تازہ تر ین

جوتا بازی اور گولیوں کی تڑ تڑ میں ووٹ کا بیلٹ نہیں چل سکے گا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ایک اخبار کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ہی ایک عرصہ تک اس قسم کی خبریں پڑھتا رہا۔ مثلاً وزیراعظم کامیاب دورے پر امریکہ روانہ ہو گئے۔ جانے سے پہلے ہی یہ پیشگوئی کر دی جاتی ہے کہ کامیاب دورے پر روانہ۔ ابھی معلوم نہیں وہ گھاس ڈالیں گے بھی یا نہیں اس کا تعین تو وہاں پہنچ کر ہو گا۔ بلوچستان سے اگر کوئی شخص اچانک کامیاب ہو کر آ جاتا ہے۔ وہاں کی آزاد حکومت نے ایک نمائندے کا اعلان کیا۔ پھر تحریک انصاف اور پی پی پی نے اس کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ باقی چھوٹے چھوٹے گروپس بھی ساتھ شامل ہو گئے۔ رزلٹ جو بھی ہو اسے تسلیم کرنا چاہئے۔ میں نوازشریف صاحب کی اس بات میں وزن سمجھتا ہوں کہ وہ تحقیقات کرائیں کہ کس کس نے پارٹی کے مینڈیٹ کے خلاف ووٹ دیا۔ کچھ سدا بہار سیاست دان موجود تھے۔ ساری پارٹی ختم ہو گئی صرف ایک چودھری پرویز الٰہی اور ان کا بیٹا مونس الٰہی رہ گیا اس پر کس شان سے، مشاہد حسین نے لینڈ کیا اور چھلانگ لگائی اور دوسری طرف پہنچ گئے۔ سینٹ کے چیئرمین کیلئے ان کا نام بھی لیا جا رہا تھا اور پرویز رشید کا نام بھی لیا جا رہا تھا۔ میں نے اسلام آباد میں یہ افواہ بھی سنی کہ مشاہد حسین نے بھی ان کوووٹ دیا ہے۔ کیونکہ انہیں امید تھی کہ انہیں چیئرمین بنایا جائے گا۔ سید مشاہد حسین برے طاقتور سیاستدان ہیں پہلے صحافی ہوا کرتے تھے۔ ایک سیٹ پر وہ وہ سنیٹر منتخب ہو چکے ہیں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں جس کے پاس گیڈر سنگھی ہوتی ہے وہ سب کو رام کر لیتا ہے۔ ان کا اصول یہی ہے کہ خود جیت گئے تو پارلیمنٹ زندہ باد، ہار گئے تو چابی سے چلنے والا کھلونا۔ پارلیمنٹ کے تقدس کیلئے یہ سرفہرست تھے۔ جنہوں نے کوشش کی اور تحریکیں چلائیں۔ میاں شہباز شریف کہہ رہے ہیں کہ ان کا قائد آج بھی نوازشریف ہے نگران حکومت کے لئے ان سے اور خورشید شاہ صاحب سے پوچھا جائے گا۔ نوازشریف پہلے ڈان لیکس کا راز معلوم کریں ۔ کسی نے کہا کہ چودھری نثار علی خان سے آپ کے کیسے تعلقات ہیں! آپ اِن کے گھر جائیں یہ پوچھیں کہ وہ تین لوگ کون کون سے تھے جنہیں اس راز کا پتا تھا کہ انڈیا پاکستان پر کس قسم کا اٹیک کھولنے والا تھا۔ اس کے بعد ڈان لیکس کا واقعہ ہو گیا اور معاملہ اس میں دب گیا۔ میں نے آن ریکارڈ جوتا مہم کی زبردست مخالفت کی ہے۔ جمہوریت اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا نام ہے۔ ایک پولنگ اسٹیشن میں سارے امیدواروں کے حامی موجود ہوتے ہیں۔ اسی طرح سینٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ایوانوں میں بھی ایک ہی چھت کے نیچے حکومت اور اپوزیشن موجود ہوتی ہے ایک دوسرے پر دھواں دار تقریریں کرتے ہیں۔ الزامات بھی لگائے ہیں۔ میں نے پی ٹی وی کے پروگرام میں انٹرویو کے اختتام پر دو جملے کہے وہ یہ کہ جوتا بازی مہم جو اب شروع ہوئی ہے اس کا انجام گولی بازی ہو گا۔ اگر ایک دوسرے پر گولیاں چلی تو ہم جمہوریت کی قبر کھود رہے ہوں گے۔ اور اگر یہ معاملہ بڑھ گیا تو کوئی الیکشن منعقد نہیں ہو سکے گا۔ گلیوں میں فوجی مارچ ہوتا ہے اور فوجی گاڑیاں آ کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ آپ ووٹ کے تقدسکا احترام کریں۔ مخالف کے ووٹ کا احترام کریں۔ آزادی رائے کا احترام کریں۔ نوازشریف سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن کوئی لیڈر بھی ہو اس پر جوتا پطھینکنے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے میری سارے لیڈروں سے درخواست ہے ہم جمہوریت چاہتے ہیں مخالفت جمہوریت کا حسن ہوتا ہے۔ میرے اپنے گھر میں میری امی ایک مذہبی جماعت کو جبکہ میں دوسرے کو ووٹ دیتا تھا۔ میری بیوی اور میری رائے میں اختلاف ہے لیکن کبھی اپنی مرضی کے امیدوار کو ووٹ دینے پر مجبور نہیں کیا۔ خود چٹ بنوا کر دیتا ہوں کہ اپنی مرضی کے امیدوار کو ووٹ دے دیں۔ لولی، لنگڑی جمہوریت نہ چلی تو آمرانہ دور شروع ہو جائیگا۔ خود جئیں اور دوسروں کو جینے کا حق دیجئے۔ ہمارے حکمران کسی معاملے کی تکلیف محسوس کرتے ہوئے اس کا حق تلاش نہیں کرتے لوگوں کی تکلیفیں جمع ہوتی رہتی ہیں۔ لوگوں کا اضطراب لمحہ بہ لمحہ بڑھتا ہے۔ پھر یکدم پھوٹ پڑتا ہے۔ حکمران سمجھتے تو ہیں لیکن حل نہیں کرتےے۔ میں نے نابیناﺅں سے پوچھا آپ سے تو ہر کوئی ہمدردی رکھتا ہے۔ آپ نے مفاہمت کیوں نہ کر لی۔ اور فوراً مال روڈ پر دھرنا دے دیا۔ میری گردن تو شرم کے مارے جھک گئی۔ پولیس والوں کا کہنا تھا کہ یہ شیطان لوگ ہیں لاءاینڈ آرڈر کا مسئلہ بنا دیا۔ انہوں نے کہاکہ درخواستیں لکھیں بہت کچھ کیا کوئی نہیں سنتا۔ یہی کہنا کسان والوں کا تھا۔ کہ کوئی نہیں سنتا۔ جب وہ آ کر یتیم خانہ چوک بند کر دیتے ہیں تو مذاکرات کے لئے بلا لیتے ہیں۔ میں بحیثیت ایک عام شہری، شہباز شرپسند اور رانا ثنا کی طرف سے ان سے معذرت کرتا ہوں معافی مانگتا ہوں۔ میرے شہر میں اندھوں کو مارا گیا۔ قیامت کے دن حکمرانوں نے جواب دینا ہے۔میری سندھ حکومت سے درخواست ہے انہیں دودھ والوں کے مسائل نظر نہیں آتے۔ وہ کس طرح 95 روپے خرید کر 85 روپے بیچ سکتے ہیں۔ حکمرانو خدا کے واسطے دونوں فریقین سے مذاکرات کرو۔ انہیں ٹیبل پر لے کر آﺅ۔ کوئی حکم بھی زبردستی مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ ایم کیو ایم کے تینوں دھڑوں سے درخواست ہے کہ انہیں کسی طرح نیند آ جاتی ہے کہ لوگوں کے گھروں میں دودھ نہیں ہے۔ آپ بچوں کو پانی دے کر چپ کروا لو گے۔ زینب قتل کیس کے فوری ٹرائل کے بعد امید کی جا رہی تھی۔ شہباز شریف صاحب، رانا ثناءاللہ، پنجاب پولیس، فرانزک لیب نے بہت تیز اور فوری کام کیا۔ قاتل پکڑا گیا۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے بھی اس قاتل کو سرعام سزا دینے کی حمایت کر دی۔ کسی مجبوری کے تحت فوری سزا نہیں دی جا سکتی۔ کیونکہ اب معاملہ یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ آج کے اخبار میں دو مریدکے، کے واقعات ہیں ایک واقعہ لاہور کی چار سالہ بچی کا ہے۔ جو قرآن پاک پڑھنے مولوی صاحب کے یہاں گئی تو ان کے بیٹے نے صفائی کے بہانے اسے روکا اور پھر چیخوں کے بعد لوگوں نے اسے بچایا۔ لوگ وہاں پہنچ گئے اور ملزم پکڑا گیا، اس پر ایف آئی آر بھی ہو گئی میں نے سی سی پی او کوو فون کر کے پوچھا کہ آپ نے کیا کیا۔ انہوں نے کہا سرگودھا کسی کام کے سلسلے میں جا رہا ہوں لیکن انتظام کر دیتا ہوں آپ متعلقہ آفس چلے جائیں۔ میں ڈی آئی جی کے دفتر گیا۔ انہوں نے کہا بچی، اس کی ماں، باپ، ماموں، ایس ایچ او، ایس ایس پی متعلقہ بھی موجود ہے آپ وہاں چلے جائیں۔ سارے فریق مل جائیں گے اور درست بریف بھی کر دیں گے۔ میں وہاں خود گیا۔ بچی کے والدین نے کہا کہ تصویریں نہیں بننی چاہئیں اور خبر نہیں چلنی چاہئے میں نے سب کو اس کی رپورٹنگ سے روک دیا۔ وہ ہماری بچی ہے۔ والدین سے درخواست کی ۔ خبر یہ تھی کہ جب بچی کو لایا گیا تو وہ خون میں لت پت تھی۔ ڈی آئی جی کے دفتر میں پولیس والوں نے مجھے بتایا کہ والدین شہریوں کے ساتھ مجسٹریٹ کے پاس گئے اور کہا ہم میڈیکل نہیں کروانا چاہتے۔ اگر معائنہ نہ ہوا تو اس کا کیا مطلب ہو گا۔ میں نے اس کے والدین سے کہا کہ اسے چھپائیں نہ۔ سچائی پر پردہ نہ ڈالیں پچاس فیصد کیسز تو رپورٹ نہیں ہوتے۔ ہم سب کا فرض ہے کہ اس نظریے کو واش کریں کہ ایسے واقعات کے بعد بچیوں کے رشتے نہیں ہوں گے۔ لوگ انگلیاں اٹھائیں گے۔ ہمیں اپنی سوسائٹی کو تیار کرنا چاہئے کہ ایسے عناصر کی مذمت کریں۔ 4 سالہ بچی تو پیار کے قابل ہوتی ہے کون درندہ اس کے بارے زیادتی کا سوچتا ہو گا۔ اسلامی قانون کے مطابق ایسے مجرم کی سزا سنگھسار کرنا ہے۔ اسے پتھر مار مار کر مار دینا چاہئے۔ قصور وار کو ہر گز نہیں چھوڑنا چاہئے سینٹ کی قائمہ کمیٹی کہتی ہے کہ زینب کے قاتل کو سرعام سزا دینے میں حرج نہیں یہ اس طرف نہیں آ رہے۔ سخت سزاﺅں کی طرف نہیں آﺅ گے تو ایسا ہوتا رہے گا لوگوں کے دلوں میں سزا کا خوف ہوگا تو اس سے باز آئیں گے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain