تازہ تر ین

”افغان صدر یا چیف ایگزیکٹوسے بات ہمارے وزیراعظم یا وزیرخارجہ کو کرنی چاہیے“ نامور تجزیہ کار ضیا شاہد کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ پانامہ کیس کی سماعت کی ملک کے کروڑوں افراد کو کئی باتیں سمجھ نہیں آ رہیں۔ اکیس بائیں سینئر دوستوں سے اس کیس بارے پوچھا تو ان کا مو¿قف تھا کہ موجودہ بنچ بھی اس کیس کا کوئی فیصلہ نہیں دے سکے گا۔ امکان غالب ہے کہ اس کیس میں 3 متعلقہ اداروں سے رجوع کیا جائے گا۔ موجودہ بنچ چونکہ ٹرائل کورٹ نہیں ہے اس لئے تحقیقات کےلئے نیب کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں لیکن نیب جو جواب دے گا وہ نوشتہ دیوار ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ سمجھ سے بالا ہے کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں جائے تو کہتے ہیں کہ عدالت میں کیس ہے بات نہیں کر سکتے اور عدالت میں کہا جاتا ہے کہ آپ پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتے تو پھر کیا اس پر بات کسی اور ملک میں جا کر کی جائے۔ ہمارے معاملے کو دیکھتے ہوئے اس نتیجے پر تو پہنچنا ہی پڑے گا کہ اس میں سے کچھ نہیں نکلے گا۔ بی بی سی نے اگر غلط رپورٹ دی ہے تو ن لیگ کے پاس تو موقع ہے۔ شریف فیملی لندن کی عدالت میں جا کر ہتک عزت کا دعویٰ کر دے تو بی بی سی پھنس جائے گی اور بھاری جرمانہ بھی دینا پڑے گا۔ ان معاملات میں وہاں کی عدالتیں بڑی سخت ہیں۔ عمران خان کو سوچ سمجھ کر بیان دینا چاہیے وہ الیکشن کمیشن کی کمزوریوں کی نشاندہی ضرور کریں لیکن سخت ریمارکس نہ دیا کریں۔ آرمی چیف کا افغانستان کے صدر سے بات کرنا سمجھ سے بالا ہے۔ افغان صدر یا وزیراعظم سے بات کرنا ہی تھی تو وہ وزیراعظم کو کرنا چاہیے تھی۔ جنرل (ر) کیانی آرمی چیف بنے تو سب سے پہلے اخبار کے ایڈیٹرز سے طویل ملاقات کی۔ اس میں اس بات پر زیادہ زور دیا جاتا رہا کہ سیاسی جماعتوں کے غیرفعال ہونے ا ور خلا چھوڑ دینے کے باعث مارشل لاءلگتا ہے۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ پانامہ کیس میں عدالت تنی ہوئی رسی پر چلنے پر مجبور ہے۔ اسمبلی فلور پر غلط بات کی جائے تو تحریک استحقاق کی زد میں آتی ہے۔ سپیکر کے نوٹس میں کیس لایا گیا تو انہوں نے عدلات میں زیر سماعت کا کہہ کر معاملہ ختم کر دیا۔ عدالت میں بات ہوئی تو سوال اٹھا دیا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کو عدالت میں زیر بحث نہیں لایا جا سکتا۔ اس معاملے کا آسان حل یہ ہے کہ عدالت کہے کہ ہم وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں تقریر پر سوال نہیں اٹھا رہے وزیراعظم نے جو کہا ہوگا ٹھیک کہا ہوگا۔ عدالت کہے کہ وزیراعظم اور ان کے بچوں نے اداروں اور مختلف فورسز پر جو بیانات دئیے ہیں ہم انہیں دیکھنا چاہیں گے۔ ان کے بارے میں فیصلہ کرینگے۔ یہ طریقہ کار اختیار کر کے عدالت اسی معاملے سے بطریق احسن نپٹ سکتی ہے۔ پانامہ معاملہ بڑا حساس ہے عدالت کو اس میں وزیراعظم کی تقریر کو بالکل بھی مثال نہیں بنانا چاہیے کیونکہ جب اسمبلی میں اس بارے سوال اٹھایا گیا تو سپیکر نے اسے زیر سماعت معاملہ قرار دیا۔ پارلیمنٹ کو جو تحفظ حاصل ہے عدالت کو اس میں نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ دیگر راستے موجود ہیں۔ وزیراعظم نے 2 بار قوم سے خطاب کیا۔ ان کے بچوں نے بیانات دئیے، ٹویٹ کیے، ابی بی آر اور دیگر اداروں کے پاس دستاویزی ثبوت ہیں۔ ان سب میں تضادات پائے جاتے ہیں عدالت کو اسی طرف جانا چاہیے۔ عدالت کو اس وقت اسمبلی میں بیان کے معاملے میں نہیں پڑنا چاہیے بلکہ اس معاملے کو کسی اور وقت کےلئے چھوڑ دینا چاہیے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ عدالت کو اسی طرح کے جھمیلوں میں الجھانا چاہتے ہیں جس سے آئین میں ترمیم کےلئے راستہ بنے۔ عدالت ان سب چیزوں کو نظر میں رکھے۔ یہ کیس پانچ رکنی بنچ کا نہیں بلکہ فل کورٹ بنچ کا کیس تھا۔ عدالت اس معاملے میں احتیاط سے کام لے ورنہ 24 ویں آئینی ترمیم کا راستہ کھل جائے گا۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ ا گر دستیاب مواد کی بنیاد پر اتنا فیصلہ کرنا ہو کہ آرٹیکل 63,62 کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں تو عدالت کو پورا اختیار حاصل ہے۔ عدالت اس معاملہ میں دستیاب مواد تک ہی رہے اگر آگے بڑھے گی تو متنازع ثبوتوں والے معاملات سامنے آ جائینگے اور پھر کمیشن بنانا پڑے گا۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ کمیشن بنا تو پھر کیا نتائج سامنے آئینگے۔ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال نے کہا کہ آرٹیکل 66 کے تحت پارلیمنٹ میں جو بحث ہوتی ہے اسے استحقاق حاصل ہوتا ہے کہ اس پر کورٹ میں کارروائی نہیں ہو سکتی لیکن یہ ایک عمومی بات ہے۔ وزیراعظم کی تقریر کی بات دوسری ہے۔ انہوں نے اپنی وضاحت کےلئے قوم کے سامنے اپنا مکمل کردار پیش کرنے کےلئے پارلیمنٹ کو منتخب کیا۔ تقریر میں جو بیان کیا وہ ان کا اپنا منتخب کردہ انداز تھا کہ وہ قوم کے سامنے صفائی کیسے پیش کرتے ہیں اس لحاظ سے یہ عام کارروائی نہ تھی اور اسے مکمل استحقاق حاصل نہیں ہے۔ وزیراعظم نے چونکہ خود ایک طریقہ اختیار کیا اس لئے وہ اب نہیں کہہ سکتے کہ اس طریقہ کار پر جواب دہی نہیں کی جاسکتی۔ وزیراعظم پارلیمنٹ میں خود کو احتساب کےلئے پیش کر رہے تھے۔ احتساب تو تبھی ہو سکتا ہے کہ اس تقریر کا ہر فورم پر ذکر ہو۔ پارلیمنٹ میں ایک راستہ چنا گیا تو عدالت میں قطری خط پیش کر دیا گیا۔ اب بی بی سی کی رپورٹ میں تفصیلی معلومات سامنے آگئیں کہ فلیٹس تو90 کی دہائی میں خریدے گئے جبکہ حسین نواز کہتے ہیں کہ 2006ءمیں خریدے۔ برطانیہ میں کسی بھی کمپنی کے ارکان بارے معلومات آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہیں جس سے ابہام دور ہو جائے گا۔ معروف تجزیہ کار شمع جونیجو نے لندن سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بی بی سی کی وزیراعظم کی جائیداد بارے رپورٹ کا برطانیہ میں میڈیا اور وکلاءکو پہلے سے معلوم تھا۔ یہاںپاکستانی کمیونٹی نے بی بی سی کو حکمران خاندان کی جائیداد کے حوالے سے معلومات فراہم کی۔ لیگی رہنماﺅں کو ذرا بھی ابہام ہے تو فوری عدالت جائیں وہ نہیں جائینگے کیونکہ بی بی سی نے 100 فیصد ریکی کر کے 100 فیصد مصدقہ رپورٹ جاری کی ہے۔ بی بی سی نے شریف فیملی کی نائٹ برج میں پراپرٹی بارے بھی رپورٹ دینا تھی لیکن دستاویزات نہ ملنے کے باعث اسے آخری وقت پر رپورٹ سے نکال دیا گیا۔ یہ وہی جائیداد ہے جس بارے تہمینہ درانی نے کہا تھا کہ شہباز شریف کی ملکیت نہیں ہے لیکن پاکستانی میڈیا نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ آصف زرداری کو معلوم ہے کہ پاکستان میں ہر وقت ان کی نگرانی ہوتی ہے اس لئے زیادہ تر وقت باہر گزارتے ہیں۔ وہ امریکہ میں صدر ٹرمپ تک تو نہیں پہنچ سکتے لیکن بزنس کمیونٹی سے ملیں گے۔ آصف زرداری کو یقین ہے کہ اللہ کے بعد امریکہ راضی ہو جائے تو پیپلز پارٹی کی حکومت کی باری آ جائے گی۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain