تازہ تر ین

”الیکشن میں روسی مداخلت کے ثبوت مل گئے تو ٹرمپ کا بچنا مشکل“ خورشید قصوری کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ قانون کے مطابق عدالت میں زیر سماعت کسی کیس پر ریمارکس نہیں دیئے جا سکتے۔ پانامہ کیس پر تو روزانہ 3 عدالتیں لگتی ہیں ایک سپریم کورٹ میں، ایک اعلیٰ عدلیہ کے باہر اور ایک رات کو میڈیا پر لگتی ہے جو سمجھ سے باہر ہے۔ پانامہ مقدمہ میں تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری ہسپتال میں زیرعلاج ہیں انہوں نے مجھے پیغام بھیجا ہے اور بتایا ہے کہ ”میں نوازشریف سے زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن حکومت کے خلاف مقدمہ لڑنے کا یہ انجام ہو رہا ہے کہ میرے خلاف پرانے کیسز کھولے جا رہے ہیں اور انکم ٹیکس کے نوٹس بھجوائے جا رہے ہیں۔“ وزیراعظم نوازشریف تو خود لا گریجویٹ ہیں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ نعیم بخاری کی شکایت اگر سچ پر مبنی ہے تو اس کا ازالہ کریں اور اگر غلط بیانی ہے تب بھی وضاحت کریں۔ نعیم بخاری ان معاملات کو عدالت کے سامنے لائیں اور عدالت بھی اس کا نوٹس لے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ اپنی طویل صحافتی زندگی میں پہلی بار ایسا مقدمہ دیکھ رہا ہوں جس بارے سینئر وکلا اعتزاز احسن، لطیف کھوسہ، عاصمہ جہانگیر میڈیا پر بیٹھ کر کہتے ہی ںکہ بڑا سیدھا اور سادا مقدمہ ہے ایک دن میں فیصلہ ہو سکتا ہے لیکن ان میں سے کوئی عدالت میں نہیں جانا چاہتا۔ پاکستان میں کیا نظام چل رہا ہے۔ سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہاں ”را“ سے ٹریننگ لینے کا میڈیا پر اعتراف کرنے والوں کو بھی پہلی سماعت پر ہی ناکافی ثبوت کہہ کر بری کر دیا جاتا ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ امریکہ میں حالات یہ بڑا خوش ہوں۔ ہم احساس کمتری کا شکار قوم ہیں جو مثالیں بھی دوسروں کی دینے پر مجبور ہے کہ کیسے مہذب ملک ہیں کہ انتقال اقتدار بھی کتنا پرامن ہوتا ہے۔ اب ٹرمپ نے جو زبان استعمال کی، الیکشن میں جو ازامات لگائے گئے، دھاندلی کے الزامات لگ رہے ہیں، ان حالات پر خوش ہوں کہ امریکہ بھی ہمارے جیسا ہی ہے کہ جس کا داﺅ چل جائے وہ داﺅلگاتا ہے۔ 300 سال پرانی جمہوریت نے بھی امریکہ کا کچھ نہ بگاڑا ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ یہ تلخ بات کرنے پر مجبور ہوں کہ شاید ہم پوری قوم ہی رشوت کو برا نہیں سمجھتی صرف ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کو بھی حصہ ملے۔ جنوبی پنجاب میں عوام کو روزگار میسر نہیں، پانی، علاج، تک کی سہولت نہیں ہے لیکن ملتان میں میٹرو بنی ہے تو کتنے لوگ وہاں جلسہ میں شریک ہوئے اور خوش نظر آئے۔ یہی صورتحال مزید شہروں میں بھی نظر آئے گی۔ یہاں کتنے بھی کیسز عدالتوں میں کئے جاتے ہیں کتنی بھی تقریریں کر لیں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ووٹ دیتے وقت ہر کوئی ملک کا نہیں صرف اپنا مفاد دیکھتا ہے۔ سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری نے کہا کہ امریکہ میں صرف مظاہروں کی بنیاد پر تو ٹرمپ کا مواخذہ ممکن نہیں ہے تاہم جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے اور انہوں نے انٹیلی جنس اداروں سے جو رویہ اختیار کیا وہ ناقابل مثال ہے۔ صدر کینڈی بارے کہا جاتا ہے کہ ان کو اس وقت کے سی آئی اے ڈائریکٹر نے اختلافات پر نہیں بخشا تھا اور ان کا قتل بھی اسی کی کڑی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسرا کمال یہ کیا ہے کہ تمام تر دباﺅ کے باوجود اپنے ٹیکس ریٹرنز ڈیکلئر نہیں کئے۔ اس حوالے سے خیال ہے کہ روس سے کوئی تعلق سامنے آنے کے ڈر سے ٹیکس ریٹرنز نہیں دیئے۔ ری پبلیکنز کی لیڈر شپ بھی ٹرمپ سے نالاں ہے۔ ٹرمپ کو ری پبلیکن بھی نہیں کہا جا سکتا وہ ایک آزاد امیدوار تھے جو ری پبلیکن پارٹی کو بھی لے اڑے اور پارٹی کے اصل وارثوں کو بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے الیکشن میں روسی مدد کی تفصیلات سامنے آ جائیں یا کریملن سے وہ تصاویر مل جائیں جن کا ٹرمپ نے انکار کیا۔ ایسا ہونے کی صورت میں وہ گرفت میں آ سکتے ہیں امریکی صدر کا مواخذہ بچوں کا کھیل نہیں ہے لیکن ٹرمپ کے خلاف کوئی مواد مل گیا تو ان کا بچنا مشکل ہو گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی رہنماﺅں کو ڈنگ مارا جن میں صدارتی امیداور میکن بھی تھے۔ ری پبلیکنز کے چوٹی رہنماﺅں کو ناراض کیا۔ تجزیہ کار راجہ منور نے کہا کہ میڈیا طاقتور ہو گیا ہے اس لئے اس کا شور بڑھ گیا ہے۔ پاکستان میں ہر سطح پر پٹواری سے لے کر صدر تک کرپشن بہت بڑے پیمانے پر بڑھی ہے، سابق ادوار حکومت بھی اس سے مبرا نہیں رہے۔ ہر ادارے میں کرپشن کا بڑھنا افسوسناک ہے۔ پہلے سیاستدان اپنی جائیدادیں بیچ کر سیاست کرتے اور الیکشن لڑتے تھے اب یہ بنانے کے لئے الیکشن لڑا جاتا ہے۔ امریکہ میں جمہوری اداروں کی عمر 300 سال ہے 45 واں صدر منتخب ہوا ہے۔ امریکی عوام نے ملک اور آئین بنایا، جمہوری نظام تشکیل دیا جس کی دنیا میں کوئی شکل نہیں ہے۔ عمران خان اور دیگر سیاسی رہنما صحیح وقت پر بات نہیں کرتے۔ بعد میں ڈھول پیٹنے کا کیا فائدہ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں جو صورتحال بنی ہے اس سے یہ خوفناک حقیقت سامنے آئی ہے کہ 300 سال پرانی جمہوریت میں بھی صورتحال اس نہج تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان میں موجودہ صورتحال میں میڈیا کا کردار مثبت، طاقتور اور موثر نظر آتا ہے۔ دفاعی تجزیہ کار مکرم خان نے کہا کہ پاک آرمی کے قواعد و ضوابط کے مطابق سینئر افسروں کو ریٹائر ہونے کے بعد زرعی مقاصد کیلئے 50 ایکڑ زمین الاٹ کی جاتی ہے۔ آرمی چیف کو اس کے علاوہ اتنی ہی زمین بطور آرمی چیف ریٹائر ہونے پر ملنی چاہئے۔ ماضی میں جنرل ضیاءالحق کو کالاخطائی میں زمین الاٹ ہوئی، جنرل وحید کاکڑ کو لیاقت پور رحیم یار خان میں جنرل پرویز مشرف کو بہاولپور اور یزمان میں زمین الاٹ کی گئی۔ جنرل (ر) راحیل شریف کو بی آر بی موضع بخت میں زمین الاٹ ہوئی ہے جو بڑی قیمتی ہے۔ ماضی میں آرمی چیفس کو دور دراز علاقوں میں زمینالاٹ ہوئی اس کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ جنرل (ر) راحیل شریف سے خصوصی برتاﺅ کیا گیا۔ موضع بخت میں زمین کی قیمت کمرشل والے سے بتائی جا رہی ہے جبکہ یہ زمین زرعی مقاصد کے لئے ہے اسے کمرشل مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain