کرنل (ر) عادل اختر
بیسوی صدی کے آغاز میں ہندوستان میں سیاسی بیداری بڑھی تو آزادی کی تحریکوں کا آغاز ہوا اس زمانے میں کراچی کے رہنے والے ایک نوجوان وکیل محمدعلی جناح نے اپنے سیاسی سفرکا آغاز کیا تھا۔ انہوں نے اپنے سفر کا آغاز کانگرس سے کیا وہ ایک غیر متعصب انسان تھے۔ انہیں ہندومسلم اتحاد کا سفیر کہا گیا لیکن طویل عرصہ سیاست کرنے کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ ہندوبہت تنگ نظر اور متعصب ہیں۔ ان کے دل میں دوسری قوموں کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہندوستان میں رہنے والی دوسری قوموں کو وہ کسی صورت برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے کانگرس چھوڑدی اور مسلم لیگ کا جھنڈا تھام لیا۔
آج اگرسوال پوچھا جائے پاکستان کس نے بنایا تو بچہ بچہ جواب دے گا قائداعظم نے۔ یہ جواب صحیح ہے لیکن اس کا ایک دوسرا جواب بھی صحیح ہے کہ پاکستان ہندوؤں کے تعصب اور تنگ نظری نے بنایا۔اگر ہندومسلم دشمنی پر آمادہ نہ ہوتے تو پاکستان نہ بنتا۔ دونوں ہندوستان میں رواداری کیساتھ رہ رہے ہوتے آج اس بات کو سوسال گزر چکے ہیں تعصب ختم ہونے کی بجائے بڑھ گیا ہے قائداعظم کا تجزیہ صحیح ثابت ہوگیا ہے۔
آج بھارت میں 25 کروڑمسلمان رہتے ہیں جن کیلئے عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے مسلمان پر ڈھائے جانے والے مظالم کی تصویریں دیکھ کر کلیجہ منہ کوآتا ہے۔ وہ مسلمان جو ہندوستان میں خوب گھل مل گئے تھے۔ خاص طور پر فلموں میں کام کرنے والے اداکاراور ہزاروں ادیب و دانشور وہ بھی ہندوؤں کی تنگ نظری سے خوفزدہ ہیں۔ بھارت اپنی جمہوریت کا بہت بڑا پرچارک ہے مگر بھارت کی جمہوریت میں مسلمانوں کیلئے زندہ رہنے کی گنجائش نہیں ہے۔مسلمان بادشاہوں نے ہندوستان پرکئی سوبرس حکومت کی۔ اگروہ اپنی طاقت اور خزانے کابھرپور استعمال کرتے تو لاکھوں ہندوؤں کو مسلمان بنایا جاسکتا تھا اور آج بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت ہوتی مگر مسلمان بادشاہوں کی فراخدلی کی داد دیجئے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک نظر سے دیکھا۔یہ مسلمان ہندوستان میں رچ بس گئے امیر خسرو، غالب، جہانگیر کلچر کے لحاظ سے پکے ہندوستانی ہیں۔ انہوں نے ہندوستانی تہذیب اپنالی زبان۔ تہوار رسوم و رواج اپنالیے مرے تو ہندوستان میں دفن ہوئے ایک روادار معاشرہ قیام میں لائے ہندومسلمان دوستی کی لاکھوں داستانیں مشہور ہوئیں۔ ان مداراتوں کے باوجود ہندوؤں کا ایک طبقہ متعصب ہی رہا بھارت میں جہاں کٹراور متعصب ہندو پڑی تعداد میں ہیں۔ وہاں انصاف پسند اور وفادار ہندوبھی موجود ہیں افسوس ان کی تعداد کم ہیں حال ہی میں سوسے زیادہ سینئر ہندو۔ سرکاری افسروں اور جرنیلوں نے ایک خط شائع کیا ہے جووزیراعظم نریندمودی کے نام لکھا گیا ہے۔ اس خط میں انہوں نے مودی کی توجہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم اور ناانصافی پر دلائی ہے۔ ان افسروں نے اس امر پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے بھارت کے اتحاد اور سالمیت کیلئے شدید خطرہ قرار دیا ہے۔ جینو سائیڈ واچ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے۔ اس کے بانی ممتاز امریکی دانشور ڈاکٹر گریگوری اسٹے ٹن ہیں۔ یہ تنظیم نسل کشی کے خطرات سے دنیا کو نہ صرف آگاہ کرتی ہیں بلکہ نسل کشی روکنے کی کوشش بھی کرتی ہے تنظیم نے کہا ہے کہ مودی سرکار کی پالیسی کے نتیجے میں بھارت میں روانڈااور میانمار جسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں اور ایک نسل ختم ہوسکتی ہے کال فار جینوسائیڈ آف انڈین مسلم کے موضوع پر ایک ویڈیو کال میں خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر گریگوری اسٹے ٹن نے کہا ہے گذشتہ بیس برس سے ہم ہندوستان میں مسلمانوں کی نسل کشی کو دیکھ رہے ہیں انہوں گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کی وہ مسلمانوں سے نفرت کا اظہار کھلم کھلا کرتے ہیں۔ سترسال میں جولوگ اقتدارمیں آئے ان میں وژن کی سخت کمی تھی۔ انہوں نے اپنے ملک کو مضبوط بنانے کی بجائے لوٹنے پر زیادہ توجہ دی پاکستان دنیا بھر کے مسلمان ملکوں کو اس بات پر راضی کرسکتا ہے کہ وہ بھارت پر زور ڈالیں کہ مسلمانوں کے خلاف ظلم وستم بندکرے انہیں زندہ رہنے کا حق دیں مگرافسوس اکثر مسلمان ملکوں کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ پاکستان دنیا بھر کے باضمیر دانشوروں کو اس مسئلے پر باخبر کرنے اور احتجاج کرنے پر راضی کرسکتا ہے بین الاقوامی سطح پراٹھائی گئی۔ دانشواروں کی آواز میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ دنیا کبھی باضمیر دانشوروں سے خالی نہیں رہی۔
حال ہی میں پاکستان میں نیشنل سلامتی پالیسی کی تشکیل ہوئی ہے نیشنل سکیورٹی پالیسی بنا ئے اور چلانے کی ذمہ داری پارلیمنٹ کی ہوتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں ایسے ممبروں کی اکثریت ہے جوکسی عملی مسئلے کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ نیشنل سکیورٹی پالیسی کا بنیادی مقصد تو سرحدوں کا دفاع ہے۔ لیکن اب اس میں ملک کے عوام کی ترقی اور خوشحالی (ہیومین ڈویلپمنٹ) کوبھی شامل کیاگیا ہے کوئی پالیسی عوامی امنگوں اور عوام کی ترقی سے لاتعلق نہیں رہ سکتی، اس پالیسی کو بنانے کیلئے ضرورت ہے کہ اسمبلیوں میں صرف وہ ممبر آئیں جو علمی موضوعات کو سمجھنے کی صاحیت رکھتے ہوں علم، شعور اور تجربے کی دولت سے مالامال ہوں یہ نیم خواندہ وڈیروں کے بس کی بات نہیں۔ اسمبلیوں کا الیکشن لڑنے اور ان کا ممبر بننے کیلئے بے تحاشہ دولت درکار ہے۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کے پاس یہ ہوتا نہیں وہ اسمبلیوں میں نہیں پہنچ سکتے۔ جب تک پارلیمنٹ میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے دیانتدار دانشور نہیں پہنچیں گے کوئی بھی معیاری سلامتی پالیسی نہیں بن سکے گی۔ کسی دانشور سے ایک پالیسی لکھوا کر الماری میں بند کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
پاکستان میں الیکشن میں صرف اُمرا جاگیردار، وڈہرے ہی حصہ لے سکتے ہیں جن کی تجوریوں میں اربوں کھربوں کے حساب سے روپے پڑے ہوں گے جواپنے بچوں کی شادیوں پر اربوں روپیہ خرچ کرسکتے ہوں، بیرون ملک اپنا علاج کرواسکتے ہوں۔
یہ لوگ قومی سلامتی پالیسی بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہوں اس کی باریکیوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ کیا پاکستان میں ایسے قوانین نہیں بنائے جاسکتے کہ الیکشن میں صرف متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے دانشور،وکیل، صحافی، پروفیسر ہی حصہ لے سکیں جن کے مالی معاملات بالکل شفاف Documented ہوں۔ نیشنل سکیورٹی پالیسی ایسی دستاویز نہیں ہوتی کہ اسے بناکر رکھ دیا جائے زیادہ ترممبر اسے سمجھتے نہ ہوں سکیورٹی پالیسی رگوں میں دوڑنے والے خون کی طرح ہے جسے کسی لمحے قرار نہیں قومی اسمبلی اُمرا کا کلب نہیں یہاں ہر لمحے افکار تازہ کی نمود اور غوروفکر ہوتا رہتا ہے۔ پارلیمنٹ کوئی منڈی نہیں جہاں گھوڑے بکتے ہوں۔ ہم اپنے اباؤاجداد کی حماقتوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ آنے والی نسلیں ہماری غفلتوں کا خمیازہ بھگتیں گی۔
(سیاسی ودفاعی مبصر اورتجزیہ نگار ہیں)
٭……٭……٭