لاہور (خصوصی رپورٹ)میوہسپتال کی انتظامیہ نے نرسنگ ہاسٹلز کو کاکمائی کا ذریعہ بنالیا جبکہ دونوں نرسنگ ہاسٹلز کی عمارتیں بوسیدہ ہوچکی ہیں اور تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ہاسٹلز مرغیوں کے ڈوبے بن گئے، ہاسٹلز کے بیشتر کمرے مرمت نہ ہونے کی وجہ سے دن بدن بوسیدہ ہوتے جارہے ہیں جبکہ بجلی کی وائرنگ بھی بہت پرانی ہے جو کسی بھی حادثہ کی وجہ بن سکتی ہے اور ہاسٹلز کا پانی بھی پینے کے قابل نہیں، ہاسٹلز میں مقیم سینکڑوں نرسوں کے لیے صرف کینٹین میں ایک کولر ہے جس کے فلٹر بھی کئی ماہ گزرنے کے باوجود تبدیل نہیں کئے گئے۔ تفصیلات کے مطابق میو ہسپتال میں نرسوں کے لیے 2ہاسٹل ہیں جن میں ایک اولڈ اور دوسرا نیوٹن ہال ہاسٹل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اولڈ ہاسٹل کی عمارت میں 45کمرے ہیں جن میں 7سو کے قریب نرسوں کو رکھا ہوا ہے اور ہر نرس سے کنوینس الاﺅنس و ہاﺅس رینٹ الاﺅنس کی مد میں 6ہزار رولے لیے جارہے ہیں جو کہ ماہانہ لاکھوں روپے بنتے ہیں جبکہ سہولیات بہت ہی کم ہیں اور ایک کمرے میں جس میں 2سے تین لوگوں کی جگہ ہوتی ہے اس میں 6 سے 7نرسیں مقیم ہیں جبکہ نماز کے لیے مختص کئے گئے کمروں میں بھی 10سے بارہ نرسوں کو رکھا ہوا ہے۔ نیوٹن ہال ہاسٹل میں 30کمرے ہیں جن میں300 کے قریب نرسیں رہائش پذیر ہیں اور اس کی عمارت کی حالت انتہائی خراب ہے جس کی مئی میں مرمت شروع کی گئی تھی لیکن چند ہی دنوں بعد اس کو روک دیاگیا اور آج تک مرمت کا کام دوبارہ شروع نہیں ہوسکا۔اس حوالے سے ایم ایس میو ہسپتال کا کہنا تھا کہ نرسنگ ہاسٹلز کی مرمت بہت جلد شروع کردی جائے گی، فنڈز کی منظوری کیلئے محکمہ کو پی سی ون بھیج چکے ہیں، نرسوں کی تمام شکایات کا ازالہ کیا جارہا ہے ، کوئی نرس بھی ہسپتال میں ایسی نہیں جس کو ہاسٹل میں جگہ نہ دی گئی ہولاہور (خصوصی رپورٹ)صوبائی دارالحکومت کے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے مفت سہولت کے طور پر وہیل چیئرز اور سٹریچرز کرائے پر دینے کا انکشاف ہوا ہے جس پر حکومت نے سرکاری ہسپتالوں کے سربراہان سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کو ایک خفیہ رپورٹ ارسال کی گئی ہے۔ جس میں بتایاگیاہے کہ حکومت کی ہدایت پر تمام ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز میں مریضوں کی سہولت کیلئے درجنوں وہیل چیئرز ورسٹریچرز فراہم کئے گئے ہیں اور مریضوں کو یہ سہولت ہسپتال کے ملازمین سمیت مفت فراہم کی گئی جو مریض کی خوش اخلاقی سے متعلقہ وارڈز میں پہنچائیں گے۔ تاہم ان وہیل چیئرز اور سٹریچرز پر مامور ملازمین مریضوں سے 500روپے سے ایک ہزار روپے فی کس تک وصول کرتے ہیں اور مریض دینے سے انکار کریں ان کو اس سہولت سے بھی محروم کردیاجاتاہے۔ بالخصوص گائنی کے مریضوں کو اس ضمن میں شدید پرشانی کا سامنا ہے جن میں سے بعض مریض فرش پر لیٹ جاتے ہیں اور ملازمین تماشا دیکھتے رہتے ہیں اس رپورٹ کے تناظر میں حکومت نے سرکاری ہسپتالوں کے سربراہان سے فوری تفصیلات طلب کرلی ہیں اور فیصلہ کیا ہے کہ ان تمام ملازمین کر برطرف کیاجائے
