تازہ تر ین

حکومت حل نکالے ، فضول خرچی بھی نہ ہو اور اخبارات کو ضروری اشتہارات بھی مل سکیں : ضیا شاہد ، اشتہارات بند ہونے سے اخبارات سسک سسک کر مر گئے تو آزادی صحافت کی بات کون کریگا : عارف نظامی کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ این آر او کے بارے میں آرڈر آ گیا ہے کہ آصف زرداری، پرویز مشرف اور ملک قیوم کے اثاثوں کی بھی تحقیقات ہوں گی۔ یہ جو گھیرا تنگ ہو گیا ہے کہ بات ہوتی آئی ہے وہ اب پہلی مرتبہ درست لگی ہے کہ واقعی گھیرا تنگ ہو گیا ہے اور اگر کوئی گھیرا تنگ ہوا ہے تو آج پہلے دن ہوا ہے۔ جہاں تک اشتہارات کی بات ہے یہ دو مختلف باتیں ہیں۔ ایک بات تو یہ ہے کےہ مختلف شخصیات کی تشہیر کے لئے سرکاری اشتہارات کو استعمال کیا گیا جس پر چیف جسٹس نے بھی اس کا نوٹس لیا۔ ہم خود بھی 5مرتبہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے مختلف مواقع پر انہیں سرکاری اشتہارات پر جو مختلف اشخاص کی ذاتی تشہیر کے حوالے سے وہ ذاتی تشہیر کا معاملہ تو چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اب جو سرے سے کہا جا رہا ہے کہ اس کو سرے سے بند کیا جائے والا معاملہ ہے۔ یہ دو انتہاﺅں والی بات ایک انتہا پر بات پہنچی ہوئی تھی کہ دھڑا دھڑ یہ خصوصی اشتہار ہے اس پر وزیراعظم یا وزیر اطلاعات یا وزیراعلیٰ کی اشتہارات پر تصویر ہوتی تھی۔ اب دوسری انتہا تک پہنچنے والی بات ہے کہ بالکل بند کر دیا جائے۔ سرکاری اشتہارات دو قسم کے ہوتے ہیں ایک اشتہار ٹینڈرنوٹس یعنی مختلف قسم کی اطلاعات کہ اپنا اپنا ٹینڈر دیں۔ دونوں انتہائیں درست نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی پروگرام ہوتا ہے مثلاً ڈینگی مکاﺅ ہے۔ اگر آپ سرکاری اشتہارات ہی نہیں دے سکتے کس طرح سے لوگوں کو آگاہ کر سکیں گے۔ آپ درخت لگانے کی مہم ہی کو لے لیں تو اب اشتہار نہیں دے سکتے البتہ اس بات پر یقینا پابندی ہونی چاہئے کہ کسی شخصیت کی تشہیر کے لئے سرکاری اشتہار جاری نہ کئے جا سکیں۔ لہٰذا ایک درمیانی راستہ ہی ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔ بالکل سرکاری اشتہار بند کرنے سے بھی حکومت کی پالیسیاں ہوتی ہیں نئے وینجرز ہوتے ہیں نئی کمپنیز ہوتی ہیں، عوام کی آگاہی کی مہم ہوتی ہے۔ اگر سب کو بند کر دیں گے تو کس طرح حکومت کسی مسئلے پر عوام تک کیسے پہنچے گی۔ انہوں نے جو کچھ کیا خود اس کی سزا پائیں گے یا جزا پائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حکومت کو دوسری انتہا تک پہنچنا چاہئے بلکہ ایک متوازن رویہ اختیار کرنا چاہئے جہاں ضرورت ہے پبلسٹی کی وہاں ضرور پبلسٹی کریں۔ جہاں تک پیمرا کو ختم کرنے کی بات ہے میں تو خود اس حق میں تھا کہ جب بات ہوئی تھی ڈاکٹر عشرت حسین سے جب بات ہوئی تو میں نے کہا تھا کہ ان کا تو محکمہ بہت ضروری ہے جو یہ جائزہ لے گا کہ کتنے ایسے مختلف ادارے ہیں جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ ادارے پر ادارہ بنایا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان ریگولیٹری اتھارٹی ایک ہی ہونی چاہئے اس میں اخبارات کو بھی دیکھے اور چینلز کو بھی وہی دیکھے۔ اس کے لئے الگ الگ ادارے نہیں ہونے چاہئیں یہ خواہ مخوا وسائل ضائع کرنے والی بات ہے۔ اس کے باوجود اس کے حق میں ہوں کہ آزادی صحافت کی اہمیت ہونی چاہئے اور اس کو یقینی بنانا چاہئے۔ سب سے پہلے بات یہ ہے کہ ریگولیٹری اتھارٹی کا مطلب ہی یہ ہے کہ حکومت کے خلاف کوئی بات نہ شائع کی جائے۔
سی پی این ای کے صدر عارف نظامی نے کہا ہے کہ میں اس بات سے متفق نہیں کہ پیمرا کو ختم کر کے میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بنائی جائے۔ پریس کونسل ایک ولنٹری ادارہ تھا جو سی پی این ای، اے پی این ایس کی آشیرباد سے بنا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ ادارہ بالکل ہی ہرچند ہے کہ نہیں۔ لیکن یہ پرنٹ میڈیا کو ریگولیٹری اتھارٹی کو دے دیتا یہ انتہائی قابل اعتراض بات ہے آزادی صحافت کے تقاضوں کے بالکل منافی ہے۔ جہاں تک اشتہارات کی بات ہے تو وہ اس طرح کہہ رہے ہیں جیسے وہ کوئی اپنی جیب سے دے رہے ہیں۔ خیرات دے رہے ہیں اخبارات کو۔ یہ تو اے بی سی کے مطابق ان کو اشتہارات دیتے جاتے ہیں البتہ گزشتہ ادوار میں منظور نظر افراد کو نوازا گیا۔ میں نام نہیں لینا چاہتا اس میں بڑے بڑے گروپ آتے ہیں جو ان کی مسٹ نیوز پیپر یا مسٹ نیوز چینل تھے۔ یہ بھی زیادتی تھی۔ اسی طرح ڈمی نیوز پیپر ہمارا حق کھا جاتا ہے نیوز پیپرز کا۔ اس بارے میں بیٹھ کر مذاکرات کرنے چاہئیں کہ یہ سسٹم صاف شفاف ہونا چاہئے اس معاملے میں کوئی ناانصافی نہیں ہونی چاہئے آخر ہم نے ویج بورڈ بھی دینا ہے تنخواہیں بھی دینی ہیں۔ اگر گورنمنٹ مقصد کے لئے اشتہار دیں گے جس کا آپ نے ذکر ہے۔ ہم اشتہار ہی ختم کر دیں گے تو مضحکہ خیز سی بات لگی ہے۔ بہتر ہو گا کہ ضیا شاہد نے کہا کہ سی پی این ای کے صدر کی حیثیت سے وزیراطلاعات کو خط لکھیں کہ وہ سی پی این ای کے نمائندہ وفد کے ساتھ بیٹھ کر اشتہارات کے متعلق گفتگو کر لیں اور کوئی ایسا حل نکالیں جس سے جو ایک فضول خرچی کا بھی خاتمہ ہو لیکن ضروری لازمی اشتہارات ہیں جو ہر ادارے کی ہوتی ہے اب اگر 15تاریخ کو ختم ہو رہی ہے گاڑیوں کی کلیکشن کا معاملہ ہے اور آپ کوئی سکیم دینا چاہتے ہیں کہ فلاں تاریخ تک کوئی فیس ادا کر دے تو اس کو فائدہ ہے۔ اشتہار کے بغیر آپ اپنی بات عوام تک کیسے پہنچائیں گے۔
عارف نظامی نے کہا کہ میں نے تو آپ سے پہلے ہی عرض کیا تھا کہ میں اس صورت وزیراطلاعات کو خط لکھوں گا جب ہمارا اپنا اتفاق رائے ہو گا تو خط لکھا جائے گا کہ کیا موقف اختیار کرنا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ سی پی این ای جو ہے آزادی صحافت اور ایڈیٹروں کی تنظیم ہے لیکن اخبارات جو ہیں ان کی مالی حالت اتنی پتلی ہو جائے کہ وہ سسک سسک کر مر جائیں تو آزادی صحافت کے لئے کیا رول ادا کریں گے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ جو پبلشرز ہیں ان کا اس میں کلیدی رول ہونا چاہئے اس میں لیکن بدقسمتی ہے کہ آپ نے تو بات کر دی ہے۔ اے پی این ایس کی جو قیادت ہے معاف کیجئے ان کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اشتتہارات۔ انہوں نے جو جس انداز سے انہوں نے جو اندھیر نگری سجا کے رکھی ہے پچھلے دور میں اس کے بعد ان کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ وہ عام اخبار کے مسائل کو سمجھتے نہیں یا اس میں بڑے مگر مچھ ہیں یا ڈمی اخبارات ہیں۔ ان کے تو اور ہی طریقے ہیں کام کرنے کے۔ سی پی این ای کو اس میں کلیدی رول ادا کرنا پڑے گا۔
ضیا شاہد نے کہا کہ پچھلے سال آپ ہی دوستوں نے مجھے سی پی این ای کا صدر منتخب کیا تھا اس وقت میں نے بجلی کے وزیراویس لغاری کو بلا کر سی پی این ای کے اجلاس میں درخواست کی تھی کہ آپ ہر بجلی کے بل پر ، خواہ وہ بجلی تندور پر استعمال ہو رہی ہے جہاں ٹی وی کی موجودگی ثابت نہیں ہے۔ اور آپ اس پر پینتیس روپے فی بل ادائیگی زبردستی وصول کرتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ پی ٹی وی کو جا رہے ہیں۔ معاف کیجئے گا میں نے ان سے یہ گزارش کی تھی اور بہت سارے ایڈیٹروں نے میری حمایت کی تھی کہ یہ غلط ہو رہا ہے۔ پی ٹی وی ایک کمرشل ادارہ ہے جو اشتہارات لیتا ہے اور اشتہارات پر چل سکتا ہے ۔ آپ اور میں بھی ایک ٹی وی چینل چلاتے ہیں ۔ ہمیں تو بجلی کے بل سے کوئی امداد کاٹ کر نہیں دی جاتی ، جو کہ اربوں روپے بنتی ہے۔ لوگ بغیر کام کیے مفت کے پیسے کھا رہے ہیں اور ہمارے دوست عطا ءالحق قاسمی کی طرح سے بیس بیس ، تیس تیس لاکھ روپے مہینے کی تنخواہیں لے رہے ہیں۔ کیا آپ اس بات کی پرزور حمایت کریں گے کہ جو بلاوجہ کا ٹیکس کاٹ کر صرف ایک ٹی وی چینل کو دیا جاتا ہے جو سرکاری چینل ہے۔ جبکہ یہ ضروری نہیں ہے جو شخص بجلی سرف رہا ہے وہ تندور پر ایک بلب لگا کر گزارہ کر رہا ہو۔ اور اگر وہ ٹی وی دیکھنا بھی چاہتا ہے تو ہو سکتا ہے وہ پی ٹی وی کی بجائے آپ کا چینل92 دیکھنا چاہتا ہو یا میرا چینل فائیو یا ایکسپریس دیکھنا چاہتا ہو۔ اس ظلم اور زبردستی پر آپ کیا کہیں گے جو ہر اس شخص سے وصول کی جا رہی ہے جو بجلی کا بل دیتا ہے۔
عارف نظامی نے کہا میں نے اپنے آج کے پروگرام میں اس بات کا ذکر کیا کہ ریلوے ہو یا پی آئی اے ہویا پی ٹی وی ہو ، ان اداروں کو پرائیویٹائز کر دینا چاہئیے۔ عوام کے پیسے پر جگا ٹیکس لگایا گیا ہے ، بلوں پر واپڈا کے سرچارج لگائے جا رہے ہیں، ہمیں پی ٹی وی کا کیا فائدہ ہے۔ متفق ہوں کہ یہ غلط روش ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ ہم پی ٹی وی کو مکمل آزاد کر دیں گے، بھئی آپ اسے پرائیویٹائز کر دیں کوئی خرید لے اور اسکو چلائے، یہ تو سفید ہاتھی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
ضیا شاہد نے پانی کے مسئلے پر بھارتی وفد کی پاکستان آمد کے حوالے سے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے مشن کے دو کمشنر ہیں ۔ ایک کمشنر بھارتی علاقے اور دوسرا پاکستانی علاقے کا ہے۔ پاکستانی علاقے کے کمشنر مرزاآصف بیگ کی ریٹائرمنٹ کے بعد مہرعلی شاہ بطور انڈس واٹر کمشنر کام کر رہے ہیں۔
بھارتی کمشنر سکسینا کی سربراہی میں وفد پاکستان آیا ہوا ہے ۔ اسکا ایک باقاعدہ ایجنڈا ہے۔ میں نے سپریم کورٹ میں پانی کے مسئلے پر جو کیس کیا ہے اسکا وزارت خارجہ اور انڈس واٹر کمشنر کو نوتس بھی دیا گیا ہے۔
میری رٹ یہ ہے کہ ستلج اور راوی سے سارا پانی بند نہیں کیا جا سکتا۔ پندرہ سے بیس فیصد پانی چھوڑنا چاہئیے کیونکہ آبی حیات ، اور پینے کا پانی مکمل طور پر بند نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن جو وفد اس وقت آیا ہوا ہے ۔ اسکے پاس دو ایجنڈے ہیں ۔ دونوں ایجنڈوں میں دریائے چناب پر بھارتی علاقے میں شروع ہونے والے پراجیکٹس پر پاکستانی حکومت کے اعتراض ہیں کہ ان منصوبوں کے سائز اور اونچائی سندھ طاس معاہدے کے تحت درست نہیں ہے۔ پاکستان کی جانب سے اس معاملے پراپنا گلہ پیش کیا گیا اور اعتراض کیا گیاکہ اس اونچائی کے پراجیکٹس نہیں بنائے جا سکتے۔ بھارت اگر بنا سکتا ہے تو اسے معاہدے کے حدود و قیود میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔
آج وفد کی ملاقات میں یہی بات ہوئی ۔ اس بات پر بھارتی وفد کل اپنا جواب دیگا۔ کل شام کو مذاکرات ختم ہونے کے بعد دو طرفہ یا یکطرفہ معلومات سامنے آئیں گی۔
ان پراجیکٹس کے حوالے سے پاکستان اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے۔ معاہدے میں پہلے سے طے ہے کہ اگر پن بجلی کا کوئی منصوبہ بنایا جاتا ہے تو اس کی مقدار اور اونچائی کتنی ہونی چاہئیں۔ پاکستان کے اعتراضات سندھ طاس معاہدے کے مطابق منظور شدہ معاملات پر ہیں ۔ اگر بھارت اسے نہیں مانتا تو پاکستان اس مسئلے کو عالمی مثالحتی عدالت میں لیجا سکتا ہے۔
عمران خان کے پنجاب پولیس کو ٹھیک کرنے کے لیے ناصر درانی کے انتخاب کے بعد سابق آئی جی بلوچستان اور تحریک انصاف کے رکن چودھری یعقوب کا نام سامنے آنے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ میں متفق ہوں کہ اگر تحریک انصاف میں قابل لوگ موجود ہیں تو انہیں موقع ملنا چاہئے ۔ کیونکہ انہیں تحریک انصاف کی فلاسفی اورپالیسی کا علم ہے۔ ناصر درانی اسوقت پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں مصروف ہیں، شاید وہ اس میں ایگزامینر ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ وہ دو دن میں فارغ ہو کر مجھ سے رابطہ کریں گے۔ فیصلے تحریک انصاف کی لیڈر شپ کوکرنے ہوں گے۔ تاہم اگر وہ ایک ہی جگہ پر دو لوگوں کو ایڈوائزر منتخب کر دیں گے تو پھر کوئی فیصلہ نہیں ہو پائے گا۔
آصف زرداری سمیت سیاستدانوں کی نیب کے سامنے پیشیوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ خوش آئند بات ہے ۔ کسی زمانے میں ریڈرز میں ایک کارٹون چھپا تھا کہ تین لوگ ایک سکیل کے مطابق اوپر سے ان کے سر ایک مقام پر برابر ہیں۔ لیکن نیچے سے ایک کا قد چھوٹا جسے اوپر سے برابر کرنے کے لیے اسے سٹول پر کھڑا کیا ہوا ہے ۔ اور نیچے کیپشن میں لکھا ہوا ہے دی جنرلز نیفیو۔ یعنی جنرل کے بھتیجے کو سپورٹ دے کر برابر کیا ہوا ہے۔
اسی طرح کہا جاتا تھا کہ نیب کا گھیرا تنگ ہو گیا ہے ، پر اصل میں گھیرا اب تنگ ہوا ہے۔ اب نیب پر منحصر ہے کہ وہ حقائق کی بنیاد پر کیا فیصلہ کرتی ہے۔ اب حقائق کی بنیاد پر اس میں زرداری، زلفی بخاری ، عمران خان کے دوست اور پیپلز پارٹی کے دوست بھی آرہےہیں، جس سے لگتا ہے اب واقعی کام شروع ہوا ہے اور میں اس سے بہت خوش ہوں ۔
نیب کے سعد رفیق کو بائیس ارب روپے مہنگے انجن خریدنے پر بلائے جانے پر ضیا شاہد نے کہا کہ بائیس ارب روپے زیادہ نہیں تھوڑا سا فرق ہے۔ پندرہ بیس روپے کی بات ہے زیادہ مہنگے تو نہیں خریدے۔
پروگرام میں سابق آئی جی بلوچستان چودھری یعقوب نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان سے بہت پہلے ملاقات ہوئی، میں2011 سے پارٹی میں ہوں اور 2013میں پارٹی الیکشن بھی لڑا ۔ تحریک انصاف میں شمولیت اس لیے اختیار کی کہ سوچا عمران خان ایسے لیڈر ہیں جنکی سربراہی میں کام کر کے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامز ن کیا جا سکتا ہے ۔ سیاست سے تعلق ملک وقوم کی بہتری کے لیے تحریک انصاف میں شمولیت کے ذریعے اختیار کیا۔ حالانکہ اس زمانے میں میاں نواز شریف نے مجھے پارٹی میں شامل ہونے کا کہا۔ مگر میں نے سوچا کہ سیاست میں شامل ہونا ہے تو ایسی پارٹی قائد کی قیادت اپنائی جائے جو ملک میں واقعی کوئی تبدیلی لا سکے، جس کی نیت ہے اور جس کے پاس کوئی سوچ ہے۔
میرے ساتھی ناصر درانی کے تقرر کا سنا تھا مگر میں نے نہ خواہش کا اظہار کیا ہے کہ مجھے کہاں لگایا جائے اور نہ کسی نے مجھ سے اس حوالے سے بات کی ہے ۔ پنجاب پولیس کی بہتری کے لیے میں یقینا اپنا کردار ادا کرنا چاہوں گا۔ پولیس میں میری پینتیس سال کی سروس ہے اور حکومت ضرورت محسوس کرے کہ میں پنجاب وفاق یا کسی بھی صوبے میں بہتری کے لیے کردار ادا کر سکتا ہوں تو میں ضرور کردار ادا کروں گا۔ ضیا شاہد نے پوچھا کہ قصور میںبچے بچیوں پر جسمانی تشدد کے معاملات، 300کے خلاف جسمانی زیادتی کے مقدمات درج ہوئے اور اسمیں پولیس خود شکایت کنندہ تھی۔ اس حوالے سے چند دن پہلے ہمارے اخبار میں خبر شائع ہوئی تھی کہ پولیس نے تمام کیسز واپس لے لیے ہیں، چنانچہ وہ عمارت دھڑام سے گر گئی اور پولیس کے کیس واپس لینے سے جو لوگ رہا ہوئے انہوں نے شکایت کنندگان کے گھروں میں جا کر ان سے مار پیٹ کی اور کئی لوگ قصور شہر چھوڑ گئے ہیں۔ ایسا کہیں ہوتا ہے کہ پولیس ہی کیس پر سے ہٹ جائے اور بیٹھے بٹھائے ملزمان رہا ہو جائیں اور ظلم و ستم کی اخیر ہو جائے۔ پولیس کی اس کاروائی پر کیا رائے دیتے ہیں۔
چوہدری محمد یعقوب نے کہا کہ گذشتہ دنوں بچی سے زیادتی کے بعد قتل کا واقعہ اور دیگر واقعات میرے علم میں ہے مگر پولیس کےکیسز ختم کرنے کی خبر سے لاعلم ہوں۔ ایسے واقعات میں یہ طریقہ کار ہے کہ کوئی شکایت یا مقدمہ درج ہونے کے بعد اسکی تفتیش کی جاتی ہے اور اگر مقدمہ قابل دست اندازی پولیس بنتا ہے تو ایف آئی آر درج کی جاتی ہےاوراسکے بعد اسکی مکمل تفتیش کی جاتی ہے۔ تفتیش کا طریقی کا ر یہ ہے کہ جب تک ملزمان کے خلاف کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے ، نہ انہیں چالان کیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں چھوڑا جاتا ہے۔ نہیں معلوم پولیس نے سب کو کیسے بری الزمہ کر دیا۔ اورملزمان مدعی یا شکایت کرنے والوں کے ساتھ زیادتی بھی کر رہے ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو بہت افسوسناک بات ہے ۔ شکایت کرنے والوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ سینئر افسران کے پاس جا کر دوبارہ شکایت درج کروائیں اور اس پر دوبارہ تحقیقات ہوں۔
ضیا شاہد نے خواجہ سعد رفیق کے پیراگون کیس کے حوالے سے مزید گفتگو کرتے ہوئے تنزاکہا کہ یہ چھوٹے چھوٹے معاملات ہیں۔ بائیس ارب روپے کوئی رقم ہے، کوئی بڑی تگڑی سی رقم لائیں ۔ پیراگون والا معاملہ چند ارب کا ہے ، پیراگون والا الزام بہت گھٹیا سا الزام ہے۔ سعد رفیق تگڑے منسٹر تھے ان پر کوئی بڑا الزام لائیں۔ہو سکتا ہے سعد رفیق نے جس قیمت پر انجن خریدے ہیں ، اس میں انجن کے کچھ خاص حصے سونے یا ریڈیم کے بنوائے ہوں، مہنگے انجن اس لیے ہوں کہ ان میں کوئی ڈیوائس لگی ہوئی ہو۔ تحقیقات ہونے پر پتہ لگے گا کہ وہ مہنگائی کیوں تھی۔میں سعد رفیق کو بڑا پسند کرتا ہوں ، وہ نوجوان اور بلند ہمت ہیں۔ انہوں نے دوسری شادی کی ، جوان نہ ہوں تو کوئی دوسری شادی کرتا ہےوہ بھی ٹی وی اینکر کے ساتھ۔پروگرام میں قصور میں بچیوں سے زیادتی کیس میں ملزمان کی رہائی کے حوالے چینل فائیو کے قصور سے بیورو چیف جاوید ملک نے کہا کہ قصور زیادتی کیس کے متاثرین کی اکثریت قصور کا گاوں حسین خان والا چھوڑ کر جا چکی ہے ۔ جن لوگوں کو ملزمان نے مارا پیٹا اور تشدد کیا ہے وہ ایف آئی آر کے گواہ تھے ۔ ملزمان بہت با اثر لوگ ہیں اور انکا بہت بڑا نیٹورک ہے۔ سات آٹھ سال تک زیادتی کا نشانہ بننے والے تمام لوگ انتہائی لاچار اور غریب ہیں۔ جو اپنے گھر بار چھوڑ کر سستے داموں بیچ کر وہاں سے نکل گئے ہیں۔ یا معافی مانگ کر صلح کر کے خاموش ہو گئے۔ کل ہمارے خبر شائع کرنے کے بعد پولیس نے اس حوالے سے کیس رجسٹر کیا ہے اور ملزم پکڑے گئے ہیں۔ پولیس اب متاثرین کی بات نہیں سنتی کیوں کہ عدالت نے ملزمان کو بری کر دیا ہے پولیس اب کیا کر سکتی ہے۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain