لاہور (رپورٹنگ ٹیم) صوبہ پنجاب کا آئندہ مالی سال 2017-18ءکے لئے ٹیکس فری بجٹ پنجاب اسمبلی میں پیش کر دیا گیا۔ کنسٹرکشن سروسز پر سیلز ٹیکس کی شرح 16فیصد سے کم کر کے5فیصد کی جا رہی ہے۔ نئی کاروباری فرموں کے لئے ہر قسم کی رجسٹریشن فیس ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال میں 25ارب روپے کے انویسٹمنٹ بانڈز جاری کئے جائیں گے۔ صوبائی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایڈہاک الاﺅنس 2010ءضم کر کے 10 اضافے کی تجویز ہے اور پنشن میں بھی 10 فیصد اضافے کی تجویز ہے۔ مزدور کی کم از کم تنخواہ 15ہزار روپے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ڈیلی ویجز کارکنوں کا معاوضہ بھی 15ہزار روپے سے کم نہیں ہو گا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور الاﺅنسز کا جائزہ لینے کے لئے پے کمیشن قائم کیا جائے گا جو اگلے بجٹ کے لئے تنخواہوں اور الاﺅنسز کے حوالے سے تجاویز پیش کرے گا۔صوبائی وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے پنجاب اسمبلی میںتقریر کرتے ہوئے مالی سال 2017-18ءکے میزانیے کے خدوخال بیان کرتے ہوئے بتایاکہ صوبائی بجٹ کا کل حجم 1970ارب 70 کروڑ روپے ہے جو پنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں پچھلے مالی سال کی نسبت 29.5 فیصد اضافے کے بعد حجم635ارب روپے کی ریکارڈ حد تک پہنچ گیا ہے۔ ایجوکیشن سیکٹر کے لئے بجٹ کا 21 فیصد مختص کیا گیا ہے۔ ایجوکیشن سیکٹر کے 343.4 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جبکہ جاری اخراجات کے لئے میزانیہ 1020.8ارب روپے تک ہے۔تعلیم، صحت، زراعت، امن عامہ اور مقامی حکومتوں کے لئے کل بجٹ کا 59فیصد مختص کیا گیا ہے جو 1017ارب روپے ہے۔ پی ایف سی ایوارڈ کے تحت قابل تقسیم محاصل کا 44فیصد مقامی حکومتوں کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آئندہ مالی سال میں جنرل ریونیو وصولیوں کی مد میں 1502ارب روپے کا تخمینہ ہے۔ وفاق سے 1154 ارب 18کروڑ روپے کی آمدن متوقع ہے جبکہ صوبائی ریونیو کی مد میں 348ارب 30 کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ٹیکس کی مد میں حکومت پنجاب کو 230 ارب 98 کروڑ روپے جبکہ نان ٹیکس ریونیو کی مد میں 117ارب روپے حاصل ہونے کی توقع ہے۔ بجٹ میں تنخواہوں کے لئے 258 ارب اور پنشن کے لئے 173 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ مقامی حکومتوں کے لئے 361 جبکہ سروس ڈلیوری اخراجات کے لئے 228ارب 10 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ تعلیم، صحت، واٹرسپلائی، سینیٹیشن، وومن ڈویلپمنٹ اور سوشل ویلفیئر سیکٹر کے لئے 201 ارب 63 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ مجموعی طور پر سوشل سیکٹر کے لئے آئندہ مالی سال میں ترقیاتی بجٹ کا 32 فیصد مختص کیا گیا ہے۔ صوبائی وزیر نے پنجاب اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ رواں مالی سال کی نسبت آئندہ بجٹ میں شعبہ تعلیم کے لئے 33ارب روپے زائد مختص کئے جا رہے ہیں۔ شعبہ تعلیم کے لئے مجموعی طور پر 345 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ سکول ایجوکیشن کے لئے 53 ارب 36 کروڑ روپے رکھے جائیں گے۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کو 230 ارب روپے دیئے جائیں گے۔ آئندہ مالی سال میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھاٹیز کو 36.6فیصد اضافی وسائل فراہم کئے جا رہے ہیں۔ سکولوں کی روزمرہ ضروریات کے لئے نان سیلری بجٹ پروگرام کے تحت 14 ارب، زیور تعلیم پروگرام کے لئے 6ارب 50کروڑ روپے، مفت ٹیکسٹ بکس کی فراہمی کے لئے ساڑھے 3 ارب روپے، خادم پنجاب سکول پروگرام کے لئے ساڑھے 6 ارب روپے مختص کرنے کی تجاویز ہیں۔ 1200سکولوں کی مخدوش عمارتوں کی بحالی کے لئے 4 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں جبکہ ضروری سہولتوں کی فراہمی کے لئے 2 ارب روپے رکھے جائیں گے۔ سرکاری خرچ پر پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم دلانے کے اختراعی پروگرام کا بجٹ 16 ارب روپے کیا جا رہا ہے۔ پنجاب میں ایجوکیشن انیشیٹومینجمنٹ اتھارٹی قائم کی جائے گی جس کے لئے 7 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔ پنجاب ایجوکیشن انڈوومنٹ فنڈ کے لئے آئندہ مالی سال میں 5 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔ تونسہ، منکیرہ میں 4 دانش سکولوں کی تعمیر، میلسی میں کلاسوں کے اجرائ،دیگر دانش سکولوں اور سینٹرز آف ایکسی لینس کی اپ گریڈیشن کے لئے 3 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کے لئے آئندہ بجٹ میں 44 ارب 60 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ 50 نئے ڈگری کالجز ‘ ٹیچرز اکیڈمی اور 3نئی یونیورسٹیز کی عمارتوں کی تعمیر سمیت ہائیر ایجوکیشن ڈویلپمنٹ پروگرام کے لئے 16ارب روپے سے زائد کے فنڈز مہیا ہوں گے۔ لیپ ٹاپ سکیم کے چوتھے مرحلے کے لئے 7 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے لئے شہباز شریف میرٹ سکالرشپ کے تحت 80کروڑ روپے اور چیف منسٹر لینگویج پروگرام کے تحت 70 کروڑ روپے کے سکالرشپ دیئے جائیں گے۔ آئندہ مال سال میں صحت عامہ کے لئے 263ارب 22 کروڑ روپے مختص کئے جا رہے ہیں جو مجموعی بجٹ کا 15.4فیصد ہے۔ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کے لئے 112ارب روپے، ضلعی ہیلتھ اتھارٹی کے لئے 73ارب 50کروڑ روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔ سپشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن کے لئے 120 ارب روپے جبکہ کسی محکمے کی ترقیاتی سکیموں کے لئے 25ارب 36 کروڑ روپے رکھے جائیں گے۔ پنجاب صاف پانی کے لئے 25ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جبکہ پنجاب بھر میں 30کروڑ روپے کی لاگت سے دستی نلکے لگانے کا پراجیکٹ شروع کیا جائے گا۔ زراعت، آبپاشی، لائیوسٹاک، جنگلات، ماہی پروری اور خوراک کے لئے 140 ارب 50 کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ صنعتی شعبے کی بحالی اور ترقی کے لئے 15 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ قائد اعظم ایپرل پارک کے لئے 4 ارب روپے مختص۔ وزیراعلیٰ خود روزگار سکیم کے لئے 2 ارب روپے جبکہ امن عامہ اور انصاف کے لئے 198ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ روڈ سیکٹرکے لئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 90ارب 64 کروڑ روپے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ جس سے خانیوال، جہانیاں، لودھراں دورویہ سڑک اور چوک میتلا پر پل تعمیر بھی کیا جائے گا۔ سپورٹس اور امورنوجواناں کے لئے ساڑھے8ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔ اپنا روزگار سکیم کے تحت 50ہزار بیروزگار نوجوانوں کو گاڑیوں کی فراہمی کے لئے 35ارب روپے کا منصوبہ ہے۔ پسماندہ اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لئے ریجنل ڈویلپمنٹ پروگرام کے لئے 5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اقلیتی برادری کی فلاح و بہبود کے لئے ایک ارب 16کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ صوبائی وزیرخزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے بتایا کہ پاکستانی معیشت کا حجم 300 ارب ڈالر سے بڑھ چکا ہے۔ رواں مالی سال میں معیشت کی شرح نمو 5.28فیصد ہے جبکہ فی کس آمدن 1531ڈالر سے بڑھ کر 1629ڈالر ہو چکی ہے۔ پنجاب میں سی پیک کے تحت متعدد انرجی پراجیکٹس بجلی کی پیداوار کا آغاز کر چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب میں مختلف پراجیکٹس کے لئے 220ارب روپے کی ناقابل یقین بچت کی گئی ہے۔