لاہور (خصوصی رپورٹ)ملک میں دودھ دینے والے 63 لاکھ جانور ہیں یہ جانور سالانہ 35 سے 40 ارب لیٹر دودھ دیتے ہیں پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن ہم دنیا میں خراب مضر صحت اور جعلی دودھ بنانے والی سب سے بڑی قوم بھی ہیں۔پاکستان میں دودھ کی چار قسمیں دستیاب ہیں پہلی قسم لوز ملک یا گوالوں کا دودھ ہے یہ دودھ کل پیداوار کا 93 فیصد ہے ملک کی اکثریت یہ دودھ استعمال کرتی ہے دوسری قسم ٹیٹرا پیک دودھ ہے یہ دودھ گتے کے ایسے ڈبوں میں فروخت ہوتا ہے جن کی اندرونی سائیڈ پر دھات کی باریک تہہ چڑھی ہوتی ہے یہ دودھ دو سے تین ماہ تک قابل استعمال ہوتا ہے تیسری قسم بوتلوں اور پلاسٹک کے لفافوں میں دستیاب دودھ ہے یہ دودھ دو سے تین دن تک استعمال کیا جا سکتا ہے ملک کے لاکھوں شہری یہ دودھ استعمال کرتے ہیں اور چوتھی قسم خشک دودھ ہے یہ دودھ سال چھ مہینے تک استعمال ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے کروڑوں شہری یہ دودھ چائے میں استعمال کرتے ہیں مائیں بچوں کو خشک دودھ پلاتی ہیں اور پاکستان کی زیادہ تر بیکریوں اور مٹھائیوں میں بھی یہ خشک دودھ استعمال ہوتا ہے آپ یہ سن کر حیران ہو جائیں گے دودھ کی یہ چاروں اقسام مضر صحت اور انسانوں کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔تازہ دودھ زیادہ سے زیادہ دو سے تین گھنٹے محفوظ رہتا ہے ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے لیے دودھ دور دراز علاقوں اور مضافات سے لایا جاتا ہے ۔ لاہور اور راولپنڈی کی مثال لیجیے لاہور شہر کے لیے اوکاڑہ چشتیاں قصور جھنگ اور وزیر آباد سے دودھ آتا ہے جب کہ راولپنڈی کے لیے جہلم اور سرائے عالمگیر سے دودھ لایا جاتا ہے۔ دودھ کے بیوپاری گوالوں سے دودھ لیتے ہیں چھوٹے بڑے ٹینکرز میں بھرتے ہیں اور یہ دودھ بڑے شہروں کو سپلائی کر دیا جاتا ہے بھینس سے انسانی ہونٹوں تک دودھ میں دو مرتبہ انتہائی خوفناک ملاوٹ ہوتی ہے دودھ میں پہلی ملاوٹ گوالہ کرتا ہے یہ زیادہ اور فوری دودھ حاصل کرنے کے لیے بھینسوں کو ہارمون کے انجکشن لگاتا ہے یہ انجکشن خواتین کو ڈلیوری کے دوران لگائے جاتے ہیں اور یہ میڈیکل اسٹورز سے عام مل جاتے ہیں یہ سستے بھی ہوتے ہیں یہ انجکشن جوں ہی بھینس کو لگایا جاتا ہے یہ فورا دودھ دے دیتی ہے یہ دودھ مقدار میں 20 سے 30 فیصد زیادہ بھی ہوتا ہےیہ ہارمون بچوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں گوالے چھوٹی مشینوں کی مدد سے دودھ سے کریم نکال لیتے ہیں یہ اس کریم کا مکھن اور دیسی گھی بناتے ہیں اور مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں دودھ کریم کے بعد پتلا ہو جاتا ہے۔ گوالے پتلے پن کو چھپانے کے لیے دودھ میں ڈیٹرجنٹ پاڈر (سرف) ڈال دیتے ہیںڈیٹرجنٹ دودھ کو گاڑھا بھی کر دیتا ہے اور یہ اس میں جھاگ بھی پیدا کر دیتا ہے یہ لوگ سرف کی کڑواہٹ ختم کرنے کے لیے دودھ میں بعد ازاں بلیچنگ پاڈر ڈالتے ہیں بلیچنگ پاڈر دودھ کو ذائقے دار بھی بنا دیتا ہے اور اس میں چمک بھی پیدا کر دیتا ہے یہ دودھ گوالوں سے بیوپاریوں کے پاس آتا ہےبیوپاری اس میں یوریا کھاد ہائیڈروجن پر آکسائیڈ بورک پاڈر پنسلین ایلومینیم فاسفیٹ اور فارملین ڈال دیتے ہیں یہ کیمیکل اینٹی بائیوٹک بھی ہیں اور یہ پریزرویٹوز بھی ہیں یہ دودھ کو خراب ہونے سے بچاتے ہیں بیوپاری یہ دودھ ہوٹلوں چائے خانوں ریستورانوں دودھ دہی کی دکانوں اسٹورز مٹھائی اور بسکٹ بنانے والے کارخانوں تک پہنچاتے ہیں یہ دودھ ڈورٹو ڈور بھی پہنچتا ہے یہ جب ہمارے ہونٹوں تک پہنچتا ہے تو اس میں 20 کیمیکل مل چکے ہوتے ہیں اور یہ صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہو چکا ہوتا ہے۔ یہ وہ 93فیصد دودھ ہے جو ملک کے زیادہ تر لوگ استعمال کرتے ہیں ہم اب ٹیٹرا پیک بوتل لفافوں اور خشک دودھ کی طرف آتے ہیں یہ تینوں بھی انتہائی خطرناک ہیں۔ ٹیٹرا پیک کے لیے دودھ کو 135 سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے یہ درجہ حرارت دودھ کی غذائیت ختم کر دیتا ہے یہ طریقہ کار دودھ کی لائف تو بڑھا دیتا ہے لیکن دودھ اس کے بعد دودھ نہیں رہتا یہ سفید پانی بن جاتا ہے کمپنیاں اسے دوبارہ دودھ کی شکل دینے کے لیے اس میں خشک دودھ پام آئل اور سبزیوں کا تیل ملا دیتی ہیں یہ ملاوٹ دل کے امراض اور بلڈ پریشر کا باعث بنتی ہے دوسرے نمبر پر بوتل اور لفافے کا دودھ آتا ہے۔ یہ دودھ 85 سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے اور یہ دو سے تین دن تک قابل استعمال ہوتا ہے لیکن کیمیکل پریزرویٹوز اور ہارمون ان میں بھی ہوتے ہیں یہ نہ ہوں تو یہ دودھ پاکستان جیسے گرم ملک میں جلد خراب ہو جائے لہذ دودھ فروش گوالے بیوپاری اور کمپنیاں دودھ میں کیمیکل ضرور ڈالتی ہیںپیچھے رہ گیا خشک دودھ یہ دودھ انتہائی مضر صحت بھی ہوتا ہے اور یہ دودھ دودھ بھی نہیں ہوتا یہ پاڈر مِلک اور کیمیکلز کا مرکب ہوتاہے کمپنیاں اس مرکب میں خشک دودھ پام آئل چینی اور چند نامعلوم کیمیکل ملاتی ہیں اور خوبصورت پیکنگ میں مارکیٹ میں بیچ دیتی ہیں یہ دودھ ٹی وائیٹنر کہلاتا ہے یہ کالی چائے کو سفید بناتا ہے لیکن یہ سفیدی انسانی جسم کے کس کس حصے کو داغدار بناتی ہے آپ تصور نہیں کر سکتے۔ یہ خرابیاں صرف دودھ تک محدود نہیں ہیں یہ بیکری کی مصنوعات مٹھائیوں ٹافیوں اور چاکلیٹ تک جاتی ہیں یہ تمام مصنوعات دودھ سے بنتی ہیں اور ہمارے دودھ میں 20 کیمیکل ہوتے ہیں یہ 20 کیمیکل بیکریوں مٹھائیوں کی دکانوں اور چاکلیٹ فیکٹریوں تک پہنچ کر 40 ہو جاتے ہیں ان میں مصنوعی رنگ مصنوعی خوشبو پلاسٹک دھاتیں اور گندہ پانی بھی شامل ہو جاتا ہے چنانچہ زہر میں زہر مل کریہ بڑا زہر بن جاتا ہے۔ آپ ایک برانڈ کا چاکلیٹ دوبئی سے خریدتے ہیں تو یہ پاکستان پہنچتے پہنچتے پگھل جاتا ہے لیکن آپ جب وہ چاکلیٹ پاکستان سے خریدتے ہیں تو وہ دھوپ میں بھی خراب نہیں ہوتاآپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا دنیا بھر میں چاکلیٹس کو فریج میں رکھا جاتاہے لیکن ہمارے چاکلیٹس ریکس میں ہوتے ہیںکیونکہ ہمارے چاکلیٹس خالص نہیں ہوتے ان میں تازہ دودھ کی جگہ سبزیوں کا تیل اور جانوروں کی چربی شامل ہوتی ہے اور یہ وہ فیٹس ہیں جو انسانی جسم کے درجہ حرارت پر نہیں پگھلتے چنانچہ یہ بچوں کو وقت سے پہلے جوان بھی کر دیتے ہیں اور بیمار بھی ۔ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے ہم دودھ بیکری اور خوراک کے نام پر زہر کھا رہے ہیں یہ زہر 65 برسوں سے ہماری رگوں میں اتر رہا ہے ہماری تین نسلیں اس زہر کا نشانہ بن چکی ہیں۔ ایک زہر کی نشاندہی کر دی باقی 40 زہر ابھی تک پوشیدہ ہیں یہ راز بھی جس دن کھلے گا یہ پوری قوم کو سکتے میں لے جائے گا۔ ہمارے ملک میں بکریاں مرغیاں اور گدھے ہم انسانوں سے بہتر خوراک کھا رہے ہیںیہ خالص چارہ کھاتے ہیں یہ ہم سے زیادہ صحت مند ہیں یہ ہم سے زیادہ فعال ہیں جب کہ ہم گدھوں سے زیادہ گندی اور خوفناک خوراک کھا رہے ہیں۔
لاہور (خصوصی رپورٹ)ملک میں دودھ دینے والے 63 لاکھ جانور ہیں یہ جانور سالانہ 35 سے 40 ارب لیٹر دودھ دیتے ہیں پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن ہم دنیا میں خراب مضر صحت اور جعلی دودھ بنانے والی سب سے بڑی قوم بھی ہیں۔پاکستان میں دودھ کی چار قسمیں دستیاب ہیں
باقی صفحہ4بقیہ نمبر21
پہلی قسم لوز ملک یا گوالوں کا دودھ ہے یہ دودھ کل پیداوار کا 93 فیصد ہے ملک کی اکثریت یہ دودھ استعمال کرتی ہے دوسری قسم ٹیٹرا پیک دودھ ہے یہ دودھ گتے کے ایسے ڈبوں میں فروخت ہوتا ہے جن کی اندرونی سائیڈ پر دھات کی باریک تہہ چڑھی ہوتی ہے یہ دودھ دو سے تین ماہ تک قابل استعمال ہوتا ہے تیسری قسم بوتلوں اور پلاسٹک کے لفافوں میں دستیاب دودھ ہے یہ دودھ دو سے تین دن تک استعمال کیا جا سکتا ہے ملک کے لاکھوں شہری یہ دودھ استعمال کرتے ہیں اور چوتھی قسم خشک دودھ ہے یہ دودھ سال چھ مہینے تک استعمال ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے کروڑوں شہری یہ دودھ چائے میں استعمال کرتے ہیں مائیں بچوں کو خشک دودھ پلاتی ہیں اور پاکستان کی زیادہ تر بیکریوں اور مٹھائیوں میں بھی یہ خشک دودھ استعمال ہوتا ہے آپ یہ سن کر حیران ہو جائیں گے دودھ کی یہ چاروں اقسام مضر صحت اور انسانوں کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔تازہ دودھ زیادہ سے زیادہ دو سے تین گھنٹے محفوظ رہتا ہے ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے لیے دودھ دور دراز علاقوں اور مضافات سے لایا جاتا ہے ۔ لاہور اور راولپنڈی کی مثال لیجیے لاہور شہر کے لیے اوکاڑہ چشتیاں قصور جھنگ اور وزیر آباد سے دودھ آتا ہے جب کہ راولپنڈی کے لیے جہلم اور سرائے عالمگیر سے دودھ لایا جاتا ہے۔ دودھ کے بیوپاری گوالوں سے دودھ لیتے ہیں چھوٹے بڑے ٹینکرز میں بھرتے ہیں اور یہ دودھ بڑے شہروں کو سپلائی کر دیا جاتا ہے بھینس سے انسانی ہونٹوں تک دودھ میں دو مرتبہ انتہائی خوفناک ملاوٹ ہوتی ہے دودھ میں پہلی ملاوٹ گوالہ کرتا ہے یہ زیادہ اور فوری دودھ حاصل کرنے کے لیے بھینسوں کو ہارمون کے انجکشن لگاتا ہے یہ انجکشن خواتین کو ڈلیوری کے دوران لگائے جاتے ہیں اور یہ میڈیکل اسٹورز سے عام مل جاتے ہیں یہ سستے بھی ہوتے ہیں یہ انجکشن جوں ہی بھینس کو لگایا جاتا ہے یہ فورا دودھ دے دیتی ہے یہ دودھ مقدار میں 20 سے 30 فیصد زیادہ بھی ہوتا ہےیہ ہارمون بچوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں گوالے چھوٹی مشینوں کی مدد سے دودھ سے کریم نکال لیتے ہیں یہ اس کریم کا مکھن اور دیسی گھی بناتے ہیں اور مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں دودھ کریم کے بعد پتلا ہو جاتا ہے۔ گوالے پتلے پن کو چھپانے کے لیے دودھ میں ڈیٹرجنٹ پاڈر (سرف) ڈال دیتے ہیںڈیٹرجنٹ دودھ کو گاڑھا بھی کر دیتا ہے اور یہ اس میں جھاگ بھی پیدا کر دیتا ہے یہ لوگ سرف کی کڑواہٹ ختم کرنے کے لیے دودھ میں بعد ازاں بلیچنگ پاڈر ڈالتے ہیں بلیچنگ پاڈر دودھ کو ذائقے دار بھی بنا دیتا ہے اور اس میں چمک بھی پیدا کر دیتا ہے یہ دودھ گوالوں سے بیوپاریوں کے پاس آتا ہےبیوپاری اس میں یوریا کھاد ہائیڈروجن پر آکسائیڈ بورک پاڈر پنسلین ایلومینیم فاسفیٹ اور فارملین ڈال دیتے ہیں یہ کیمیکل اینٹی بائیوٹک بھی ہیں اور یہ پریزرویٹوز بھی ہیں یہ دودھ کو خراب ہونے سے بچاتے ہیں بیوپاری یہ دودھ ہوٹلوں چائے خانوں ریستورانوں دودھ دہی کی دکانوں اسٹورز مٹھائی اور بسکٹ بنانے والے کارخانوں تک پہنچاتے ہیں یہ دودھ ڈورٹو ڈور بھی پہنچتا ہے یہ جب ہمارے ہونٹوں تک پہنچتا ہے تو اس میں 20 کیمیکل مل چکے ہوتے ہیں اور یہ صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہو چکا ہوتا ہے۔ یہ وہ 93فیصد دودھ ہے جو ملک کے زیادہ تر لوگ استعمال کرتے ہیں ہم اب ٹیٹرا پیک بوتل لفافوں اور خشک دودھ کی طرف آتے ہیں یہ تینوں بھی انتہائی خطرناک ہیں۔ ٹیٹرا پیک کے لیے دودھ کو 135 سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے یہ درجہ حرارت دودھ کی غذائیت ختم کر دیتا ہے یہ طریقہ کار دودھ کی لائف تو بڑھا دیتا ہے لیکن دودھ اس کے بعد دودھ نہیں رہتا یہ سفید پانی بن جاتا ہے کمپنیاں اسے دوبارہ دودھ کی شکل دینے کے لیے اس میں خشک دودھ پام آئل اور سبزیوں کا تیل ملا دیتی ہیں یہ ملاوٹ دل کے امراض اور بلڈ پریشر کا باعث بنتی ہے دوسرے نمبر پر بوتل اور لفافے کا دودھ آتا ہے۔ یہ دودھ 85 سینٹی گریڈ تک ابالا جاتا ہے اور یہ دو سے تین دن تک قابل استعمال ہوتا ہے لیکن کیمیکل پریزرویٹوز اور ہارمون ان میں بھی ہوتے ہیں یہ نہ ہوں تو یہ دودھ پاکستان جیسے گرم ملک میں جلد خراب ہو جائے لہذ دودھ فروش گوالے بیوپاری اور کمپنیاں دودھ میں کیمیکل ضرور ڈالتی ہیںپیچھے رہ گیا خشک دودھ یہ دودھ انتہائی مضر صحت بھی ہوتا ہے اور یہ دودھ دودھ بھی نہیں ہوتا یہ پاڈر مِلک اور کیمیکلز کا مرکب ہوتاہے کمپنیاں اس مرکب میں خشک دودھ پام آئل چینی اور چند نامعلوم کیمیکل ملاتی ہیں اور خوبصورت پیکنگ میں مارکیٹ میں بیچ دیتی ہیں یہ دودھ ٹی وائیٹنر کہلاتا ہے یہ کالی چائے کو سفید بناتا ہے لیکن یہ سفیدی انسانی جسم کے کس کس حصے کو داغدار بناتی ہے آپ تصور نہیں کر سکتے۔ یہ خرابیاں صرف دودھ تک محدود نہیں ہیں یہ بیکری کی مصنوعات مٹھائیوں ٹافیوں اور چاکلیٹ تک جاتی ہیں یہ تمام مصنوعات دودھ سے بنتی ہیں اور ہمارے دودھ میں 20 کیمیکل ہوتے ہیں یہ 20 کیمیکل بیکریوں مٹھائیوں کی دکانوں اور چاکلیٹ فیکٹریوں تک پہنچ کر 40 ہو جاتے ہیں ان میں مصنوعی رنگ مصنوعی خوشبو پلاسٹک دھاتیں اور گندہ پانی بھی شامل ہو جاتا ہے چنانچہ زہر میں زہر مل کریہ بڑا زہر بن جاتا ہے۔ آپ ایک برانڈ کا چاکلیٹ دوبئی سے خریدتے ہیں تو یہ پاکستان پہنچتے پہنچتے پگھل جاتا ہے لیکن آپ جب وہ چاکلیٹ پاکستان سے خریدتے ہیں تو وہ دھوپ میں بھی خراب نہیں ہوتاآپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا دنیا بھر میں چاکلیٹس کو فریج میں رکھا جاتاہے لیکن ہمارے چاکلیٹس ریکس میں ہوتے ہیںکیونکہ ہمارے چاکلیٹس خالص نہیں ہوتے ان میں تازہ دودھ کی جگہ سبزیوں کا تیل اور جانوروں کی چربی شامل ہوتی ہے اور یہ وہ فیٹس ہیں جو انسانی جسم کے درجہ حرارت پر نہیں پگھلتے چنانچہ یہ بچوں کو وقت سے پہلے جوان بھی کر دیتے ہیں اور بیمار بھی ۔ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے ہم دودھ بیکری اور خوراک کے نام پر زہر کھا رہے ہیں یہ زہر 65 برسوں سے ہماری رگوں میں اتر رہا ہے ہماری تین نسلیں اس زہر کا نشانہ بن چکی ہیں۔ ایک زہر کی نشاندہی کر دی باقی 40 زہر ابھی تک پوشیدہ ہیں یہ راز بھی جس دن کھلے گا یہ پوری قوم کو سکتے میں لے جائے گا۔ ہمارے ملک میں بکریاں مرغیاں اور گدھے ہم انسانوں سے بہتر خوراک کھا رہے ہیںیہ خالص چارہ کھاتے ہیں یہ ہم سے زیادہ صحت مند ہیں یہ ہم سے زیادہ فعال ہیں جب کہ ہم گدھوں سے زیادہ گندی اور خوفناک خوراک کھا رہے ہیں۔