All posts by Daily Khabrain

شہزاد رائے کو دوسری مرتبہ ستارہ امتیاز سے نوازدیا گیا

کراچی(ویب ڈیسک) نامورگلوکار اورسماجی کارکن شہزاد رائے کو دوسری مرتبہ ملک کے تیسرے بڑے سول اعزاز ستارہ امتیاز سے نوازدیاگیا۔گلوکار شہزاد رائے کا شمار نہ صرف پاکستان کے بہترین گلوکاروں میں ہوتا ہے بلکہ وہ سماجی خدمات میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی سماجی خدمات کے صلے میں پاکستانی حکومت کی جانب سے ایک بار پھر انہیں پاکستان کے معتبر ترین ایوارڈ ستارہ امتیاز سے نوازدیا گیا۔شہزاد رائے نے حکومت کی جانب سےایوارڈ ملنے کی خوشخبری ٹوئٹر پر تمام لوگوں کے ساتھ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ”مجھے معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سارے ہیروز سماج کی بہتری اور معاشرے کی فلاح کے لیے بے لوث خدمت کررہے ہیں لیکن انہیں عوامی طور پر کوئی نہیں پہچانتا، میں یہ ایوارڈ ان تمام لوگوں کے نام کرتا ہوں۔“

شوبز و کرکٹ اسٹارز کی یوم پاکستان پر قوم کو مبارکباد

کراچی(ویب ڈیسک) پوری قوم کے ساتھ شوبز و کرکٹ اسٹارز بھی یوم پاکستان نہایت جوش و جذبے سے منارہے ہیں۔ملک بھر میں یوم پاکستان نہایت جوش و جذبے کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ جہاں لوگ اس دن کی مناسبت سے پاکستان کے رنگ میں رنگے نظر ا?رہے ہیں وہیں شوبزو کرکٹ اسٹارز نے بھی یوم پاکستان کے موقع پر پوری قوم کو مبارکباد سے نوازا۔پاکستانی کرکٹر محمد حفیظ نے یوم پاکستان کے موقع پر پوری قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا، پاکستان ہمیشہ قائم رہے۔کرکٹر شعیب اختر نے نہایت جذباتی اندازمیں پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ا?و¿ سب مل کر پاکستان کو نوجوانوں کے لئے ایک بہتر جگہ بناتے ہیں۔ پاکستان سے محبت ہمیشہ قائم رہے گی۔اداکارہ جگن کاظم نے ویڈیو پیغام میں 23 مارچ یوم پاکستان کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا، ا?ج کا دن ہم پاکستانیوں کیلئے بہت اہم ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہئیے کہ ہم اپنے پاکستان کو سپر پاوربنانے کی کوشش کریں اور یہ کرنے کیلئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا، تو ا?ئیں ہم سب مل کر پیار کے دئیے جلاتے ہیں۔اداکار فیصل قریشی نے بھی اس موقع پر ملی نغمے کے روح پرور اشعار”اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں“کہتے ہوئے تمام لوگوں کو مبارکباد دی۔کرکٹر عمر گل نے نہایت خوبصورت انداز میں تمام لوگوں کو یوم پاکستان کی مبارکباد دی اور پاکستان کیلئے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔اداکارہ ارمینا خان نے یوم پاکستان کے حوالے سے اپنی خوبصورت تصویر شیئر کی اور پوری قوم کو یوم پاکستان کی مبارکباد دی۔قومی کھلاڑی کامران اکمل نے بھی تمام پاکستانیوں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ایک سچے پاکستانی کی طرح اس دن کا جشن منائیں۔کرکٹر سعید اجمل بھی پیچھے نہ رہے انہوں نے لکھا کہ تمام پاکستانیوں کو پاکستان ڈے مبارک ہو’ہمارا پاکستان، پیارا پاکستان۔‘

جوڈیشل مارشل لاء کا آئین میں کوئی تصور نہیں، چیف جسٹس

لاہور(ویب ڈیسک)چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ جوڈیشل مارشل لاءکا آئین میں کوئی تصور نہیں۔لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم نے بھی آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے، قسم کھاتا ہوں کہ اس ملک میں جمہوریت کو کوئی نقصان نہیں ہے،جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے، پاکستان میں صرف آئین کی پاسداری ہوگی، اس ملک کو آئین اور قانون کے مطابق چلنا ہے، جوڈیشل مارشل لاء کا آئین میں کوئی تصور نہیں، انہوں نے کہا کہ کسی کو کوئی شک نہ ہو انصاف بلا تفریق ہوگا اور اس ملک میں انصاف بلا تفریق ہوتا دکھائی دے گا۔اس سے قبل چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کیتھڈرل اسکول لاہور میں یوم پاکستان کی مناسبت سے منعقدہ تقریب میں شرکت کی۔ تقریب سے خطاب کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے آزادی کی قدروقیمت اور تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی، انہوں نے کہا کہ ہم خوش قسمت لوگ ہیں کہ ہم آزاد ملک میں پیدا ہوئے، تعلیم ہی قوموں کی ترقی کا راز ہے، میں آج کے دن صرف آپ سے ایک قربانی مانگ رہا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں کیونکہ جو قومیں تعلیم حاصل نہیں کرتیں وہ پیچھے رہ جاتی ہیں۔

پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا راز جمہوریت میں پوشیدہ ہے، صدر و وزیراعظم کا پیغام

اسلام آباد(ویب ڈیسک)صدر مملکت ممنون حسین اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یوم پاکستان کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان کی سلامتی اور ترقی وخوشحالی کا راز جمہوریت میں پوشیدہ ہے۔صدرممنون حسین نے یوم پاکستان کے موقع پرقوم کے نام پیغام میں کہا کہ 23 مارچ ہماری تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، قرارداد لاہور نے برصغیر کے مسلمانوں کوعظیم مقصد کے لیے متحد کیا، قائداعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال اور تحریک آزادی کے قائدین کی قربانیوں سے حصول پاکستان کی راہ ہموارہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ترقی اوراستحکام کا رازجمہوریت میں پوشیدہ ہے، جمہوری روایات سے رواداری ،ہم آہنگی اوربرداشت کوفروغ ملے گا۔صدر مملکت کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند دہائیوں میں دہشت گردی نے خطے اور پاکستان کو بری طرح متاثرکیا، خوشی ہے کہ پوری قوم نے یکجان ہو کردہشت گردی کا مقابلہ کیا، دہشت گردی کے خاتمے سے ملک میں امن وامان بحال ہوچکا ہے، پاکستانی معیشت ترقی کی راہ پرگامزن ہے جب کہ ہمیں اس عہد کی تجدید کرنا ہوگی کہ ہم بزرگوں کے نقشے قدم پرچلتے ہوئے پاکستان کوعظیم ترملک بنائیں گے، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ترقی وخوشحالی کی راہ پرگامزن کرے۔دوسری جانب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یوم پاکستان کے موقع پراپنے پیغام میں کہا کہ یوم پاکستان 78 سال پہلے کے عظیم دن کی یاد دلاتا ہے، 23 مارچ 1940 کو مسلمانوں نے الگ ریاست کے قیام کا فیصلہ کیا، آج ہم 23 مارچ 1940ئ کو یوم پاکستان کے طو رپر منا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ماضی پر نظر ڈالتے ہوئے مستقبل کی فکر کرنی ہوگی اور کامیابیوں کے ساتھ ساتھ کوتاہیوں کا جائزہ بھی لینا ہوگا۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک جمہوری جدوجہد کے ذریعے وجود میں آیا، پاکستان کی سلامتی اور ترقی وخوشحالی کا راز جمہوریت میں پوشیدہ ہے، آئینی وقانونی بالا دستی کے بغیر ہم آبرو مند نہیں ہوسکتے جب کہ آج اقبال او رقائد کے افکار کو مشعلِ راہ بنانے کاعہد کرنا ہوگا۔

’’مسلمانوں آج سے تم آزاد ہوگئے‘‘، قرارداد پاکستان کی جھلکیاں

لاہور (ویب ڈیسک) بریگیڈیئر ڈاکٹر منظور احمد 1939ء کے اس زمانے میں کالج داخل ہوئے جب شمالی ہند کے مسلمانوں کے لیے منزل کا تعین ہونے والا تھا۔ اس لیے انہوں نے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کو ’’ان ایکشن‘‘ دیکھا اور قرارداد پاکستان کی پوری کارروائی میں شریک رہے۔ پھر انہوں نے کالج میں 1941ء کا پاکستان سیشن بھی دیکھا۔ یہاں ہم ان کی یادوں کے اس طربناک حصہ کو نذر قارئین کرتے ہیں جسے وہ اپنی زندگی کا ایک گنج گراں سرمایہ سمجھتے تھے۔’’نعمت اور شکر کے جذبات کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار مقصود ہے کہ میرے نزدیک 1940ء سے قبل ہی پاکستانی بن چکا تھا۔ اس قلبی کایا پلٹ کا سبب ہمارے سکول کے شفیق اور متقی ہیڈماسٹر دین محمد مرحوم کی تعلیم و تربیت تھی۔ مرحوم علامہ اقبال کے سیاسی افکار اور شعری کلام سے بہت متاثر تھے اور ان کی ترویج ان کی زندگی کا مشن تھا۔ ان کی اس رضا کارانہ تدریس (سکول میں انگریزی کے استاد تھے) سے اس ملی تصور و جذبہ کی تخم ریزی ہوئی جس کا اظہار علامہ اقبال کے اس ایمان افروز شعر سے ہوتا ہےاپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کرخاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیکشت طلباء میں یہ تخم ریزی آئندہ سالوں میں برگ و بار لائی وہ انہیں 23 مارچ 1940ء کے تاریخ ساز اجلاس میں منٹوپارک لے گئی۔ جسے اب اقبال پارک کہا جاتا ہے اور جہاں آج مینار پاکستان اس عظیم قرارداد کی یاد دلا رہا ہے جس نے سات سال کی قلیل مدت میں ایک قوم کی تقدیر پلٹ دی۔یہاں برصغیر کے گوشے گوشے سے مسلم لیگی اکابرین اور کارکنان جمع ہوئے تھے۔ ان کی تعداد آج کل کے سیاسی اجتماع کے مقابلہ میں بوجوہ کم تھی۔ تقریباً ایک لاکھ ۔۔۔۔ میرا اندازہ تو اس سے بھی کم ہے لیکن بعض شرکاء جلسہ کا یہی خیال ہے۔ اب تو زمانہ کا مزاج ہی بدل گیا ہے۔ رنگ ہی کچھ اور ہے۔دولت اور وسائل کے زور سے لاکھوں کی تعداد میں سامعین اکٹھے کئے جاتے ہیں۔ رضاکارانہ جمع ہونے اور ناظرین کو اٹھا کے لے جانے کا فرق واضح ہے۔ پہلی صورت اخلاص کی مظہر ہے اور دوسری دولت اقتدار اور حرض و ہوس کی نمایاں عکاس۔

قرارداد پاکستان کے عظیم اجتماع کے بارے میں بریگیڈئر منظور یو رقم طراز ہیں ’’ اس تاریخی اجلاس کے لاہور میں انعقاد کے باعث میزبانی کی سعادت پنجاب مسلم لیگ کے حصہ میں آئی اور بہ تقاضائے روایت پنجاب کے وزیراعظم (صوبہ کے وزیراعلیٰ کو وزیراعظم کہا جاتا تھا) سرسکندر حیات کو قرارداد لاہور (جسے بعد میں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا تھا) پیش کرنا تھی۔ لیکن چند روز قبل ایک المناک حادثہ وقوع پذیر ہوا اور وہ اس شرف سے محروم کردیئے گئے۔خاکساروں کے ایک جلوس پر لاہور میں پنجاب پولیس نے وحشیانہ انداز میں گولی چلائی اور جلوس کے بہت سے شرکاء بھون کر رکھ دیئے۔ اس تاریخ ساز اجلاس سے تین یوم قبل اس سفاکی اور بربریت کے مظاہرہ نے جلیانوالہ باغ کی یاد تازہ کردی اور لاہور کی فضا میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ لوگوں کے اذہان میں مختلف اندیشوں نے جنم لیا، قسم قسم کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ مثلاً یہ جلسہ کو روکنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اس المیے کے بعد سرسکندر حیات خان اور ان کے رفقاء نے قائداعظم کو جلسہ ملتوی کرنے کا مشورہ دیا۔ لیکن قائد نے ماننے سے صاف انکار کردیا۔ اندریں حالات قرارداد پاکستان پیش کرنے کی سعادت مولوی اے کے فضل الحق کو نصیب ہوئی جو مجوزہ پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے بنگال کے وزیراعظم تھے۔شرکائے جلسہ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ مولوی فضل الحق جلسہ گاہ میں دیر سے پہنچے تھے۔ انہوں نے 23 مارچ کی صبح کو بذریعہ کلکتہ ایکسپریس لاہور پہنچنا تھا۔ لیکن ریل گاڑی چند گھنٹے کی تاخیر سے پہنچی اور مولوی صاحب کو ریلوے اسٹیشن سے سیدھا جلسہ گاہ میں لایا گیا۔

قرارداد انگریزی میں پیش کی گئی۔۔۔ جو آج بھی مینار پاکستان پر کندہ ہے۔ اس کا ترجمہ پنے وقت کے عظیم اور کثیر الجہت (عظیم شاعر نثر نگار سیاست دان صحافی اور دینی سکالر) مولانا ظفر علی خان نے کیا۔ مولانا کی تقریر کے ابتدائی جملے مجھے ابھی تک یاد ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ مسلمانو! آج سے تم آزاد ہوگئے ہو۔ مولانا کی دور رس نگاہوں کی داد دینا پڑتی ہے کہ ان کی پیش گوئی نے سات سال بعد حقیقت کا روپ دھارا آپ نے اپنا ایک قطعہ بھی پڑھا تھا جس کے آخری دو مصرعے یوں تھے۔

تہذیب نو کے منہ پہ وہ تھپڑ رسید کر

جو اس حرامزادی کا حلیہ بگاڑ دے

ان کا مقصد اس حقیقت سے پردہ اٹھانا تھا کہ پاکستان میں اسلامی اقدار کا بالفضل خدا نفاذ ہوگا۔

انگریز سرکار اس اجلاس کی کامیابی نہیں چاہتی تھی اس حوالے سے بریگیڈیر منظور لکھتے ہیں ’’منٹوپارک حکومت پنجاب کی تحویل میں تھا اس میں سیاسی اجتماع کے انعقاد کے لیے حکومت سے اجازت لینا پڑتی تھی۔ جس کے لیے ہوم سیکرٹری کو درخواست دی گئی۔ اس وقت ایک جابر انگریز افسر میکڈانلڈ سیکرٹری تھے۔ انہوں نے اعتراض کے ساتھ درخواست واپس کردی کہ قواعد کی رو سے یہ میدان سیاسی جلسہ کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

ان دنوں پنجاب کے وڈیروں کی ایک جماعت یونیلسٹ پارٹی کی حکمرانی تھی۔ جسے انگریز کی داشتہ کہیں تو بے جا نہیں ہوگا۔ سرسکندر حیات کاغذ پر وزیراعظم ضرور تھے۔ دراصل بشمول دیگر مسلم اراکین اسمبلی ان کی وفاداری کا اولین مرکز فرنگی تھے۔ مسلم لیگ سے وابستگی سطحی اور نظریہ ضرورت کے تحت تھی۔

اس میں ایک استثنا قائداعظم کے مخلص رفیق ملک برکت علی مرحوم کی ذات تھی جو ان طرہ بازوں سے اکیلے 1944ء تک نبرد آزما رہے۔ جہاں تک یونینسٹ جاگیرداروں کا تعلق ہے ان پر تھوڑی ترمیم کے ساتھ علامہ کا یہ شعر پوری طرح صادق آتا ہے۔

ٹامی کے سائے میں ہم پل کر جوان ہوئے ہیں

ہے ڈیڑھ فٹ کا طرہ قومی نشان ہمارا

جولائی 1944ء میں 26 اراکین اسمبلی پر مشتمل مسلم لیگ پارٹی معرض وجود میں آئی۔ اس میں وہ ’’قومی درد‘‘ رکھنے والے رکن بھی شامل ہوئے جو آج اپنی یادداشتوں میں ملک برکت علی مرحوم پر تنقید کے تیر چلاتے ہیں۔ میں نے ایک جلسہ میں ان ’’خالص اور وڈے‘‘ مسلم لیگی حضرات کا حدود اربعہ بیان کرکے یہ حساب بے باک کردیا تھا جس کے بعد یہ حضرات محتاط ہوگئے ہیں۔ یہ تو محض ایک جملہ معترضہ تھا۔

میں ذکر کررہا تھا جلسہ گاہ کی اجازت کا۔ چونکہ چند ماہ قبل 1940ء منٹو پارک میں اکالی دل (سکھوں کی معروف سیاسی جماعت) کا جلسہ ہوچکا تھا جس کا ابو سعید انور مرحوم کو علم تھا۔ اس لیے اس جلسہ کے حوالے سے دوبارہ درخواست بھیجی گئی اور منظور ہوئی۔

اکالی دل نے چونکہ جلسہ گاہ کا کرایہ مبلغ تین صد روپے دیا تھا اس لیے کچھ لیت و لعل کے بعد اسی کرایہ پر جانبین میں اتفاق ہوا۔ اس تاریخی اجلاس کی انتظامیہ کمیٹی کا دفتر ممدوٹ ولاکی ’’انیکسی‘‘ کو بنایا گیا۔ ابو سعید انور اس کمیٹی کے فعال رکن تھے۔ مسلسل دو ماہ تک ہر صبح امرتسر سے اپنے کرایہ پر بذریعہ گاڑی لاہور آتے اور شام کو اسی طرح واپسی ہوتی۔

دوپہر کا کھانا ڈیوس روڈ کے اڈہ تانگہ کے ایک نان چنا چھابڑی فروش سے کھاتے۔ البتہ عصر کی چائے کا بندوبست صاحب خانہ کا تھا۔ جلسہ کے لیے چالیس ہزار روپے کا چندہ جمع ہوا۔ اس میں سکندر حیات کی اپیل کا بھی دخل تھا جو انہوں نے ایک خط کی صورت میں تمام مسلم ممبران اسمبلی کو بھیجا۔ اس بات کو بھی ریکارڈ پر لانا ضروری ہے کہ ایک ہزار روپے سے زائد کسی صاحب کا چندہ نہیں تھا۔

بعد میں جو دعوے سننے میں آئے بے اصل ہیں۔ اجلاس کے کل اخراجات مبلغ ستائیس ہزار روپے تھے۔ اتنے بڑے اجتماع کے اس قدر کم اخراجات کو ماننے میں آج تو کیا اس دور کے مسلم لیگی عمائدین کو بھی تردد تھا۔ حتیٰ کہ آئندہ سال دسمبر 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ مدراس اجلاس کے منتظمین کے استفسار پر یہ رقم بتائی گئی تو انہوں نے ذہنی تحفظ کے ساتھ اسے تسلیم کرلیا لیکن بقول ابو سعید انور یہی حقیقت تھی۔ کارکنان و منتظمین نے تمام کام انتہائی رعایتی نرخوں پر کروائے۔

منتظمین کی ملی جذبہ سے درد مندانہ اپیل موثر ثابت ہوئی۔ خیمہ قنات، فرنیچر وغیرہ کے کنٹریکٹر نے مروجہ کرایہ سے نصف رقم وصول کی۔ اس کا نام تو یاد نہیں۔ کوئی غیر معروف ٹھیکیدار تھا خیال ہے کہ علی احمد کمپنی نے یہ خدمات سرانجام دیں۔ اس رائے کو اس امر سے بھی تقویت ملتی ہے کہ ان کے پاس وہ تاریخی کرسی اب بھی موجود ہے جس کو حضرت قائداعظم کے بطور صدر جلسہ نشست کا شرف حاصل ہے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اہلیان لاہور کو اس اجلاس سے متعارف کروانے کے لیے ایک ہفتہ قبل باغ بیرون موچی دروازہ لاہور ایک تقریب ہوئی جس میں مقررین نے اس تاریخ ساز اجتماع کی غرض و غائیت پر روشنی ڈالی۔جلسہ گاہ کا جو نقشہ بریگیڈیئر صاحب کے ذہن میں محفوظ ہے۔

اس کے مطابق۔۔۔ ’’منٹو پارک میں مندوبین۔۔ اور کارکنان کی رہائش کے لیے ایک خیمہ بستی بنائی گئی۔ جس کی نگہداشت کے فرائض مسلم لیگ نیشنل گارڈ صوبہ سرحد کے ارکان نے سرانجام دیئے۔ خیمہ میں ڈاک خانہ، تار گھر اور سستے ہوٹل قائم کیے گئے۔ رات کی سردی سے بچاؤ کے لیے آگ اور گرم پانی کا معقول بندوبست تھا۔

نظریہ پاکستان کے متعلق اب بھانت بھانت کی بولیاں سننے میں آرہی ہیں جن کے احاطے کی یہاں گنجائش نہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ میٹرک کی اردو کے کورس کی کتاب میں پاکستان پر جو مضمون لکھا گیا ہے اس میں خاصا ابہام ہے۔ لیکن اگر آپ 1940ء کے اس تاریخی جلسے میں موجود ہوتے تو اس ماحول کو ایک جملے میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ہماری قوم کی اساس وحدت ایمانی ہے اور پاکستان میں قرآن کی حکمرانی ہو گی۔ یعنی نظریہ کے دو اجزاء ہیں پہلا جزو ہماری قومیت کی فکری اساس ہے اور دوسرا دستور العمل فکری اساس ہی عملی رویے کا تعین کرتی ہے۔

1941ء میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے زیر اہتمام اسلامیہ کالج لاہور میں ایک عظیم الشان کانفرنس ہوئی تھی جسے پاکستان سیشن کا نام دیا گیا۔میں اُس وقت کالج کا طالب علم تھا۔ جب 1941ء میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے پاکستان کانفرنس منعقد کرنے کا ارادہ کیا لیکن بعدازاں قائداعظم کی ہدایت پر اسے سالانہ جلسے کا نام دیا گیا۔

مولانا عبدالستار نیازی اس تقریب کے روح رواں تھے۔ یکم مارچ 1941ء کو اسلامیہ کالج لاہور کی گراؤنڈ میں بعد نماز عشاء پہلی نشست ہوئی۔ مرزا عبدالحمید صدر پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ مرزا صاحب آسٹریلین مسجد میں خطیب اور اسلامیہ کالج میں ایم اے عربی کے طالب علم تھے۔ بڑے اچھے مقرر تھے۔ خطبہ استقبالیہ کے بعد مولانا عبدالستار نیازی نے ایک ولولہ انگیز تقریر کی۔

قیام پاکستان کے بعد بھی مولانا کی تقریر سننے کا کئی مرتبہ اتفاق ہوا لیکن وہ گھن گرج دیکھنے میں نہیں آئی جو تحریک کے ایام میں تھی۔ اس کا اندازہ اہل دل حضرات ہی کرسکتے ہیں۔ مولانا کی قلبی کیفیت اقبال کے اس شعر کے مصداق تھی۔

مرزعۂ سوختۂ عشق ہے حاصل میرا

درد قربان ہو جس دل پہ وہ ہے دل میرا

ایک سیل رواں تھا جو امڈا چلا آرہا تھا اور قرآن فروش نوابوں، بے ضمیر وڈیروں، نیشلسٹ علماء کو خس و خاشاک کی مانند بہا کر لے جا رہا تھا۔ مولانا کی اس دور کی تقاریر سے اب تک گوش لذت گیر ہیں۔ مولانا نے سرسکندر کو جو اسٹیج پر موجود تھے مخاطب کرکے کہا کہ میں اسے ٹکے کا آدمی نہیں سمجھتا۔ سنا ہے کہ سرسکندر کی آنکھیں تر ہوگئیں۔ آخر میں قائداعظم صرف چند منٹ کے لیے بولے۔ انہوں نے تقریر کا آغاز اس مشہور جملے سے کیا۔

”This is the month of March Let us march on”

’’یہ مارچ کا مہینہ ہے ، تم بھی مارچ کرتے ہوئے بڑھے چلو‘‘

قائداعظم اور پروفیسر ریاض شاہ
قائداعظم کے حوالے سے ایک بات جو ان کی وفات سے دو تین دن پہلے پروفیسر ڈاکٹر ریاض علی شاہ کی ان سے ملاقات میں ہوئی۔ قائداعظمؒ نے ان سے فرمایا۔ تم جانتے ہوکہ جب مجھے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے، تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے۔ یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا اسے کبھی نہیں کرسکتا تھا۔ میرا ایمان ہے کہ یہ رسول خداﷺ کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اب یہ پاکستانیوں کا قرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے۔

(پروفیسر ریاض کی کتاب ’’میرا قائد‘‘ سے اقتباس)

بیگم رعنا لیات علی خان کے وہ الفاظ جنہیں ’’ہیکٹر بولتھو‘‘ نے اپنی کتاب ’’کرییٹر آف پاکستان‘‘ میں شامل کیا ہے
’’اپنی بے پناہ دیانت داری کے علاوہ جناح میں دوسروں کو متاثر کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔ وہ جب کسی فرد یا مجمع کو متاثر کرنے کا تہیہ کرلیتے تو بالآخر اس پر چھا جاتے تھے۔ میں نے تو کئی مرتبہ انہیں انگلی اٹھا کر کسی سے یہ کہتے سنا ’’تم مہمل باتیں کررہے ہو اور خود نہیں سمجھتے کہ کیا کہہ رہے ہو‘‘ اس سرزنش پر ان کا مخاطب ہمیشہ چپ ہوکر بیٹھ جاتا۔ لیکن ان کے سحر کار انداز خطاب کی اصل شان اس وقت ظہور میں آتی جب وہ کسی بڑے مجمع میں تقریر کرتے۔ یہاں وہ اپنا یک چشمہ اکثر استعمال کرتے۔ پہلے وہ آنکھ پر لگاتے۔ پھر ہٹا کر بولنا شروع کرتے۔ ان کے اور ان کے سامعین کے درمیان غیر زبان کی بڑی اونچی دیوار حائل تھی کیوں کہ وہ انگریزی میں تقریر کرتے تھے اور اکثر سامعین انگریزی سے بالکل ناواقف ہوتے لیکن اس کے باوجود لوگ شوق سے ان کی تقریر سنتے اور اس کا ایسا اثر ان پر ہوتا جیسے کسی نے جادو کردیا ہو۔

کردار کی عظمت کے ساتھ ساتھ الفاظ کا یہی جادو تھا جس نے دو قومی نظریے کو بنیاد سے حقیقی ریاست کی جغرافیائی سچائی بنائے جانے تک کا سفر کروا دیا۔ نسلوں سے شکست خوردہ گروہ اس سچائی سے آنکھیں پھیر سکتا ہے نہ ہی اس تاریخی حقیقت کو مغالطے کی دھول سے اڑسکتا ہے۔‘‘

جناح آف پاکستان کے مصنف سٹینلے والپرٹ کا خراج تحسین
’’بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل دیتے ہیں اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت قائم کردے۔ محمد علی جناح ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے بیک وقت تینوں کارنامے کر دکھائے۔

یوم پاکستان کی مناسبت سے اسلام آباد میں مسلح افواج کی پریڈ

اسلام آباد(ویب ڈیسک) یوم پاکستان کی مناسبت سے شکر پڑیاں گراو¿نڈ اسلام آباد میں مسلح افواج کی شاندار پریڈ کا انعقاد کیا گیا۔ شکر پڑیاں پریڈ گراو¿نڈ اسلام آباد میں مسلح افواج کی شاندار مشترکہ پریڈ کا انعقاد کیاگیا، جس میں صدر مملکت ممنون حسین، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات سمیت دیگر سول و عسکری حکام نے شرکت کی۔تقریب کے مہمان خصوصی سری لنکا کے صدر متھری پالا سری سینا تھے۔ اس کے علاوہ برادر ملکوں کے سفرا بھی تقریب میں موجود تھے۔تقریب میں صدر مملکت ممنون حسین روایتی انداز میں گھڑ سوار دستے کے حصار میں پریڈ گراو¿نڈ پہنچے جہاں مسلح افواج کے سربراہان نے صدر مملکت کا استقبال کیا۔ اس موقع پر قومی ترانہ بجایا گیا اور انہیں سلامی دی گئی۔ سلامی کے بعد جیپ میں سوار صدر مملکت نے پریڈ میں حصہ لینے والے مسلح افواج کے دستوں کا معائنہ کیا۔یوم پاکستان پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت ممنون حسین کا کہنا تھا کہ ملکی تاریخ میں 23 مارچ جیسا کوئی دن نہیں، 23 مارچ 1940 کو ہمارے بزرگوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ کیا۔ ہماری امن دوستی کو کمزوری سمجھنا خطرناک ثابت ہوگا، ہمارا ہمسایہ اپنی فوجی قوت میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا پاکستان کشمیریوں کے جائز حق کیلئے کردار ادا کرتا رہے گا، افغانستان میں امن کیلئے پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ شاندار پریڈ ہمارے خوابوں کی تعبیر ہے، سری لنکن صدر کی پریڈ میں شرکت پر شکر گزار ہیں۔صدر مملکت کے خطاب کے بعد مسلح افواج کے دستوں نے مارچ پاسٹ اور پاک فضائیہ کے شاہینوں نے اپنی مہارات کا ثبوت دیا، پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل مجاہد انور نے ایف 16 پر سلامی دی۔ اس کے علاوہ پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے ثقافتی فلوٹس بھی برآمد ہوئے۔

آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم کب دورہ کریگی ،کینگروز کو پاکستان میں دیکھنے والوں کیلئے خوشخبری

کراچی (ویب ڈیسک)پی ایس ایل کے شاندار انعقاد کی وجہ سے آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کے پاکستان آنے کے امکانات روشن ہوگئے ۔آسٹریلوی ہائی کمشنر کا کہنا ہے کہ پی ایس ایل کی وجہ سے امید ہے کہ جلد آسٹریلوی ٹیم بھی پاکستان کا دورہ کرے گی۔

باﺅلرز کیلئے خوف کی علامت ،مایہ ناز بلے باز کرس گیل نے ریٹائرمنٹ کا علان کر دیا

ہرارے (ویب ڈیسک) ویسٹ انڈیز کے مایہ ناز بلے باز اور ٹی 20 کرکٹ میں باو¿لرز کی دھجیاں اڑانے سے شہرت رکھنے والے کرس گیل نے ورلڈکپ 2019ئ کو اپنا آخری ٹورنامنٹ قرار دیدیا ہے جس کے باعث پوری دنیا میں اپنے مداحوں افسردہ ہو گئے ہیں۔کرس گیل ورلڈکپ کوالیفائنگ راو¿نڈ کھیلنے کیلئے زمبابوے میں موجود تھے جہاں انہوں نے متحدہ عرب امارات کیخلاف میچ میں شاندار سنچری بھی سکور کی مگر اس کے بعد کے میچوں میں خاطرخواہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے ورلڈکپ 2019ئ کیلئے کوالیفائی کر لیا ہے جو انگلینڈ اینڈ ویلز میں کھیلا جائے گا۔
ویسٹ انڈیز کا ورلڈکپ کیلئے کوالیفائی کرنے پر کرس گیل نے خوشی کا اظہار کیا لیکن ساتھ ہی اس ٹورنامنٹ کو اپنے کیرئیر کا آخری ٹورنامنٹ بھی قرار دیدیا اور کہا کہ چونکہ یہ میرا آخری ورلڈکپ ہے اس لئے میں خود کو مکمل فٹ رکھ کر بہترین کارکردگی دکھانے کی بھرپور کوشش کروں گا۔

شام سے بڑ ی اور بُری خبر آگئی

بیروت(ویب ڈیسک)شام کے دارالحکومت دمشق کے نواح میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقے مشرقی الغوطہ میں واقع شہر دوما سے ہزاروں کی تعداد میں شہری اپنا گھر بار چھوڑ کر اسد رجیم کے عمل داری والے علاقے میں داخل ہو گئے،غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق برطانیہ میں قائم شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق نے اطلاع دی کہ دوما سے گزشتہ رات قریباً ڈیڑھ ہزار افراد کا انخلا ہوا۔بدھ کی رات دوہزار کے لگ بھگ افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر شامی حکومت کے عمل داری والے علاقے کی جانب چلے گئے تھے اور مزید کا انخلا ابھی جاری ہے۔روس کی وزارت دفاع نے باغیوں کے زیر قبضہ علاقے اور شامی حکومت کے کنٹرول والے علاقے کے درمیان واقع ایک گذرگاہ الوافدین سے براہ راست ویڈیو اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کی ہے۔دوما سے شامی شہریوں کا انخلا روس کی ضمانت کے نتیجے میں ہی ہورہا ہے۔چند منٹ کے دورانیے کی اس ویڈیو میں بیسیوں افراد چھوٹے گروپوں کی صورت میں دوما شہر سے ایک نکڑ کی جانب ا?رہے ہیں اور اس کے بعد وہ مسلح فوجیوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ایک ٹوٹی پھوٹی شاہراہ کی جانب جارہے ہیں۔ان میں سے بعض نے تھوڑا بہت سامان اٹھایا ہوا ہے اور خواتین نے اپنی گود میں کم سن بچے لے رکھے ہیں۔دوما مشرقی الغوطہ میں سب سے گنجان ا?باد علاقہ ہے اور شامی فورسز نے گذشتہ ایک ہفتے سے اس کا مکمل محاصرہ کررکھا ہے۔ اس پر باغی گروپ جیش الاسلام کا کنٹرول ہے اور اس نے تادم مرگ لڑنے کا اعلان کررکھا ہے۔تاہم شامی رصدگاہ کا کہنا تھا کہ دوما سے گھربار چھوڑ کر ا?نے والے افراد کا کہنا ہے کہ وہ جیش الاسلام اور شامی حکومت کے قریبی اتحادی روس کے درمیان سمجھوتے کے بعد شہر خالی کررہے ہیں۔ایک اور باغی گروپ احرار الشام نے بدھ کو مشرقی الغوطہ میں واقع اپنے زیر قبضہ قصبے حرستا کو خالی کرنے سے اتفاق کیا تھا۔اس نے شامی فورسز سے باغیوں کے زیر قبضہ صوبے ادلب جانے کے لیے محفوظ راہداری کے بدلے میں انخلا پر رضامندی ظاہری کی تھی۔اس سمجھوتے کے تحت سیکڑوں مسلح باغی اور عام شہری شامی فوج کے محاصرے کا شکار حرستا سے نکل جائیں گے۔احرار الشام کے ترجمان منطہر فارس نے گذشتہ روز ایک بیان میں کہا تھا کہ اس ڈیل کے تحت حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے جنگجو ادلب کی جانب چلے جائیں گے

شین وارن اور ویرات کوہلی کوئٹہ کے 6سالہ سپن باﺅلر کے دیوانے کیوں نکلے؟اہم انکشاف

کوئٹہ (ویب ڈیسک)کوئٹہ کے 6سالہ بچے نے اپنی جادوئی باﺅلنگ سے شین وارن اور کوہلی کو بھی متاثر کر دیا ۔چھ سالہ ایلی میکائیل نے چند ماہ میں ہی پانچ مختلف انداز میں لیگ بریک باﺅلنگ کا آرٹ سیکھ کر سب کو حیران کر دیا ۔طالب علم کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو لیگ سپن کے بادشاہ شین وارن اور رنز مشین ویرات کوہلی بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے ۔