جکارتہ(خصوصی رپورٹ) مسلم ممالک میں مردوخواتین کے لیے الگ الگ درس و تدریس کے ادارے تو قائم کیے جاتے ہیں مگر خواجہ سراﺅں کے لیے ایسا اقدام کہیں نظر نہیں آتا، تاہم اب دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک اس میں بازی لے گیا ہے جہاں خواجہ سراﺅں کے لیے بھی ایک بورڈنگ سکول قائم کر دیا گیا ہے۔برطانوی اخبار میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق خواجہ سراﺅں کے ساتھ جنسی تفاوت کا عالم انڈونیشیا میں بھی دیگر مسلم دنیا کی طرح ہی ہے۔ انہیں انتہائی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایسے میں جاوانامی جزیرے پر قائم یہ بورڈنگ سکول ملک کے خواجہ سراﺅں کی بڑی پناہ گاہ ثابت ہو رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق اس سکول میں سینکڑوں خواجہ سرا اکٹھے ہوتے ہیں، عبادت کرتے ہیں اور تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اکثر یہیں رہائش پذیر ہیں۔ گزشتہ سال ایک بنیاد پرست گروپ اسلامک جہاد فرنٹ نے اس سکول کو بند کروا دیا تھا لیکن کچھ عرصہ بعد ہی اس میں سرگرمیوں کا دوبارہ آغاز کر دیا گیا۔ شنٹا نامی خواجہ سرا نے ہیومن رائٹس واچ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ میں نے سکول بند کروانے والوں سے کہا کہ اسلام میں تنوع کو جگہ دی گئی ہے۔ خواجہ سرا بھی معاشرے کے معذور افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ باقی معذوروں کی طرح انہیں بھی حق حاصل ہے کہ یہ تعلیم حاصل کر سکیں اور اپنی مرضی کی زندگی گزار سکیں۔