لاہور (نیااخبار رپورٹ) غیب کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کے پاس نہیں۔ ستارہ شناسی محض حساب کتاب پر مشتمل ایک دنیاوی علم ہے۔ ایک ستارہ شناس ماضی اور حال میں ستاروں کی پوزیشن کا موازنہ کر کے اپنا تجزیہ اور اندازہ بیان کرتا ہے‘ لہٰذا ان ”پیش گوئیوں“ کو اس تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہئے۔ ضروری نہیں کہ آسٹرولوجسٹ حضرات کی بیان کردہ باتیں درست ہی ثابت ہوں۔ شہرت یافتہ آسٹرولوجسٹ سید انتظار حسین زنجانی کا کہنا ہے کہ ”پاکستان کا ایک زائچہ اگست 1947ءکا ہے اور دوسرا زائچہ ملک دولخت ہونے کے بعد 20دسمبر 1971کو بنایا گیا۔ اب آسٹرولوجسٹ اس نئے زائچے کو ہی فالو کرتے ہیں۔ اس زائچے میں اس وقت زحل آخری گھر میں بیٹھا ہوا تھا اور 20جنوری 2020ءتک وہیں رہے گا۔ علم نجوم میں زحل‘ عدلیہ اور حکمرانوں سے منسوب ہے‘ لہٰذا اگلے اڑھائی برس تک عدلیہ اور کسی بھی حکومت کے درمیان مثالی ہم آہنگی کا امکان نہیں‘ یعنی حکومت چاہے کسی بھی پارٹی کی ہو‘ باہمی کشمکش جاری رہے گی‘ چونکہ عدلیہ سے منسوب ستارہ مضبوط پوزیشن میں چل رہا ہے لہٰذا اس کشمکش میں اسی کے غالب رہنے کا امکان ہے۔ ستاروں کی خرابی جنوری سے شروع ہو رہی ہے۔ رواں برس کے تین ابتدائی مہینے کیلئے زیادہ موافق نہیں ہیں۔ جنرل الیکشن وقت مقررہ پر نہیں ہوں گے۔ چند ماہ آگے بڑھ جائیں گے۔ اس کے بعد مئی‘ جون‘ جولائی‘ اگست‘ ستمبر اور اکتوبر یہ 6ماہ بہت اہم ہیں۔ ان چھ ماہ کے دوران کیونکہ پاکستان کے زائچے میں راہو اور کیتو متصادم پوزیشن میں آ جائیں گے اور یہ طالع اور پاکستانی زائچے کے چوتھے گھر کے درجات سے ٹکرا رہے ہیں‘ لہٰذا اس عرصے کے دوران پاکستان کو لاحق بیرونی خطرات بڑھ سکتے ہیں اور دشمن ممالک کی طرف سے سرجیکل سٹرائیک کا خطرہ ہے۔ اس مہم جوئی کیلئے امریکہ‘ اسرائیل‘ بھارت اور افغانستان ایک ہو جائیں گے‘ یوں فوج کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی۔ ممکنہ سرجیکل سٹرائیک کے نتیجے میں عوام میں حب الوطنی کا جذبہ 65ءکی طرح عروج پر پہنچ جائے گا۔ سوائے غداروں کے تمام عوام اور پارٹیاں آپس کے اختلافات بھلا کر ایک ہو جائیں گی اور پاک فوج ممکنہ سرجیکل سٹرائیک کا منہ توڑ جواب دے گی۔ ملک کے سارے عوام فوج کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ یوں دشمن کو خفت اٹھانا پڑے گی۔ نئے برس کا آغاز پیر کے دن سے ہو رہا ہے۔ پیر‘ قمر سے منسوب ہے جبکہ قمر کا تعلق دھرتی اور ماں سے ہے۔ یوں بنیادی طور پر 2018ء”دھرتی ماں“ کا سال ہے۔ جس طرح 65ءاور 71ءمیں عوام کا جذبہ ابھرا تھا‘ اسی طرح 2018ءمیں بھی عوام میں وطن سے محبت کا جذبہ ابھرے گا۔ 2018ءغیرمعمولی آئینی تبدیلیوں کا برس بھی ہو گا۔ 1973ءکے بعد پہلی بار آئین میں ریکارڈ تبدیلیاں متوقع ہیں‘ تاہم یہ تبدیلیاں مثبت ہوں گی۔“ سید انتظار حسین زنجانی کا ملک کی بڑی سیاسی پارٹیوں کے حوالے سے کہنا تھا کہ….” نواز شریف کی سیاست کا دور مکمل ہو گیا۔ میاں صاحب نے جس طرح وزرات عظمیٰ کیلئے اگلا امیدوار اپنے بھائی شہباز شریف کو نامزد کیا ہے۔ اسی طرح انہیں پارٹی اختیارات بھی بھائی کو ٹرانسفر کر دینے چاہئیں۔ اس سے انہیں خاصا ریلیف ملے گا۔ نواز شریف کو این آر تو نہیں البتہ چند رعایتیں ملنے کا امکان ضرور ہے۔ جب تک نواز شریف کی والدہ حیات ہیں، ان کی بچت ہوتی رہے گی۔ اگرچہ مصیبتیں، بحران اور مشکلات آئیں گی، لیکن یہ مستقل نہیں ہوں گی اور وہ بچ نکلیں گے۔ پھر یہ کہ آسٹرولوجی کے لحاظ سے 2018ءکا برس ” ماں“ سے منسوب ہے۔ یہ چیز بھی سابق وزیراعظم کے حق میں جا رہی ہے۔ دوسری جانب عمران خان کی دولت و شہرت میں اضافہ ہو گا لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود پانی کا گلاس بھرے گا نہیں۔ یعنی سارے اسباب ہوں گے اور انتخابی مہم کے دوران یوں محسوس ہو گا کہ اب اقتدار تحریک انصاف کو ہی ملے گا۔ تاہم وزارت عظمیٰ کپتان سے دور رہے گی۔ جبکہ 2018ء پیپلز پارٹی کی سیاسی بقا کا سال ہے۔ تمام تر رکاوٹوں اور مختلف الائنس بننے کے باوجود پیپلز پارٹی اگلے الیکشن میں سندھ میں خاصی سیٹیں حاصل کر لے گی‘ تا ہم باقی دیگر صوبوں میں پیپلز پارٹی کو برائے نام نشستیں حاصل ہو سکیں گی۔ پیپلز پارٹی کو اگلے الیکشن کے بجائے 2023ءکے جنرل الیکشن پر فوکس کرنا چاہئے، کیونکہ اس برس اس کے ستارے خاصے گردش میں ہیں۔ آئندہ الیکشن میں اگر آصف علی زرداری، بلاول بھٹو کو فری ہینڈ دیدیں تو پھر بھی کچھ بہتری ہو سکتی ہے۔ جبکہ ایم کیو ایم الطاف کا سورج غروب ہونے کا میں نے ایک برس پہلے ہی بتا دیا تھا، اب یہ سورج طلوع ہونے کا امکان نہیں۔ جہاں تک ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سر زمین پارٹی کا تعلق ہے، تو ڈاکٹر فاروق ستار کے مقابلے میں مصطفی کمال کا زائچہ زیادہ مضبوط ہے۔“2018ءکے بارے میں معروف آسٹر ولوجسٹ ڈاکٹر نثار ملک کا کہنا ہے کہ…. ” ملکی حالات کے حوالے سے رواں برس کے ابتدائی تین ماہ انتہائی اہم ہیں۔ بالخصوص مارچ تک معاملات خراب ہو جائیں گے۔ نئے برس میں پانچ گرہن بھی لگ رہے ہیں۔ دو سورج اور تین چاند گرہن۔ ان کے اثرات بھی ملکی حالات پر ہوں گے‘ تاہم یہ طے ہے کہ 2007ءسے مارشل لاکا دور ختم ہو چکا ہے اور اب ملک میں مارشل لاءکا کوئی امکان نہیں‘ جبکہ عدلیہ سے منسوب سیارہ زحل طاقتور پوزیشن میں آ چکا ہے لہٰذا جوڈیشل مارشل لاء کے زیادہ امکانات ہیں۔ اس کے پیچھے مریخ ہو گا، جو فوج سے منسوب سیارہ ہے۔ 2018ءمیں عام آدمی کی زندگی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی۔ تاہم پوش طبقہ زیادہ رگڑا جائے گا۔ پاکستان کے زائچے میں ستاروں کی پوزیشن یہ بھی بتا رہی ہے کہ جنرل الیکشن ہوں گے لیکن وقت مقررہ پر نہیں‘ بالخصوص جنوری‘ فروری اور مارچ میں کسی ایسے بڑے واقعہ کاخطرہ ہے جس کا اثر براہ راست الیکشن کے انعقاد پر پڑے گا اور یہ مقررہ وقت پر نہیں ہو سکیں گے۔ تاہم جب بھی الیکشن ہوئے اور اس کے نتیجے میں جو بھی حکومت آئی وہ زیادہ مستحکم نہیں ہو گی۔ عدلیہ پاور فل رہے گی۔ اگر ملک کی تین بڑی پارٹیوں مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے زائچوں کو دیکھا جائے تو یہ تینوں پارٹیاں اپنی جگہ پر قائم رہیں گی‘ لیکن ان کی اعلیٰ قیادت کے لئے رواں برس اور آنے والے سال نیک شگون نہیں۔ شریف بردران کو مطلوبہ این آراو نہیں ملے گا۔ البتہ جب بھی الیکشن ہوئے مسلم لیگ (ن) ہی مرکز میں اکثریت حاصل کرے گی تاہم مائنس نواز شریف کے ساتھ۔ اسی طرح پیپلز پارٹی الیکشن میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اگر مائنس زرداری ہو گیا، جس کا خاصا امکان ہے تو پھر شاید اگلے الیکشن میں پی پی کی پوزیشن کچھ بہتر ہو جائے۔ دوسری جانب آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف کو اقتدار ملنا مشکل ہے۔ یوں عمران خان کی وزیراعظم بننے کی خواہش ایک بار پھر پوری نہ ہو سکے گی‘ البتہ تحریک انصاف کو اتنی سیٹیں ضرور مل جائیں گی کہ پریشر گروپ کے طور پر اس کا وجود قائم رہے۔ دوسری جانب جہانگیر ترین کے بعد اگلی باری علیم خان کی ہے ۔ ان کے فارغ ہونے کے بعد تحریک انصاف میں شاہ محمود قریشی کی پوزیشن مزید مضبوط ہو جائے گی‘ حتیٰ کہ اسد عمر بھی ان کی پوزیشن کو متاثر نہیں کر سکیں گے۔ ایم کیو ایم کے تمام دھڑے پس منظر میں چلے جائیں گے۔ ایک نئی قیادت کمان سنبھالے گی۔ 60 برس بعد ستارے اپنی پوزیشن تبدیل کر رہے ہیں، اسی لئے یہ ساری تبدیلیاں متوقع ہیں“۔ مقبول آسٹرولوجر عبداﷲ شوکت چودھری عرف ماموں نے 2018ءکو گزر جانے والے برس سے زیادہ مختلف قرار نہیں دیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ”جون 2015ءسے لے کر 2017ءتک اڑھائی برس کے عرصے میں پاکستان لگن سے گزرا ہے۔ یہ اچھا شگون نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس عرصے کے دوران ملک میں سیاسی عدم استحکام اور فراتفری دیکھنے میں آتی رہی۔ البتہ اچھی بات یہ ہے کہ اس لگن نے دسمبر 2017ء میں پاکستان کی جان چھوڑ دی ہے‘ لہٰذا نئے برس میں پاکستان امن و امان اور معیثت کے لحاظ سے بہتری کی طرف جاتا دکھائی دے گا۔ تاہم سیاسی افراتفری برقرار رہے گی۔ نوازشریف کی تحریک میں تیزی آئے گی، لیکن جس طرح کا این آراوسابق وزیراعظم چاہتے ہیں وہ ملنے کا امکان نہیں۔ وہ جیل بھی جا سکتے ہیں، تاہم قید کا عرصہ طویل نہیں ہو گا۔ دوسری جانب 2018ءمیں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان مزید مضبوط ہو جائیں گے۔ تاہم آئندہ الیکشن میں بھی ان کی پارٹی کو اتنی سیٹیں ملنے کا امکان نہیں کہ عمران خان کی وزیراعظم بننے کی خواہش پوری ہو جائے۔ الیکشن بھی مقررہ وقت پر ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ نئے برس کے اواخر میں الیکشن کا امکان ہے، اگر نہیں ہوئے تو پھر اگلے برس یعنی 2019 ءمیں ہی انتخابات کا انعقاد ممکن ہے۔“