لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر، سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اداروں کا وقار تلقین کرنے سے نہیں، ایکشن لینے سے بحال ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ سے درخواست ہے جو کوئی بھی کسی جج، بنچ یا اس کے سربراہ کا حکم نہ مانے تو اسے قانون اور ضابطے کے مطابق سخت سزا دی جائے۔ جسٹس کھوسہ کو پانامہ کیس روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے کے فیصلے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے اس حکم پر من و عن عملدرآمد ہونا چاہئے کہ عدالتی کارروائی باہر بیان نہ کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ چین سی پیک سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں مزید سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ وہ دنیا کی اکانومی کا نقشہ بدل رہا ہے۔ تمام بڑے بڑے سیاستدانوں، بیورو کریٹس، کاروباری حضرات اور صنعت کاروں کو تجویز دیتا ہوں کہ ایک فہرست مرتب کر کے چین کو بھجوائیں، اس میں مطالبہ کریں کہ دنیا کے فلاں فلاں شہروں میں انہیں ایک ایک گھر لے کر دیں، ان کے بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی برداشت کریں اور یہ بھی مطالبہ کریں کہ پاکستان میں 43 فیصد آبادی جو غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے اسے اوپر لے کر آئیں۔ ملک یا اپنی دات کے لئے چین سے جو مانگ سکتے ہیں، مانگ لیں کیونکہ اس نے سی پیک منصوبہ بنایا ہے اور اسے کامیاب دیکھنا چاہتا ہے۔ اسلام آباد میں گھریلو ملازمہ پر تشدد کے واقعے پر چیف جسٹس آف پاکستان کے سو موٹو نوٹس لینے پر ضیا شاہد نے کہا کہ خوش آئند بات ہے کہ ابھی ہمارے پاس ایسے جسٹس موجود ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا واقعی اس گھریلو ملازمہ بچی کے والد نے فی سبیل اللہ معاف کر دیا، موجودہ عدل و انصاف کے نظام میں اگر اس کا کوئی قتل بھی ہو جاتا تو وہ معاف کر دیتا کیونکہ وہ غریب ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ملک سے یہ تاثر ختم ہونا چاہئے کہ زور آور اور بالادست کے سامنے کوئی قانون یا ضابطہ اخلاق نہیں ہے۔ ایسے صرف 2 فیصد لوگ ہیں، باقی ساری ان کی عوام ہے۔ جناح ہسپتال میں مریضہ کی ہلاکت کے واقعے پر انہوں نے کہا کہ ارباب اختیار بتائیں کہ کیا ایم ایس کو معطل کر کے ہسپتالوں میں بیڈز کی تعداد پوری ہو جائے گی۔ آبادی کے تناسب کے حساب سے ہسپتالوں کا نظام بہتر کرنے کی کوئی بات نہیں کرتا، ایک ایم ایس پر ڈنڈا لے کر چڑھ جانے سے کیا ہو گا؟ اگر لاہور زندہ لوگوں کا شہر ہوتا تو مذہبی جماعتوں کے جلوسوں کے بجائے احتجاج و مظاہرے اس پر ہوتے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے 34 میں سے 17 اضلاع میں نئے ہسپتال تعمیر کئے جائیں گے، اب تک ان پر کیوں کام نہیں شروع ہوا۔ 4 ماہ پہلے وزیراعظم کے ساتھ ایڈیٹرز کی ٹیم نے ملاقات کی تھی، انہوں نے احکامات دیئے تھے کہ 17 نئے ہسپتال شروع کئے جائیں اور موجودہ کی گنجائش بڑھائی جائے۔ اراکین اسمبلی ایوان میں آواز کیوں نہیں اٹھاتے کہ انہیں نئے ہسپتال بنانے اور موجودہ کی حالت زار بہتر کرنے کے لئے اتنی رقم درکار ہے؟ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سے درخواست ہے کہ ایم ایس کو معطل کر کے اچھا کیا لیکن جب بیڈ نہیں ہوں گے تو آئندہ کیا کریں گے۔ ایسی خبروں سے بیڈز کی تعداد نہیں بڑھے گی۔ عملی اقدامات کی ضرورت ہے جبکہ میری معلومات کے مطابق وزیراعلیٰ نے فنڈز بھی جاری کر دیئے ہیں توپھر نئے ہسپتال کیوں نہیں شروع ہو رہے؟۔ انہوں نے کہا کہ سلمان تاثیر دوست تھے، ان سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ شیخوپورہ جانے پر بھی ان سے کہا تھا کہ آپ ان معاملات میں نہ پڑیں۔ اب ان کے صاحبزادے سے درخواست کرتا ہوں کہ محتاط رویہ اپنائیں، ایک المیہ دیکھ چکے، اب کیا دوبارہ دہرانا چاہتے ہیں؟ علماءکونسل سے بھی درخواست ہے کہ ملک میں پہلے ہی بہت مسائل ہیں، ان کو الجھانے کے بجائے سلجھانے کی کوشش کریں۔ اسمبلیوں میں بیٹھ کر ماہرانہ سطح پر کوئی درمیانی راستہ نکالیں اور اتفاق رائے کریں۔ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت نے کبھی اس پر مظاہرہ نہیں کیا کہ لوگ ہسپتالوں کے باہر کیوں سوتے ہیں؟ تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے کہا ہے کہ پانامہ عوام کا مقدمہ ہے، اس میں وزیراعظم اور ان کے خاندان پر منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔ اگر اس پر بات نہیں کر سکتے تو مقدمے کو فوجی عدالت میں پیش کر دیں۔ لوکل عدالت ہو تو اس کی رپورٹ باہر آ ہی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عوام کے پیسوں کی چوری کا مقدمہ ہے، سیاسی پارٹی ہونے کی حیثیت سے جج صاحبان کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی مطمئن کرنے کی ذمہ داری ہے۔ پی ٹی آئی نے پانامہ مقدمہ عدالت، پارلیمانی اور عوام کے سامنے رکھا ہوا ہے۔ ملک میں گورننس و کرپشن پر بات ہونا بند ہو گئی تھی، عمران خان نے عوام میں احتساب کا شعور اجاگر کیا۔ ملکی نہیں یہ بین الاقوامی ایشو ہے۔ خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ میاں صاحب فکر نہ کریں، لوگ بھول جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس میں بھارت کے کاروباری جبکہ پاکستان کے سیاستدانوں بلکہ وزیراعظم کا نام آیا ہے۔ وزیراعظم سے احتساب شروع ہو تو معلوم ہو گا کہ ٹیکس ریفارمز کمیٹی کے سربراہ عثمان سیف اللہ کی دنیا میں سب سے زیادہ آف شور کمپنیاں ہیں۔ چیف رپورٹر خبریں گروپ طلال اشتیاق نے کہا ہے کہ جناح ہسپتال واقعہ پر صرف ایم ایس کو معطل کرنا کافی نہیں، سیکرٹری ہیلتھ اور وزیر صحت سلمان رفیق کو بھی جوابدہ ہونا چاہئے۔ ایک مریضہ کی ہلاکت کے بعد باقی معاملات بھی انتہائی افسوسناک اور تشویشناک ہے۔ ایک بیڈ پر 3,3 مریض بڑے ہیں۔ سلمان رفیق نے وزیر بننے کے بعد ایک بار بھی کسی ہسپتال کا دورہ نہیں کیا۔ مریضہ کی ہلاکتوں کی ذمہ داری پنجاب حکومت کو جاتی ہے۔ گزشتہ 6,5 ماہ سے کسی ہسپتال میں بیڈ کی تعداد نہیں بڑھائی گئی، موجودہ بیڈز کی بھی یہ صورتحال ہے کہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتے ہیں۔ نمائندہ چینل ۵ ایچ آر قادری نے کہا ہے کہ گزشتہ روز لاہور میں اسلام بچاﺅ مارچ نکالا گیا، مختلف مذہبی جماعتوں کی جانب سے مختلف علاقوں میں ریلیاں نکالی گئیں۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ مارچ شام، برما اور کشمیر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف ہے۔ عالمی سطح پر یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ مسلمان متحد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی جماعتوں کی ریلیوں، جلوس اور مارچ کے باعث ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا تھا۔