لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ آج سے 5 سال قبل ن بچوں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر پاکستان میں ایک تو دھرنا ختم کروایا اور ملک میں یک جہتی کی فضا پیدا ہوئی اور جس میں حکومت اور اپوزیشن میں بھی ایک خاموش مفاہمت کا آغاز ہوا وہ بچے تو اس دنیا سے چلے گئے وہ ہمیں سبق دے گئے کہ اگر اچھے بچوں کی طرح آپ سب مل جلر کر نہیں رہتا اور سب نے مل کر ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کرنا تو پھر ایسے واقعات ہوتے رہیں گے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کے فون رنگ لایا اور یہ ایک فضا پیدا ہوا جس میں سارے لوگوں نے مل کر متحد ہوکر یک جان ہو کر دہشت گردی کے خلاف راہ ہموار کی۔ سقوط ڈھاکہ ہمیں سبق دے کر گیا کہ عوام کی مدد کے بغیر جنگ ہو گی وہ ناکام ہو گی پہلی مرتبہ پاک آرمی کو وہاں شکست ہوئی اس کی وجہ یہ ہے کہ جو عام آدمی تھا وہ ان کے ساتھ نہیں تھا اور بہت محدود اقلیت کے لوگ ان کے ساتھ تھے باقی عوام کی اکثریت مغربی پاکستان کے رویے سے چنانچہ یہ سبق ملتا ہے کہ اتنی بڑی شکست سے جو مسلم تاریخ کی سب سے بڑی شکست ہے کہ اتنے مسلمان فوجیوں نے اپنی بڑی تعداد میں ہتھیار نہیں ڈالے تھے اس لحاظ سے میں یہ سمجھتا ہوںکہ باقی ماندہ پاکستان کو جس کے چار صوبے ہیں چار اکاﺅں کے علاوہ بھی جتنے علاقے ہم سے ملحق ہیں اس کی آرزوﺅں کو امنگوں کو ان کی تمناﺅں میں سمو کر چلنا ہے اور ان کو ناراض نہیں کرنا اور ان پر زبردستی حکمرانی کرنے کی کوشش نہیں کرنی۔ ہم نے سبق سیکھا۔ فرق پڑا ہے۔ سب سے پہلا فرق تو یہ پڑا ہے کہ واحدانی طرز حکومت سینٹ سسٹم میں بدل گیا چنانچہ سقوط ڈھاکہ کے بعد جو پہلی قومی اسمبلی وجود میں آئی اس نے 1973ءکے آئین میں جو سینٹ کا وجود سامنے لایا جس میں چھوٹے برے صوبوں کی یکساں نمائندگی ہے سینٹ جو مرض وجود آیا اس کی بنیادی وجہ سقوسط ڈھاکہ تھی۔ مانا کہ آئیڈیل پوزیشن نہیں ہے شائد اب بھی کچھ معاملات ہوں لیکن آپ دیکھ رہے ہیں صوبوں کی اہمیت ہے اور اٹھارویں ترمیم نے تو صوبوں کو اتنے اختیارات دے دیئے ہیں کہ اب سمجھ میں ااتا ہے کہ اصل حکمرانی صوبے کی اور یونیفارم جو حکومت کا سٹائل تھا خاص طور پر صدارتی طرز حکومت میں جو ایک شخص کے پاس احتیارات ہوتے تھے اور ایک شخص چاروں صوبوں کا وفاقی سطح پر بھی آل ان آل ہوتا ہے اور غیر جمہوری حکمران ہو تو پھر تو بادشاہ ہوتا تھا وہ ختم ہو گیا۔ اب تو آپ کو صوبوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے جن کے پاس 18 فیص ترمیم کے تحت بڑے اختیارات ہیں۔ آج ہم انہی معاملات کولیں تو اخبارات کا بھی معاملات ہیں اب اخبارات کے ڈکلیئریشن صوبائی حکومت دیتی ہے۔
ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا جو اتنا بڑا فیصلہ آیا ہے اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جنرل باجوہ کو تو 6 ماہ کے لئے آرمی چیف کے عہدے کے لئے توسیع مل گئی لیکن آئندہ کوئی بھی جنرل اگر قانون نہ بنے گا تو 3 سال کے بعد نہیں بنے گا بلکہ 3 سال کے لئے قانون موجود نہیں ہے لہٰذا نئے آرمی چیف کی تقرری مشکل ہو جائے گی کیونکہ اس کے لئے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ لہٰذا قانون کو بتانا پڑے گا اگر قانون میں یہ بات آ گئی کہ توسیع مل سکتی ہے یہ بات قانون میں درج کرنا پڑے گی اس پر سیاسی جماعتیں اپنی اپنی رائے دیں گے۔ تحریک انصاف کے پاس قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت ہے غالباً سینٹ میں نہیں ہے۔ صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ مشترکہ اجلاس میں دوبارہ یہ ریفر کیا جائے کیونکہ مشترکہ اجلاس میں شاید حکومت سادہ اکثریت حاصل کر سکے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اپوزیشن کی ایک بڑی سیاسی جماعت کو جیسے پاکستان پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ ن ان کا ساتھ دے تو نئی قانون سازی ہو سکتی ہے۔ ابھی تک اس سلسلے میں کوئی اتفاق رائے نہیں آیا۔ کیا آج کے فیصلے نے یہ راستہ بند نہیں کر دیا تحریک انصاف کے لئے اورکیا اپوزیشن پارٹیاں اس کے لئے تیار ہو جائیں گی۔ کیا فیصلہ یہی بنچ کرے گا جس کے بارے میں فواد چودھری صاحب نے بھی آج بیان دیا ہے کہ ہم نظر ثانی کے لیے سپریم کورٹ جائیں گے۔ نیا بنچ بنتا ہے یا وہی بنچ سنے گا۔ وفاقی وزیر اس حق میں ہیں اس کا مطلب ہے حکومت نظر ثانی چاہتی ہے۔ کیا آپ اس فیصلے میں یہ بات نہیں کرتیں کہ پارلیمنٹ کے اس حق پر کہ وہ قانون سازی کر سکتی ہے ایک طرح سے لگائی گئی ہے اور وزیراعظم کے اس استحقاق پر کہ صدر کو سمری بھجوا سکتا ہے اس پر بھی حد لگائی گئی ہے۔ جب یہ کہا گیا ہے کہ 6 ماہ کے اندر فیصلہ کر لو تو یہ حکم کیا جائے گا۔ دل کے امراض کے ہسپتال میں ایک فاقعہ ہوا اس کی روشنی میں دونوں طرف سے یلغار ہوئی۔ وکلاءکے ایک گروہ نے سارے وکلاءنے نہیں ہسپتال پر حملہ کیا جواب میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف نے چھت پر سے اینٹیں برسا کر وکلاءکو بھی زخمی کیا اب صورت حال یہ ہے کہ سندھ میں کبھی خبر ااتی ہے کہ وہ ڈاکٹروں کے مقدمات نہیں لڑیں گے اور ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ وہ وکلاءکا علاج نہیں کریں گے یہ دو اہم طبقوں کے درمیان ایک ایسا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے جو ایک دوسرے کے خلاف ہو گئے ہیں۔اتنے دن گزرنے کے باوجود ابھی تک بھی کوئی صلح صفائی کی شکل نہیں آئی۔ سوچنا ہو گا کہ کس طرح اس خلاءکو ختم کیا جائے کہ سفید کوٹ والے اور کالے کوٹ والے دونوں ہمارے معاشرے کا اہم حصہ ہیں یہ کشیدگی سوسائٹی کے لئے صحت مند اقدام نہیں ہے۔ میں فریقین سے بات بھی کر رہا ہوں میری بار کونسل سے بھی اپیل ہے کہ موثبانہ درخواست ہے کہ ہم وکلاءکی طرف سے گائیڈنس کے لئے دیکھتے رہے ہیں۔ میں کی قیمت پر وکلاءکے بارے میں رائے نہیں رکھتا کہ ان کو ایک متحارب فریق سمجھا جائے ینگ ڈاکٹرز خاص طور پر ان کے سربراہان جو ہیں دوسری طرف بار کونسل کے عہدیداران مل کربیٹھیں اور اس صورتحال میں کوئی ایسا صلح نامہ کیا جائے جس طرح سے کہ ہوا تھا تا کہ مستقل نفرت، ناپسندیدگی اور کش مکش اور لڑائی کی فضا نہ بننے پائے معاشرے اس قسم کی مستقل لڑائی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
