ڈاکٹر شاہد رشیدبٹ
مہنگائی کی شرح جو کہ پہلے ہی ہفتہ وار بنیادوں پر 22فیصد سے تجاوز کر گئی ہے،میں مزید اضافے کا امکان ہے۔یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر حکومت کو 6ماہ کے بعد ہی منی بجٹ پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟ اس کا سوال کا جواب کافی آسان ہے اور وہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض کی اگلی قسط لینے کے لیے حکومت کو ان کی شرائط ماننا پڑ رہی ہیں اور حکومت کے لیے اس وقت آئی ایم ایف کی شرائط پر قرضہ لینا اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ ایک بار پھر 7ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے اور سال کے آخر تک یہ 13ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے جو کہ یقینا تشویش ناک ہے۔پاکستان کی درآمدات میں برآمدات کی نسبت ہو شربا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور کسی صورت میں بھی اس وقت ملکی معیشت کو استحکام کا حامل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔
ایک طرف ڈالر کی اونچی پرواز تو دوسری جانب بڑھتے ہوئے ٹیکسز اور توانائی کی قیمتوں نے عوام کا خون نچوڑ لیا ہے وہیں پر اس بات کا اعتراف بھی کرنا چاہیے کہ واقعی پاکستان کی معیشت اس وقت 5فیصد کی رفتار سے گروتھ کررہی ہے البتہ یہ سوال ضرور موجود ہے کہ کیا یہ گروتھ دیر پا ثابت ہو گی یا نہیں؟ میرے خیال میں یہی موجودہ صورتحال میں سب سے اہم سوال ہے۔اگرچہ کہ حکومت نے گزشتہ کچھ عرصے میں شرح سود میں کافی اضافہ کیا ہے لیکن اس کے اثرات ابھی تک سامنے نہیں آرہے ہیں دسمبر کے مہینے میں بھی جہاں پر پاکستان کی برآمدات 2.7ارب ڈالر رہیں ہیں وہیں پر پاکستان کی برآمدات 6.9ارب ڈالر کی سطح پر موجود ہیں جو کہ برآمدات کے مقابلے میں دگنی سے بھی زیادہ ہیں یہ پاکستان کی معیشت کے لیے کسی بھی طرح سے اچھا شگون نہیں ہے اور آنے والے وقت میں عوام کے لیے مزید مشکلات کا باعث بنے گا۔بہر حال بات ہو رہی تھی منی بجٹ کے حوالے سے اس بجٹ میں بھاری ٹیکس لگائے گئے۔
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ حکومت گزشتہ سال کی نسبت اس پہلے اپنا ٹیکس ہدف ایک ہزار ارب روپے زیادہ مقرر کر چکی ہے اور اب اس میں مزید 400ارب روپے کا اضافہ کیا گیا،گزشتہ سال حکومت نے 4700ارب روپے کا ٹیکس اکھٹا کیا تھا جبکہ اس سال کا ہدف 5700ارب روپے کا ٹیکس جمع کرنا ہے جس کو بڑھا کر 6100ارب روپے کر دیا گیا ہے۔حکومت کو ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرنے کی بجائے ٹیکس بیس بڑھانے کی ضرورت ہے،تاکہ جو لوگ پہلے سے ہی زیادہ ٹیکس دے رہے ہیں ان پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔لیکن حکومت گزشتہ حکومتوں کی طرح ہی ٹیکس بیس بڑھانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان کی برآمدات کا تخمینہ اس سال 32ارب ڈالر لگایا گیا ہے جبکہ تر سیلات زر کے ذریعے بھی 32ارب ڈالر آنے کی امید ہے اور ماہرین کے مطابق روشن ڈیجیٹل اکا ونٹ کے ذریعے بھی 3ارب ڈالر تک کی رقم جمع ہو سکتی ہے لیکن اس سب کے باوجود یہ سب ملا کر پاکستان کی زرمبادلہ کی آمدن 67ارب ڈالر بنتی ہے جبکہ پاکستان کی اس سال کی برآمدات اسی رفتار سے بڑھتی رہیں تو 80ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔
13 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ تیار کھڑا ہوا ہے۔یا تو برآمدات میں کمی کے لیے اسٹیٹ بینک روپے کو زیادہ گرائے گا یا پھر شرح سود میں بڑا اضافہ کیا جائے گا دونوں ہی صورتوں میں نقصان عوام اور کاروباری برادری کو پہنچے گا جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ آئی ایم ایف کی شخت ترین شرائط کو ماننے اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی کرنے اور عوام پر مہنگائی کا طوفان ڈالنے سے بہتر ہے کہ حکومت آئندہ سال کے لیے شرح نمو کے ہدف میں کمی کردے 4فیصد شرح نمو کا ہدف رکھا جائے اور ضرورت پڑے تو شرح نمو کو 3.5فیصد تک لے جایا جائے اس طرح ٖڈیمانڈ میں کمی جاسکتی ہے اور برآمدات کم ہو سکتی ہے اور روپے اور شرح سود کے حوالے سے بھی ریلیف مل سکتا ہے،پاکستان کی معیشت 5یا اس سے زیادہ شرح نمو برداشت کرنے کی اہل دیکھائی نہیں دیتی ہے۔
جب تک کہ ملکی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوجاتا ہے ملک مسائل کا شکار ہی رہے گا۔پاکستان کو ہنگامی طور پر اپنی برآمدات میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے اگر سنگا پور جیسا ملک جو کہ اسلام آباد شہر کے برابر ہے وہ 130ارب ڈالر کی برآمدات کر سکتا ہے تو پاکستان جیسا ملک جس کی 22کروڑ کی آبادی ہے وہ اس حوالے سے اتنے مسائل کا شکار کیوں ہے؟ پاکستان جیسے ملک کی برآمدات اس وقت بھی 100ارب ڈالر کے قریب ہونی چاہیے تھیں جو کہ ہماری ہی غلط پالیسوں کی وجہ سے نہیں ہوسکیں ہیں۔اگر حکومت اس سال برآمدات کا ہدف 32ارب ڈالر حاصل کر لیتی ہے تو آئندہ برس یہ ہدف کم از کم 45ارب ڈالر کے لگ بھگ مقرر کرنے ضرورت ہے اسی طرح پاکستان کو بیلنس آف پیمنٹ کے حوالے سے ریلیف مل سکتا ہے۔
میں یہاں پر یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ سی پیک کے تحت بننے والے خصوصی اقتصادی زونز آخر ابھی تک فعال کیوں نہیں ہوسکے ہیں؟ ابھی تک ان زونز سے برآمدات کیوں شروع نہیں کی جاسکی ہیں؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے؟ یہ زونز سی پیک میں شامل اسی لیے کیے گئے تھے تاکہ پاکستان کی پیدا وار اور برآمدات میں کم وقت میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ہے۔یہ یقینا ایک بڑا مسئلہ جسے بہتر انداز میں ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے۔جلد از جلد ان اقتصادی زونز کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔اگر پاکستان 2025ء تک اپنی برآمدات 60ارب ڈالر تک نہیں پہنچا سکا تو پاکستان کے لیے مسائل میں اضافہ ہی ہو تا چلا جائے گا۔
(سابق صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس ہیں)
٭……٭……٭