوٹسز دیے، پی ٹی آئی نے مختلف دستاویز میں یوٹرن بھی لیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی نے آئین میں ترمیم کی لیکن جب الیکشن کمیشن نے طلب کیا تو واپس لیے، واپس لینے والے ترامیم پر اگر انتخاباب کرائے تو خود بخود انتخابات کالعدم ہوجاتے ہیں، الیکشن کمیشن سمجھتا ہے کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات شفاف نہیں کرائے، 24 صحفات پر مشتمل درخواست میں صرف ایک پوائنٹ ہے کہ الیکشن کمیشن صرف ریکارڈ کیپر ہے، انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں، پی ٹی آئی کا بیان غلط ہے، الیکشن کمیشن کے پاس آئینی طور پر اختیار ہے۔

سکندر مہمند نے اپنے دلائل میں یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ صاف وشفاف انتخابات کو یقینی بنائے، پی ٹی آئی نے کہا کہ فیصلے سے پارٹی کو تحلیل کیا گیا، یہ بات غلط ہے، اگر ایسا ہے تو پھر سپریم کورٹ جانا پڑے گا۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ صرف انتخابی نشان واپس لینے کا کیس ہے، انٹرا پارٹی انتخابات صرف پارٹی آئین کے مطابق نہیں ہونے چاہئے بلکہ الیکشن ایکٹ کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا، الیکشن کمیشن کے پاس اختیار نہیں، یہ بات درست نہیں، انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد سے متعلق الیکشن کمیشن کا مطمئن کرنا ضروری ہے۔

جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ کیا انٹرا پارٹی انتخابات پر آپ کوئی کارروائی کرسکتے ہیں، جس پر سکندر مہمند نے کہا کہ جی بالکل کرسکتے ہیں۔

جسٹس اعجاز انور نے پوچھا کہ کیا آپ نے انہیں نوٹس دیا، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ 3 شوکاز دیے گئے۔

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ وہ تو آپ انٹرا پارٹی انتخابات سے پہلے دیے تھے۔ جسٹس ارشد علی نے کہا کہ کیا انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد ایک اور نوٹس نہیں دینا تھا۔

وکیل الیکشن کمیشن سکندر مہمند نے کہا کہ نہیں کیونکہ یہ کیس پہلے سے چلتا آرہا تھا اور پہلے نوٹسز دیے تھے، نئے شوکاز نوٹس کی ضرورت ہی نہیں، الیکشن کمیشن کورٹ نہیں، الیکشن کمیشن ایک خود مختیار ریگولیٹری اتھارٹی ہے، الیکشن کمیشن ہی ان معاملات کو سپروائز کرتا ہے، الیکشن کمیشن کے پاس آئینی اختیار ہے۔

سکندر مہمند نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری کی، الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے اس پر فیصلے موجود ہیں، انٹرا پارٹی انتخابات پارٹی آئین کے مطابق کرانے ہوتے ہیں اور الیکشن کمیشن پھر اس کو دیکھتا ہے، بنیادی حق کی بات جو کی گئی وہ حق آئین و قانون کے مطابق بنتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی ائی ائین کے مطابق یہ وفاقی الیکشن کمیشن کے زریعے الیکشن کرائیں گے، پی ٹی ائی کا الیکشن کمشنر پورے ملک کے نمائندوں میں سے سلیکٹ کیا جائے گا، الیکشن کمشنر صرف ایک بندہ نہیں بلکہ پوری ایک باڈی اور مستقل سیکرٹریٹ ہوگا، انہوں نے ایک بندے کو الیکشن کمشنر بنا کر الیکشن کرائے جو کے ان کے ائین کے مطابق غیر آئینی ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر مہمند نے بھی مختلف فیصلوں اور قوانین کے حوالے پیش کردیے۔

سپریم کورٹ فیصلوں کے حوالے دینے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل بھی مکمل ہوگئے جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے بھی ڈھائی گھنٹے دلائل دیے۔

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ کل تو سپریم کورٹ میں بھی کیس ہے، آپ کیا کریں گے، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم واپس لے لیں گے کیونکہ تفصیل میں آپ نے کیس سن لیا، امید ہے آپ آج ہی فیصلہ کرلیں گے، جس پر جسٹس ارشد علی نے کہا کہ ممکن نہیں، بہت زیادہ مواد ہے، ہم نے پڑھنا بھی ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے سماعت پرسوں تک ملتوی کرنے کی استدعا کردی، الیکشن کمیشن کے وکیل کی استدعا پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ فریقین کے وکلاء ہڑتال کے باعث پیش نہیں ہوئے۔

بعدازاں کیس میں فریقین کے وکلاء عدالت میں پیش ہوگئے اور عدالت میں مؤقف اپنایا کہ صبح ہمیں وقت دیا جائے، آج ہڑتال ہے۔

جس پر عدالت نے کہا کہ کل صبح 9 بجے آپ کو سنیں گے، 9 بجے کے بعد آپ کو نہیں سنیں گے۔

جس کے بعد پشاور ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت کل صبح 9 بجے تک ملتوی کردی۔

پاکستانی شوٹرز نے ایشین شوٹنگ چیمپئن شپ میں ایک اور میڈل جیت لیا

 لاہور: پاکستانی شوٹرز نے ایشین شوٹنگ چیمپئن شپ میں ایک اور میڈل جیت لیا۔

انڈونیشیا کے شہر جکارتہ میں جاری ایشین شوٹنگ چیمپئن شپ میں پاکستانی شوٹرز کشمالہ طلعت اور گلفام جوزف نے مسکڈ ٹیم ایونٹ میں برانز میڈل کے ساتھ ملکی پرچم بلند کردیا۔ پاکستان کے میڈلز کی تعداد دو ہوگئی۔

10 میٹر ایئر پسٹل کیٹگری کے مسکڈ ٹیم ایونٹ کے برانز میڈل مقابلے میں پاکستان کا قازقستان کے شوٹرز سے مقابلہ ہوا جس میں کشمالہ طلعت اور گلفام جوزف نے شاندار پرفارمنس دیتے ہوئے دس پوائنٹس کی برتری سے کامیابی سمیٹ لی۔ پاکستان کا اسکور 18 جبکہ قازقستان کا 8 رہا۔

ایک روز قبل پیر کو کشمالہ طلعت نے 10 میٹر ایئر پسٹل انفرادی مقابلے میں سلور میڈل جیت کر پیرس اولمپکس میں براہ راست کوالیفائی کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون بننے کا اعزازاپنے نام کیا تھا۔

واضح رہے کہ گلفام جوزف بھی پہلے ہی 2024 کے پیرس اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرچکے ہیں۔ وہ اکتوبر 2022 میں قاہرہ میں انٹرنیشنل شوٹنگ اسپورٹس فیڈریشن ورلڈ چیمپئن شپ کے 10 میٹر ایئر پسٹل مینز ایونٹ میں چھٹے نمبر پر آئے تھے۔

سانحہ 9 مئی کے 12 مقدمات میں عمران خان کا جسمانی ریمانڈ منظور

راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سانحہ 9 مئی کے 12 مقدمات میں پاکستان تحریک انصاف کے سابق چیئرمین عمران خان کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج ملک اعجاز نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف سانحہ 9 مئی سے متعلق درج 12 مقدمات کی اڈیالہ جیل میں سماعت کی۔

عدالت نے 9 مئی مقدمات میں سابق چئیرمین پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔

جسمانی ریمانڈ پر فیصلہ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج اعجاز آصف نے سنایا۔

پولیس نے بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف 9 مئی کے 12 مقدمات میں 30 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی، اس موقع پر وکلاء صفائی کی جانب سے بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کی گئی تھی جبکہ عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ تمام تھانوں کی تفتیشی ٹیمیں ایک ساتھ ہی اڈیالہ جیل میں عمران خان سے تفتیش کرسکیں گی، سابق چییرمین پی ٹی آئی کو جیل سے باہر نہیں لے جایا جاسکے گا۔

انسداد دہشت گردی عدالت نے 11 جنوری کو مکمل تفتیشی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی جبکہ مقدمے کی اگلی سماعت 11 جنوری کو صبح 10 بجے اڈیالہ جیل میں ہی ہوگی۔

نوازشریف کیخلاف سازش میں راحیل شریف، فیض حمید اور قمر باجوہ سہولت کار تھے، جاوید لطیف

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید لطیف نے کہا ہے کہ 2017 میں نوازشریف کے خلاف عالمی سازش ہوئی جس میں اندرونی سہولت کار بھی موجود تھے، نوازشریف کے خلاف سازش میں راحیل شریف، فیض حمید اور قمر جاوید باجوہ سہولت کار تھے۔

نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے (ن) لیگی رہنما جاوید لطیف نے کہا کہ نوازشریف نے جب ایٹمی دھماکے کیے تو اس وقت بھی عالمی سازش ہوئی تھی، نوازشریف کو 2017 میں بھی سی پیک لانے کی سزا دی گئی۔

جاوید لطیف نے کہا کہ بلاول بھٹو گفتگو سے پہلے آصف زرداری سے پوچھ لیا کریں، بلاول کو آصف زرداری سنجیدہ نہیں لیتے تو میں کیسے لوں؟۔

اینکرپرسن کی جانب سے سوال پوچھا گیا کہ آپ لیول پلیئنگ فیلڈ کس سے مانگ رہے ہیں؟ جس کے جواب میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما کا کہنا تھا کہ فیصلہ سازوں سے لیول پلیئنگ فیلڈ مانگ رہے ہیں، ہمارے خلاف فیصلہ کرنے والوں سے لیول پلئنگ فیلڈ مانگ رہے ہیں۔

9 مئی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جاوید لطیف نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کی منصوبہ بندی کرنے والے کون تھے؟ ذمہ داران کا آج تک پتہ نہیں چلا تو ماتم ہی کرسکتا ہوں، ریاست پر حملہ کرنے والوں کو آج تک کٹہرے میں نہیں لایا جاسکا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کو انتخابی نشان بھی دیں اور انتخابی مہم بھی چلانے دیں، آئین و قانون اجازت دیتا ہے تو بانی پی ٹی آئی عمران خان کو رہا کریں، قانون ہے کہ انتخابی نشان چھن رہا ہے تو قانون کوغلط نہیں کہہ سکتے۔

جاوید لطیف کا یہ بھی کہنا تھا کہ قوم انتخابات میں ووٹ کے ذریعے اپنا فیصلہ دے گی، کیا بانی پی ٹی آئی عمران خان نے سپریم کورٹ پر حملہ نہیں کیا تھا کوئی مقدمہ ہوا؟۔

انہوں نے مزید کہا کہ نوازشریف کے خلاف سازش میں راحیل شریف، فیض حمید اور قمر جاوید باجوہ سہولت کار تھے۔

انٹرویو کے دوران اینکرپرسن کی جانب سے یہ بھی سوال پوچھا گیا کہ کیا نوازشریف کے خلاف سازش میں امریکا بھی ملوث تھا تو جاوید لطیف نے جواب میں کہا کہ جو کہنا تھا کہہ دیا۔

یورپی یونین نے پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس 2027 تک بڑھادیا

  کراچی: یورپی یونین نے پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس مزید چار سال کیلئے 2027 تک بڑھادیا۔

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے دورے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے یورپی یونین کی سفیر رائنا کیونکا نے کہا کہ کراچی کے تاجر صرف ٹیکسٹائل کی برآمدات تک محدود رہنے کے بجائے یورپی یونین کو اپنی برآمدات کا دائرہ کار بڑھائیں تاکہ پاکستان جی ایس پی پلس اسٹیٹس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے جسے حال ہی میں 2027 تک مزید 4 سال کے لیے بڑھا دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جی ایس پی پلس پاکستان کی معیشت کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جی ایس پی پلس گزشتہ 10 سال کے دوران معاشی لحاظ سے انتہائی مثبت اور مفید رہا ہے کیونکہ اس نے یورپی یونین کو پاکستان کی برآمدات میں 108 فیصد اضافہ کرنے میں مدد کی ہے جبکہ اس پروگرام کے آغاز سے یورپی یونین کی درآمدات میں بھی 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

رائنا کیونکا نے کہا کہ پاکستان کے لیے یورپی یونین کا جی ایس پی پلس قوائد کے فریم ورک میں بغیر کسی تبدیلی کے بڑھا دیا گیا ہے اس لیے 2027 تک سب کچھ ویسا ہی رہے گا۔ ہمارے یہاں بھی جون 2024 میں انتخابات ہیں جس کا مطلب ہے کہ پارلیمنٹ اور یورپی یونین کے کمیشن میں سیاسی تبدیلی آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ ایک بار جب سب کچھ طے ہو جائے گا ہمیں توقع ہے کہ نئی پارلیمنٹ اور یورپی یونین کے رکن ممالک کی کونسل ایک بار پھر پاکستان کے ساتھ جی ایس پی پلس کے لیے ایک نئی ہدایت پر مذاکرات شروع کریں گے جو پچھلے سال نہ ہو سکا۔ اگرچہ جی ایس پی پلس میں مزید چار سال کی توسیع کی گئی ہے لیکن اگریورپی یونین نئی ہدایت لے کر آتی ہے تو یہ 2027 سے پہلے ہی نافذالعمل ہوجائے گی۔

انہوں نے جی ایس پی پلس کے تحت جواہرات اور زیورات، سیاحت، دستکاری اور آٹو پارٹس وغیرہ کو ممکنہ شعبوں کے طور پر شناخت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی 28 فیصد برآمدات یورپی سنگل مارکیٹ میں آتی ہیں جو کہ ایک اچھی تعداد ہے لیکن یہ بہت بڑی ہو سکتی ہے تاکہ جی ایس پی پلس کے بہتر استعمال کے ذریعے پاکستان کی برآمدات کو بڑھایا جا سکے۔

انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں یورپی یونین کا وفد بھی پاکستان اور یورپی یونین کے بزنس ٹو بزنس تعلقات کو فروغ دینے کے لیے ایک پلیٹ فارم قائم کرنا چاہتا ہے جس سے ایس ایم ایز کو بھی یورپی یونین میں مختلف قسم کے کاروبار کے ساتھ اچھے روابط بنانے میں مدد مل سکتی ہے اور بالآخر پاکستان میں ایس ایم ایز بھی جی ایس پی پلس سے فائدہ اٹھاسکیں گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے جواہرات اور زیورات کے شعبے میں بہت زیادہ صلاحیت ہے اس لیے متعلقہ تاجروں کو چاہیے کہ وہ اس کی قدر و قیمت میں اضافہ کریں اور خام مال کو خطے میں برآمد کرکے کسی اور کو کٹنگز، پالش اور جیولری بنانے کا کام دینے کرنے کے بجائے یہ کام خود کریں اور تیار کردہ بہترین زیورات وجواہرات کو خود یورپ برآمد کریں۔ اس موقع پر کے سی سی آئی کے صدر افتخار احمد شیخ نے بھی خطاب کیا۔

ملک میں سخت سردی میں بھی لوڈشیڈنگ 10 گھنٹے تک جا پہنچی

ملک میں بجلی کا شارٹ فال چار ہزار سات سو ستر میگاواٹ ہونے کے بعد سخت سردی میں بھی لوڈشیڈنگ دس گھنٹے تک جا پہنچی۔

ذرائع پاور ڈویژن کے مطابق بجلی کی مجموعی طلب 15 ہزار 500 میگاواٹ ہے۔

مختلف ذرائع سے ایک ہزار 73 میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ ملک کے ترسیلی نظام میں جگہ جگہ فالٹ آ رہے ہیں۔

پن بجلی سے 660 میگاواٹ، سرکاری تھرمل پاور پلانٹس سے 1400میگاواٹ، آئی پی پیز سے مجموعی طور پر 6500 میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔

نیوکلیئر سے 1600 میگاواٹ، ونڈ انرجی سے 500 میگاواٹ، بگاس سے 48 میگاواٹ اور سولر سے 22 میگاواٹ بجلی بنائی جارہی ہے۔