اسلام آباد (ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ سے متعلق انکوائری رپورٹ جاری کر دی ہے 119صفحات پر مشتمل رپورٹ 54روز میں مکمل کی گئی جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی انکوائری رپورٹ میں 18سفارشات دی گئی ہیں اس رپورٹ میں دہشت گردی کا شکار افراد کے لواحقین کو فوری معاوضہ دینے دہشتگردوں اور ان کی تنظیموں کے بیانات موقف نشر کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرنے انسداد دہشتگردی ایکٹ کے فوری نفاذ دہشتگردوں اور کالعدم تنظیموں کے خلاف فوری کاروائی کالعدم تنظیموں پر جلسے جلوسوں کرنے پر انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت کاروائی کرنے کی سفارش کی گئی ہے،میڈیا رپورٹ کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرنے میں ناکام ہوئی ہیں بلوچستان کی حکومت میں نہ صرف اقربا پروری ہے بلکہ وہاں سفارش کلچر بھی بہت ہے جس کی واضح مثال سابق سیکریٹری کی وہاں تعیناتی ہے رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سانحہ کوئٹہ کے بعد وزیر اعلٰی اور وزیر داخلہ بلوچستان کی طرف سے غلط بیانیاں کی گئیں جن کی وجہ سے لوگوں کو غلط امیدیں دی گئیں رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ وفاقی وزارت داخلہ میں قیادت کا فقدان ہے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ سے کس طرح نمٹنا ہے اس حوالے سے وزارت داخلہ کنیفوژ ہے وزارت داخلہ کی افسر شاہی وزیر داخلہ کی خوشامد میں لگی رہتی ہے اور عوام کی خدمت نہیں کی جاتی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وزارت داخلہ کو اس کے کردار کا علم ہی نہیں ہے رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے نیشنل ایکشن پلان پر نہ عملدرآمد ہو رہا اور نہ ہی اس کے مقاصد مدنظر رکھا جا رہا ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزارت داخلہ سے کالعدم تنظیموں کے اجلاس ہوتے ہیں انسداد دہشتگردی ایکٹ کا فوری نفاذ ہونا چاہیے کالعدم تنظیمیں سرعام جلسے جلوس کرتی ہیں ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا جس سے انسداد دہشتگردی ایکٹ کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ دریں اثناء سپریم کورٹ آف پاکستان کیجانب سے 8اگست 2016 کو بلال انور کاسی ایڈوکیٹ کے قتل اور سول ہسپتال کوئٹہ کے بم دھماکے کے محرکات کے حوالے سے معلومات اکٹھی کرنے اور سفارشات مرتب کر کے سپریم کورٹ کو پیش کرنے کے لیے 6اکتوبر 2016 کو سپریم کورٹ کے جج جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کر دی ہے، انکوائری کمیشن نے 17 اکتوبر 2016 کو اپنی کاروائی کا آغاز کیا تھا، جس میں کمیشن نے کئی گواہان کے بیانات قلم بند کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف دستاویزات اکٹھی کیں اور مقررہ مدت کے اندر اپنی کاروائی مکمل کرتے ہوئے اس کی باقاعدہ رپورٹ 13دسمبر 2016 کو سپریم کورٹ میں پیش کی، جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے 15دسمبر 2016 کو سماعت مقررکرتے ہوئے اس کی شنوائی کی ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی ، سپریم کورٹ کے جج صاحبان جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل بنچ نے کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کے احکامات صادر کئے اور آئندہ سماعت جنوری کے تیسرے ہفتے میں مقرر کرنے کی ہدایت کی، سماعت کے دوران ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان امان اللہ کنرانی، حکومت بلوچستان کی جانب سے راجہ عبدالرحمان ایڈوکیٹ سپریم کورٹ جبکہ وکلاءکی جانب سے کامران مرتضیٰ ایڈوکیٹ پیش ہوئے ، انکوائری کمیشن کی رپورٹ 110صفحات پر مشتمل ہے، رپورٹ کے صفحہ 6سے صفحہ 80تک کمیشن کے معزز جج صاحب نے تمام تر تفصیلات درج کرتے ہوئے صفحہ 75 سے صفحہ 80تک نتائج اور سفارشات سمیت اپنی حتمی رائے دی ہے، ، کمیشن نے حکومت پنجاب کی جانب سے فرانزک لیبارٹری کی سہولت کی فراہمی اور سانحہ کے لواحقین کی فوری مالی امداد ، ڈائریکٹر جنرل پی ایف ایس اے اور سائنس دانوں کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور جذبہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت بلوچستان کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے، ڈاکٹر شہلہ رضا کا ایثار اور خدمات دیگر ڈاکٹروں کے لیے قابل تقلید ہیں، وہ افراد بھی قابل تعریف قرار جنہوں نے خودکش حملہ آور کے جوتوں کے ذریعے ان افراد کی شناخت کی جنہوں نے جوتے خریدے تھے، بم دھماکے کے موقع سے شواہد اکٹھا کرنے والے، پولیس کی مدد کرنے والے انٹیلی جنس ادارے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے وہ افراد جنہوں نے سانحہ میں ملوث دہشت گردوں کو حرمزئی میں ہلاک کیا بھی قابل تعریف قرار دئیے، جبکہ کمیشن نے وفاق المدارس کی جانب سے مثبت تعاون کی فراہمی کو سراہا ہے، انکوائری کمیشن نے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ نیکٹا کے قانون کو دہشت گردی کے خلاف موثر طور پر استعمال کیا جائے، انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت کالعدم تنظیموں کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے اور جو تنظیمیں دہشت گردی کی کاروائیوں کا دعویٰ کرتی ہیں انہیں کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی فہرست بنا کر ان تنظیموں اور ان سے تعلق رکھنے والے افراد کے نام اردو اور انگریزی زبانوں میں مشتہر کئے جائیں اور متعلقہ سرکاری محکموں ، وزارت داخلہ، وزارت اطلاعات، وزارت سرحدی امور اور تمام صوبوں کے داخلہ محکموں کی ویب سائٹ پر انہیں ڈالا جائے اور اشتہارات جاری کئے جائیں، دہشت گرد تنظیموں کے خلاف نمائشی کاروائی کے بجائے سنجیدگی سے اقدامات کئے جائیں، قومی سطح پر اس حوالے سے پالیسی وضع کی جائے اور تمام متعلقہ سرکاری ملازمین کو اس کا پابند کیا جائے بصورت دیگر وہ نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیں، کمیشن نے اپنی سفارشات میں عدالتی فیصلوں کی جانب توجہ دلاتے ہوئے نیکٹا اور حکومت بلوچستان کو ہدایت کی ہے کہ ان فیصلوں سے فائدہ اٹھایا جائے جو بلوچستان ہائی کورٹ نے 4سال قبل صادر کئے تھے، حکومت بلوچستان فوری طور پر سائنس لیبارٹری قائم کرے جو باوجود بھاری اخراجات اب تک قائم نہیں ہو سکی ہے، کمیشن نے ہدایت کی ہے کہ آئندہ ہر جائے وقوع کو فوری طور پر محفوظ کیا جائے ،اس کا فرانزک تجزیہ کرایا جائے اور اس کی تصاویر لی جائیں جو تفتیشی آفسر یہ کام نہ کر سکے اس کے خلاف انضباطی کاروائی کی جائے اور اسے اس کے سروس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے، ملک بھر میں ہوائی فائرنگ پر عائد پابندی پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے اور خلاف ورزی کے مرتکب افراد کے خلاف فوجداری مقدمات قائم کئے جائیں، بالخصوص قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی جائے کہ آئندہ کسی حملے اور دہشت گردی کے واقعہ کے بعد ہوائی فائرنگ نہ کی جائے جس سے متاثرین ، ڈاکٹرز ، ایمرجنسی عملہ اور ابتدائی طبی امداد دینے والے خوفزدہ ہوں، کسی بھی ہنگامی صورتحال سے موثر طور پر نمٹنے کے لیے ایس او پی تیار کر کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ہسپتالوں میں نافذ کی جائے تاکہ وہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے موثر طور پر نمٹ سکیں، کمیشن نے نیکٹا کو فوری طور پر متحرک اور فعال بنا کر اسے اپنے مقاصد پر عملدرآمد کرنے ،نیکٹا کے بورڈ آف گورنرز اور ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس منعقد کر کے ادارے کے واضع مقاصد کے حصول کو یقینی بنانے اور مانیٹرنگ کے نظام کے قیام کے ساتھ ساتھ اس کی اردو زبان میں تشہیر کرنے کی سفارش بھی کی ہے، کمیشن نے حکومت بلوچستان کو سرکاری ہسپتالوں کی حالت کو بہتر بنانے ، پولیس کی اصلاح اور تعلیمی اداروں اور مدارس کو تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے، جبکہ سرحدوں کی حفاظت اور کنٹرول کو یقینی بنانے ، سرحدی آمدورفت کو دستاویزی شکل دینے کی سفارش بھی کی ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حرمزئی کا واقعہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں، کمیشن نے ذرائع ابلاغ کو دہشت گردوں کے خیالات کی تشہیر نہ کرنے اور اس کی خلاف ورزی کی صورت میں قانونی کاروائی کرنے کی سفارش بھی کی ہے، کمیشن نے سانحہ کے شہداءکے ورثاءاور زخمیوں کو حکومت بلوچستان کی جانب سے اعلان کردہ معاوضوں کی فوری تقسیم کے عمل کو یقینی بنانے کی ہدایت بھی کی ہے۔ واضح رہے کہ انکوائری کمیشن کی معاونت اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل شہک بلوچ اور عبدالطیف کاکڑ نے کی، جبکہ حکومت بلوچستان کی جانب سے مقرر کردہ فوکل پرسن صوبائی سیکریٹری قانون کلیم اللہ نے حکومت کی جانب سے کمیشن کی معاونت کی۔ ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان امان اللہ کنرانی نے اسلام آباد میں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناءاللہ خان زہری کو کمیشن کی رپورٹ پیش کی۔