گڑھی خدا بخش (خصوصی رپورٹ‘ مانیٹرنگ ڈیسک) پیپلزپارٹی کے کوچیئرمین آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو کی دھواں دھار بڑھکوں سے کارکنوں میں جو جوش و خروش پیدا ہوا تھا وہ دونوں رہنماﺅں کے گول مول اعلانات سے ٹھنڈا ہو گیا۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کو خورشیدشاہ کی زیرقیادت مفاہمت پسند گروپ نے ہائی جیک کر لیا ہے اور اپنی مرضی کے فیصلے کرا کر حکومتی رہنماﺅں سے اپنی دوستیاں نبھائی ہیں۔ دونوں رہنماﺅں کیلئے اسمبلیوں میں جانے کا راستہ ذرا کٹھن لگتا ہے کیونکہ اگر حکومت کو اسمبلی میں ان کا آنا پسند ہوا تو مستعفی ہونے والے ارکان کے استعفے بلاچوں وچرا منظور کر لئے جائیںگے اور اگر سوچ اس کے برعکس ہوئی تو استعفوں کی منظوری میں رکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں گی کیونکہ ارکان کا سپیکر کے سامنے خود پیش ہو کر انہیں قائل کرنا ضروری ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنی مرضی سے استعفیٰ دے رہے ہیں۔ ان پر کسی قسم کا دباﺅ نہیں ہے۔ اگر سپیکر کی مرضی نہ ہوئی تو وہ رضاکارانہ والی دلیل شاید قبول نہ کریں کیونکہ دباﺅ صاف نظر آ رہا ہے۔ اگر دونوں اسمبلی میں چلے بھی گئے تو الیکشن ہوتے ہوتے اور اسمبلی میں جا کر حلف اٹھانے کے مرحلہ کی تکمیل تک نصف 2017ءگزر جائے گا‘ پھر ضروری نہیں کہ اسمبلی کا اجلاس بھی ہو رہا ہو کیونکہ اس وقت تک انتخابی مہم عروج پر ہوگی اور اسمبلی کا اجلاس شاید نہ ہو سکے۔ اس طرح نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی تاہم اگر ان کا مقصد حکومت سے بھرپور تعاون ہوا تو ہو سکتا ہے کہ وہ بھی ایک آدھ اجلاس میں شرکت کرنے کے قابل ہو سکیں۔