سید سجاد حسین بخاری
گزشتہ چند دنوں میں پاک فوج اور وزیراعظم کے درمیان ایک خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی پاکستانی میڈیا اور دانشور گزشتہ ساڑھے تین سالوں سے فوج اور حکومت ایک صفحے پر ہیں کے گیت گارہے تھے اور اپوزیشن عمران خان کو سلیکٹڈ کا طعنہ دے رہی تھی پھر یکایک ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کو متنازعہ کس نے اور کیوں بنایا؟ جبکہ تعیناتی سے قبل پاک فوج کے سربراہ اور وزیراعظم کے درمیان فوج میں کی جانے والی تعیناتیوں پر مکمل ہم آہنگی کے بعد آئی ایس پی آر نے تمام ناموں کا اعلان کیا جسے پورے ملک میں سراہاگیا۔ تعیناتیوں کے اعلان کے بعد دودن میں سوشل میڈیا پر ایک مہم کے ذریعے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے خط کے تاخیری اجرا پر مختلف باتیں ہونے لگیں اور پھر میڈیا پر ایک یلغار دیکھنے کو ملی جس سے دنیابھر میں یہ تاثر دیاگیا کہ فوج اور عمران خان میں دوریاں پیداہوگئی ہیں۔ عقل کے اندھوں کو شاید یہ احساس نہیں ہے کہ فوج ہی واحد ادارہ ہے جو ملکی بقا اور سالمیت کی ضمانت ہے۔ مجھے یہ کہنے میں رتی برابر بھی پرواہ نہیں کہ اس وقت ہماری فوج پر جتنا بین الاقوامی پریشر ہے پہلے کبھی نہیں تھا اور گزشتہ دہائی میں دہشتگردی میں جتنے جانوں کے نذرانے پاک فوج نے دیئے ہیں اس کی مثال دنیابھر کی فوج میں نہیں ملتی اور آج بھی پاکستان فوج واحد ادارہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان متحد ہے اور آئی ایس آئی وہ ادارہ ہے جس کی وجہ سے ہمارانیوکلیئر پروگرام اور سرحدیں محفوظ ہیں۔ پاکستان کی آئی ایس آئی کو دنیا تسلیم کرتی ہے اور نامساعد حالات اور وسائل کی کمی کے باوجود اس وقت سی آئی اے‘ را‘کے جی بی‘ موساد اور ایم آئی سِکس تک کی ایجنسیاں کانپتی ہیں۔ ہم نے اسی کے سربراہ کی تعیناتی کو مسئلہ بنادیا کیوں؟
موجودہ حکومت شاید بھول چکی ہے کہ پاک فوج نے جتنی ان کی مدد کی ہے تاریخ میں آج تک کسی سیاسی جماعت کی نہیں کی گئی۔ پوری قوم کو یاد ہے معیشت اور تعلقات کی بحالی کا معاملہ آیا تو آرمی کے سربراہ کو مشرق وسطیٰ اور مڈل ایسٹ کے ملکوں کے دورے کرنے پڑے جس سے موجودہ حکومت کو3ارب ڈالر اور تیل ادھار پر ملنا شروع ہوا۔ ملکی تاجر ٹیکس نیٹ ورک میں نہیں آرہے تھے تو براہ راست آرمی چیف نے تاجروں کے نمائندوں سے مذاکرات کئے اور انہیں سمجھایا کہ آپ ٹیکس نیٹ میں آئیں تاکہ ملکی معیشت بہتر ہو۔ میں نام نہیں لیتا مگر متعدد اداروں کی حالت ٹھیک کرنے کیلئے پاک فوج سے مدد مانگی گئی اور پھر اپوزیشن نے پہلی مرتبہ فوج کے افسران کے نام لے کر انہیں کوسا۔ حتیٰ کہ اسلام آبادہائی کورٹ میں مسلم لیگ ن نے سابق سربراہ آئی ایس آئی کے نام کے ساتھ درخواست دے دی۔ نیب میں گرفتاریوں کو اپوزیشن نے فوج کا نام لیا یعنی حکومت کی کارکردگی پر فوج کو رگڑا ملا۔ اس حد تک جانے کے باوجود ایک تعیناتی پر حکومتی نابالغوں اور عقل کے اندھوں نے تنازع کھڑا کردیا نہ سوچا نہ سمجھا نہ دیکھا نہ بھالا جو منہ میں آیا کہتے گئے کہ وزیراعظم کا اختیار ہے فوج کو سول حکومت کے ماتحت ہونا چاہئے۔
وزیراعظم سمری منگوائیں تین یا پانچ نام ہونے چاہئیں پھر وزیراعظم ان میں سے ایک نام کا انتخاب کریں گے۔ اس عمل سے جمہوریت مضبوط اور پروان چڑھے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے ذریعے کیاگیا ہے اور اس میں چند خوشامد پرست وزیرشامل ہیں جنہوں نے بظاہر وزیراعظم کے سامنے اپنے نمبر بنانے کی کوشش کی مگر وہ یہ بھول گئے کہ یہ خوشامد انہیں کتنی مہنگی پڑسکتی ہے۔ وزیراعظم کی بابت ایک کالم نگار صحیح کہتے ہیں کہ وہ کانوں کے کچے ہیں کس کے کہنے پر انہوں نے سیرتؐ کی محفل میں خالد بن ولید کی معطلی کی بات کردی اور ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کو متنازعہ کیا؟۔یاد رکھیں پاک آرمی واحد ادارہ ہے جس کی پشت پر ہمیشہ قوم کھڑی ہوتی ہے اور قوم حکومت کے بجائے فوج کے ساتھ ہے اور رہے گی۔ کمال یہ ہے کہ 14اکتوبر کو مولانا فضل الرحمن نے بھی فوج کے حق میں بیان دیا حالانکہ گزشتہ سال انہوں نے نام لیکر فوج پر الزام لگائے تھے مگر ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر فوج کے ساتھ ہیں کہ اسے متنازعہ نہ بنایا جائے۔ جس اپوزیشن نے ہمیشہ فوج پر عمران خان کی سرپرستی کا الزام لگایا آج وہی اپوزیشن بھی فوج میں تعیناتیوں پر فوج کے ساتھ کھڑی ہوگئی ہے مگر حکومتی وزیروں اور مشیروں کی عقل گھاس چرنے گئی ہوئی ہے۔ کاش کہ حکومتی اہلکاروں کو اس خطے کی صورتحال کا اندازہ ہوتا کہ افغانستان کی وجہ سے پورے جنوبی ایشیاء میں کتنی صورتحال سنجیدہ اور حساس نوعیت کی ہو چکی ہے اور پاکستان کے مسائل میں کس قدر اضافہ ہو چکا ہے۔ امریکہ اس وقت زخمی شیر کی طرح بپھر چکا ہے کیونکہ اسے کہیں بھی منجی ڈالنے کی جگہ نہیں دی جارہی ہے۔ آزاد ریاستوں میں وہ کچھ امید لگا رہا تھا تو روس نے 13اکتوبر کو واضح اعلان کیا ہے کہ کوئی بھی آزاد ریاست امریکہ کو اڈے نہیں دے گی۔ خطے میں نیا اتحاد بن رہا ہے۔ تہران اور ماسکو میں افغانستان کی بابت کانفرنس ہو رہی ہے۔
ایرانی فوج کے سربراہ نے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا ہے۔ بھارت بے بس اور ہارے ہوئے جواری کی طرح راستہ ڈھونڈ رہا ہے اور پاکستان کی صورتحال اس خطے میں نہ ہی اور نہ شی کی ہے کیونکہ پاکستان نہ امریکہ کو گڈ بائی کہہ سکتا ہے اور نہ ہی نئے بلاک میں شامل ہوتا ہے۔ ہم لوگ دو کشتیوں کے سوار ہیں جس کے انجام سب کو پتہ ہے۔ اتنی بڑی پریشانی کے عالم میں ایک ملتانی رکن اسمبلی نے ایک ٹی وی پروگرام میں فرمایا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی صرف وزیراعظم کا حق ہے۔ یہ کوئی بات ہے کہ بندہ یہ سوچے کہ میں کس ادارے کے خلاف بات کر رہا ہوں جس نے مجھے نااہلیت سے بچایا تھا اور انہیں خطے کی موجودہ صورتحال کا احساس نہیں ہے کہ پاک فوج کس قدر چومکھی جنگ لڑ رہی ہے۔ ہمارے وزیروں اور مشیروں نے اس ایسی توپ کا کام کیا ہے جو چلانے والے پر بیک فائر کرتی ہے۔ کاش کہ انہیں چار لفظ آتے ہوں جس سے یہ معاملے کی حسایت کو سمجھ سکیں۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭