اسلام آباد (بی بی سی) سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کی نااہلی کے خلاف درخواستوں کی سماعت جاری ہے۔عمران خان اور جہانگیر خان ترین کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں میں آئین کے اسی آرٹیکل کے تحت نااہلی مانگی گئی ہے جس کے تحت پاناما لیکس کے مقدمے میں وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کی درخواست کی گئی ہے۔ پاناما لیکس کے مقدمے میں وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے خلاف عمران خان چونکہ نواز شریف نے نہ صرف اپنے اثاثے چھپائے بلکہ انھوں نے پارلیمان اور قوم سے خطاب کے دوران جھوٹ بولا اس لیے وہ آئین کے عوامی نمائندگی ایکٹ کے آرٹیکل 62 ایف ون کے تحت صادق اور امین نہیں رہے لہذا انھیں نااہل قرار دیا جائے۔وزیراعظم اور ان کے بچوں کے خلاف دائر درخواستوں میں درخواست گزاروں کا موقف یہ ہے کہ جائیدادوں کے بارے میں ثبوت پیش کرنا مدعا علیہان کی ذمہ داری ہے اور اگر وہ ثبوت نہ دے سکیں تو پھر وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا جائے جبکہ اس کے برعکس عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف دائر درخواستوں میں ان دونوں رہنماو¿ں کا موقف ہے کہ بار ثبوت درخواست گزاروں پر ہے اور اگر وہ ثبوت نہ دے سکیں تو ان درخواستوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے۔پاناما کیس کی سماعت کے دوران عمران خان نے عدالت سے کہا تھا کہ اپوزیشن کا کام تو الزام لگانا ہے جبکہ ثبوت فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف درخواستوں میں درخواست گزار اور حکمراں جماعت کے رہنما حنیف عباسی کے وکیل بھی جسٹس آصف سعید کھوسہ کے فیصلے کا حوالہ دیتے رہے کہ بار ثبوت کسی چیز کی ملکیت تسلیم کرنے والے پر ہوتا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اسی پانچ رکنی بینچ کی سربراہی کی تھی جن میں سے ان سمیت دو ججوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا۔عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف ان درخواستوں کی سماعت کے دوران وکلا کے دلائل سننے کے بعد یقین نہیں ہوتا تھا کہ یہ وہی وکلا ہیں جو وزیر اعظم کے خلاف درخواستوں میں اس کے برعکس دلائل دے رہے تھے۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ اگر نواز شریف نااہل ہوئے تو پھر عمران خان کی نااہلی بھی پکی ہے کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی جیسی درخواستوں میں ایک کو نااہل قرار دیا جائے اور دوسرے کو چھوڑ دیا جائے۔ایک طرف جہاں عمران خان وزیر اعظم کو نااہل قرار دلوانے میں بےتاب ہیں تو دوسری طرف حکمراں جماعت کی بھی یہی خواہش ہے کہ اگر ان کی قیادت کو نااہل قرار دیا جاتا ہے تو اگلے ہی لمحے عمران خان اور جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا جائے تاکہ حساب برابر ہو۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان مسلم لیگ نواز سے وزیر اعظم کو نکال دیا جائے تو پھر یہ جماعت دھڑم سے نیچے آ جائے گی اور بالکل اسی طرح اگر عمران خان کو تحریک انصاف سے مائنس کر دیا جائے تو اس جماعت کی عوام میں مقبولیت نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔
