اسلام آباد (آئی این پی) مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنماو سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ پانامہ پیپرز پر سپریم کورٹ جانا، نواز شریف کا قوم سے خطاب کرنا، جے آئی ٹی کو قبول کرنا یہ سب مسلم لیگ (ن) کے اپنے فیصلے ہیں اس لئے کسی دوسرے پر سازش کرنے کا الزام لگانا درست نہیں، میں نے مشورہ دیا تھا کہ اگرجے آئی ٹی پر تحفظات ہیں تو حکومت کو فوجی قیادت سے بات کرنی چاہیے، تمام سیاسی جماعتوں نے الیکشن مہم شروع کر دی لیکن مسلم لیگ (ن) گومگو کی صورتحال سے دوچار ہے، (ن) لیگ میں پارٹی کے وسیع مفاد کی بجائے ذاتیات پر فوکس ہو رہا ہے، ہمیں ذاتیات کی بجائے پارٹی، جمہوریت اور ملکی مفاد پر فوکس کرنا ہو گا، عدلیہ سمیت کسی بھی ادارے سے محاذ آرائی نہیں کرنی چاہیے، کوئی اور ٹیکنو کریٹ کی بات کرتا ہے تو اسے کرنے دیں وزیراعظم بار بار ٹیکنوکریٹ حکومت کا ذکر کیوں کرتے ہیں، سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی، راحیل شریف اور موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے مجھے کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا، امریکی صدر ٹرمپ کے بیان پر متحد ہو کر بیان دیا گیا جس پر امریکہ کو پالیسی بدلنا پڑی، پاکستان 1970سے زیادہ مشکلات کا شکار ہے، درپیش خطرات کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کئے جا رہے، لندن میں پارٹی کی کوئی باضابطہ میٹنگ نہیں ہو رہی جو برطانیہ جاتا ہے نواز شریف سے ضرور ملاقات کرتا ہے۔ پیر کویہاں پنجاب ہاﺅس میں صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنماءو سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ملک کو 1970سے زیادہ خطرات لاحق ہیںسکیورٹی کے حوالے سے بھی ملکی حالات ٹھیک نہیں، ملک کو آج مختلف سمتوں سے خطرات درپیش ہیں، بدقسمتی سے ہر طرف معمول کے مطابق بزنس نظر آرہا ہے، سکیورٹی کے معاملات پر سب کو متحد ہونا چائیے، ٹرمپ کی طرف سے پالیسی ہمارے اتحاد کی وجہ سے تبدیل ہوئی، امریکی انتظامیہ کی طرف سے جو تھوڑی سے بہتری آئی ہے وہ ہمارے باہمی اتحاد کی وجہ سے آئی، اگر ہم ایک آواز بنیں تو چیلنجز کا سامنا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ذاتیات سے نکلنا ہو گا، ہمیں پارٹی کے مفاد کو دیکھنا ہوگا، اس وقت مسلم لیگ(ن) میں ذاتیات پر توجہ دی جا رہی ہے، اگر پارٹی کا مفاد دیکھا جا ئے تو ذاتیات کو بھی فائدہ ہوگا اور پارٹی کو بھی۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ انتخابات کو وقت پر منعقد ہونا چاہئے، مجھے مفاہمتی اور مزاحمتی گروپس کے الفاظ سے چڑہے۔ انہوں نے کہا کہ دیگر سیاسی جماعتیں الیکشن مہم میں چلی گئی ہیں اور سب جماعتوں نے الیکشن مہم شروع کر رکھی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) گومگو کی کیفیت سے دوچار ہے، ہمیں اس کیفیت اور ذاتیات سے باہر نکلنا پڑے گا، پارٹی جمہوریت اور ملک کے مجموعی مفاد پر فوکس کرنا ہو گا، جب ہم پارٹی کا وسیع مفاد دیکھیں گے تو اس میں پارٹی کی بقائ، بہتری اور افراد کی بھی بہتری ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں آخری شخص ہوں گاجو اس بیانیے کا حصہ بنے گا کہ الیکشن بروقت ہونے چاہئیں، مجھے نہیں معلوم کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بار بار ٹیکنوکریٹ حکومت کا ذکر کیوں کرتے ہیں، شاہد خاقان عباسی کو بطور وزیراعظم ٹیکنوکریٹ حکومت کے حوالے سے بات نہیں کرنی چاہیے تھی، اگر کوئی اور ٹیکنو کریٹ حکومت کی بات کرتا ہے تو اسے کرنے دیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن)کو 1999سے بڑے چیلنجز ہیں، پارٹی میں تقسیم نہیں ہے اختلاف رائے ہے، بطور لیڈرز ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے جیالوں کا تحفظ کریں، یہ مارشل لا کی حکومت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ پیپرز پر ہم خود سپریم کورٹ گئے اور کمیشن بنانے کی بات بھی ہم نے خود کی، سپریم کورٹ کو ہم نے خط لکھا جس میں کہا کہ جس طرح کی بھی تحقیقات عدالت کرے ہمیں کوئی اعتراض نہیں، اب یہ کہنا کہ ہمارے خلاف کسی نے سازش کی ہے یہ بات صحیح نہیں ہے، سابق وزیراعظم نواز شریف کے قوم سے خطاب کا مسئلہ بھی ہوا، میں نے اس کی مخالفت بھی کی، سپریم کورٹ کو خط لکھنے کی بھی میں نے مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ پیپرز پر سپریم کورٹ جانا، نواز شریف کا خطاب کرنا، جے آئی ٹی کو قبول کرنا یہ سب مسلم لیگ (ن) کے اپنے فیصلے ہیں اور ان فیصلوں کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ سب کے سامنے ہے اور اب پارٹی اور حکومت کو جو نقصان ہو رہا ہے اس پر ٹھنڈے انداز میں سوچ و بچار کرنی ہے۔ انہوںنے کہا کہ فیصلے عدالتوں نے کرنے ہیں ہمیں عدالتوں سے کسی صورت بھی محاذ آرائی نہیں کرنی چاہیے، عدالتی فیصلوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے وہ بھی قانونی دائرے میں رہ کر مگر محاذ آرائی نہیں کی جا سکتی، ہمیں ریلیف عدالتوں سے ہی مل سکتا ہے، مجھے محاز آرائی کے آثار نظر آرہے تھے اسی لئے حکومت میں شامل نہیں ہوا، دوسرے اداروں سے بھی محاز آرائی نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جب حکومت میں تھے تو میں نے حکومت میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پانامہ کیس میں عدالتی جدوجہد جاری رہنی چاہیے اور سیاسی میدان میں الیکشن کے حوالے سے تیاری شروع کر دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماﺅں کا اکٹھا ہونا محض حسن اتفاق ہے، وہاں پارٹی کی کوئی باضابطہ میٹنگ نہیں ہو رہی تاہم جو بھی برطانیہ جاتا ہے وہ سابق وزیراعظم نواز شریف سے ضرور ملاقات کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کے حوالے سے جو تحفظات تھے اس پر میں نے مشورہ دیا تھا کہ ہمیں ان تحفظات پر فوجی قیادت سے بات کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی آپریشن میں نے شروع کیا تھا اور فوج سمیت میں نے کسی سے بھی اس کی اجازت نہیں لی، میرے دور میں وزارت داخلہ میں سول عام فورسز کے شعبوں کے سربراہان کی تقرریاں وزارت داخلہ کی سفارش پر ہوتی رہیں۔ سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی، راحیل شریف اورموجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے مجھے کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا۔