کراچی: یکم سے 15اکتوبر کے درمیان کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار میں اس پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 48فیصد سے زائد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق 15 اکتوبر تک ملک بھر کی جننگ فیکٹریوں میں 48فیصد کی کمی سے مجموعی طور پر 31 لاکھ کپاس کی گانٹھوں کے مساوی پھٹی پہنچی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران پنجاب کی جننگ فیکٹریوں 11 لاکھ 86 ہزار جبکہ سندھ کی جننگ فیکٹریوں میں 19 لاکھ 16 ہزار گانٹھوں کے مساوی پھٹی پہنچی ہے جو پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں بالترتیب 53 فیصد اور 45 فیصد کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسی عرصے کے دوران ٹیکسٹائل ملز نے جننگ فیکٹریوں سے پچھلے سال کی 49لاکھ 93 ہزار گانٹھوں کے مقابلے میں 15 لاکھ 91 ہزار گانٹھوں کی خریداری کی ہیں جبکہ 5لاکھ 8 ہزار روئی کی گانٹھوں کے ذخائر فروخت کے لیے دستیاب ہیں۔ 15اکتوبر تک صرف 3ہزار 200روئی کی گانٹھیں بیرون ملک برآمد کی گئی ہیں۔
چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ یکم اکتوبر سے پندرہ اکتوبر والا پندھرواڑا اس لحاظ سے منفرد تھا کہ کاٹن ایئر 2024-25 کے دوران اس پندھرواڑے کے دوران کپاس کی آمد پچھلے سال کے اسی پندھرواڑے کے مقابلے میں زیادہ تھی جبکہ اس سے پہلے تمام پندھرواڑوں کے دوران یہ آمد کافی کم ہوتی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ مذکورہ پندھرواڑے کے دوران ملک بھر کی جننگ فیکٹریوں میں مجموعی طور دس لاکھ62ہزار گانٹھوں کے مساوی پھٹی پہنچی ہے جبکہ پچھلے سال کے اس پندھرواڑے کے دوران یہ آمد 9لاکھ 71ہزار گانٹھیں تھی۔
زیر تبصرہ پندھرواڑے میں کپاس کی آمد میں ریکارڈ اضافے کے باعث ملک بھر میں غیر متوقع طور پر 184مزید جننگ فیکٹریاں فعال ہوئیں جس سے ملک بھر میں فعال جننگ فیکٹریوں کی تعداد بڑھ کر 536ہو گئی۔
انہوں نے بتایا کہ یکم سے پندرہ اکتوبر تک ملک بھر میں کپاس کی آمد میں ریکارڈ اضافے کے باعث موسمی حالات بہتر رہنے کی صورت میں ملک میں کپاس کی پیداوار 60لاکھ گانٹھ تک ہونے کے امکانات ہیں لیکن ٹیکسٹائل ملز کی جانب سے بیرون ملک سے روئی کے درآمدی آرڈرز میں خاصا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
احسان الحق نے بتایا کہ اگر اطلاعات کے مطابق آئندہ کچھ عرصے کے دوران برآمدی ٹیکسٹائل ملز کے لیے بجلی کے نرخوں میں کمی کی گئی تو اس سے ٹیکسٹائل ملز کو اپنے برآمدی آرڈرز پورے کرنے کے لیے بیرون ملک سے 60 لاکھ کے لگ بھگ گانٹھیں درآمد کرنا پڑیں گی۔