All posts by Daily Khabrain

بھارت میں ایسا جزیرہ جس میں پرانے مکین داخل ہونے کے ساتھ ایسا انسانیت سوز سلوک کرتے ہیں کہ جان کر آپ کو بھی جھٹکا لگ جائیگا

نئی دہلی(ویب ڈیسک) جنگل ہوں بیابان یا سمندر میں واقع دورافتادہ جزیرے، آج دنیا میں کون سا خطہ ہے جہاں انسان نہیں پہنچ رہا، تاہم آج بھی ایک جگہ ایسی ہے جہاں کسی بھی انسان کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ جگہ بھارت کی سمندری حدود میں واقع جزیرہ ’نارتھ سینٹینل‘ ہے۔ ایسا نہیں کہ اس پر انسان نہیں بستے۔ یہاں سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال سے ایک قبیلہ آباد ہے جوبیرونی دنیا سے کسی بھی انسان کو اس جزیرے پر آنے کی اجازت نہیں دیتا اور جو آئے اسے موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومت نے اس جزیرے پر کسی بھی انسان کے جانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور وہاں جانا قانوناً جرم ہے۔ میل آن لائن کے مطابق 75ہزار سال سے زائد عرصہ قبل جب انسان افریقہ سے نکل کر باقی دنیا میں منتقل ہوا تو یہ لوگ مشرق وسطیٰ سے ہوتے ہوئے برما اور پھر انڈیا پہنچے اور ان میں سے کچھ اس جزیرے پر آباد ہوئے۔ تب سے جزیرے پر بسنے والے یہ لوگ تنہاءزندگی گزار رہے ہیں اور جو کوئی ان کے جزیرے پر جانے کی کوشش کرتا ہے اسے ہلاک کر دیتے ہیں۔اب تک اس جزیرے پر پہنچنے اور اس قبیلے سے رابطہ کرنے کی سینکڑوں کوششیں ہو چکی ہیں لیکن یہ لوگ زہر میں بجھے ہوئے تیروں، پتھروں، نیزوں اور بھالوں سے باہر سے آنے والی ہر ٹیم کو مار بھگاتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق اس جزیرے کا رقبہ صرف 20مربع میل ہے اور اندازے کے مطابق اس کی آبادی 300سے 400نفوس پر مشتمل ہے تاہم اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ آج تک بیرونی دنیا کا کوئی شخص یا ٹیم اس جزیرے پر جانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔اس کے قریب انڈیمان اور نیکوبار نامی جزائر بھی موجود ہیں جو کالے پانی کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ برطانوی سامراج کے دوران قابض برطانوی حکومت لوگوں کو کالے پانی کی سزا دے کر انڈیمان اور نیکوبار پر بھیج دیتی تھی۔ تاریخ میں سینٹینل جزیرہ بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کی ایک سروے ٹیم نے 1771ءمیں دریافت کیا تھا۔ اس ٹیم نے اپنی ایک رپورٹ میں اس جزیرے کا ذکر کیا۔ وہ اس کے پاس سے گزرے اور رکے بغیر آگے نکل گئے۔ انہوں نے اسے افسانوی جزیرہ قرار دیا تھا۔ 1867ءمیں انڈیمان پر قید کچھ لوگ فرار ہوگئے۔ انڈیمان کا انگریز افسر مقامی لوگوں کی مدد سے ان کی تلاش میں نارتھ سینٹینل جزیرے کی طرف جا نکلا۔ ابھی وہ ساحل سے کچھ دور تھے لمبے والوں ننگ دھڑنگ قبائلیوں نے تیر و نیزے سے ان کی کشتی پر حملہ کردیا۔ یہ قریب جائے بغیر واپس آگئے۔اسی سال انڈین نیوی کا ایک جہاز ساحل پر لنگر انداز ہوا جس میں سو سے زیادہ لوگ سوار تھے۔ وہ تین دن تک ساحل پر رہے۔ اس دوران مقامی قبیلہ کی طرف سے کسی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ شاید تعداد زیادہ ہونے پر وہ قبیلہ جزیرے کے اندر گھنے جنگلوں میں چھپ گیا ہو۔ تیسرے دن کچھ قبائلی جن کے سیاہ چہرے ناک پر سرخ رنگوں سے ڈیزائن تھے حملہ آور ہوئے ان کے نیزوں کے آگے لوہے کی انی لگی ہوئی تھی۔ نیوی کپتان کے مطابق وہ کچھ باتیں کررہے تھے یا نعرے لگارہے تھے ان کے الفاظ “pa on ought”جیسے تھے۔ مزید کسی تصادم سے پہلے یہ واپس لوٹ آئے۔

لندن میں خواتین کی 1600قدیم قبریں مل گئیں مگر ان قبروں میں لاشوں کے ساتھ ایسی چیزیں بھی مل گئیں کہ سب دنگ رہ گئے

لندن(ویب ڈیسک) برطانیہ میں ایک قصبے سے ماہرین کو کچھ خواتین کی 1600قدیم قبریں مل گئی جن کے ساتھ کچھ ایسی چیزیں بھی دفن کی گئی تھیں کہ دیکھ کر ماہرین بھی انگشت بدنداں رہ گئے۔ میل آن لائن کے مطابق یہ حیران کن دریافت برطانوی علاقے لنکن شائر میں واقع قصبے سکریمبی سے ہوئی ہے جہاں ان خواتین کے ساتھ بال اکھاڑنے والی چمٹیاں، ہینڈ بیگز، عنبر کے موتیوں سے بنے ہوئے گلے کے ہار اور بالوں کے دیدہ زیب کلپ سمیت دیگر کوئی طرح کے زیورات اوراشیاءبھی دفن کی گئی تھیں۔رپورٹ کے مطابق اس جگہ سے مردوں کی باقیات بھی ملیں۔ ماہرین کے مطابق یہ بھی 1600ہی قدیم تھیں اور ان کے ساتھ نیزے اور ڈھالیں دفن کی گئی تھیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے ظاہر ہوتا ہے کہ چھٹی صدی عیسوی کے اس قدیم زمانے میں بھی طاعون، قحط اور غربت کے باوجود خواتین اپنے بناﺅ سنگھار کا خاص اہتمام کرتی تھیں اور اپنی شکل و صورت پر فخر بھی کرتی تھیں۔ “ یونیورسٹی آف شیفیلڈ کے لیکچرر اور تاریخ دان ہف ویلموٹ کا کہنا تھا کہ ”یہ تمام اشیاءباقی خواتین کے جسموں کے اردگرد رکھی گئی تھی تاہم ایک خاتون کو یہ تمام چیزیں پہنا کر دفن کیا گیا تھا۔ دفن کرتے ہوئے اس خاتون کو دیدہ زیب لباس بھی پہنایا گیا تھا۔اس قدیم زمانے کی یہ روایت ہمارے لیے بہت حیرانی کا باعث ہے۔ ایک اور حیران کن چیز جو ہم نے محسوس کی کہ اس قبرستان میں دفن کیے گئے لوگوں میں واضح اکثریت خواتین کی تھی۔ “

”لگتا ہے دوچار کلرک حکومت چلارہے ہیں“جسٹس عظمت سعید کے ریمارکس نے کھلبلی مچادی

اسلام آباد(ویب ڈیسک)جسٹس عظمت سعید نے ورکرز ویلفیئر فنڈز ڈیپوٹیشن ملازمین کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ عدالتی فیصلوں کا اس طرح مذاق نہیں اڑایا جاتا، لگتا ہے دو چار کلرک ہی وفاقی حکومت چلا رہے ہیں۔سپریم کورٹ کے جج جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے ورکرز ویلفئیر فنڈز ڈیپوٹیشن ملازمین کے خلاف کیس کی سماعت کی، جس میں عدالت نے وفاقی حکومت سے جواب طلب کرلیا۔دوران سماعت ایڈووکیٹ وصی ظفر نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کلریکل غلطی ہے، فیصلے میں درخواست گزار کا نام بھی ڈیپوٹیشن ملازمین کی فہرست میں شامل کر دیا گیا۔جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑانا اچھی بات نہیں ہے، وفاقی حکومت ریاست چلاتی ہے یا دو چار بندے، مجھے لگتا ہے دو چار کلرک ہی حکومت چلا رہے ہیں۔انہوں نے ریمارکس دیئے کہ اندھوں کو بھی نظر آرہا ہے کیا ہو رہا ہے، بعض دفعہ مقدمے کو اس لیے طول نہیں دیتے کہ حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث نہ ہو۔جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے تک جواب داخل کرائیں، جواب آنے کے بعد دیکھیں گے کیا کرنا ہے۔بعد ازاں کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
کے پی حکومت اور ٹھیکے دار تنازع کیس
علاوہ وزیں قائم مقام چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے خیبرپختونخوا کے میں حکومت اور ٹھیکے داروں میں اجناس کی قیمت پر تنازع کیس میں ریمارکس دیئے کہ کے پی حکومت اپنی بے بسی ظاہر نہ کرے، آپ ریاست ہیں، آپ کے سامنے کوئی کھڑا نہیں ہوسکتا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کلرک افسر اور منشی ملے ہوئے ہوتے ہیں، پیسے لے کر معاملات میں تعطل کیا جاتا ہے۔قائم مقام چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نےکے پی کے میں حکومت اور ٹھیکے داروں کے درمیان اجناس کی قیمت کی پر تنازع کیس کی سماعت کی۔وکیل کنٹریکٹر نے عدالت کو بتایا کہ 2007 اور 2008 میں ٹرانسپورٹرز کو کراچی سے پشاور اجناس لینے کا ٹھیکہ دیا گیا تھا، جس کے بعد 41 فیصد اضافے کے ساتھ ٹھیکے میں ایک سال کی توسیع دی گئی۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے کہا کہ صوبائی حکومت کو سمجھ نہیں آیا کہ پشاور ہائیکورٹ نے رٹ پٹیشن پر فیصلہ کیسے دیا۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ زائد المیعار اپیل فائل کی وجوہات بیان کرنے کے لیے وقت دیا جائے، جس پر عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے کیس کی سماعت دسمبر کے دوسرے ہفتے تک کے لیے ملتوی کر دی۔

مہینوں ایئرپورٹ پر رہنے والے شامی شہری کو کینیڈا میں پناہ مل گئی

شام (ویب ڈیسک)ملائشیا کے ایک ایئرپورٹ پر سات ماہ تک پھنسے رہنے والے شامی شہری کو کینیڈا میں پناہ دے دی گئی ہے۔شامی شہری حسن ال کونطار کو اس وقت بین الاقوامی توجہ حاصل ہوئی تھی جب انھوں نے کوالالمپور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے اپنی ویڈیوز پوسٹ کرنا شروع کی تھیں۔37 سالہ حسن ال کونطار نے دو ماہ ملائشیا میں ایک حراستی مرکز میں گزارے ہیں اور ان کے کینیڈین سپانسرز نے اس کا کیس جلد نمٹانا چاہتے ہیں۔پیر کی شام کینیڈا کے شہر وینکوور میں ان کی آمد متوقع ہے۔برٹش کولمبیا مسلم ایسوسی ایشن اور کینیڈا کیئرنگ سوسائٹی نے ان کو کینیڈا بطور مہاجر آنے کے لیے سپانسر کیا تھا۔کینیڈا کیئرنگ سوسائٹی کی رضا کار لوری کوپر نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے سنا کہ وہ جمعرات کو کینیڈا آرہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ انتہائی اطمینان بخش ہے، لیکن اب بھی کچھ ناقابل یقین ہے۔”جب تک انھیں میں ایئرپورٹ پر گلے نہ لگا لوں اس وقت تک واقعی یقین نہیں آئے گا۔ یہ ایک طویل، طویل سفر ہے جس میں بہت سے نشیب و فراز تھے۔’حسن ال کونطار کے وکیل نے بی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ کینیڈا کی ان کی رہائش کی منظوری دے دی گئی ہے اور وہ راستے میں ہیں۔’لوری کوپر کا کہنا تھا کہ کونطار نے بورڈنگ گیٹ سے پیغام بھیجا ہے کہ وہ انھیں دیکھنے کے لیے مزید انتظار نہیں کر سکتے۔لوری کوپر کا کہنا تھا کہ ‘ان کی صورتحال دنیا بھر میں تمام مہاجرین کو پیش آنے والی مشکلات کی عکاس ہے۔”ان کے لیے رہنے کے لیے محفوظ جگہ ڈھونڈا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ وہ خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں۔’ان کی تنظیم کا کہنا ہے کہ دنیا بھر سے لوگوں نے کونطار کو کینیڈا پہنچانے کے لیے چندہ جمع کرنے میں مدد کی ہے۔کینیڈا کے وفاقی امیگریشن کے محکمے نے پرائیویسی کے قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے کونطار نے کینیڈا آنے کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔ای میل کے ذریعے جاری کردہ ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ ‘ہم انفرادی کیسز پر رائے نہیں دیتے، ہر درخواست کی منصفانہ طریقے سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے، جو اس کی میرٹ کے مطابق ہوتی ہے۔’ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں نے کونطار کے کیس میں مدد کی اور کینیڈین کیئرنگ سوسائٹی نے ایک آن لائن پٹیشن جاری کی تھی جس میں کینیڈا کے وزیر امیگریشن سے انھیں اجازت دینے کی درخواست کی گئی تھی جس پر 62ہزار لوگوں نے دستخط کیے تھے۔حسن ال کونطار متحدہ عرب امارات میں ایک انشورنس کمپنی میں کام کر رہے تھے جب سنہ 2011 میں شام میں جنگ کا آغاز ہوا تھا۔وہ اپنا پاسپورٹ دوبارہ نہیں بنوا سکتے تھے کیونکہ انھوں نے اپنے آبائی ملک میں فوجی تربیت مکمل نہیں کی تھی، لیکن وہ واپس نہیں جانا چاہتے تھے، انھیں ڈر تھا کہ انھیں گرفتار کر لیا جائے گا یا فوجی میں بھرتی کردیا جائے گا۔
سنہ 2017 میں وہ نیا پاسپورٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، لیکن انھیں ملائشیا ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ ملائشیا دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے جہاں شامی شہریوں کو ملک میں داخلے کے وقت ویزہ جاری کیا جاتا ہے۔ انھیں تین ماہ کا سیاحتی ویزہ دیا گیا تھا۔وہ اس کی معیاد ختم ہوئی تو انھوں نے ترکی جانے کی کوشش لیکن انھیں جہاز میں سواز نہ ہونے دیا گیا۔ وہ کمبوڈیا گئے لیکن وہاں سے انھیں واپس بھیج دیا گیا۔
وہ تین ماہ اس کشمکش میں پھنسے رہے، اس دوران وہ ایئرپورٹ پر مقیم رہے اور ہوائی کمپنی کے عملے کی جانب سے دیے جانے والے کھانے پر گزارا کر تے رہے۔حسن ال کونطار کا تعلق دمشق کے جنوب میں واقع شہر سویدہ سے ہے اور انھوں نے ایکواڈو اور کمبوڈیا میں بھی پناہ کی درخواست دی تھی جو منظور نہیں ہوئی۔

سابق مس ماسکو کی ملائشین کنگ سے شادی،دولہا 49کا دلہن25سال کی نکلی

ملائشیا (ویب ڈیسک ) روس کی سابق ملکہ حسن نے ملائشیا کے 49 سالہ بادشاہ سے شادی کر لی۔ برطانوی جریدے ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق روس کی 25 سالہ سابق ملکہ حسن اوکسانا ویوہڈینا نے ملائشیا کے 49 سالہ بادشاہ تینگکو محمد فارس پترا سے شادی کر لی اور ملائیشیا کی ملکہ بن گئیں۔ دونوں کی شادی 22 نومبر کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں منعقد ہوئی جس میں شاہی مہمانوں سمیت دلہا دلہن کے قریبی دوست احباب شریک ہوئے۔شادی کی پروقار تقریب میں ملائیشیا کے بادشاہ نے ملائشیا کا نیلے رنگ کا روایتی لباس پہنا جب کہ دلہن سفید رنگ کے لباس میں ملبوس تھیں۔ ملائشیا کے بادشاہ کا پورا نام تنگکو محمد فارس پیٹرا ابن تنگکو اسماعیل پیٹرا ہے۔ شادی کی تقریب میں الکوحل ملے کوئی مشروبات پیش نہیں کیے گئے جبکہ شادی کی تقریب میں مہمانوں کو دیا جانے والا کھانا بھی مکمل طور پر حلال تھا۔واضح رہے کہ ماسکو کی سابق ملکہ حسن نے ملائیشین بادشاہ سے شادی سے قبل رواں برس اسلام قبول کیا جس کے بعد ان کا نام ریحانہ رکھا گیا۔ ریحانہ نے 2015ءمیں ”مس ماسکو” کا اعزاز اپنے نام کیا جس کے بعد انہوں نے چین اور تھائی لینڈ میں بھی بطور ماڈل کام کیا۔ رپورٹس کے مطابق اسلام قبول کرنے اور ملائشین بادشاہ سے شادی کے بعد ریحانہ نے حجاب بھی اوڑھنا شروع کردیا ہے۔ریحانہ اپنے خاوند سے عمر میں 24 سال چھوٹی ہیں۔ ملائشیا کی ملکہ ریحانہ نے اکنامکس روس یونیورسٹی سے بزنس کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد انہوں نے ماڈلنگ کا شعبہ اختیار کیا تھا۔ ملائشیا کے بادشاہ 2016ءسے اس منصب پر فائز ہیں، دونوں کی ملاقات کے حوالے سے کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔ نوبیاہتا جوڑے کی شادی کی تصاویر سوشل میڈیا پر بھی کافی گردش کر رہی ہیں۔

آئیڈیاز 2018 پر ’سرخ پرچم‘ حاوی

کراچی (ویب ڈیسک)پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جاری دفاعی ساز و سامان کی نمائش آئیڈیاز پر ’سرخ پرچم‘ حاوی نظر آتا ہے۔ اکثر سٹالز پر چین سرفہرست ہے اس کے بعد ترکی اور روس کی اجارہ داری نظر آتی ہے۔پاکستان کا محکمہ دفاع اور دفاعی پیداوار کے ادارے 2000 سے اس بین الاقوامی نمائش انعقاد کر رہے ہیں۔ یہ نمائش ہر دو سال کے بعد منعقد کی جاتی ہے، صرف 2010 میں سیلاب کے باعث اس کو موخر کردیا گیا تھا جس کے بعد اس کا تسلسل برقرار رکھا گیا ہے۔اس دفاعی نمائش کے پہلے سال صرف 15 ممالک کی کمپنیوں نے شرکت کی تھی، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا گیا اور رواں سال 50 ممالک کی 500 کے قریب کمپنیاں اپنی مصنوعات کی نمائش کر رہی ہیں۔سابق سیکریٹری دفاع آصف یاسین ملک کا کہنا ہے کہ پاکستان ترقی پذیر ممالک میں اسلحہ سازی کے میدان میں سب سے بڑا ملک ہے جو بھاری اسلحے کے علاوہ چھوٹے ہتھیار اور دفاعی مواصلاتی نظام بناتا ہے۔ یہاں اسلحہ سازی کی صنعت بہت پرانی ہے اور پاکستان کا حق بنتا ہے کہ اس کی مارکیٹنگ کرے۔’باہر کی کمپنیاں آ کر اپنی مصنوعات کی نمائش کرتی ہیں، اس سے ہمیں یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ ہم انھیں دیکھ لیتے ہیں۔ اس سے اسلحہ سازی کی صنعت میں تعلقات اور روابط پیدا ہوتے ہیں اور سٹریٹجک سطح پر ہمارے چھاپ بن جاتی ہے۔ اس کے علاوہ نمائش میں فوجی سربراہان، سفیر اور اتاشی شرکت کرتے ہیں اور سائیڈ لائن پر مذاکرات کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔‘یہ نمائش تین سے چار روز تک جاری رہتی ہے جس کی سکیورٹی کے باعث شہر میں ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہوتی ہے۔ نمائش کا ایک دن عام شہریوں کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔آصف یاسین ملک کا کہنا ہے کہ اس نمائش سے قوم پر مثبت اثر پڑتا ہے اور ایک حوصلے اور اعتماد کی فضا پیدا ہوتی ہے کہ ملک کا دفاع مضبوط ہے اور ہم کلی طور پر کسی دوسرے پر انحصار نہیں کرتے۔اس برس نمائش میں 50 ممالک کے اداروں اور کمپنیوں نے فضائی، برّی اور بحری دفاعی ساز و سامان جن میں لڑاکا طیارے، ہیلی کاپٹرز، ٹینک، آبدوز، چھوٹے ہتھیار، میزائل، ڈرونز کے ساتھ جدید دفاعی مواصلاتی سامان نمائش کے لیے پیش کیا ہے۔ بعض کمپنیوں نے تو سٹالز لیے ہیں جبکہ چین اور ترکی کے پاس ہالز ہیں۔اسی طرح امریکہ کی ایف 16 بنانے والی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن بھی موجود ہے جبکہ روس کی جانب سے میزائل نظام سمیت جدید ہیلی کاپٹرز کی نمائش کی جا رہی ہے۔آصف یاسین ملک کہتے ہیں کہ چین، ترکی اور روس علاقائی ممالک ہیں ان کی اپنی مارکیٹ ہوتی ہے۔ ’جو یورپی ممالک ہیں ان کے پاس اپنی مارکیٹ ہے جہاں وہ اپنی دفاعی مصنوعات فروخت کرتے ہیں یہاں ان کی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے ہمارے جو دوست ممالک ہیں ان کا تسلط ہے، چین اور ترکی کے ساتھ ہمارے گہرے تعلقات ہیں اس وجہ سے وہ یہاں خوشگوار محسوس کرتے ہیں۔‘یاد رہے کہ پاکستان کی جانب سے چین کے بعد ترکی اور روس کے ساتھ دفاعی اور عسکری میدان میں تعلقات کو وسیع کیا گیا ہے، ترکی پاکستان کی آبدوز آگسٹا کو اپ گریڈ کرے گا جبکہ اس کے جدید ہیلی کاپٹرز میں بھی پاکستان دلچسپی کا اظہار کر چکا ہے۔پاکستان دنیا کے 32 ممالک کو دفاعی ساز و سامان فروخت کرتا ہے، جن میں سری لنکا، عرب ریاستوں کے علاوہ افریقہ کے ممالک شامل ہیں۔ محکمہ دفاعی پیداوار کے مطابق گذشتہ دو برسوں سے نئی منڈیاں تلاش کی جا رہی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ عالمی دفاعی نمائش اس میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔سابق سیکریٹری دفاع آصف یاسین ملک کا کہنا ہے کہ اس نمائش میں خریدار ایک ذہن یا خیال بنا لیتے ہیں کہ یہ ایک اچھی چیز ہے اور اس کا مزید مشاہدہ کرتے ہیں۔ دوسرا یہ ہوتا ہے کہ اگر پس منظر میں کوئی ڈیل چل رہی ہے تو اس کی توثیق ہو جاتی ہے۔ دفاعی ساز وسامان کی خریداری کا طریقہ طویل مدتی ہوتا ہے اس ملک کے اپنے حالات ہوتے اور کئی ممالک درمیان میں آجاتے ہیں۔

فاطمہ رسول صدیقی: مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی واحد مسلم امیدوار

مدھیہ پردیش(ویب ڈیسک)انڈیا کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش میں حکمراں جماعت بی جے پی نے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں تمام 230 نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں لیکن ان میں بھوپال کی ایک نشست پر سب کی نظر ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ یہ وہ واحد سیٹ ہے جہاں سے بی جے پی نے کسی مسلم امیدوار کو انتخابی میدان میں کھڑا کیا ہے۔فاطمہ رسول صدیقی شمالی بھوپال کی اسمبلی سیٹ سے بی جے پی کی امیدوار ہیں اور یہ سیٹ نہ صرف بی جے پی بلکہ اس کی امیدوار کے لیے بھی وقار کی لڑائی بن گئی ہے۔پارٹی کے لیے اس لیے کہ گذشتہ 15 سالوں تک اقتدار میں ہونے کے باوجود بی جے پی کبھی یہاں سے جیت نہ حاصل کر سکی۔اور فاطمہ صدیقی کے لیے اس لیے کیونکہ اس سیٹ پر ان کے والد کامیابی کا پرچم لہرایا کرتے تھے۔ رواں سال ہونے والے انتخابات میں وہ اپنے والد کی شکست کا بھی بدلہ لینا چاہیں گی۔شیر بھوپال کہے جانے والے رسول احمد صدیقی اس اسمبلی نشست سے کانگریس پارٹی کے ٹکٹ پر دو بار ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے اور کانگریس کی حکومت میں وزیر بھی رہے تھے۔اس انتخاب کے 25 سال بعد بی جے پی نے عارف عقیل کو چیلنج دینے کے لیے رسول احمد صدیقی کی بیٹی فاطمہ رسول کو میدان میں اتارا ہے۔یہ مقابلہ آسان نہیں ہے کیونکہ یہ نشست کانگریس کا گڑھ کہی جاتی ہے اور عارف مسلسل پانچ بار وہاں سے منتخب ہوئے ہیں۔فاطمہ کے والد کانگریس کی جانب سے وزیر اعلی کے عہدے کے مضبوط دعویدار سندھیا کے قریبی سمجھے جاتے ہیں۔ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان کی بیٹی نے ہاتھ کا ساتھ چھوڑ کر کنول کے پھول کا سہارا کیوں لیا۔ یہی سوال بی جے پی کے لیے بھی ہے کہ اس نے اقلیتی برادری سے کسی دوسرے کو اپنا نمائندہ بنانے کے بجائے رسول احمد جیسے کانگریسی کی بیٹی کو کیوں منتخب کیا۔
سیاست کی اس بساط کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے شمالی بھوپال کی نشست کو سمجھنا ضروری ہے۔ شمالی بھوپال کی اسمبلی نشست مسلمان اکثریتی والا علاقہ ہے۔ ایسے میں مسلم امیدوار کا میدان میں آنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن فاطمہ کا انتخاب حیرت انگیز ہے۔ حیرت انگیز اس لیے کہ بی جے پی میں شامل ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی انھیں امیدوار بنا دیا گیا۔ایسے میں سوال یہ بھی ہے کہ کانگریس نے ان پر بھروسہ کیوں نہیں کیا۔فاطمہ کا کہنا ہے کہ یہ سچ ہے کہ سیاست کی سمجھ ان میں ان کے والد سے آئی ہے اور وہ ایک کانگریسی تھے لیکن اب کانگریس کی وہ شکل و صورت نہیں رہی۔فاطمہ کہتی ہیں: ‘نہ اب وہ کانگریس رہی نہ ہی کانگریس کے وہ لوگ رہے۔ پرانا زمانہ مختلف تھا۔ اب کانگریس بہت بدل چکی ہے۔ لیکن وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان میں مجھے اپنے والد سے ملنے والی سیاسی سمجھ نظر آئی۔اپنے تمام تر خطاب میں فاطمہ گنگا جمنی مشترکہ تہذیب کی بات کرتی ہیں۔ تاہم وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ہندو مسلم کے نام پر سیاستی فائدے حاصل کیے جاتے ہیں۔لیکن فاطمہ کے الفاظ ابہام بھی پیدا کرتے ہیں۔ فاطمہ کا کہنا ہے کہ وہ کانگریس میں جانا چاہتی تھیں لیکن کانگریس نے انھیں کوئی مثبت ردعمل نہیں دیا۔انھوں نے کہا: ‘میرے والد اس علاقے کے لیے جتنے اچھے کام کیے وہ اب بھی لوگوں کو یاد ہیں۔ لیکن کانگریس ان کے کام اور ان کی خدمات بھول گئی۔’اس سے یہ واضح ہے کہ ان کی پہلی پسند کانگریس تھی لیکن وہاں سے انھین کوئ? مثبت جواب نہ مل سکا۔ دوسری جانب بی جے پی کو امیدوار کی تلاش تھی جہاں سے انھیں دعوت ملی اور وہ بی جے پی کی ‘فاطمہ’ بن گئیں۔فاطمہ کا خیال ہے کہ بھوپال میں ہر جگہ امن ہے لیکن شمالی بھوپال ایسا علاقہ ہے جہاں بدامنی ہے اور انتخابات جیت کر وہ وہاں امن قائم کرنا چاہتی ہیں۔انھیں اپنی کامیابی کا یقین ہے کیونکہ وہ ترقی کے مسئلے کے ساتھ میدان میں ہیں۔ لیکن بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی کا مترادف کہے جانے والے رام مندر کے معاملے پر براہ راست کچھ بھی نہیں کہتیں۔وہ کہتی ہیں: ‘ہم اس پر کچھ کہنے کے لیے ہم ابھی چھوٹے ہیں، لیکن ہمیں یہ یقین ہے کہ جو فیصلہ کیا جائے گا وہ سب کے مفاد میں ہوگا۔والد کے نام پر انتخاب میں آنے والی فاطمہ کیا اقربا پروری کی سیاست کو فروغ نہیں دے رہی ہیں؟ وہ بھی اس پارٹی کی امیدوار ہیں جو جس نے اپنے مخالف پر ہمیشہ اقربا پروری کے الزامات عائد کیے۔ فاطمہ کا کہنا ہے کہ انھیں ٹکٹ صرف ان کے والد کے نام پر نہیں بلکہ ان کے نوجوان ہونے پر ملا ہے۔اگر فاطمہ اپنی فتح کا دعوی کر رہی ہیں تو ان کے کانگریسی حریف عارف عقیل کی اس علاقے میں اچھی پکڑ ہے۔ سنہ 2013 میں منعقد اسمبلی انتخابات میں، انھوں نے بی جے پی کے عارف بیگ کو تقریبا آٹھ ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔بی جے پی نے مسلم خاتون کو اپنا امیدوار بنا کر اپنی چال تو چل دی ہے لیکن اس چال کے درست ہونے کا فیصلہ تو انتخابی نتائج ہی کریں گے۔