کراچی(ویب ڈیسک)خون سے فاسد مادّوں کی صفائی میں گردوں کا کردار بہت اہم ہے لیکن اگر خدانخواستہ کسی کے گردوں میں پتھری ہو جائے تو نہ صرف وہ خود بلکہ اس کے گھر والے اور دوست احباب بھی سخت پریشانی میں ا?جاتے ہیں۔
اچھی خبر یہ ہے کہ کچھ سادہ تدابیر اختیار کرکے گردوں کی پتھری سے ہمیشہ کے لیے بچا جا سکتا ہے اور اگر کسی کے گردوں میں پتھری ہو تو وہ ان تدابیر پر عمل کرکے اسے مزید بڑھنے سے روکتے ہوئے اپنے علاج میں سہولت پیدا کر سکتا ہے۔
اگر ا?پ گردوں کی پتھری سے بچنا چاہتے ہیں تو ہر روز پورے دن میں 6 سے 8 گلاس پانی پیجیے جو 1.5 لیٹر سے 2 لیٹر یومیہ بنتا ہے۔ وہ افراد جو گردے کی پتھری میں مبتلا ہیں انہیں اس سے زیادہ پانی استعمال کرنا چاہیے جو 3 لیٹر روزانہ یا اس سے کچھ زیادہ ہو سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گردے کی پتھری عام طور پر کیلشیم، فاسفیٹ یا ا?گزالیٹ سے بنی ہوتی ہے اور بالعموم غذا کے ذریعے خون میں شامل ہونے والے یہ مادّے پانی میں بخوبی حل ہوجاتے ہیں اس لیے پانی کا زیادہ استعمال انہیں پتھری کی شکل میں جمع ہونے سے باز رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں، پانی کی اضافی مقدار نہ صرف پتھری کے سائز کو قابو میں رکھتی ہے بلکہ ممکنہ طور پر اس کی جسامت بھی کم کرسکتی ہے۔
جرنل ا?ف دی امریکن سوسائٹی ا?ف نیفرولوجی میں شائع شدہ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق وہ لوگ جو پورے ہفتے میں مجموعی طور پر 3 گھنٹے پیدل چلنے یا ایک گھنٹہ جاگنگ کرنے کے عادی تھے، ان میں گردے کی پتھری کا خطرہ 33 فیصد تک کم تھا۔ اگرچہ اس کی درست وجہ تو معلوم نہیں لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ چہل قدمی، دوڑ اور جسمانی حرکت و مشقت کے نتیجے میں ہمارا جسم غذائی معدنیات کو مختلف انداز سے جذب کرتا ہے جس کی وجہ سے پتھری کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
وہ لوگ جو سافٹ ڈرنکس (خاص کر کولا مشروبات) شوق سے اور خوب پیتے ہیں انہیں ہوشیار ہوجانا چاہیے کیونکہ ان مشروبات میں اضافی شکر کے علاوہ ایسے مادّے بھی شامل ہوتے ہیں جو گردوں میں پتھری کی وجہ بنتے ہیں۔ برگہام اینڈ ویمنز ہاسپٹل میں کیے گئے ایک مطالعے سے معلوم ہوا کہ روزانہ کولڈ ڈرنک کی ایک بوتل (250 ملی لیٹر) پینے والے افراد میں گردے کی پتھری کا خطرہ کولڈ ڈرنک نہ پینے والے افراد کے مقابلے میں 23 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
دودھ اور دہی، دونوں میں کیلشیم کی مقدار وافر ہوتی ہے اور اسی لیے پہلے طبی ماہرین سمجھتے تھے کہ ان کے استعمال سے گردے کی پتھری ہوسکتی ہے لیکن حالیہ تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں بلکہ دودھ اور دہی کا روزانہ استعمال نہ صرف گردے کی پتھری ہونے سے روکتا ہے بلکہ اگر پہلے سے پتھری ہو تو یہ اس کی جسامت بھی بڑھنے نہیں دیتے۔ معلوم ہوا ہے کہ دودھ/ دہی میں شامل کیلشیم میں قدرتی طور پر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ یہ ا?نتوں میں ا?گزالیٹ مادّوں کو جکڑ لیتا ہے اور گردوں تک پہنچنے نہیں دیتا۔
کلینیکل جرنل ا?ف دی امریکن سوسائٹی ا?ف نیفرولوجی میں شائع شدہ ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ جو دن میں کم سے کم ایک کپ کافی پیتے ہیں ان میں گردے کی پتھری کا خطرہ 26 فیصد کم ہوتا ہے۔ کم کیفین والی (ڈی کیفی نیٹڈ) کافی پینے والوں میں یہ خطرہ 16 فیصد کم جبکہ روزانہ کم از کم ایک کپ چائے پینے والے افراد میں گردے کی پتھری کا خطرہ 11 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔
اگر ا?پ کے جسم میں چربی بڑھ رہی ہے، خون میں ٹرائی گلیسرائیڈ کی مقدار زیادہ لیکن ایچ ڈی ایل (مفید کولیسٹرول) کی مقدار کم ہے، اکثر ہائی بلڈ پریشر رہتا ہے اور ا?پ کا جسم بھی گلوکوز کو برتنے میں دشواری کا شکار ہے تو ہوشیار ہوجائیے کیونکہ یہ تمام علامات ”میٹابولک سینڈروم“ کی واضح نشانیاں ہیں جس کا نتیجہ مستقبل قریب میں ہارٹ اٹیک، ذیابیطس اور ناگہانی موت تک کی شکل میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ اگر مذکورہ علامات میں سے صرف 2 ا?پ میں موجود ہیں تو دیگر افراد کے مقابلے میں ا?پ کو گردے کی پتھری کا خطرہ 54 فیصد زیادہ ہے؛ اور اگر ان میں سے 3 علامات ا?پ اپنے اندر واضح طور پر دیکھ رہے ہیں تو یہ امکان 70 فیصد سے زیادہ ہے۔ ان تمام شواہد کی روشنی میں ماہرین کا مشورہ ہے کہ میٹابولک سینڈروم پر کڑی نظر رکھی جائے اور اگر ہائی بلڈ پریشر یا وزن میں اضافہ ہونے لگے تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرلیا جائے۔
پروٹین ہماری اہم ترین غذائی ضروریات میں شامل ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہم یہ ضرورت پوری کرنے کے لیے صرف گوشت ہی پر تکیہ کر لیں کیونکہ اس میں پروٹین کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اب یہ بات سامنے ا? چکی ہے کہ حد سے زیادہ غذائی پروٹین کا استعمال بھی گردے کی پتھری بننے اور اس کی جسامت میں اضافے کے لیے مثالی ماحول فراہم کرتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اپنی غذا میں گوشت کی مقدار متوازن رکھیے اور سبزیوں، پھلوں اور دالوں پر بھی توجہ دیجیے جبکہ دہی کا استعمال بھی اس حوالے سے مفید رہتا ہے