تازہ تر ین

جوتا بازی نہ رکی تو گولی بازی ہو گی اور الیکشن نہیں ہو سکیں گے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہدنے کہا ہے کہ برداشت نہ کرنے کا اگر ٹرینڈ چل نکلا تو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔ الیکشن میں ایک ہی پولنگ بوتھ پر مخالفین بیٹھے ہوتے ہیں۔ آمنے سامنے کرسیاں لگائی ہوتی ہیں ایک ہی لائن لگی ہوتی ہے کوئی کسی کو ووٹ دیتا ہے کوئی کسی کو ووٹ دینے کے لئے لائن میں لگا ہوتا۔ ہم اس وقت خود ہی جمہوریت کا جنازہ اٹھا رہے ہیں۔ اگر بڑے پیمانے پر گروپس ایک دوسرے کے سامنے آ جائیں گے تو کیا قتل و غارت کا بازار گرم کرنا چاہتے ہیں؟ اس وقت سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ مل کر ضابطہ اخلاق بنائیں۔ ورنہ عام انتخابات بھی وقت پر ممکن نہیں ہو سکیں گے۔ اس وقت لگتا ہے پوری سوسائٹی خودکشی کرنے جا رہی ہے۔ اگر ہم برداشت پیدا نہیں کریں گے۔ تو کام بہت خراب ہو جائے گا۔ ہم سب کو ایک دوسرے کے ساتھ ہی رہنا ہے۔ ایک دوسرے کے گلی محلے میں رہنا ہے۔ جمہوریت یہ نہیں کہتی کہ ایک دورے کو برداشت ہی نہ کریں۔ اب جو جوتا مارنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اب جوتا مارنے پر ختم نہیں ہو گا۔ اب گولی مارنے پر ختم ہو گا۔ نوازشریف صاحب کی قانونی مجبوری تھی۔ اس لئے انہیں ہر قیمت پر یہ کام کرنا بھی تھا۔ میاں نوازشریف کی عدم موجودگی میں کوئی بھی شخصیت ایسی موجود نہ تھی۔ اگر کلثوم نواز شریف کی طبیعت ٹھیک ہوتی۔ جو ابھی تک قومی اسمبلی میں حلف تک اٹھانے نہیں آ سکیں۔ ان کی طبیعت ابھی تک ناساز ہے اللہ انہیں صحت دے۔ کلثوم نواز کو بنایا نہیں جا سکتا تھا۔ نوازشریف بن نہیں سکتے تھے۔ لہٰذا تیسرا آپشن یہی تھا کہ شہباز شریف صاحب کو پارٹی کا صدر بنا دیں۔ مسلم لیگ کے پاس صرف ایک ہی صوبہ ہے۔ وہ پنجاب ہے۔ شہباز شریف یہاں کے وزیراعلیٰ ہیں۔ اس لئے ان کی گرپ یہاں مضبوط ہے۔ پنجاب کی بنیاد بھی ان کو کام کرنے میں بہت مدد دے گی۔ محمد علی درانی دلچسپ تبصرہ کرتے ہیں۔ شہباز شریف صاحب نے سینٹ کے الیکشن کو چابی گھمانے سے تشبیہ دی۔ نوازشریف کو سنیٹرز کے ووٹ کو بھی تقدس کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے یا تو کھل کر الزام لگائیں اور اسے ثابت کریں۔ اصل اشارہ تو فوج کی طرف ہے۔ وردی والوں نے پہلے بلوچستان جا کر وہاں کی حکومت بدلی۔ پھر وہاں سے نمائندے کھڑے کئے۔ کیا یہ سارا کام کسی میجر جنرل نے کروایا۔ بریگیڈیئر حضرات نے کروایا؟ کیا ان فوجیوں نے ان کے سر پر کھڑے ہو کر کہا کہ ادھر نہیں ادھر ووٹ دینا ہے ہمیں تو اس بات کا ثبوت چاہئے۔ آرمی چیف کی بریفنگ میں میں موجود تھا۔ انہوں نے کلمہ پڑھ کر کہا کہ سیاست سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ ہم تو آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا جوڈیشری کے فیصلوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم جوڈیشری کے فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کے پابند ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس اگر ثبوت ہیں اور جانتے ہی ںکہ چابی کس نے بھری ہے۔ اس کے ثبوت پیش کر دیں۔ محمود اچکزئی صاحب اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ انہوں نے سفید چادر کی ”بکل“ کی ہوئی ہوتی ہے نامعلوم اس میں کون سا چور ہوتا ہے۔ اچکزئی یا مسلم لیگ () کامیاب ہو جاتی تو جمہوری قوتیں کامیاب ہو جاتی؟ تحریک انصاف، پی پی پی اور بلوچستان کے آزاد ارکان اب کامیاب ہو گئے ہیں تو یہ غیر جمہوری ہو گئے۔ اس کا فیصلہ کس نے کرنا ہے کہ کون سی عمل جمہوری اور کون سا غیر جمہوری ہے۔ میں نے ٹرمپ کے بارے پہلے بھی کہا تھا کہ ٹرمپ صاحب جتنی بھی بڑھکیں لگا رہے ہیں۔ وہ سب عارصی ہیں۔ میں مسلمانوں کو نکال دوں گا، میں اس کو بے دخل کر دوں گا۔ میں اس کو بے دخل کر دوں گا، مکمل صفائی ہو جائے گی۔ میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ اس قسم کا ”ایکٹوویوازم“ نہیں چل سکے گا۔ امریکی معاشرہ اس کو قبول نہیں کرے گا۔ امریکی معاشرے کی بنیاد وہ یونیورسٹیاں ہیں جہاں تحقیقات ہوتی ہیں مکالمے ہوتے ہیں۔ پھر فیصلے کئے جاتے ہیں۔ وہاں ”ایڈونچرازم“ چل ہی نہیں سکتا۔ جس قسم کی باتیں ٹرمپ کر رہے تھے۔ وہاں ٹرمپ کی سیاست فیل ہوئی ہے۔ وہاں یہ ”ایکٹویوازم“ فیل ہوا ہے۔ ڈان لیکس پر ہمارے دوست پرویز رشید کی ”بلی“ چڑھائی گئی تھی۔ ایک بندے کو پکرو اور سارا ملبہ اس کے اوپر ڈال دو۔ اسی طرح ٹرمپ نے آج اسے نکال دیا اور خود نہائے دھوئے گھورے بن سکتے ہیں۔ انہوں نے ایک شخص پر الزامات لگا کر رخصت کر دیا۔ ہر پڑھا لکھا شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ ٹرمپ کی اپنی ایکٹویوازم کی شکست ہوئی ہے۔

 


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain