لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میاں نوازشریف صاحب کی واپسی اور چوہدری نثار علی خان سے ملاقات پر بہت پیشگوئیاں اس طرح ہوں گی کہ شاید پیشگوئی کرنے والے وہاں موجود تھے۔ اس سے قبل کہ سیاسی گفتگو کی جائے میں قومی ایئرلائن کی کارکردگی بتانا چاہتا ہوں پاکستان کی قومی ایئرلائن پی آئی اے عوام کو تقسیم کرنے کے درپے ہے۔ لاہور، بہاولپور فلائٹ کو بند کر دی گئی حالانکہ ماضی میں اس روٹ پر فلائٹس چلا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ ڈی جی خان، رحیم یار خان کی فلائٹ بند ہیں اور ملتان کی صرف ایک فلائیٹ ہے۔ سڑک کے ذریعے یہ فیصلہ 11 سے 12 گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ جہاز نہ ہونے کا بہانہ کر کے پی آئی اے عوام کو گولی دے رہی ہے حالانکہ لیز پر لے کر بھی جہاز چلائے جا سکتے ہیں۔ میاں محمد نوازشریف کی واپسی پر بہت چہ میگوئیاں ہوئیں۔ ملتان میں پی پی پی کی اکثریت ہے وہاں لوگوں کا تبصرہ یہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف کے کیسز بھی عدالت میں تھے اور ان کے نام ای سی ایل پر ڈال دیئے گئے تھے۔ تو میاں صاحب کا نام کیوں ای سی ایل پر نہیں ڈالا جاتا۔ اعلیٰ ترین عدالتوں سے درخواست ہے کہ سب کو یکساں تصور کرتے ہوئے فیصلے دیا کریں۔ کلثوم نواز اچھی خاتون ہیں انہوں نے پرویز مشرف دور میں اچھی مہم چلائی تھی۔ حالانکہ پولیس نے بھی ان کے خلاف کارروائیاں کی تھیں۔ وہ الیکشن جیت چکی ہیں۔ وہ وزیراعظم بنیں یا نہ بنیں یہ پارٹی کا معاملہ ہے۔ ہماری عوام باشعور ہو چکی ہے۔ عدالتی فیصلوں پر بحث کرنا معمول بن گیا۔ ریڑھی بان اور دکاندار کھل کر گفتگو کرتے نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکمرانوں کے خلاف کچھ نہیں ہو گا اور عام آدمی کو سخت سزا ملے گی۔ اعلیٰ عدالت اور ادارے خدا کیلئے ایک جیسا معیار سب کے لئے مقرر کریں۔ کسی کے لئے کچھ اور کسی کے لئے کچھ جیسا معیار اب نہیں چلنے والا۔ اپنے پکڑے جائیں تو کوئی بات نہیں دوسرا پکڑا جائے تو فوراً ای سی ایل پر۔ لوگ الیکشن کمیشن کے بارے کہہ رہے ہیں کہ ”عمران خان نوں پھڑ لیتا ہے ہون تن دیں گے اینوں“ نوازشریف صاحب شیر ہیں وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ وہ پنجاب ہاﺅس میں اجلاس کریں یا جو مرضی کریں۔ جنگل میں کون شیر کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے۔ چودھری نثار علی خان کے بارے ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ میاں نوازشریف کو چھوڑنے والے نہیں۔ وہ ن لیگ سے علیحدگی نہیں کریں گے۔ آج نوازشریف اور چودھری نثار کی ملاقات ہوئی ناراضیاں دور ہو گئی ہوں گی۔ تاجی کھوکھر کے بھائی نواز کھوکھر نے مجھے کہا کہ وہ جیل میں آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ اس نے مجھے کہا کہ آپ چودھری نثار علی خان کو نہیں جانتے۔ انہوں نے علاقے میں بہت قبضے کر رکھے ہیں۔ اس نے کہا کہ ہم اپنا دروازہ حکومت اور اپوزیشن دونوں جگہ کھول کر رکھتے ہیں۔ اس نے کہا ایک دن ”جپھی“ پڑے گی اور سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آج دونوں مل گئے اور تمام بات ختم ہو گئی۔ ملازم طبقے کو فیصلوں کا حق نہیں ہوتا۔ مالک فیصلہ کرتا ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے۔ نوازشریف جب شاہد خاقان عباسی کو کہیں گے کہ چلے جاﺅ تو وہ چلے جائیں گے ان کی اپنی کوئی مرضی نہیں۔ پارٹی اگر شہبازشریف کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کرتی ہے تو وہ شاہد خاقان عباسی سے بہت بہتر وزیراعظم ہوں گے۔ پارٹی صدر بھی بن جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ سینٹ میں پاس ہونے والے پارٹی صدارت کے بل کو لوگ اس طرح دیکھ رہے ہیں کہ یہ عدالتی احکامات کے خلاف ہے اس لئے جب عدلت میں جائے گا تو فوراً اڑ جائے گا۔ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ عدالتت کل کو اپنا فیصلہ واپس بھی لے لے تو لے لے۔ یہی نہیں کہ اقامہ تو تھا کون سی بڑی بات تھی۔ مریم نواز بھی کہہ چکی ہیں کہ انہیں بچوں سے تنخواہ نہ لینے پر نکالا گیا۔ میرا خیال ہے کہ ایک ایسا این آر او آ جائے کہ ماضی میں جو کچھ ہوا سو ہوا سب کو معاف کر دیا جائے۔ جیلوں کے گیٹ کھول دیا جائے اور سب کو رہا کر دیا جائے۔ جس طرح عمران خان کہتا ہے کہ بے قصوروں کو کیوں پکڑتے ہو۔ جیلوں میں سیدھا سیدھا کلیر یہ ہے کہ اتنا پیسہ ایک سائیڈ پر رکھ دو اور قتل کر دو یہ عام بات تھی کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کو پیسے دو وہ تمہیں رات کو باہر نکال دے۔ ایک بلوچ لیڈر کو رات دس بجے باہر نکالتے تھے وہ بازار حسن سے گانا سن کر آتا تھا۔ میں اس کے ساتھ والے کمرے میں تھا۔ آ کر تڑیاں دیتا تھا کہ میں کہاں سے آیا ہوں۔ گیارہ بارہ بجے واپس ااتا تھا۔ سب کے کمروں کو تالا لگا ہوتا تھا۔ اس کا دروازہ کھلا ہوتا تھا۔ اس کے بعد دوسرے معاملات آتے ہیں یعنی کہیں زور، کہیں دھمکیاں، کہیں تڑیاں، کہیں رشوت، کہیں جھوٹے مقدمے، کہیں گواہوں کی خریدوفروخت شروع ہو جاتی ہے۔ اب لوگوں میں یہ تاثر ہے کہ کروڑوں میں وکیل کرنے کی بجائے ”جج کر لو“ مجرمان کھلے عام جرم کرتے ہیں بعد میں خبر آئی ہے کہ صلح ہو گئی۔ ہمارے سیاستدانو ںکو کچھ تو تہذیب کا خیال رکھنا چاہئے۔ خورشید شاہ کا کہا کہ ”تھوک کر چاٹ لیا“ عجیب بات ہے کہ لوگ سیاست میں تہذیب بھی بھلا بیٹھے ہیں۔ خورشید شاہ صاحب کے بارے ان کے حلقے سے معلوم تو کریں کہ وہ سیاست میں آنے سے پہلے کیا کرتے تھے ضروری نہیں کہ انہیں اپوزیشن لیڈر سے ہٹا دیا جائے۔ 14 ویں ترمیم کی وجہ سے لوگوں کی قبر کھود دی گئی ہے لوگ نہیں جانتے اس سے کیا ہوا ہے؟ اس کے مطابق اگر کوئی رکن پارلیمنٹ یا سینٹ میں پارٹی کے خلاف بیان دیتا ہے تو اس کی سیٹ ختم۔ ایک طرف تو آزادی رائے کی بات کرنا ہی دوسری طرف طوطے کی جان قید کر لی گئی ہے۔ خورشید قصوری کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ پارٹی میٹنگ میں تو کوئی شخص اختلاف کر سکتا ہے لیکن پارلیمنٹ اور سینٹ میں اپنے لیڈر کے خلاف کوئی بات نہیں کہہ سکتا۔ پارٹی کا حکم حتمی ہے۔ یہ تو فاشسٹ قسم کی بادشاہت ہے۔ جمہوریت کا دور تک اس سے تعلق نہیں پاکستان کے ایک بہت بڑے کاروباری کے بارے میں سپریم کورٹ فیصلہ دیتا ہے کہ اس کی اتنے ہزار ایکڑ زمین جو آصف زرداری صاحب نے انہیں پلیٹ میں رکھ کر دے دی۔ انہوں نے سوئیٹوں میں ان کے لئے گھر بنائے ان کے کمرشل پلازے بنائے۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کی وہ زمین چھن گئی انہوں نے جواب دیا۔ میں رٹ میں جاﺅں گا۔ کہا جنہوں نے فیصلہ دینا ہے ان کے بیوی بچوں نے باہر نہیں جانا؟ انہیں گھر نہیں چاہئیں؟ انہیں پلاٹ نہیں چاہئے۔ ہم نے کہا ہمارے جج ایسے نہیں۔ انہوں نے مسکرا کر کہا ہمارے خلاف فیصلہ آ گیا ہے چند دنوں بعد دیکھنا اس فیصلے کا کیا ہوتا ہے۔ مریم نواز کی سوچ الگ ہے۔ نعیم الحق کا انداز محتلف ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ میرے والد 20 کروڑ عوام کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اسحاق ڈار جیسا پیسوں والا کیس، خلاف آتے نہیں دیکھا۔ ہمارے لیڈروں کو شاید انسانوں کی بجائے جانوروں سے زیادہ وفاداری ملتی ہے اس لئے وہ کتے اور بلیاں پالتے ہیں۔ مشرف صاحب نے اپنا پہلا انٹرویو کتے بٹھا کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ”اتاترک“ کی طرز پر انٹرویو دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں بھی یہی لکھا ہے۔ عابدہ حسین کے والد فوج میں تھے وہ ان کے زمانے سے گھوڑے پالتی ہیں ان کے والد ریس کے گھوڑے پالتے تھے۔ پیرپگاڑا بھی ریس کے گھوڑے پالتے ہیں۔ آصف زرداری صاحب نے زمانہ صدارت میں ایوان صدر میں بھی گھوڑے پال رکھے تھے۔ وہ پولو بھی کھیلتے تھے۔ ریحام خان بھی پپی پالتی تھی لیکن عمران خان ہیوی اور خونخوار کتے ان کے بستر پر تھے۔ جب وہ سونے گئیں تو کتوں کو وہاں دیکھا۔ اس پر اختلاف شروع ہو گیا۔