قارئین کرام! جنرل راحیل شریف کے حوالے سے قسط وار مضامین کا سلسلہ ختم ہونے والا ہے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور آ چکے ہیں۔ وقتی طور پر آرمی چیف ہاﺅس میں مقیم ہیں۔ تاہم جلد ہی انہیں یہ سرکاری گھر خالی کرنا ہو گا۔ ان کا ایک ذاتی مکان بھی یہاں موجود ہے جو بعض روایات کے مطابق ان کے خاندان نے کرائے پر دے رکھا ہے وہ چاہیں تو یہ گھر بھی خالی کروا سکتے ہیں ورنہ لاہور کے نواحی علاقے برکی میں انہوں نے بہت برس پیشتر اپنے کچھ ذاتی دوستوں کے ہمراہ فارم ہاﺅس کے لئے کچھ زمین خریدی تھی ان میں سے چند ایکڑ زمین جنرل راحیل شریف کے پاس بھی ہے۔ سابق کمانڈر چیف کی حیثیت سے انہیں جو رہائشی پلاٹ ملنا تھے ان میں سے ایک پلاٹ شہدا کے نام وقف کر چکے ہیں لیکن زیادہ بحث طلب امر یہ ہے کہ کیا وہ پاکستان میں رہیں گے یا جس طرح ہم بار بار شروع میں خبریں دے چکے ہیں کہ سعودی عرب کی یہ پیش کش قبول کر لیں کہ وہ 34 اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج کی کمان سنبھالیں جن کے مالی اخراجات سعودی عرب ادا کرے گا اس سے پیشتر کہ جنرل راحیل شریف کے بارے میں کوئی پیش گوئی کی جائے تو ضروری معلوم ہوتا ہے کہ 34 اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج کے بارے میں کچھ معلوم فراہم کر دی جائیں۔
سعودی عرب کی قیادت میں پاکستان سمیت چونتیس اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد تشکیل دینے کے اعلان کے ساتھ ہی بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں۔ مجوزہ اتحاد صرف سنی اکثریتی ممالک کی فوج پر کیوں مشتمل ہے؟ جن ممالک کا فہرست میں تذکرہ ہے انہوں نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے اتحاد باہمی انٹیلی جنس روابط اور مربوط ملٹری آپریشن کی غرض سے تشکیل دیا ہے جس کا مشترکہ آپریشن سنٹر سعودی عرب کے شہر ریاض میں ہوگا۔ اسلامی ممالک کو درپیش شدت پسندی، تخریب کاری اور دہشت گردی کا کسی مسلک سے تعلق ہے نہ کسی گروہ سے۔ امت مسلمہ میں برپا فساد کیلئے افرادی قوت کی اکثریت انہی ممالک سے میسر ہے جسے دہشت گرد تنظیمیں اپنے مفاد کیلئے استعمال کر رہی ہیں۔ کہیں شیعہ سنی باہم متصادم ہیں تو کہیں سنی اپنے ہی ہم مسلکوں کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ شام، عراق، لیبیا اور افغانستان کے علاوہ ایران اس ممکنہ عسکری اتحاد میں شامل نہیں۔ یہ فوجی اتحاد بظاہر دولت اسلامیہ کے قلع قمع کیلئے تشکیل دیا گیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کی ہمسایہ خلیجی ریاستوں میں مشرق وسطیٰ کی جنگ کے شعلے لپک رہے ہیں جن کی حدت محسوس کی جا سکتی ہے۔ یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کیخلاف سعودی عرب اور اس کے اتحادی باقاعدہ فضائی حملے کر رہے ہیں جس کے زمینی اثرات ان ممالک میں گاہے بگاہے ظاہر ہوتے ہیں۔ عالم اسلام کو او آئی سی کے مضبوط پلیٹ فارم کے ذریعے امریکی اور مغربی فوجوں کو مشرق وسطیٰ اور افغانستان سے واپسی کیلئے دباو¿ ڈالنا چاہئے تھا، لیکن ایسا مستقبل قریب میں ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ کوئی غافل آنکھ ہی ان کے وابستہ مفادات سے بے خبر ہو سکتی ہے۔ اسلامی ممالک کے حکمران آج بھی اپنی سلامتی اور اپنے ممالک کے تحفظ کیلئے مغربی ممالک اور امریکہ پر بھروسہ کرتے ہیں جنہیں کروڑوں ڈالر کے ہتھیار اور فوجی سازو سامان کی فروخت کیلئے ان سے بہتر خریدار ملنا فی زمانہ مشکل ہے۔
امت مسلمہ کے اس غیرفطری اتحاد کے نام لیوا ”ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے، نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر“ جیسے غیرعملی نظرئیے کا شکار ہیں۔ امت مسلمہ اپنے ہاتھوں اپنے گلے خود کاٹ رہی ہے۔ القاعدہ، طالبان اور داعش جیسی تنظیموں کی تربیتی، ترغیبی اور معاشی ضروریات اگر یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں پوری ہو بھی رہی ہیں تو مسلمانوں کو قتل کرنے کا جواز وہ پیدا کر چکے ہےں۔ عراق، شام، لیبیا اور افغانستان گزشتہ کئی برسوں سے مسلمانوں ہی کی قتل گاہیں بنے ہوئے ہیں۔ دیگر افریقی ممالک کی طرف نظریں دوڑائیں تو بوکوحرام نے نائیجیریا میں قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اسلامی فوجی اتحاد میں شامل ممالک کی عسکری قوت کا فرداً فرداً جائزہ اور موازنہ کرنا زیرنظر کالم میں ممکن نہیں، لیکن اس فہرست میں باقاعدہ مسلح افواج سے محروم اور جغرافیائی سرحدوں کا متلاشی فلسطین بھی شامل ہے جس کی شمولیت محض علامتی ہے۔ بعض درجن بھر ممالک تو ایسے شامل ہیں جن کے ناموں سے قارئین آگاہ ہی نہیں ہوں گے۔ ان میں سے متعدد کو رسمی فرائض کی ادائیگی کیلئے بھی پکڑ دھکڑ کر نیم تربیت یافتہ فوجی اکٹھے کرنا ہوتے ہیں۔ ان افریقی ممالک سے مسلمان سپاہ اگر سعودی عرب کو میسر ہو بھی جاتے ہیں اور وہ شورش زدہ ممالک میں دولت اسلامیہ کے ساتھ ممکنہ جنگ میں شامل ہوں گے تو ان کے اہل خانہ کس کے رحم و کرم پر ہوں گے؟ جبکہ ان ممالک میں عیسائی آبادی کا تناسب بھی مسلمانوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ کم نہیں!
شام اور عراق کے علاوہ افغانستان اور لیبیا اس فہرست سے خارج ہیں جن کی بے قاعدہ فوج متوازی عسکری قوتوں سے اب باہم دست و گریباں نہیں بلکہ بھگدڑ کی کیفیت میں ہے۔ اسی فہرست میں شامل یمن کی حکومت جلاوطن ہے یا بے وطن؟ جبکہ اسی اتحاد میں شامل نصف درجن ممالک اپنے مجوزہ اتحادی یمن کے ساتھ باقاعدہ حالت جنگ میں ہیں۔ فہرست میں شامل مشرق بعید میں واقع انڈونیشیاءجو بلحاظ آبادی اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، تاحال زیرغور کی کیفیت میں ہے۔ لبنانی قیادت بھی شمولیت پر منقسم ہے۔ اس اتحاد کے سب سے اہم ملک پاکستان کی شمولیت پر دفترخارجہ کے بیان نے ابہامی کیفیت پیدا کر دی تھی جسے حکومتی ترجمان نے لفظوں کے ہیرپھیر سے واضح کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ پاکستان ہی کی طرح لبنان کو بھی شاید ”پیشگی“ اطلاع نہیں دی جا سکی! اس اتحاد کی تشکیل سے قبل ہی اس کے استحکام، بقا اور مستقبل پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، بالخصوص پاکستان اور لبنان کی جانب سے گومگو کی کیفیت سے عسکری اتحاد کی تشکیل پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ لبنان کے وزیرخارجہ نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ان کا ملک اس اتحاد کا حصہ نہیں، لیکن لبنانی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ان کا ملک سعودی اتحاد میں شامل ہوگا۔ لبنان میں حکومتی شخصیات کے بیانات میں تضاد اندرون خانہ اختلافات کا نتیجہ ہے۔ لبنانی وزارت خارجہ کا موقف ہے کہ اتحاد میں شامل کرنے سے پہلے ان سے مشاورت نہیں کی گئی۔ حقیقتاً لبنانی وزیرخارجہ ایران اور شام کی طرف جھکاو¿ رکھتے ہیں اور اس کے برعکس لبنانی وزیراعظم کا وزن سعودی عرب کے پلڑے میں ہے۔ پاکستان کی جہاں اس اتحاد میں مرکزی حیثیت ہے وہیں اندرون پاکستان حکومت کے تمام تر جھکاو¿ کے باوجود اپوزیشن لیڈر عمران خان کہتے ہیں سعودی عرب سے اتحاد کرنا ہے تو پارلیمنٹ میں زیربحث لائیں، فیصلہ متفقہ اور مشترکہ ہونا چاہئے۔ سعودی عرب کی حفاظت کیلئے افواج پاکستان کی سعودی عرب میں تعیناتی پر پارلیمنٹ میں بحث اور فیصلہ بھی عمران کی تحریک پر ہی ہوا تھا جس کے پاکستان پر اقتصادی اثرات نمودار ہوئے۔ عمران خان شاید اکیسویں صدی کے وسط میں رہ رہے ہیں۔ بیرون ملک مقیم آصف زرداری تو بنفس نفیس اپنی مشروط حمایت کیلئے سعودی عرب جا پہنچے، جنہیں سعودی قیادت نے تادم تحریر ملنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ کچھ لو اور دو سے سعودی قیادت کو کوئی سروکار نہیں۔ آصف زرداری کبھی بھی سعودی قیادت کی پسندیدہ شخصیت نہیں رہے، حتیٰ کہ ان کی مرحومہ اہلیہ بینظیربھٹو بھی۔
ایک مکتبہ فکر میں ”کرائے کی جنگیں اور پاکستان آرمی“ موضوع پر بحث و تمحیص جاری ہے، سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا پاکستان کو چونتیس ممالک کے عسکری اتحاد میں شامل ہونا چاہئے؟ پارلیمنٹ میں بحث اور باقاعدہ منظوری یا اس کے بغیر؟ ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ آخر کب تک ہم پرائی آگ میں کود کر اپنے گھر میں آگ اور خون کا کھیل تماشہ دیکھتے رہیں گے؟ سابق صدر آصف زرداری کو سعودی عرب میں پذیرائی نہ ملنے کے ردعمل میں چیئرمین سینٹ رضاربانی ان کے اشارہ ابرو پر برہم ہو گئے اور بعض ممالک کو داعش کیخلاف اسلامی اتحاد میں شامل نہ کرنے پر ”اطمینان بخش“ جواب کی امید میں وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ ان ممالک کو شامل نہ کئے جانے پر سعودی عرب سے تحفظات کا اظہار کریں گے۔ چیئرمین سینٹ اپنے قائدین کی سیاہ کاریوں پر اندرون ملک پردہ ڈالنے اور تحفظ کیلئے تو اپنے مرتبے کا استعمال کر سکتے ہیں، بین الاقوامی معاملات ان کے شریک چیئرمین کی فہم و فراست سے ذرا بلند ہیں۔ ویسے بھی ان معاملات کا تعلق بدعنوانی سے اکٹھے کئے گئے مال و زر کے کثیر انبوہ اور اس کی بحفاظت بیرون ملک ترسیل سے کچھ مختلف ہے۔ بہرحال، اتحاد میں شمولیت کا فیصلہ سیاسی اور عسکری قیادت نے کرنا ہے جو قریباً طے شدہ امر ہے۔ پاکستانی مفادات کا تحفظ خودمختاری اور دیگر ممالک کی عدم مداخلت کو یقینی بنانے میں ہم تاحال ناکام رہے ہیں۔ شام میں جاری خانہ جنگی میں پاکستان نے شام کی خودمختاری کی حمایت کی ہے اور یمن کے قضیئے میں سعودی عرب کے ساتھ اظہار یکجہتی۔ افغانستان کی صورتحال اندرونی معاملہ قرار دئیے جانے کے باوجود پاکستان کے استحکام اور امن کیلئے لازم و ملزوم ہے۔ رہا ایران اور سعودی عرب کا معاملہ، تو گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کا رجحان سعودی عرب کی طرف رہا ہے۔ ایران کی ہمسائیگی اور وابستہ مفادات کی پاکستان کو بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔ سعودی عرب اور ایران کی باہمی مخالفت اور جنگ عرصہ دراز تک سرزمین پاکستان پر لڑی جاتی رہی جب دو مسالک ایک دوسرے کے کشتوں کے پشتے لگاتے رہے جس کی مثال پارہ چنار میں ہوئے بم دھماکے میں بیگناہ اور معصوم شہریوں کی ہلاکتیں ہےں۔ پاکستان کے سعودی عرب کی طرف جھکاو¿ نے ایران کو بعض امور پر بھارت کی طرف مائل کر دیا۔ ماضی قریب تک مسئلہ کشمیر پر واحد آواز ایران کی سنائی دیتی تھی، حتیٰ کہ ایرانی صدر نے بھارت کا دورہ تک منسوخ کر دیا تھا۔ آج بھارت ایرانی بندرگاہ چاہ بحر کے گرد منڈلا رہا ہے۔ ایرانی گیس پائپ لائن بھارت تک پاکستان کے تعاون کے بغیر نہیں پہنچائی جا سکتی۔ پاک ایران تعلقات اتار چڑھاو¿ کی کیفیت میں ہیں۔ پاکستان عملی طور پر اس اتحاد کا حصہ بنتا ہے تو اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے، جس کیلئے ہمیں من حیث القوم تیار رہنا چاہئے۔ افواج پاکستان کا کردار چونتیس ممالک کی افواج میں بہرحال منفرد ہوگا۔ پاکستان کے علاوہ اگر کسی ملک میں دولت اسلامیہ کیخلاف کھڑے ہونے کا دم خم ہے تو وہ ترکی ہے۔ مجوزہ اتحاد کے عملی طور پر متحرک ہونے اور ثمرآور ثابت ہونے کیلئے امت مسلمہ کو تادیر انتظار کرنا ہوگا۔
(جاری ہے)