تازہ تر ین

کوئی وزیر اعظم ہر سمری نہیں پڑھتا ،کیا وزیر مشیر سوئے ہوئے تھے،ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہنہ مشق صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ملک میں افراد کی حکومت ہی ںہوتی بلکہ آئین اور قانون کی حکومت ہوتی ہے۔ یہ ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وہ آئین اور قانون کے تحت ہونا چاہئے۔ اس میں بنیادی طور پر پہلی غلطی یہ تھی کہ عمران خان پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے ہیں اور ان کو کوئی تین تین دفعہ وزیراعظم بننے کا تجربہ نہیں ہے اور لگتا ہے کہ بیورو کریسی ان سے تعاون بھی نہیں کر رہی۔ کچھ ان کی ٹیم بھی کافی کمزور ہے۔ مثال کے طور پر ہم سب کو معلوم ہے کہ آرمی کا کسی بھی قسم کا مسئلہ ہو تقرریاں جو ہوتی ہیں توسیع بھی جو ہوتی ہے وزیراعظم صرف سمری میں ریکمنڈ کر سکتے ہیں اس کی منظوری جب صدر دستخط کر دیتا ہے تو پھر اس کی اجامت ہو جاتی ہے۔ ہوا یہ کہ عمران خان صاحب نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کا بھی خود ہی اعلان کر دیا اور بعد ازاں اس پروسس کو مکمل بھی نہیں کروایا۔ یہاں ایک اینکر نے صدر مملکت سے پوچھا تو 15,14 تاریخ کو یہ کہہ دیا کہ ابھی تک تو میں نے سمری پر دستخط نہیں کئے میرے پاس نہیں آئی اس کا مطلب ہے کہ ایک گواہی بھی موجود ہے کہ ان کے پاس اسی تاریخ تک سمری آئی ہی نہیں تھی۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ عمران خان صاحب کے لئے بڑا چیلنج یہ ہے کہ حکومت کرنا چیلنج نہیں ہوتا اچھے طریقے سے حکومت کرنا چیلنج ہوتا ہے ان کے لئے چیلنج ہے کہ اپنی کوئی ٹیم بدلیں اور اصل میں وہ جو الیکشن سے پہلے جو بہت سارے لوگ جب الیکٹ ایبل کو اکٹھا کیا گیا کہ کون کون سیٹ لے سکتا ہے تو بہت سارے لوگ اس قسم کے تحریک انصاف میں آ گئے جن کا کوئی تعلق نظریاتی طور پر تحریک انصاف سے نہیں ہے مثلاً یہ دیکھیں کہ یہ جو خسروبختیار صاحب وزیر بھی ہیں شوگر مافیا کے بہت سرکردہ لیڈر ہیں ان کی شوگر ملیں ہیں اور رحیم یار خان سے ان کا تعلق ہے یہ وہ لوگ تھے جو آخری دنوں میں آئے تھے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے لئے اور پھر خان صاحب سے ان کی ملاقات ہوئی اور بہت سارے لوگوں نے تحریک انصاف کو جوائن کر لیا۔ اس جیسے لوگوں کی کوئی کمٹمنٹ نہیں ہوتی۔ خسروبختیار پہلے بھی وزیر تھے اس سے پہلی حکومت میں بھی وزیر تھے۔ اسی طرح سے اور بھی جتنے لوگ ہوں وہ آج یہاں ہیں وہ کل وہاں ہیں عمران خان صاحب کی ٹیم کو تجربہ نہیں ہے مثلاً کوئی بھی سیانا بندہ بتا سکتا تھا کہ اس پر وزیراعظم دستخط نہیں کرنا۔ کوئی بھی بتا سکتا تھا کہ اگر آپ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرنی ہے تو وہ صرف صدر کر سکتا ہے۔ یہ کوئی مشکل کام تو نہیں تھا۔ ابھی جو آج بیٹھ کر کام کیا ہے تو پہلی دفعہ ان پورے لوگوں نے سائنن کیوں نہیں کئے۔ اور اس وقت انہوں نے مناسب سمری صدر کو کیوں نہیں بھجوائی۔ اب اس میں اعتراض ہو رہا ہے کہ اس میں بھی کچھ لوگوں کے دستخط نہیں تھے تو کابینہ اگر ہے تو کابینہ کے پورے دستخط ہونے چاہئیں۔
خالد رانجھا صاحب آج صبح جو کچھ ہوا آج شام کو کابینہ نے نئی سمری منظور کر کے صدر کو بھجوا دی ہے آپ کے خیال میں یہ جو اقدام ہے اس میں انہوں نے شاید ترمیم بھی کی ہے۔ ایک لفظ کی۔ توسیع کا لفظ شامل کر دیا ہے۔ کیا اس بات کا امکان ہے کہ عدالت تو عدالت ہے کچھ بھی فیصلہ کر سکتی ہے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ نئی سمری کو مان لے کیونکہ یہ تو صدر صاحب کے دستخطوں سے جاری ہو گی۔
ضیا شاہد نے کہا کہ اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں۔ دیکھیں میں اپنے دفتر میں کام کرتا ہوں بہت سی چیزیں جب میرے پاس ڈرافٹ ہو کر آتی ہیں تو صرف یہ دیکھتا ہوں کہ یہ کمپوز شدہ مسودہ ہے میں سائن کر دیتا ہوں۔ اگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ میرا میسجز لے کر آیا ہے کیونکہ مجھے اعتماد ہے کہ یہ غلط کاغذ مجھ سے دستخط نہیں کروائے گا بعض اوقات میں پڑھتا بھی نہیں حالانکہ پڑھ کر دستخط کرنے چاہئیں۔اگر عمران خان صاحب سے کوئی کوتاہی ہو گئی تھی تو کسی اللہ کے بندے کو توفیق نہیں ہوئی جتنی اتنی دنیا انہوں نے رکھی ہوئیی ہے جو ان کو بتا سکے کہ جناب آپ کا اختیار نہیں صدر کا اختیار ہے۔ پہلے آپ سمری بھیجیں گے آپ ریکمنڈ کر سکتے ہیں فائنل امپروول صدر مملکت دیں گے۔ کیا شیخ رشید جیسے لوگوں کو نہیں پتہ تھا ابھی پریس کانفرنس میں بیٹھے ہوئے تھے یہ اتنے پرانے پارلیمنٹرین ہیں اتنی ہی حکومتوں میں رہے۔ شفقت محمود پتہ نہیں کیا رہ چکے تھے ان کو چاہئے تھا کہ عمران خان کو صحیح گائیڈ کرتے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ عمران خان نے ابرارالحق کو ریڈ کریسنٹ میں لگایا ہے کچھ لوگ کہتے ہیں زلفی بخاری ان کا دوست ہے اس لئے ان کو یو این او تک ساتھ لے گئے۔ یہ چیز بھی اب ڈسکس ہو رہی ہیں اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے حلقہ احباب میں ہیں تو پھر آپ کے لئے سارا کچھ ہے اگر اس میں نہیں ہیں تو آپ کچھ بھی نہیں ہیں۔ عمران خان کو اپنا تاثر دور کرنا پڑے گا ان کو سوچ سمجھ کر اپنے ساتھی منتخب کرنا پڑیں گے۔ پنجاب کو ہی دیکھ لیںکہ انہوں نے بزدارصاحب کو کہا کہ آپ کو کوئی افسر نکالنا پڑے۔ آج چیف سیکرٹری تبدیل ہو گئے۔ لیکن صمصام بخاری، فیاض الحسن چوہان کے بارے میں خبر آئی تھی کہ ان کی وزارتیں تبدیل ہو رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شاید فیاض الحسن چوہان چونکہ سپوکس مین ہیں۔ روزانہ ایک دن چھوڑ کر ان کی کوئی بڑی دھانسو قسم کی پریس کانفرنس آتی ہے وہ پوری فائٹ کر رہے ہیں تحریک انصاف کی طرف سے اس لئے کہا جاتا ہے کہ شاید دوبارہ انہیں اسلم اقبال صاحب آج کل وزیر ہیں لیکن ان کے پاس اور بھی بہت سارے محکمے ہیں تو ان کو اضافی چارج دیا ہوا ہے لیکن فیاض الحسن چوہان کو دوبارہ اطلاعات کا وزیر بنا دیا جائے گا۔ اچھی بات ہے وہ اچھا بول سکتے ہیں۔ پہلے انہوں نے صرف یہ کہہ دیا تھا کہ یہ جو قوم ہے پیشاب پیتی ہے ان کا وزیراعظم کہتا تھا کہ میں اپنا یورن پیتا ہوں۔ اگر انہوں نے کہہ دیا تو کیا غلطی کر دی۔پھر کسی ہندو رکن اسمبلی رمیش کمار صاحب نے اعتراض کیا کہ دیکھیں کہ یہ ہمارے مذہبی معاملات پر تنقید ہو رہی ہے تو ان کی چھٹی ہو گی۔ سوچ سمجھ کر عمران خان منتخب کریں پھر جس کو منتخب کریں اس کو کچھ دیر رہنے دیں۔ اس سے غلطی بھی ہو جائے تو اسے برداشت کریں۔ ٹارگٹ دیں کہ یہ کام کا ٹارگٹ ہے۔ سارے وزیر مشیر تھے کہ یہ پڑھتے نہیں کہ اس طرح سے آرمی چیف کی مدت صدارت میں توسیع نہیں ہو سکتی۔ اس کا مطلب کوئی اللہ کا بندہ ہے ہی نہیں ان کے پاس۔ یا پھر لوگ سامنے بات کرنا پسند نہیں کرتے بس واہ واہ کرتے رہتے ہیں۔ عمران خان لوگوں کو پہچانیں اور لوگوں کی صلاحیت کے مطابق ان کو کام دیں وگرنہ آپ کو یکطرفہ باتیں سن کر غلط لوگوں کو تنقید کا موقع دیں۔ تصور قائم ہو جائے گا چیزوں کے بارے میں۔ بزدار محنتی ہیں نوجوان ہیں۔ جذبہ بھی ہے۔ ایک تصویر میں نے دی تھی دکھانے کے لئے اس میں امریکی سفیر ان سے ملنے کے لئے آئے تو وہ امریکی سفیر کے سامنے اس طرح سے بیٹھے ہوئے ہیں پنجاب پاکستان کا دل ہے ایک طریقے سے، 10 کروڑ آبادی کا صوبہ ہے۔ لیکن امریکی سفیر کے سامنے اس طرح بیٹھے ہوئے ہیں جس طرح سے کوئی بچہ سکول میں ٹیچر کے سامنے بڑا مودب ہو کر بیٹھتا ہے۔ عزت کرنی چاہئے مہمانوں کی لیکن میں جس بات کی طرف توجہ دلا رہا ہوں وہ یہ کہ بزدار صاحب کو آپ کو اپنی حیثیت پہچانیں آپ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے سب سے پاور فل وزیراعلیٰ ہیں۔ کوئی آئے کوئی جائے آپ کو تو اپنی ذات میں خود آپ اتنی بڑی قوت کا ذخیرہ ہیں کہ آپ کے ذریعے قوت جنریٹ ہونی چاہئے نہ کہ یہ ملاقات دیکھ کر لگا کہ اگر میں بھی امریکی سفیر سے ملتا یقین جانیں اس طرح کبھی نہ ملتا۔ حالانکہ میرا تو کوئی مقام نہیں۔ اس طرح کی دنیاوی پوزیشن بھی نہیں۔ میں تو ایک اخبار نویس ہوں۔ اعتماد اپنے اندر سے آتا ہے۔ عمران خان کو چاہئے پہلے اپنی ٹیم صحیح کریں۔ جیسے فروغ نسیم نے استعفیٰ دیدیا ہے وہ کیس لڑنے کے بعد دوبارہ وزیر بن جائیں گے میں اگر ہوتا تو فروغ نسیم جتنا مرضی لائق ہوتا جو کام ان کی موجودگی میں اتنا غلط ہوا ہے۔ وزیر قانون کا کام ہوتا ہے۔ یہ مشورہ بھی دے سکتے تھے منع بھی کر سکتے تھے اور غلط کام ہونے دیا۔ کیا یہ مان لوں کہ فروغ نسیم کو پتہ نہیں تھا کہ وزیراعظم اوکے نہیں کر سکتا ہے۔ اصل میں یہ سمری صدر سے منظور ہونی ہے۔فروغ نسیم اتنے بڑے قانون دان ہیں کیا ان کو پتہ نہیں تھا وزیراعظم کے دستخطوں سے آرمی چیف کے عہدے کی ایکسٹینشن نہیں ہو سکتی۔ یہ بات ہر پڑھے لکھے آدمی کو پتہ ہے۔ صدر کو پروٹوکول کے اعتبار سے سپریم کمانڈر کہتے ہیں چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ توسیع بھی سائن کرتا ہے۔ ویسے تقرریاں بھی جو ہوتی ہیں اس پر صدر دستخط کرتے ہیں۔ خبریں تو آ رہی ہیں کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے خلاف فارن فنڈنگ کیس میں سکروٹنی کمیٹی کو کہا گیا ہے کہ تیزی سے کام کیا جائے تا کہ ان پارٹیوں کیخلاف بھی کیس شروع ہو سکیں۔ مولانا فضل الرحمان کہہ رہے ہیں کہ مجھے 3 ماہ کا کہا گیا۔ اگر 3 ماہ میں الیکشن نہیں ہوتے تو لوگوں کو لے کر دوبارہ اسلام آباد آ سکتا ہوں۔ ان کے پہلے دھرنے سے نوازشہباز بیرون ملک چلے گئے، اب موجودہ کشمکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بلاول اپنے والد کو اسلام آباد سے کراچی لے جانا چاہتے ہیں۔ چودھری خاندان سے پرانے تعلقات ہیں، چودھری شجاعت سینئر سیاستدان ہیں بڑے دلچسپ اور زیرک آدمی ہیں بات مختصر مگر معنی خیز کرتے ہیں، پچھلے دنوں ان سے ملاقات کی جس میں میرے ساتھ گئے امتنان شاہد نے سوال پوچھا کہ نوازشریف واپس آئیں گے یا نہیں تو جواب ملا کہ نہیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain