وزیر احمد جوگیزئی
ہمارے ملک میں گزشتہ 74سال کے دوران ہر قسم کی حکومت دیکھی گئی ہے۔ صدارتی طرز کی حکومت ہو یا پھر پارلیمانی طرز کی حکومت ہو پاکستان میں سب تجربات کیے جاچکے ہیں بلکہ پاکستان میں تو صدارتی اور پارلیمانی حکومتوں کا ملغوبہ بھی رہا ہے۔ صدارتی اور پارلیمانی حکومتوں کا یہ ملغوبہ پاکستان کی ایجاد ہے۔ اس میں ایسا بھی ہوا ہے کہ صدر اور وزیراعظم دونوں ایک ہی میز پر بیٹھ کر ایک ہی میٹنگ کی سربراہی کرر رہے تھے۔ یہ بھی ہوچکا ہے۔ دیکھنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ صدارتی اور پارلیمانی فرق کیا ہے، اس پر بات کریں گے لیکن پاکستان کے تناظر میں یہ بات اہم ہے کہ پاکستان میں دونوں طرز کے نظام لاکر دیکھے جاچکے ہیں لیکن ہم دونوں طرز کے نظام لاگو کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
مثال کے طور پر صدارتی نظام میں پارلیمان جیساکہ امریکی کانگریس ایک مکمل طور پر خودمختار ادارہ ہوتا ہے اور کسی بھی طریقے سے حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہوتا ہے اور کابینہ کا چناؤ بھی پارلیمان سے نہیں ہوتا ہے اور اکائیوں میں بھی گورنر اور ان کی پارلیمان کی بھی کوئی ہیت ہوتی ہے جوکہ مرکز میں ہوتی ہے۔ ہم صدارتی نظام کو صرف اور صرف صوبوں تک محدود کرتے ہیں جوکہ صدارتی نظام کے تقاضوں کے بالکل منفی عمل ہے اور اس طرز حکومت کے تقاضوں سے ایک انحراف ہے۔ کوئی بھی طرز حکومت نافذ ہو تو پھر اس کے لوازمات کو بھی مکمل کرنا ہوتا ہے۔ جب تک کوئی نظام مکمل طور پر نافذ نہ ہو اس کی افادیت وہ نہیں رہتی جس کی توقع کی جارہی ہوتی ہے اور اگر صدارتی نظام لانے کا اتنا ہی شوق ہے تو پہلے مشورہ یہی ہوگا کہ پولیٹیکل سائنس کی کتابوں سے یا پھر دنیا میں جہاں جہاں یہ نظام نافذ ہے۔ اس سے سبق سیکھ لیں او پھر اس حوالے سے کوئی قدم بڑھایا جائے۔
صدارتی نظام جہاں دنیا کے بہت سارے ممالک میں رائج ہے وہیں پر پارلیمانی نظام حکومت بھی بہت سارے ممالک میں رائج ہے۔ پاکستان میں بھی پارلیمانی طرز حکومت رائج ہے اور اس نظام پر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور سیاسی سٹیک ہولڈرز کا اتقاق ہے اور اس طرز کی حکومت سب کو قابل قبول بھی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور عوام کی اس نظام پر رائے تقریباً ایک ہی ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہم اس نظام کے تقاضوں کو بھی پورا کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اس نظام کے ساتھ جڑی ہوئی روایات ہمارے اکابرین سے دور ہیں۔ پارلیمانی نظام میں کوئی بھی مسئلہ، کوئی بھی فیصلہ، کوئی بھی اہم حکومتی اقدام ماورائے پارلیمان نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن عملی طور پر ہمارے ملک میں ہر اہم فیصلہ پارلیمان سے بالا بالا ہی کیا جاتا ہے جوکہ افسوس کی بات ہے۔ چاہے ملک کی اندرونی پالیسی ہو یا پھر خارجہ پالیسی پارلیمان سے جنم لینی چاہیے۔ اس کے بغیر مسائل جنم لیتے ہیں لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔
پارلیمانی نظام میں اپوزیشن کا بھی اتنا ہی اہم کردار ہوتا ہے جتنا کہ حکومت کا ہوتا ہے اور دونوں کے اشتراک سے ہی گاڑی چلتی ہے۔ جمہوریت کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسا کہ ایک گاڑی جس میں عوام اس گاڑی کا انجن ہوتے ہیں، بیوروکریٹس اس گاڑی کا پٹرول ہوتے ہیں اور حکومت کی حیثیت ایک ڈرائیور کی سی ہوتی ہے جب تک یہ بیلنس ٹھیک نہ ہو، گاڑی نہیں چلتی ہے لیکن آج کل جو دور چل رہا ہے اس دور میں میں تو پارلیمانی روایات کو یکسر بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے اور اچھی پارلیمانی جمہوریت ایک خواب ہی بن کر رہ گئی ہے۔ ہم چونکہ ایک ڈکٹیٹر شپ میں بھی رہ چکے ہیں اور نظام میں سیاسی عمل سے ماروا سیاسی میدان میں وارد ہوتے ہیں۔
ہم نے ایسی حکومتیں بھی دیکھی ہیں اسی لیے شاید ہم موجودہ حکومت کو بھی برداشت کر ہی رہے ہیں حالانکہ یہ جمہوریت سے کافی دور ہے۔ موجودہ حکمران جماعت کا کوئی سیاسی تجربہ نہیں ہے لیکن خواہشات اتنی زیادہ ہیں کہ ہر خواہش پر دم نکل رہا ہے۔ خواہشات کی بنیاد پر اچھی حکمرانی نہیں کی جاسکتی ہے۔ ملک میں اچھی حکمرانی کیلئے جو چیز سب سے اہم ہوتی ہے اور جس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے وہ ہے انصاف اور انصاف کے بغیر اصلاحات ممکن نہیں ہے۔ جب تک معاشرے میں انصاف نہ ہو اورعدلیہ آزاد نہ ہو تب تک کوئی بھی حکومت بلکہ کہنا چاہیے کہ کسی بھی طرز کی حکومت کا میاب نہیں ہوسکتی ہے۔
بظاہر تو کوئی بھی طرز حکومت بُری نہیں ہے، ہر نظام کے اپنے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی ہیں لیکن بات وہی ہے کہ جب تک کسی بھی نظام کے تمام لوازمات پورے نہیں کیے جاتے ہیں اور مکمل طور پر اس نظام کو نافذ نہیں کیا جاتا تب تک کوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی ہے۔ جہاں تک ہمارے ملک کا تعلق ہے تو ہمارے ملک میں جتنے بھی نقصانات ہوئے ہیں وہ صدارتی طرز کی حکمرانی کے دوران ہی ہوئے ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ پانی کے معاملات رہے ہوں یا پھر ون یونٹ کا معاملہ یا پھر بنگلہ دیش بننے کا واقعہ تمام تکلیف دہ نقصانات اسی وقت ہوئے جب ملک میں صدارتی طرز کی حکومت تھی۔ پاکستان کی اجتماعی دانش نے اگراس ملک کیلئے پارلیمانی طرز حکومت کا انتخاب کیا ہے اور کسی وجہ سے ہی کیا ہے۔ اس نظام پر مکمل طور پر عملدرآمد ہونا ہی اس ملک کی سلامتی کی بنیاد اور ضمانت ہے۔ اگر ملک کے عوام ملک میں پارلیمانی نظام ہی چاہتے ہیں تو پھر خوامخواہ کے شوشے چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس ملک میں بہت سے تجربات ہوچکے ہیں اسی لیے تو یہ ملک اس حالت میں ہے۔ اس ملک کیلئے ایک مخلوط حکومت جوکہ صرف اور صرف جمہوریت پر یقین رکھتی ہو اور وہ اس ملک میں انصاف کا نظام قائم کرسکے تو پھر اسی حکومت کے تحت ملک کامیاب ہوسکتا ہے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭