تازہ تر ین

کرپشن میں ملوث سیاستدانوں کی دھڑا دھڑضمانتیں ،سابق جرنیل کو سزائے موت پر لوگ حیران ہیں ،ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ایس ایس جی فورس تھی جس سے تعلق تھا جنرل پرویز مشرف کا چنانچہ کل آرمی کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے فیصلے پر تنقید کی تھی اور آج آرمی چیف کا ایس ایس جی کمانڈرز ہیڈ کوارٹر کا دورہ کرنا یہ ایک خاص پس منظر ہے اور اس کا پس منظر وہی ہے جس کا ذکر جی آئی ایس پی آر نے کل کیا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ کچھ اچھا نہیں ہو رہا اور پاکستان کی آرمی ایک قومی ادارہ ہے اس کی سوچ اور اہمیت اس کی اپنی جگہ پر ہے بلکہ بعض لوگوں کا تو کہنا ہے کہ پاکستان کے جو چار صوبے ہیں ان کے درمیان بعض ایسی شکر رنجیاں پیدا ہو جاتی ہیں آرمی شاید واحد ادارہ ہے جواس کو جوڑ کر رکھتا ہے آپس میں لہٰذا آرمی کا جو وجود ہے اور پھر جس طرح کہ فوج کا اثر ملکی دفاع کے حوالے سے بھارت کے حوالے سے جو سامنے آتا ہے انڈین ٹی وی چینلز کا اس فیصلے پر خوشیاں منانا بھی غور طلب ہے لہٰذا زیادہ بہتر یہی ہو گا کہ پرویز مشرف کو چاہئے کہ اب ایک فیصلہ آ چکا ہے وہ جیسا بھی ہے اس کو ختم کرانے کے لئے اپنا کیس لڑیں وہ خود آئیں پاکستان میں آئیں اور اس کو چیلنج کریں۔ جس طرح سے کہ اعتزاز احسن صاحب کہہ چکے ہیں کہ تین ججوں میں سے ایک نے چونکہ مخالفت کی ہے لہٰذا موت کی سزا تو نہیں ہو سکتی لیکن یہ بات اپنی جگہ انتہائی اہم ہے کہ اب اس فیصلے کو چیلنج کیا جانا چاہئے اور عدالتہی کے ذریعے پرویز مشرف کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے لئے ریلیف لینی چاہئے۔ یہ بات اگر صحیح بھی ہے کہ ایک فرد واحد کو ادارے کے ساتھ نہ جوڑا جائے لیکن پرویز مشرف جو 40 برس تک فوج میں رہے کارگل جنگ کے وہ ہیرو تھے انڈیا کے ساتھ ان کی آج بھی مختلف معاملات پر انڈیا کو کنفرنٹ کرتے رہے ہیں دوبئی میں وہ انڈیا کے الزامات کا جواب بھی دیتے رہتے ہیں لہٰذا ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جب انہوں نے فوج کے ذریعے سول حکومت کا تختہ الٹا تھا تو اس وقت جو ہماری سپریم کورٹس تھیں انہوں نے ان کو جائز قراار دیا تھا۔ چنانچہ وہ ایمرجنسی لگانے تک وہ مسلسل سارے کیس جیتتے رہے ہیں اور ان کے دور حکومت کو ایک جائز اور آئینی دور حکومت کہا جاتا ہے پھر یہ کہ ان کے دور حکومت کی بعض خوبیاں بھی گنوائی جاتی ہیں کہ ااس میں عوام کے مسائل کا بہت خیال رکھا گیا اور کسی کی ذاتی کرپشن کا الزام ان پر نہیں لگا چنانچہ میں یہ نہیں سمجھتا کہ یہ کہہ کر یہ ایک شحص کے خلاف فیصلہ ہے بہر حال ایک ادارہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔ ان کے دور حکومت میں کچھ خوبیاں بھی ہوں گی خامیاں بھی ہوں گی مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ میں جب ان کے ساتھ دہلی گیا تھا تو ان کو امن اسی انڈیا میں امن کا پیعام بر کہا جاتا تھا اسی انڈیا میں جس انڈیا میں بعد میں ان کو بُرا بھلا کہا گیا اور مجھے یاد ہے کہ پوجا بھٹ کے والد جو تھے مہیش بھٹ جو معروف فلم ساز ہیں انہوں نے میری موجودگی میں جو پاکستان ایمبیسی میں فنگشن ہوا تھا اس میں یہ کہا تھا کہ پاکستان کی طرف سے امن کے اس پیعامبر کو خوش آمدید کہتا ہوں دونوں طرف دیکھنا چاہئے اگر کسی کی کوئی خوبی ہوتی ہے اس کو دیکھنا چاہئے کوئی خامی ہوتا ہے تو اس کو بھی بیان کرنی چاہئے۔ ہر شخص کو رائے زنی کا حق حاصل ہے جمہوری دور ہے۔ صحافیوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس فیصلے پر خوشیاں منا رہے ہیں۔ ایسے بھی اخبار نویس ہیں جو اس فیصلے پر ناراض ہیں۔ میں مسجھتا ہوں کہ جنرل پرویز مشرف کو اس فیصلہ کو چیلنج کرنا چاہئے لیکن عدالت کو اجازت دینی چاہئے کہ وہ اگر بیمار ہیں اور ہسپتال میں داخل ہیں یا ہسپتال سے گھر میں آ گئے لیکن ابھی ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے تو کوئی خرج نہیں انصاف ہونا چاہئے عدل ہونا چاہئے اس کے لئے ضروری ہے کہ عدالت ایک خصوصی کمیشن مقرر کر سکتی ہے۔ جو ان کا بیان دبئی جا کر بھی حاصل کر لے۔ جناب امجد شعیب صاحب جب پرویز مشرف صاحب نے مارشل لا لگایا اس وقت تو اعلیٰ عدالتوں نے اس کو جائز قرار دے دیا۔ اور ان کے دورکو جائز قرار دے دیا۔ یہ جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے ایمرجنسی لگائی اور چیف جسٹس صاحب کو الگ کیا۔ اس معاملے کو عدالت میں لایا گیا تو کورٹ نے 3 صوبوں کے جج شامل تھے ان کو سزائے موت دیدی آرمی کسی بڑے سے بڑے کیس پر حتیٰ کہ آرمی چیف کی توسیع کے مسئلے پر بھی آرمی نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا لیکن آرمی بھی خاموش نہیں رہی ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس فیصلے پر کڑی تنقید کی۔ اس فیصلے پر انڈیا میں بڑی خوشی منائی جا رہی ہے۔ آپ اس فیصلے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ضیا شاہد نے کہا کہ یہ بات واقعی حیرت انگیز ہے کہ نیب نے جن لوگوں کو گرفتار کیا تھا اب ان کی تو دھڑا دھڑا ضمانتیں ہو رہی ہیں اس کا مطلب ہے کہ سیاستدان جن پر کرپشن کے الزامات تھے ان کو تو رہا کیا جا رہا ہے جو آرمی کے سابق سربراہ تھے ان کو سزائے موت سنائی جا رہی ہے تو اس طرح سے ایک بہرحال ایک بحث شروع ہو گئی ہے ملک میں کہ ضروری نہیں ہے سارے لوگ متفق ہوں لیکن ججوں کے فیصلے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہوتا لیکن ان کا ان ڈور کرنا ضروری ہوتا ہے یعنی جج کے کسی فیصلے کو آپ تب ان ڈور کر سکتے ہیں جب اس سے سپریم کورٹ میں آپ اس فیصلے کو چیلنج کرتے وہاں سے ریلیف حاصل کریں۔ بحث مباحثہ کرنے کی بجائے اس فیصلے کو چیلنج کرنا ہے۔ بحث چل رہی ہے کہ زاہد حامد جو اس وقت وزیر قانون تھے انہوں نے بھی فیصلہ دیا تھا یہ ان کا آرڈر تھا۔ یہ صرف پرویز مشرف کو سنگل آڈٹ کر کے فیصلہ کرنا شاید زیادہ فیئر نہیں ہے جب یہ فیصلہ چیلنج ہو گا تو اس بات کو بھی لیا جائے گا۔ اس کے فیصلے کے جواب میں فوج خاموش رہتی ڈی جی کا ایک مخالفانہ ٹویٹ نہ آتا جس میں انہوں نے کڑی تنقید کی تو پھر تو یہ معاملہ دب سکتا تھا اب تو ادارے تو ایک دوسرے کے مقابلے میں آ کھڑے ہوئے۔ جناب عمران خان کی یہ بات درست ہے کہ اداروں کو ایک دوسرے کے مقابل نہیں کھڑا ہونا چاہئے۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain