بوسٹن (ویب ڈیسک)امریکا کی ریاست بوسٹن کے ایئرپورٹ پر حکام نے ہاروڈ یونیورسٹی کے فلسطینی طالبعلم کو ملک میں داخل ہونے سے روک دیا۔خبررساں ’اے ایف پی‘ کے مطابق ایئرپورٹ حکام نے فلسطینی نوجوان اسمعیل اجووی کو بوسٹن ایئرپورٹ پر 8 گھنٹے تحویل میں رکھا اور مذہب سے متعلق سوالات کیے۔بعدازاں امریکی حکام نے اسمعیل اجووی کے سوشل میڈیا اکاﺅنٹ پر ان کے ایک دوست کے سیاسی بیان کو جواز بنا کرامریکا میں داخل ہونے سے روک دیا۔اسمعیل نے بتایا کہ لوگن انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ان کے موبائل اور لیپ ٹاپ کی پانچ گھنٹے جانچ پڑتال کی گئی اور پھر ایک خاتون افسر کمرے میں داخل ہوئی اور ’مجھ سے چیخنے لگی‘۔فلسطینی طالبعلم کا کہنا تھا ’خاتون افسر نے بتایا کہ انہیں میری سوشل میڈیا پر دوستوں کی فہرست پر ایسے ’افراد‘ ملے ہیں جو امریکا کے خلاف سیاسی بیانات دیتے ہیں‘۔17 سالہ اسمعیل نے بتایا کہ انہوں نے خاتون افسر کو احتجاجاً کہا کہ میرے دوستوں نے سیاسی نقطہ نظر ظاہر کیا جس میں میری کوئی رائے نہیں ہے لیکن افسر نے کہا کہ تمھارا ویزا منسوخ کیاجاتا ہے‘۔دوسری جانب امریکی کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن ایجنسی نے تصدیق کی کہ انہوں نے اسمعیل اجووی کو امریکا میں داخلے کی اجازت نہیں دی۔تاہم امریکی بارڈر ایجنسی نے مطلوبہ معلومات فراہم نہیں کیا جس کے باعث فلسطینی نوجوان کو امریکا سے بے دخل کیا گیا۔ایجنسی کے ترجمان مائیکل میک کارتھیے نے بتایا کہ ’سی بی پی تحقیقات کے دوران جو معلومات برآمد ہوئی اس بنیاد پر فلسطینی نوجوان کو امریکا میں داخل کی اجازت نہیں دی گئی‘۔اس ضمن میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ حکام نے بتایا کہ مذکورہ کیس سے متعلق قانونی پیچیدگیوں کو زیر بحث نہیں لایا جائے گا۔انہوں نے کہا عام طور پر سیاسی بیان یا نقطہ نظر کی بنیاد پر ویزا دینے سے انکار نہیں کیا جاتا ہے اگر وہ بیانات یا نظریات امریکا میں قانون کے مطابق ہوں۔اسمعیل اجووی نے امید ظاہر کی کہ اگلے ہفتے کلاسز شروع ہونے قبل ان کا کیس حل ہوجائے گا۔واضح رہے کہ ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کے نامور تعلیمی اداروں میں شمار ہوتی ہے۔
