لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے پروگرام کالم نگار میں گفتگو کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ کار مکرم خان نے کہا کہ سیاسی مفاہمت نظریہ ضرورت کے تحت ہوتی ہے۔ ایم کیو ایم کی پارلیمنٹ ہی 22 نشستیں ہیں۔ تحریک انصاف کی 32 سیٹیں ہیں۔ جماعت اسلامی اور ق لیگ نے ان کے ساتھ شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ کچھ حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی بجائے۔ شیخ رشید کو اپوزیشن لیڈر مقرر کر دیا جائے۔ حالانکہ ان کی ایک سیٹ ہے۔ لیکن ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ پارلیمنٹ کے آخری 6 ماہ باقی ہیں ایسے میں لیڈر آف اپوزیشن کی تبدیلی کا معاملہ سمجھ سے باہر ہے۔ خواجہ آصف کا بیان انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔ 16 سال سے پاکستان دنیا کیلئے اول ٹارگٹ بنا ہوا ہے۔ آرمی کا سپریم کمانڈر وزیراعظم ہوتا ہے۔ نوازشریف کی سوچ، عوام کی اس رائے سے بالکل متصادم ہے جو ہماری عوام بھارت امریکہ اور افغانستان کیلئے رکھتے ہیں۔ فوج میں بھی غلطیاں ہیں۔ لیکن موجودہ قیادت کی سوچ ماضی کی قیادت سے بالکل مختلف ہے۔ اس وقت کاکڑ اور مشرف جیسی سوچ فوج میں موجود نہیں۔ عمران خان سمجھتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے بارے جو کہا وہ درست تھا۔ حالانکہ یہ توہین عدالتت ہے۔ کرکٹ شرفاءکا کھیل سمجھا جاتا تھا لیکن اب یہ نہیں رہا۔ اب اس میں جوا آ چکا ہے۔ لوگوں کے مقاصد کارفرما ہو چکے ہیں۔ معروف صحافی توصیف احمد خان نے کہا کہ سیاست میں کوئی چیز بھی حرف آخر نہیں ہوتی۔ آج کا دوست کل کا دشمن اور کل کا دشمن آج کا دوست ہو سکتا ہے۔ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کی دوستی ایک اچھا قدم ہے۔ اس میں دونوں کا باہمی مفاد ہے۔ یہ مفاہمت ماضی میں ہوتی رہی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو دور میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ ولی خان اور بھٹو میں دشمنی تھی۔ بعد میں دوستی ہو گئی۔ خواجہ آصف کا بیان اداروں سے ٹکراﺅ کا عندیہ لگتا ہے۔ نوازشریف کے ساتھ جو کچھ مشرف نے کیا وہ ابھی تک اسے بھلا نہیں سکے۔ آج فوج بالکل مختلف ہو چکی ہے۔ فوج کے پاس اس وقت اہم ادارے ہیں۔ نوازشریف جو بات خود نہیں کہہ پاتے وہ خواجہ آصف سے کہلوا دیتے ہیں۔ جمہوری نظام میں وزیراعظم کو تمام اہم امور کا ذمہ دار ہونا چاہئے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے۔ عمران خان نے فارن فنڈنگ پر الیکشن کمیشن کو بہت کچھ سنا دیا حالانکہ وہ بھی ایک عدالت ہے۔ نوازشریف نے جو بھی کہا پھر بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ عمران خان خود کو اس سے مستثنیٰ کیوں سمجھتے ہیں۔ آصف زرداری نے نظام کی خرابیوں سے خوب فائدہ اٹھایا۔ خالد چودھری نے کہا اگلے الیکشن سے قبل تین بہت اہم کام ہونے جا رہے ہیں اول یہ کہ نگران سیٹ اپ بننا ہے جس نے الیکشن کروانے ہیں۔ اس کے بعد چیئرمین نیب کی تقرری کا معاملہ ہے اور تیسرے الیکشن کمشنر مقرر ہونا ہے۔ ن لیگ بھی نہیں چاہے گی کہ اپوزیشن لیڈر تبدیل ہو۔ ایسا ممکن نہیں لگتا کہ تحریک انصاف اس میں کامیاب ہو سکے گی۔ خواجہ آصف نے آج ”ڈومور‘’ کہہ کر بہت بڑا پنڈورا بکس کھول دیا ہے۔ خواجہ آصف نے ہر بات اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراﺅ، ہر ملک اپنے مفاد کو سامنے رکھتا ہے۔ دوسروں کے مسائل میں الجھ کر کام خراب ہوتا ہے۔ دوسروں کی جنگ لڑنے میں ہم نے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ خرابی کی جو جڑیں ہم نے خود لگائی تھیں وہ اب تناور درخت بن چکی ہیں۔ سعودی عرب میں اب سوچ تبدیل ہوئی ہے۔ وہاں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت مل گئی ہے۔ مشرف یا عمران خان جتنی چاہیں توہین عدالت کر لیں اس پر ایکشن نہیں ہوتا۔ پھر دوسروں کے ساتھ اتنا سخت رویہ کیسے درست ہو سکتا ہے؟ سیاستدانوں کے گرد ایک شکنجہ تیار ہو رہا ہے۔ بنی گالا کی 300 کنال اور اس کے اخراجات کا جائزہ تو لیں۔ کیا عمران خان کی آمدن اس سے ملتا ہے۔ ہمارے ملک میں نظریہ ضرورت بہت مضبوط ہے۔ عارف وقار نے کہا لیڈر آف اپوزیشن کی تبدیلی کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ 2018ءمیں الیکشن ہونے جا رہے ہیں اس کے علاوہ سینٹ کے الیکشن بھی آ رہے ہیں۔ خواجہ آصف نے آج ڈومور کا کہہ دیا ہے۔ حالانکہ اس وقت ہم دنیا کو یہ باور کروا رہے ہیں کہ ہم نے بہت ڈومور کر لیا۔ اب دنیا کے ڈومور کی ضرورت ہے۔ کرکٹ کو اب کمرشل کھیل بنا دیا گیا ہے۔ اب اس میں جوا آ گیا۔ پسند نا پسند کا عنصر آ گیا۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ کھیل کھیل نہیں رہا۔ بلکہ ایک ایک گیند پر جوا لگنا شروع ہو گیا ہے۔ اب گیم سے بڑھ کر وہ کاروبار بن چکا ہے۔