فروری 2023 میں سپلیمنٹری بجٹ میں جوس پرعائد کی جانے والی 10٪ فیڈرل ایکسائزڈیوٹی کے نفاذ کے بعد سے، فورمل پیکیجڈ جوس انڈسٹری کے حجم میں 45% کمی واقع ہوئی ہے – مارچ اور اپریل 2023 میں یہ اثر واضح نظرآیا ۔ گرتے ہوئے کاروباری حجم کے براہ راست اثرات اسیلز ٹیکس ریونیو پر پھی واقع ہوے ہیں ہے، کیونکہ ٹیکس ریونیو میں اس کا حصہ تقریباً 14 ارب روپے ہے۔
اس ٹیکس سے نہ صرف صنعتیں اور ان کے ملازمین اثرانداز ہوں گے بلکہ پھلوں کے کاشتکاروں سمیت متعدد اوراسٹیک ہولڈرز بھی متاثر ہوں گے۔ پھلوں کی خرابی اور غلط ہینڈلنگ، اسٹوریج، پیکیجنگ اور ٹرانسپورٹیشن کی وجہ سے ان کے ضائع ہونے کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے کسان اپنی پیداوار بہت کم قیمتوں پر بیچتے ہیں، خاص کر”پیک سیزن” میں۔ پیکیجڈ جوس انڈسٹری، پھلوں کی بروقت خریداری سے ان کے ضیاع کو روکتی ہے اور یوں کسانوں کے ذریعہ معاش کی حفاظت کرتی ہے۔ یہ صنعت کسانوں کو کاشتکاری کے جدید اور بہترین طریقے اپنانے میں بھی مدد کرتی ہے، جس کے نتیجے میں کسانوں کی ترقی ہوتی ہے۔ یہ کسان، جو جوس انڈسٹری کو براہ راست پھل فراہم کرتے ہیں،ان کی مانگ کم ہونے کی وجہ سے یقینی طور پر متاثر ہوں گے۔
پیکیجڈ جوس پر10٪ FED کے اضافے نےاس کی کھپت میں کمی پیدا کردی ہے جبکہ اہم بات یہ ہے کہ پھلوں پر مبنی جوس کو فوڈ اتھارٹیز نے پھلوں کے استعمال کا سب سے صحت مند ذریعہ قرار دیا ہے، خاص طور پر سکولوں اور کالجوں کے لیے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے مطابق، فروٹ ڈرنکس میں کم از کم 8% پھلوں کا مواد ہوتا ہے، نیکٹر میں 25%-50% پھلوں کا مواد ہوتا ہے اور خالص جوس میں 100% پھلوں کا مواد ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صارفین جو ان جوسز کے ذریعے پھلوں کو اپنی خوراک کا حصہ بناتے تھے، اب اس سے محروم رہیں گے۔
اگرچہ مصنوعات پہ FED ایک حقیقی ضرورت ہے،لیکن یہ بھی بہت اہم ہے کہ حکومت FED عائد کرتے وقت ملک کی مجموعی صورتحال کو مدنظر رکھے،اور اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کے نفاذ سے محصولات میں کمی نہ آئے اور نہ ہی نچلی سطح کے لوگوں کا معاش متاثر ہو۔