تازہ تر ین

طالبان قیادت کی موجودگی, امریکی جنرل کا پاکستان پر سنگین الزام

کابل/واشنگٹن (آئی این پی ) افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی افواج کی قربانیوں کا اعتراف کیا ہے تاہم ایک مرتبہ پھر پاکستان پر طالبان کی حمایت کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ملک سے باہر موجود دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں سنجیدہ صورت حال اختیار کرچکی ہیں اور اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے ۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے کہا کہ پاکستانی عوام نے دہشت گردوں کے ہاتھوں شدید نقصان اٹھایا ہے، ان کی سیکیورٹی افواج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ بہت بہادری اور حوصلے سے لڑی، اور ہم اس کا احترام کرتے ہیں، تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں پاک امریکا تعلقات کی موجودہ صورت حال بیان کی ہے، درحقیقت پاکستان امریکا تعلقات تاریخ کے نازک ترین موڑ پر پہنچ چکے ہیں، جنہیں واشنگٹن سے لے کر اسلام آباد تک سنبھالنے کی کوشش ہورہی ہیں۔جنرل نکلسن نے کہا کہ ہم امریکا پر حملہ روکنے کے لیے افغانستان میں موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکا پر کوئی بڑا حملہ نہیں ہوا، طالبان کی حکومت کو اس لیے ختم کیا گیا کہ انہوں نے القاعدہ کو پناہ دی، القاعدہ اور طالبان ہنوز میدان جنگ میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں، افغانستان میں طالبان کی واپسی کا مطلب القاعدہ کی واپسی ہے، اور القاعدہ کی واپسی کا مطلب امریکا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکا کی موجودگی کی ایک وجہ یہ ہے کہ پچھلے 16 سال میں مزید دہشتگرد گروپس بن گئے ہیں جس کی مثال داعش ہے، داعش خراسان بنیادی طور پر پاکستانیوں پر مشتمل ہے، ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے پشتونوں اور اسلامک موومنٹ ازبکستان کے جنگجوں نے یہ تنظیم بنائی جو اب افغانستان کے علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہی ہے، تاہم امریکی و افغان اسپیشل فورسز نے مشترکہ آپریشن میں داعش کے سرفہرست تین رہنماں سمیت نصف سے زیادہ افرادی قوت کو ختم کردیا ہے۔ طالبان کی وجہ سے داعش وجود میں آئی، اگر طالبان واپس آگئے تو داعش اور القاعدہ دونوں زور پکڑ لیں گی۔ ادھر افغانستان کے غیر سرکاری نشریاتی ادارے کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں جنرل جان نکلسن کا کہنا تھا کہ امریکا جانتا ہے کہ طالبان کی قیادت کوئٹہ اور پشاور میں موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک سے باہر موجود پناہ گاہوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے پاکستان اور امریکی حکومت کے درمیان نجی طور پر بات چیت کی گئی تھی لیکن ان کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔امریکی کمانڈر کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کی حمایت میں کمی آئی ہے تاہم اسے ختم ہونا چاہیے۔ایک سوال کے جواب میں جنرل جان نکلسن کا کہنا تھا کہ افغانستان کے مسئلے کا سفارتی حل ممکن ہے لیکن ملک میں جاری فوجی کوششیں جاری رہیں گی اور امریکا افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ میری توجہ افغانستان میں جاری سرگرمیوں پر مرکوز ہیں، لیکن دیگر حکام پاکستان میں موجود ان دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔امریکی کمانڈر کا دعوی تھا کہ کوئٹہ شوری اور پشاور شوری پاکستان کے شہروں کی نشاندہی کرتی ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ طالبان رہنما ان علاقوں میں موجود ہیں۔۔خیال رہے کہ دو روز قبل امریکی کمانڈر نے کابل میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کو زمینی جنگ میں کامیابی حاصل نہیں ہورہی اور ان کے پاس یہ وقت ہے کہ وہ امن عمل میں شمولیت اختیار کریں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم افغانستان میں ناکام نہیں ہوں گے، جیسا کہ اس پر ہماری قومی سلامتی کا انحصار ہے۔یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں مزید ہزاروں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کی راہ ہموار کرتے ہوئے امریکا کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کے وعدے سے مکر گئے تھے جبکہ پاکستان پر دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کا الزام دہرادیا تھا۔بحیثیت کمانڈر اِن چیف امریکی قوم سے اپنے پہلے رسمی خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کیا۔اپنے خطاب میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہیں گے۔امداد میں کمی کی دھمکی دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کو اربوں ڈالر ادا کرتے ہیں مگر پھر بھی پاکستان نے ان ہی دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے جن کے خلاف ہماری جنگ جاری ہے۔امریکی صدر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اس رویے کو تبدیل ہونا چاہیے اور بہت جلد تبدیل ہونا چاہیے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain