All posts by Daily Khabrain

”عمران یا طاہرالقادری ، جم غفیر جمع کر کے حکمرانوں کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنیکا طریقہ میری نظر میں کامیاب نہیں ہو سکتا “ نامور لکھاری ،محقق ضیا شاہد کا مقبول کالم

قارئین ،عمران کے حوالے سے اپنی کچھ یادوں اور کچھ تاثرات پر مبنی سلسلہ مضامین ختم ہونے کو ہے۔ میں صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ برصغیر میں سب سے بڑی سیاسی جنگ قائد اعظم نے لڑی اور اس کے بعد اپنی بے شمارخامیوں کے باوجود ذوالفقاربھٹو واحد سیاستدان تھا جس نے عوام کو موبلائزکیا اور غریب کے دل تک پہنچا۔یہی وجہ ہے کہ بے شمار بلنڈر کرنے کے باوجود آج بھی آپ کو ہر گلی محلے میں پرانا پیپلیا مل جاتا ہے ۔نواز شریف کا زیادہ دور حکومت میں گزرا لیکن اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے بالخصوص بے نظیر کے خلاف تحریک نجات میں میاں صاحب نے بڑی محنت کی اور ساتھیوں کو بھی مشقت پر مجبور کیا۔میں نواز شریف صاحب کی سیاست میں آمد سے آج تک مختلف ادوار میں انہیں قریب سے دیکھتا رہاہوں اور پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہو ں کہ نوازشریف صاحب کبھی ڈر کر یا جھک کر استعفیٰ نہیں دیں گے۔ وہ عزیر ہموطنو والی تقریر کے بعد گرفتارہونا زیادہ پسند کریں گے تاکہ ان کی مستقبل سیاست اور ووٹ بینک محفوظ رہے او ر انہیں جمہوریت کی خاطر قربانی دینے والا شمار کیاجا سکے۔
تجربے اور مشاہدے نے مجھے بہت سکھایاہے ۔عمران ہو یا طاہرالقادری جم غفیر جمع کرکے حکمرانوں کومستعفی ہونے پر مجبور کرنے کا طریقہ میری نظر میں کامیاب نہیں ہو سکتا ۔میں یہاں بھٹو صاحب کی زندگی کے آخری حصے کے بارے میں ایک حقیقت سامنے لانا چاہتا ہوں ۔
یہ روز نامہ نوائے وقت میں میری ڈپٹی ایڈیٹری کا دور تھا جب شاہراہ فاطمہ جناح پر نوائے پرنٹرز کے سامنے بنی ہوئی دفتر کی نئی عمارت میں مجید نظامی صاحب نے جو ہمارے سینئر صحافی اور اخبار کے چیف ایڈیٹر تھے اپنے معتمد خاص منیر کو بھیج کر مجھے کمرے میںبلایاجسے مذاق میں دفتر کے پرانے لوگ منیر نظامی کہا کرتے تھے ۔محترم مجید صاحب کے کمرے میں چوہدری ظہور الٰہی مرحوم موجود تھے انہوں نے بھٹو صاحب کا پھانسی کے حکم پر جس قلم سے دستخط کیے گئے تھے وہ جنرل ضیا الحق سے مانگ کر اپنی جیب میں رکھا اور ملنے والوں کو دکھایا کرتے ،محترم مجید صاحب نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیااور بولے ”چوہدر ی صاحب ،بھٹو صاحب کے آخری دنوں کا واقعہ سنا رہے تھے میں چاہتا ہوں آپ بھی سن لو “چوہدری صاحب نے بتایاکہ جنرل ضیا الحق کے آنے سے پہلے بھی سعودی حکومت نے پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے درمیان الیکشن میں دھاندلی کے نتیجے میں احتجاجی تحریک کے اختتام اور مفتی محمود ،نوابزادہ نصراللہ اور پروفیسر غفور احمد سیکرٹری جنرل کی گرفتاری او ر راولپنڈی سے قریب سہالہ کینٹ میں نظر بندی کے زمانے میں پاکستان میں سعودی سفیر ریاض الخطیب کے ذریعے صلح کروانے کی کوشش کی تھی اور انہی کوششوں کے بعد پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے رہنماﺅں میں مذاکرات کا آغاز ہو اتھااور بھٹو صاحب کچھ سیٹوں پر دوبارہ الیکشن کروانے کے لئے تیار ہوگئے ۔
بعد ازاں ایسانہ ہو سکا اور جنرل ضیا الحق نے بھٹو صاحب کا تختہ فوج کی مدد سے الٹ دیا ۔چوہدری ظہور الٰہی نے بتایاکہ اس کے بعد بھٹو گرفتار ہوئے ‘احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کے الزام میں ان پر مقدمہ چلا،ہائی کورٹ نے پھانسی کی سزا دی ،سپریم کورٹ نے برقرار رکھی ۔اس وقت بھی سعودی عرب نے کوشش کی کہ اگر بھٹو صاحب مان جائیں اور پانچ سال کے لئے بیماری کے بہانے انہیںباہر بھیج دیا جائے اور پھانسی کا عمل رک جائے تو مسئلے کاحل تلاش کیاجا سکتا ہے ،چوہدری ظہور الٰہی نے اس واقعہ کی تفصیلات بیان کیں کہ کس طرح ضیا الحق کے ایک معتبر جرنیل پنڈی جیل کے سپرنٹنڈنٹ یارمحمد دردانہ کے ساتھ جیل میں بھٹو صاحب کی کوٹھری تک پہنچے اور انہیں سعودی عرب کی پیش کش سے آگاہ کیا گیاجسے ضیاالحق کی پشت پناہی حاصل تھی لیکن بھٹو صاحب نے انتہائی غصے کا اظہار کیا،پیش کش کرنے والے جرنیل کو موٹی موٹی گالیاں دیں ۔جنرل ضیا الحق کو صلواتیں سنائیں او رکہا جاﺅ اسے کہہ دو کہ مجھے پھانسی پر چڑھا دے میں ہرگز سیاست چھوڑنے او ر باہر جانے کا فارمولا قبول نہیں کروں گا ۔چوہدری ظہور الٰہی کی روداد سننے کے بعد اگلے کئی ہفتے میں نے بھٹو صاحب کے انکار کی سٹوری پر کام کیااور کئی حوالوں سے مجھے پتا چلاکہ یہ سٹوری درست ہے ۔
واضح رہے کہ برسوں بعد یہ ڈرامہ ایک بار پھر دہرایاگیااور پرویز مشرف نے نواز شریف کے خلاف سزاﺅں کے اعلان کے بعد سعودی عرب کی مداخلت ہی سے دس سال سیاست سے الگ رہنے کی شرط پر نواز شریف اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اٹک کی جیل سے نکلے اور سعودی طیارے پر جدہ پہنچ گئے جہاں سعودی حکمرانوں نے ان کے لئے ایک آرام دہ محل مخصوص کر رکھا تھا ۔بعد ازاں نواز شریف آٹھ سال بعدکس طرح لندن پہنچے اور پھر پاکستان واپس آئے کس طرح الیکشن جیتا۔یہ تاریخ کاحصہ ہے جس سے پڑھنے والے مکمل طور پر آگاہ ہیں لیکن یہ امر واضح ہے کہ سیاست دان کو یقین ہوتا ہے کہ وہ پھر لوٹ کر آئے گا اور اگر اس نے اپنے پتے ٹھیک کھیلے ہیں تو اقتدا ر کے ایوان ان کے لئے کھول دئیے جائیں گے ۔میں نے یہ واقعات اس لئے بیان کئے کہ آپ اسلام آباد کا گھیراﺅ کر کے منتخب وزیر اعظم جن کی اسمبلی میں اکثریت ہے کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہیں کر سکتے ۔ہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتی تو یوسف رضا گیلانی ہوں یا راجہ پرویز اشرف انہیں عدالتی حکم پر گھر بھیجا جاسکتاتھا ۔میاں صاحب خوش قسمت ہیں کہ انہیں ہمیشہ عدالتوں سے مدد ہی ملی تاہم آئندہ کے لئے کچھ کہا نہیں جا سکتا مگر وہ عوامی دباﺅ کے آگے کبھی نہیں جھکیں گے اور اس امر کو ترجیح دیں گے کہ برا وقت آجائے تو بھی وہ گرفتارہونا اور جیل جانا زیادہ پسند کریں گے جو عوام میں ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ کرے گا ۔
اگر عمران اور اس کے ساتھی ٹھنڈ ے دل سے اس حقیقت پر غور کریں تو انہیں اپنا سیاسی پروگرام بدلنا پڑے گا ۔کسی بھی اپوزیشن پارٹی کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ برسراقتدار لوگوں کو حکومت سے نکالے لیکن میرے دوست شیخ رشید جن کی ذہانت ،محنت اور جرات اظہار کامیں ہمیشہ قائل رہا ہوں لیکن باربار ان کی طرف سے نئی تاریخ دینے کے بعد عمران اور اس کے ساتھیوں کو پھر مایوسی ہوگی کیونکہ جی ایچ کیو کے جس گیٹ نمبر 4کاباربار میرے پیارے شیخ رشید حوالہ دیتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ راست اقدام کے لئے تیار ہوں ۔باربار کے مارشل لاءسے ہمارے حاضر سروس اور ریٹائرڈ جرنیلوں نے بھی بہت کچھ سیکھا ہے اور ضروری نہیں کہ وہ ایک بار پھر ایڈونچر کے لئے تیار ہوں۔ بالخصوص جب سیاسی جماعتوں کی اکثریت ان پر نا ن سٹیٹ ایکٹر کی حمایت بارے دباﺅ ڈال رہی ہے ۔پاک فوج پر جتنے پریشر آج ہیں شاید ماضی میں کبھی نہیں رہے ۔مقبوضہ کشمیر میں عوامی خواہشات پر بھارت کی ننگی چڑھائی ،نریندر مودی کی بھارتی وزیر اعظم کی حیثیت سے پاکستان میں نان اسٹیٹ ایکٹر کی بھر پور مخالفت ،سیاسی حکمرانوں سے براہ راست اچھے تعلقات بنانے کی سوچ اور پاک فوج کے متعلق اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لئے الزام تراشی کی بین الاقوامی مہم ،دہشت گردی کے خلاف لڑتی ہوئی پاک فوج کے مقابلے میں ”را“کے جاسوسی نیٹ ورک کے علاوہ پاکستان میں سیاسی انتشار کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی کی کوشش‘ پنجاب کو چھوڑ کر باقی تینوں صوبوں میں زبان اور نسل کی بنیاد پر دو قومی نظریے کی نفی اور کہیں زیادہ صوبائی حقوق اور کہیں اس سے آگے بڑھ کر علیحدہ اور آزاد ریاست کی تمنا۔ میں نے متعدد مارشل لاﺅں کو آتے دیکھا ہے لیکن شاید آئندہ بین الا قوامی حالات ہوںیا سیاستدانوں کا اندرونی مک مکا جمہوری دور کو خرابیوں کے باوجود مارشل لاءپر ترجیح دینے کا رُجحان، آپ فوج کی آمد کے لئے جتنی جی چاہے فضا ہموار کر لیں، شاید چند فوجی گاڑیوں کے ساتھ وزیراعظم ہاﺅس کا گھیراﺅ کرنے کا دور گزر چکا ہے، پھر فوجی قیادت بھی جو کبھی سول حکومت کی اطاعت کا اعلان کرتی ہے، اور کبھی ہر قسم کی تحریک کے باوجود آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہنے کا فیصلہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ اُس کے اپنے مسائل ہی اُس کے لئے کافی ہیں، لہٰذا ایوب خان، یحییٰ خاں، ضیاءالحق اور پرویز مشرف کی کہانی اَب شاید نہ دُہرائی جا سکے۔
(جاری ہے)

”گو نواز گو“ کے بعد ”گو انکل نثار گو“ کا نعرہ ,تحریک چلانے کا اعلان

لاہور (لیڈی رپورٹر)پےپلزپارٹی کے چےئرمےن بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ آجکل ”گو انکل نثار گو“ کا نعرہ ہے 27دسمبر کے بعد ”گونواز گو“ تحر ےک چلائےں گے ‘ہم کوئی ”ےوٹرن “لےں گے اور نہ ہی اپنے 4 مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے‘ہم وزیراعظم اوراداروں کاجمہوری احتساب چاہتے ہےں ‘بہت جلدپنجاب کی پارٹی تنظیم کااعلان کروں گا‘ہم اس ملک‘ صوبے اور شہر کو دکھائیں گے پےپلزپارٹی کل بھی زندہ تھی آج بھی زندہ ہے‘پےپلزپارٹی مےں ہم سب ملکر عوام کے ساتھ کام کر ےں گے تو الیکشن بھی جیتیں گے‘لاہورکی بہتری کےلئے کام کر ےں گے تو عوام بھی ہمارے ساتھ ہوگی‘ےہ پیپلز پارٹی کا ہی کمال ہے کہ جہانگیربدرجیساکارکن پارٹی کا مر کزی جنرل سیکرٹری بنا۔ وہ جمعرات کو جہانگےر بدر کے انتقال پر انکے اہل خانہ سے اظہار تعزےت کے بعد مےڈےا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ پےپلزپارٹی نے ہمےشہ قوم سے جووعدہ کےا ہے اس کو پورا کےا ہے ہم نے حکومت کو وزےر خارجہ کی تعےناتی اور پانامہ انکوائری بل سمےت جو 4مطالبات دےئے ہےں ان پر حکومت کو عمل کر نا ہوگا ورنہ آئندہ کی حکمت عملی کا اعلان ستائےں دسمبر کو کےا جائےگا اور ہم پھر ”گو نواز گو “کا نعرہ لگائےں گے۔ انہوں نے کہا کہ پےپلزپارٹی کے تمام مطالبات آئےن کے مطابق ہے اور ہم نے ہمےشہ جمہو رےت کی بات کی ہے اور ہم وزیراعظم اوراداروں کاجمہوری احتساب چاہتے ہےں۔ انہوں نے کہا کہ پےپلزپارٹی آج بھی بھٹو اور بے نظےر بھٹو شہےد کے مشن کے مطابق چل رہی ہے اور آنےوالے دونوں مےں پےپلزپارٹی مزےد مضبوط اور فعال نظر آئےں گی اور ہم سب کودکھائیں گے کہ پیپلزپارٹی کل بھی زندہ تھی آج بھی زندہ ہے۔انہوں نے کہا کہ جہا نگےر بدر کے بےٹےوں کو ساتھ لےکر چلوں گا اور ہم نہ صرف جہا نگےر بدر والی نشست پر کامےاب ہوں گے بلکہ لاہور مےں بھی پور پھر کا مےابی حاصل کر ےں اور ہم لاہور مےں پےپلزپارٹی کے پلےٹ فارم سے وہ تبدےلی لائےں گے جسکا خواب جہا نگےر بدر نے دےکھا ہے۔

ترکی کیساتھ اہم معاہدہ, پاکستانی عوام کیلئے اہم خوشخبری

لاہور (اپنے سٹاف رپورٹر سے) پنجاب حکومت اور ترکی کی وزارت صحت کے مابین ہیلتھ کیئر سسٹم کی بہتری کے لئے تعاون کے معاہدے پر دستخطوں کی تقریب شاہی قلعہ لاہور میں منعقد ہوئی – ترکی کے صدر رجب طیب اردوان ، وزیر اعظم محمد نواز شریف ، وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف ، ترک وفد کے اراکین اور پنجاب حکومت کے اعلی حکام نے بھی تقریب میں شرکت کی- معاہدے پر پاکستان میں ترکی کے سفیر مصطفی بابر گرگن اور پنجاب حکومت کی جانب سے سیکرٹری صحت نجم شاہ نے دستخط کئے – معاہدے کی رو سے ترکی وزارت صحت پنجاب کے شعبہ صحت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے تکنیکی معاونت فراہم کرے گی-ترکی کی وزارت صحت پنجاب پبلک ہیلتھ ایجنسی کے قیام کیلئے تکنیکی اور دیگر ضروری معاونت دے گی – ترک وزارت صحت وبائی ومتعدی امراض کی روک تھام اور عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے حوالے سے پنجاب حکومت کے ساتھ ملکر کام کرے گی-ترکی کی وزارت صحت ڈرگ ٹیسٹنگ لیب ملتان کی تنظیم نو میں بھی تعاون کرے گی- ادویات کی سپلائی کے نظام کو ازسرنو تشکیل دینے میں ترکی کی وزارت صحت پنجاب حکومت کی شراکت دار ہو گی-ایمرجنسی میڈیکل سروسز کیلئے کمانڈکنٹرول او ر مانیٹرنگ سنٹر کی ڈیزائننگ اور پروگرام پر عملدرآمد کے حوالے سے بھی ترک وزارت صحت تعاون کرے گی-معاہدے کی رو سے نرسوں کو ترکی سے تربیت دلوائی جائے گی اور ترک وزارت صحت دیگر میڈیکل سٹاف کی تربیت میں بھی تعاون کرے گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کو پوری پاکستانی قوم دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہتی ہے اور آج پاکستان کے تاریخی شہر لاہور میں ترک صدر رجب طیب اردوان اور ان کے وفد کا تاریخی استقبال کیاگیا ہے۔ ترکی کے صدر کے دورہ پاکستان سے پاک ترک تعلقات کو نئی جہت ملے گی اور دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ وزےراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشرےف ترکی کے صدر رجب طےب اردوان کے پاکستان کے دوروزہ دورے کے دوران اسلام آباد اور لاہور مےں ہونے والی تقرےبات مےں موجود رہے۔وزےراعلیٰ نے ترک صدر کااسلام آباد مےں استقبال کےا اورگزشتہ رات انہےں لاہور ائےرپورٹ سے رخصت کےا۔وزےراعلیٰ شہبازشرےف کی ترک صدر کے اعزاز مےں مختلف تقرےبات مےں شرکت اس امر کی عکاس ہے کہ وزےراعلیٰ شہبازشرےف ترکی کے صدر رجب طےب اردوان اورترکی کے ساتھ تعلقات کو کس قدر اہمےت دےتے ہےں۔وزےراعلیٰ نے گزشتہ روز اسلام آباد مےں ترک صدر کااستقبال کےااورآج وزےراعظم ہاو¿س مےں ترک صدرکے اعزاز مےں دےئے گئے استقبالےہ مےں شرکت کی۔وزےراعلیٰ نے وزےراعظم محمد نوازشرےف اورترکی کے صدر کے درمےان وفود کی سطح پر ہونے والی ملاقات مےں بھی شرکت کی۔وزےراعلیٰ شہبازشرےف ترک صدر رجب طےب اردوان اور وزےراعظم محمد نوازشرےف کی مشترکہ پرےس کانفرنس کے موقع پر بھی موجود تھے ۔ترک صدر کے پارلےمنٹ سے مشترکہ خطاب کے دوران وزےراعلیٰ مہمانوں کی گےلری مےں موجود رہے اور انہوں نے ترکی کے صدر کا پارلےمنٹ سے خطاب سنا۔بعدازاں وزےراعلیٰ لاہور واپس آئے اورائےرپورٹ پر انہوںنے ترکی کے صدر کا پرتپاک استقبال کےا۔وزےراعلیٰ نے شاہی قلعہ مےں ترکی کے صدر کے اعزاز مےں دےئے گئے عشائےہ مےں شرکت کی۔ترکی کے صدر نے وزےراعلیٰ شہبازشرےف کے ساتھ محبت اور خلوص کا اظہار کرتے ہوئے مختلف تقرےبات مےں ان کے ساتھ گرمجوشی کےساتھ ہاتھ ملاےا اور وزےراعلیٰ شہبازشرےف کی جانب سے پرتپاک استقبال کرنے پرخصوصی طورپر ان کا شکرےہ ادا کےااورانہےں اپنا بھائی کہہ کر مخاطب کرتے رہے۔

جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ میں 11 دن باقی …. الوداعی تقریبات شروع نہ ہوئیں

راولپنڈی (بشارت فاضل عباسی) آرمی چےف جنرل راحےل شرےف کی رےٹائرمنٹ مےں صرف گےا رہ دن رہ گئے ہےں آرمی چےف سال کے آغاز مےں واضح کر چکے ہےں کہ وہ مقررہ وقت پر رےٹائرڈ ہوجائےں گے رےٹامنٹ سے پہلے آرمی چےف کورز کے الوداعی دورے کرتے ہےں جس مےں کور مےں الوداعی کھانا جوانوں کے ساتھ گالف کھےلنا ےا محفل موسےقی مےں شرکت کرتے ہےں کےوں کہ 3 سال تک اس کور نے ان کے زےر کمان ذمہ دارےاں نبھائی ہوتی ہےں اس مےں آفےسر کی بےگمات اور بچے بھی شرےک ہوتے ہےں جنرل (ر) کےانی کے دور سے ہر ماہ کور کمانڈرز کانفرنس منعقد ہونا شروع ہوئی اور ےہ ہر ماہ کے پہلے ہفتے مےں ہوتی تھی جنرل راحےل شرےف کے دور مےں بھی کور کمانڈر کی کانفرنس ہرماہ اور عموما پہلے دس دنوں مےں بھی ہوتی رہی ہےں لےکن ماہ نومبر مےں ابھی تک کور کمانڈر منعقد ہی نہےں ہوئی قوی امکان ہے کہ 20نومبر کے بعد منعقد ہوگی اور آرمی چےف کی رےٹائرمنٹ سے پہلے ےہ ان کی آخری کور کمانڈرزکانفرنس ہوگی جس کی وہ سربراہی کرےں گے اب وقت مختصر ہونے کی وجہ سے تمام کورزکا الوداعی دورہ کرنا ممکن نہےں لگ رہا سابق عسکری ذرائع کے مطابق موجودہ صورت حال کو دےکھتے ہوئے تمام کور کمانڈر اور سینئر افسران ان کی بےگمات کے ساتھ الوداعی ملاقات اکھٹے مےگا فنکشن کروا کر کی جاسکتی ہے آرمی چےف جنرل راحےل شرےف نے نومبر کے17 دن مصروف گزارے انہوں نے شمالی اور جنوبی وزےرستان کا دورہ کےا 12نومبر کو سوات چھاونی کا دورہ کےا 14نومبر کو وزےر اعظم پاکستان کے ساتھ چےن پاکستان اقتصادی راہ داری کے تحت گوادر کی بندرگاہ سے تجارتی سرگرمےوں کا آغاز کےا اور کہا ہے کہ اےف ڈبلےو او نے ہزار کلو مےٹر سڑک بنائی ہے آرمی چےف نے کھارےاں مےں ہونے والے سےنٹرل کمانڈ مشقوں کا دورہ کےا کور ہےڈکواٹر کا کراچی دورہ کےا 17نومبر کو خےرپور ٹاماوالی بری اور فضائی فورسز کی مشقےں (رعدالبرق ) کا معائنہ کےا اور وزےر اعظم کو خصوصی طور پر اس مےں مدعو کےا فوج نے ملٹری سےکرٹری برانچ کے شعبے سے جس کا سربراہ لےفٹےننٹ جنرل ہوتا ہے جو نئے آرمی چےف کےلئے 3ناموں کو آرمی چےف کو بھےجتا ہے آرمی چےف قائدے اور رواےت کے مطابق اس مےں سے تبدےلی ےا ترمےم نہےں کرسکتے وہ اس کو وزارت دفاع مےں سےکرٹری ڈےفنس کو بھےجنے کے پابند ہوتے ہےں آرمی چےف کسی موضع جنرل کا نام تجوےز کر ے تو اسے قبول کےا جاسکتا ہے سےکرٹری ڈےفنس وزےر اعظم کو سمری ارسال کرتا ہے وزےر اعظم کی صوابدےد ہے کہ وہ جس کو بھی منتخب کر ے اس مےں سےنئر جونئےر کا کوئی نہےں ہو تا جس طرح جنرل (ر)کےانی کے دور مےں جنرل راحےل شرےف سےنئر ترےن نہےں تھے اس طرح بھٹو کے دور مےں ضےاءالحق سےنئر نہےں تھے وزےر اعظم آرمی چےف کو منتخب کر کے سمری صدر کو بھےجتا ہے صدر آئینی اور قانونی طور پر نام کی منظوری دےنے کا پابند ہو تا ہے ابھی تک ملٹری سےکرٹری نے کوئی سمری ارسال نہےں کی لےکن ےہ سارا کام اےک دن مےں بھی ہوسکتاہے ۔

بھارت کی سرحدی خلاف ورزی …. پاکستان کا بڑا اقدام

نیویارک (سپیشل رپورٹر سے) پاکستان نے بھارت کی طرف سے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھادیا، بھارتی جارحیت کی وجہ سے تعلقات مزید خراب اور خطے کو سکیورٹی خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے صدر اور سکریٹری جنرل بان کی مون کو اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کی طرف سے لکھے گئے خط میں بتایاگیاکہ گزشتہ ہفتے مقبوضہ کشمیر سے بھارتی سیکیورٹی فورسز نے بھاری آرٹلری ہتھیاروں کیساتھ لائن آف کنٹرول پر حملہ کیا جس سے خطے کی سلامتی و سکیورٹی کو خدشات لاحق ہیں، یہ 13سال بعدپہلی مرتبہ ہوا ہے جو بھارت کی بڑھتی ہوئی جارحیت اور خطے کی امن وسلامتی کو بالائے طاق رکھنے کا منہ بولتا ثبوت ہے ، دراصل یہ بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں ہونیوالی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے عالمی توجہ ہٹانے کیلئے ایک کوشش تھی۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے سربراہ اور سکیورٹی کونسل سے مطالبہ کیا کہ عالمی امن وسلامتی کا علمبردار ہونے کے طورپر بھارت کی طرف سے سرحدی حدود کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیاجائے جو علاقائی سلامتی کیلئے اصل خطرہ ہے ۔ ملیحہ لودھی نے لکھاکہ گزشتہ دوماہ سے بھارت کی طرف سے سرحدی حدود کی خلاف ورزیوں میں اضافہ دیکھاگیا جس سے سویلین آبادی متاثر ہو رہی ہے اور گزشتہ دوماہ کے دوران 107سویلین زخمی اور 26شہید ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان بھارت کی طرف سے ہونیوالی سیزفائر معاہدے اورعالمی قوانین کی خلاف ورزی کی مذمت کرتا ہے۔ اپنے اس خط میں ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ کے مبصرگروپ کو بھارت کی طرف سے دورے کی اجازت نہ دینے پربھی روشنی ڈالی اور ایک مرتبہ پھر واضح کیاکہ پاکستان مبصرگروپ کیساتھ مکمل تعاون کر رہا ہے اور لائن آف کنٹرول و ورکنگ بانڈری تک رسائی دے رہا ہے ۔

پاک کیویز ٹیسٹ …. پہلا روز بارش کے نام….

کرائسٹ چرچ(آئی این پی) پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان2ٹیسٹ میچز پر مشتمل سیریز کے پہلے میچ کے پہلے روز کا کھیل مسلسل بارش کے باعث منسوخ کر دیا گیا۔ کرائسٹ چرچ کے ہیگلے اوول گراﺅنڈ میں پاکستانی وقت کے مطابق رات 3 بجے میچ شروع ہونا تھا تاہم میچ شروع ہونے سے پہلے ہی بارش ہوگئی جو کئی گھنٹوں تک جاری رہی جب کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے بارش جاری رہنے کی پیش گوئی کے بعد امپائرز نے پہلے روز کا کھیل بغیر ٹاس کے ہی منسوخ کردیا۔ مصباح الیون انگلینڈ کے خلاف 2-2 سے سیریز برابر کرنے کے بعد ویسٹ انڈیز کو بچھاڑ کر پراعتماد ہیں اور نیوزی لینڈ کے خلاف بھی اچھا کھیل پیش کرنے کو بیتاب ہیں۔پہلا دن بارش کی نظر ہوا تو کھلاڑیوں نے خوب ہلا گلا کیا۔پاکستانی ٹیم مقرر وقت پر گراو¿نڈ پہنچی۔ تاہم بارش کی وجہ سے میچ کی شروعات میں تاخیر کی اطلاع ملی۔ کھلاڑیوں نے ہلکی پھلکی ٹریننگ پر اکتفادہ کیا۔اس کے بعد کھلاڑیوں نے فٹ بال کھیلی۔ ماہر فٹ بالر کی طرح کھلاڑی گیند لے کر کھیلتے دکھائی دئیے۔اس موقع پر یہ مناظر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہوگئے۔وہاب ریاض،سہیل خان سمیت دیگر کھلاڑی فٹ بال کھیل کر خوب لطف اندوز ہوئے۔پاکستان ٹیم میں میسی کے ہم شکل لیگ بریک بالر یاسر شاہ مرکز نگاہ تھے۔ فٹ بال کے ساتھ انھیں دیکھ کر یوں گمان ہوتا تھاکہ جیسے میسی میدان میں آگیا ہو۔پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دو ٹیسٹ میچز کی سیریز کے پہلے میچ کی شروعات بارش کی وجہ سے اچھی نہ ہوئی مگر کھلاڑیوں نے انجوائے کرکے خود کو توانا رکھا۔ آج میچ کاٹاس مقامی وقت کے مطابق دن10بجے جبکہ پاکستانی ٹائم سے علی الصبح 2بجے ہوگا۔ جبکہ روزانہ 98اوورزتک کاکھیل ہونے کاامکان ہے۔ہیگلے اوول گراﺅنڈ کی پچ بولنگ کے لئے سازگار دکھائی دیتی ہے جب کہ قومی ٹیم کے فاسٹ بولر محمد عامر، وہاب ریاض اور راحت علی میزبان ٹیم کے لئے مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں جب کہ بیٹنگ کے شعبے میں قومی ٹیم کے پاس کپتان مصباح الحق، یونس خان، اظہر علی اور اسد شفیق جیسے قابل بھروسہ کھلاڑی موجود ہیں۔
قومی ٹیم کے اسکواڈ میں بابراعظم، سمیع اسلم، شرجیل خان، محمد رضوان، سرفراز احمد، محمد نواز، عمران خان، یاسر شاہ اور سہیل خان شامل ہیں۔دوسری جانب کیویز اسکواڈ میں کپتان کین ولیمسن ، ٹرینڈ بولٹ، میٹ ہینری، جیمز نیشام، ٹم ساتھی، جیمز ٹیلر، کولن ڈی گرینڈہوم، ٹوڈ ایسٹل، ٹام لیتھم، ہینری نیکولس، جیٹ راول، نیل ویگنر اور بی ٹی والٹنگ شامل ہیں۔

باہمی تعاون اور آزادانہ تجارتی معاہدوں پر اتفاق ….

اسلام آباد، لاہور (نامہ نگار خصوصی، نیوز رپورٹر) ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے موقف کی تائید کرتے ہیں ،لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کی صورتحال پر تشویش ہے ۔ وزیراعظم ہاوس میں نواز شریف سے ملاقات کے بعد
مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا فوری اور بامعنی حل چاہتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے موقف کی تائید کرتے ہیں ،بھارت اور پاکستان مذاکرات کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں ۔ترک صدر نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں برادر ملک ہیں ،دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کردار ادا کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ خطے میں امن کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون نا گزیر ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ وہ ایوان میں داخل ہوئے تو ارکان نے ان کا نہایت پرتپاک استقبال کیا اور ڈیسک بجا کر معزز مہمان کا استقبال کیا۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نہ صرف کشمیری مسلمانوں کی حالت زار کا ذکر کیا بلکہ مسلم امہ کو درپیش مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے اتحاد و یگانگت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر ہمارے ضمیر کو گھائل کرتا آ رہا ہے، کشمیری بھائیوں کے کرب سے آگاہ ہیں، کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ حل ہونا چاہئے۔ ترک صدر طیب اردوان نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ طیب اردوان نے کہا کہ اسلام کا مطلب امن ہے، اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں، داعش کا دین اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ ترک صدر نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر انتہائ پسندوں کو ختم نہ کر سکے تو مسلمانوں کو ذلت سے نہیں نکال سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں سے برآمد ہونے والا اسلحہ مغربی ممالک کا ہے، دشمن ہمارے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازش کر رہا ہے، ہمیں مل کر مقابلہ کرنا ہو گا۔ طیب اردوان نے کہا کہ اسلامی مملکتوں کو فرقہ بندی اور فتنہ کے خلاف مل جل کر نبردآزما ہونا چاہئے۔ رجب طیب ارودان نے کہا کہ ہمیں اسلام سے تعلق پر فخر ہے، ہمارا تعاون اور منصوبے مستقبل میں بھی جاری رہیں گے۔ اپنے خطاب کے بعد وہ ارکان پارلیمنٹ سے گھل مل گئے اور ان سے باری باری ہاتھ ملایا۔ پاکستان اور ترکی نے دونوں ممالک کے درمیان موجود قریبی، گہرے اور کثیر الجہتی روابط اور مختلف شعبوں میں باہمی طور پر مفید تعاون کو مزید تقویت دینے پر اتفاق کرتے ہوئے اپنے خصوصی تعلقات کو مضبوط سٹریٹجک شراکت داری میں تبدیل کرنے کے مشترکہ عزم کا اعادہ کیا ہے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے ترک صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ ون ٹو ون ملاقات اور وفود کی سطح پر مذاکرات کے بعد جمعرات کو ایوان وزیراعظم میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے وسیع تر امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے خصوصی تعلقات کو مضبوط سٹریٹجک شراکت داری میں تبدیل کرنے کے لئے مشترکہ عزم کا اعادہ کیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ دونوں اطراف نے اتفاق کیا کہ تجارت، سرمایہ کاری اور تجارتی تعاون میں اضافہ مضبوط اقتصادی تعلقات کا محور رہنے چاہئیں۔ اس ضمن میں ہم نے 2017ءکے آخر تک جامع دوطرفہ آزادانہ تجارتی معاہدے کے لئے مذاکراتی عمل مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے ترک صدر اور ان کے وفد کا پرتپاک خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ترکی اپنے اپنے خطوں میں عدم استحکام، تصادم اور تبدیلی کے حالات و واقعات دیکھنے والی دو اہم ریاستیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر اردوان اور میں نے اتفاق کیا کہ پاکستان اور ترکی کے قریبی تعلقات نے اس مشکل ماحول میں استحکام کے ایک مضبوط عنصر کا کام کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک پرامن ہمسائیگی کے لئے پرعزم ہے اور پاکستان اور ترکی خطے اور اس سے باہر امن و سلامتی کے لئے مل کر کام کرتے رہیں گے۔ وزیراعظم نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں پاکستان کی رکنیت کے لئے حمایت پر ترکی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجے میں فورم پر پاکستان کے موقف کو تقویت ملی۔ انہوں نے کہا کہ 2017ءدونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 70 ویں سالگرہ کا سال ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے دورہ کی دعوت پر صدر ممنون حسین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اپنے دوسرے گھر پاکستان میں نہایت پرتپاک استقبال پر وہ وزیراعظم نواز شریف کے مشکور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم محمد نواز شریف سے ان کے مفید مذاکرات ہوئے۔ ملاقات میں علاقائی اور عالمی امور پر بات چیت ہوئی۔ ترک صدر نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ پاکستان اور ترکی معاشی، تجارتی، ثقافتی شعبوں میں پیشرفت کر رہے ہیں جبکہ دفاعی اور توانائی کے شعبوں میں تعلقات بھی مضبوط ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکی عنقریب اعلیٰ سطح کی سٹریٹجک کونسل کے پانچویں سربراہ اجلاس کی میزبانی کرے گا۔ ترک صدر نے امن کو یقینی بنانے کے لئے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس سے دہشت گردی کی لعنت پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے 15 جولائی کو ترکی میں بغاوت کی گھناﺅنی کوشش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پاکستان کے عوام مضطرب ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ترک قوم نے حوصلے اور جرات کے ساتھ بغاوت کو ناکام بنایا جس کی پاکستان کے عوام نے بھرپور حمایت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ صدر اردوان نے اس موقع پر جس جرات کے ساتھ قائدانہ اور فیصلہ کن کردار ادا کیا، سیاسی وابستگی سے قطع نظر پوری پاکستانی قوم ترکی کی منتخب حکومت اور جمہوری اداروں کی حمایت اور یکجہتی میں بیک آواز تھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ جمہوریت کی سربلندی کے لئے ترک عوام نے ایک نئی تاریخ رقم کی اور دوسروں کے لئے مثال قائم کی۔وزیراعظم محمد نواز شریف نے ترک سرمایہ کاروں اور کاروباری شخصیات کو دعوت دی ہے کہ وہ پاکستان میں کاروباری دوست ماحول سے استفادہ کرتے ہوئے توانائی، بنیادی ڈھانچہ، زراعت سمیت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کریں۔ انہوں نے یہ بات جمعرات کو یہاں سرمایہ کاری بورڈ کے زیر اہتمام پاک۔ترک سرمایہ کاری گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر ترک صدر رجب طیب اردوان بھی موجود تھے۔ وزیراعظم نے بالخصوص پاک۔چین اقتصادی راہداری منصوبہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس عظیم منصوبہ کے تحت 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ راہداری کے ساتھ بڑے پیمانے پر صنعتی پارکس اور زون قائم کئے جا رہے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ اس سے پاکستان میں بے مثال تجارتی اور صنعتی سرگرمیاں زور پکڑیں گی۔ انہوں نے کہا کہ پاک۔چین اقتصادی راہداری گوادر کو شمال مغربی چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں اور افغانستان سے ملائے گی، ہم چاہتے ہیں کہ ترکی میں ہمارے دوست بھی اس اقتصادی ترقی کے پروگرام کا حصہ بنیں۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاری بورڈ ترک سرمایہ کاروں کو اس ضمن میں بھرپور رہنمائی فراہم کرے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کیلئے سرمایہ کاروں کو متعدد مراعات اور پرکشش مواقع پیش کئے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ دونوں ممالک کی اقتصادی ترقی اور خوشحالی کیلئے مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ قریبی اقتصادی روابط سے باہمی تعلقات کو مزید تقویت ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی جمہوری حکومتیں تعلقات کو نئی جہت دینے کیلئے پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکی کے عوام کے دکھ اور خوشیاں مشترک ہیں۔ ملکی اقتصادی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں اقتصادی ٹیم نے معاشی استحکام کیلئے سخت محنت کی۔ انہوں نے کہا کہ افراط زر کا دباﺅ کم ہوا ہے، مالیاتی خسارہ ہدف کے اندر رہا ہے، شرح مبادلہ پر اعتماد بحال ہوا ہے جبکہ اقتصادی اشاریے مثبت ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر میں تاریخی اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس عرصہ کے دوران ملک کی سٹاک مارکیٹ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اس کا خطہ کی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی مارکیٹوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی اقتصادی درجہ بندی میں اضافہ کیا ہے، پاکستان کاروباری انڈیکس 2017ءکے حوالہ سے دنیا میں سال کے 10 سرکردہ ممالک میںسے ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترک سرمایہ کاروں کی کانفرنس میں شرکت پاکستانی معاشی پالیسیوں پر اعتماد کی مظہر ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کاروبار کیلئے انتہائی موزوں ممالک میں شامل ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کی توجہ توانائی کے بحران پر مرکوز ہے اور وہ 2018ءکے آغاز تک ملک سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمہ کیلئے پراعتماد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی مائع گیس کی درآمد کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور ہم نجی شعبہ میں مزید ایل این جی پورٹ ٹرمینلز قائم کر رہے ہیں جس میں سے ہمارے ایک ترک دوست بنا رہے ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردوان پاکستان کے دوروزہ دورے کے بعد جمعرات کو وطن واپس روانہ ہوگئے۔ علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے حج ٹرمینل پر وزیراعظم محمد نواز شریف، بیگم کلثوم نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف، گورنر پنجاب محمد رفیق رجوانہ، وفاقی وزیر پانی و بجلی و دفاع خواجہ محمد آصف سمیت اعلیٰ سرکاری حکام نے معزز مہمانوں کو رخصت کیا۔ اس موقع پر مختلف سیاسی، سماجی اور دیگر شخصیات بھی موجود تھیں۔ روانگی سے قبل ائیر پورٹ پر ترک صدر رجب طیب اردوان، وزیر اعظم محمد نواز شریف،وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے گروپ فوٹو بنوایا۔ ترک صدر نے وزیر اعظم محمد نواز شریف اوروزیر اعلیٰ پنجاب سے گرم جوشی سے مصافحہ اور معانقہ کیا۔ پاکستان میں دو دن قیام کے دوران ترک صدر نے صدر ممنون حسین اور وزیراعظم محمد نوازشریف سے ملاقاتیں کیں جبکہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی کیا۔ صدر اردوان پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے تیسری مرتبہ خطاب کرنے والے پہلے غیر ملکی مہمان ہیں۔ وزیراعظم محمد نوازشریف اور ترکی کے صدر نے اسلام آباد میں پاک ترکی کاروباری کانفرنس سے بھی خطاب کیا۔ وزیراعظم محمد نوازشریف نے ترک صدر اور ان کے وفد کے ارکان کے اعزاز میں تاریخی حضوری باغ میں ضیافت دی۔ ضیافت میں ترکی کی خاتون اول آمنہ اردوان اور بیگم کلثوم نواز نے بھی شرکت کی۔ ترکی کے صدر اور ان کے وفد کیلئے اس موقع پر ایک ثقافتی شو کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

سپریم کورٹ …. وزیراعظم مشکل میں پھنس گئے

اسلام آباد (آن لائن +مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے پاناما لیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ جب تک وزیراعظم پر سو فیصد الزامات کی تصدیق نہ ہو سخت فیصلہ نہیں دے سکتے، نیب اور ایف آئی اے نے خود کو فارغ کردیا ہے ، یہ ادارے صرف تنخواہیں لینے کیلئے بنائے گئے ہیں ، جب کام کرنے کی باری آتی ہے تو کہتے ہیں یہ معاملہ ہمارے دائرہ کار میں نہیں ہے ۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس امیر ہانی مسلم، جسٹس اعجا ز الحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے پاناما لیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔ طارق اسد ایڈووکیٹ نے کہا کہ سب سے پہلے درخواست میں نے دی ہے تمام کرپٹ افراد کا احتساب ہونا چاہیے ، پانامہ لیکس میں جو اصل لوگ ہیں ا ن کا احتساب ہونا چاہیے ایسا لگتا ہے کہ کرپشن کیخلاف نہیں ایک مخصوص شخص کیخلاف درخواست ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا اکہ اگر ہم روزانہ کی بنیاد پر نئی درخواستیں وصول کرینگے تو کیس ختم نہیں ہوگا اگر ایسا چلتا رہا تو مرکزی کیس کا فیصلہ نہیں کرسکیں گے ہر سماعت پر پانچ سات نئی درخواستیں آجاتی ہیں درخواست اس وقت حاکم وقت کیخلاف آئی ہے ابتداءانہی سے کی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ ہمیں احتساب کی ابتداءتو کرنے دیں کیا بینچ سے کسی نے کہا ہے کہ ایک کے بعد کسی کا احتساب نہیں ہوگا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ شاہد ہم اس معاملے پر دو مختلف آرڈرز جاری کریں۔ طارق اسد ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمیں عدالت سے توقعات ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ توقعات عورتیں کرتی ہیں طارق اسد صاحب۔ سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل اسد منظور بٹ نے کہا کہ میری اطلاعات کے مطابق نیب اور دیگر اداروں نے کوئی رپورٹ پیش نہیں کی۔ سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ پانامہ لیکس کا ایشو آئی سی آئی جے نے لیک کیا اور یہ ایشو تین اپریل کو سامنے آیا جس میں وزیراعظم اور ان کے اہلخانہ کا نام شامل تھا۔ پانامہ لیکس میں آئس لینڈ کے وزیراعظم نے اپنا نام آنے پر مستعفی ہوگئے تھے ۔ حامد خان نے پاناما لیکس سے متعلق وزیر اعظم کا قوم سے خطاب کا متن پڑھ کر سنایا۔ حامد خان نے کہا نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ کس طرح ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر پرویز مشرف تک نے ان کے کاروبار کو نقصان پہنچایا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ہماری ناکہ بندی کررکھی تھی ہمارے کارخانوں کی تمام چمنیاں ٹھنڈی کردی گئیں حامد خان نے کہا کہ نوا ز شریف کے خطاب میں اٹھارہ ماہ میں چھ فیکٹریاں بنانے کی بات کی گئی جو اہمیت کی حامل ہے انہوں نے کہا کہ کہ وزیر اعظم نے 27 اپریل کو پہلا جب کہ اس کے 17 دن بعد دوسرا خطاب کیا، نواز شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ ان پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں وہ 22 سال پرانے ہیں،وزیر اعظم نے قوم سے وعدہ کیا کہ اگر کمیشن نے قصور وار ٹھرایا تو گھر چلا جاو¿ں گا۔جسٹس عظمت سعید نے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ تقریر پڑھ رہے ہیں اس کا کیا فائدہ، اگر ان تقریروں سے تسلی ہوتی تو آپ یہاں نہ ہوتے، جسٹس اعجازالحسن نے استفسار کیاکہ وزیراعظم کے بیان کے مطابق ان کے دوبچے بیرون ملک ہیں، جس پر حامد خان نے کہا کہ یہ بات بالکل درست ہے لیکن بچوں کے کاروبار کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ تقریر کے مطابق وزیر اعظم نے جدہ اسٹیل مل فروخت کرکے بچوں کو کاروبار کروایا، نوازشریف کی تقریر میں ہے کہ ان کے والد نے مکہ میں کارخانہ لگایا، کارخانے کے لیے سعودی بینکوں سے قرضہ لیا، اس خطاب میں لندن کے فلیٹس کا ذکر نہیں، لگتا ہے وزیر اعظم نے مستعفی ہونے کا عہد خود سے کیا ہے قوم سے نہیں جس پر کمرہ عدالت ایک بار پھر قہقہوں سے گونج اٹھا حامد خان نے کہا کہ یہ بات بڑی اہم ہے کہ وزیراعظم نے کہا تھا کہ ہماری جیب میں ایک دمڑی بھی نہیں تھی۔ نوازشریف واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ عدالتوں نے ان پر لگائے گئے الزامات مسترد کیے، پاناما لیکس میں جوالزمات لگائے گئے وہ 22سال پرانے ہیں، کیا ملک کے کسی ادارے نے تحقیقات کیں،کیا ماضی میں وزیر اعظم پر لگائے گئے الزمات کی تحقیقات اور نتائج سا منے آئے ہیں کیاان مقدمات کے حوالے سے کوئی دستاویزات موجود ہیں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں غلط بیانی کی تو نتائج بھگتنا ہونگے ۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ کیا لندن کے فلیٹس ان مقدمات میں شامل تھے،جس پر حامد خان نے کہا کہ یہ جائیداد ان مقدمات میں شامل نہیں جن پر عدالت نے فیصلہ سنایا۔ جسٹس عظمت سعید کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ یہ ایک سیاسی بیان ہے، ایک بھی الزام پر دوبارہ تحقیق ہوئی تو پھر یہ دوہرا ٹرائل ہوگا۔ حامد خان آپ وکالت نہیں سیاست کررہے ہیں،1981 میں وزیر اعظم نے 300 روپے ٹیکس دیا یا250، یہ ہمارا مقدمہ نہیں، ایسالگ رہاہے مقدمہ جس سمت میں جارہا ہے کبھی ختم نہیں ہوگا۔حامد خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ نواز شریف نے کہا ہے کہ دو بیٹے بیرون ملک ہیں جہاں وہ کاروبار کرتے ہیں، 1976 میں پیدا ہونے والا حسن نواز 1984 میں لندن پہنچا، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حامد خان صاحب کیا وزیراعظم قوم سے خطاب کے وقت عزیز ہم وطنوں کے الفاظ نہیں ہوتے تھے جس پر حامد خان نے کہا کہ یہ الفاظ فوجی آمر کہتے تھے اس لئے وزیراعظم نے اس کو تبدیل کیا ہے اس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے ، وزیر اعظم کی تقریروں میں کوئی ٹائم فریم نہیں بتایا کہ دبئی اسٹیل مل 80 کی دہائی میں بیچی اور جدہ اسٹیل مل 2001 میں لگائی، دبئی پراپرٹی کی فروخت اور جدہ فیکٹری کی خریداری میں 21 سال کا وقفہ ہے، دستاویز میں جون 2005 میں اسٹیل مل بیچنے کی تاریخ تو ہے لیکن خریدنے کی تاریخ نہیں۔جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کے بچے کہتے ہیں دبئی کی اسٹیل مل قرضہ لے کر قائم کی ، اگر وزیراعظم کے بچوں نے دستاویزات سے خریداری ثابت کردی تو آپ کا کیس فارغ ہوگا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا وزیراعظم کے بیان پر ہم قرار دیں کہ لندن کے فلیٹس کالے دھن سے خریدے گئے، جب تک تفصیل سے تحقیقات نہیں ہوتیں کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچیں گے، آپ کو پاناما کیس میں ٹھوس شواہد پیش کرنا ہوں گے، انکوائری کمیشن تمام شواہد کا جائزہ لے سکتا ہے، جب تک وزیراعظم پر سو فیصد الزامات کی تصدیق نہ ہو سخت فیصلہ نہیں دے سکتے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم وزیر اعظم کی پوری زندگی کی اسکروٹنی نہیں کریں گے، آپ نے خامیاں بتا دیں، اب دستاویزی ثبوت پیش کریں۔ پراپرٹی ٹیکس کے معاملات ہمارے پاس نہیں، ہم آپ سے پرامید ہیں کہ وزیر اعظم کے جوابات پر اعتراضات اٹھائیں گے۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ٹھوس دستاویزات دیں جس سے کمیشن تشکیل دیں جو کمیشن بنانا ہے اس کو یہ ثابت کرنے دیں کہ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ دونوں فریقین کہتے ہیں کہ لندن فلیٹس آف شور کمپنی سے خریدے گئے دوسری جانب سے کھلم کھلا موقف آیا ہے کہ فلیٹس حسن نواز کے ہیں وزیراعظم کی فیملی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ گلف سٹیل ملز بنائی قرضے لئے قطری فیملی کے ساتھ سرمایہ کاری کی جوائنٹ بزنس وینچر کے تحت لندن کے فلیٹس خریدے گئے جس کی ٹرسٹی مریم نواز ہے کہ اگر وزیراعظم کے بچوں کا موقف ثابت ہوگیا تو آپ کا دعوی فارغ ہوجائے گا اب یہ آپ کا کام ہے کہ وزیراعظم اور ان کے بچوں کی دستاویزات دیں اور ثابت کریں کہ ان کا دعویٰ جھوٹا ہے ۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ نواز شریف اور ان کے بچوں کے بیانات دیئے گئے ہیں مگر ہمیں بتایا جائے کہ منی ٹریل میں کیا تضاد ہے کیس کی مزید سماعت 29 نومبر کو ہوگی۔ حامد خان نے وزیر اعظم کے دونوں بیٹوں کے بیرون ملک کاروبار کی نوعیت کے بارے میں سوال اٹھائے۔پی ٹی آئی کی جانب سے وزیراعظم کے بچوں کا نام پاناما لیکس میں آنے کے بعد احستاب مہم کا آغاز کیا ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے نہ تو یہ بتایا ہے کہ وہ کیا کاروبار کرتے ہیں اور کہاں کرتے ہیں، سنہ 1972 میں اتفاق فاو¿نڈری کے قومیائے جانے کے بعد جب نواز خاندان دیوالیہ ہوا تو دبئی میں کاروبار کے لیے رقم کہاں سے آئی اور فاو¿نڈری جو حکومت نے کھنڈر کی حالت میں واپس کی تو اس کی بحالی کی رقم کہاں سے آئی؟ ایک موقع پر ججوں کی برہمی بھانپتے ہوئے حامد خان نے کہا کہ چلیں اب بات لندن فلیٹس کی کرتے ہیں تو جسٹس عظمت نے کہا کہ ‘آپ کو اس پر دو ہزار سال پہلے آ جانا چاہیے تھا۔ آپ ڈھائی گھنٹے سے کیس آگے نہیں لے جا رہے ہیں۔ آپ سیاست کر رہے ہیں۔ کسی تقریر کی بنیاد پر کیا کچھ ہوسکتا ہے؟’چیف جسٹس انور جمالی نے کہا کہ ایک گھنٹے کے بعد بھی ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔جسٹس عظمت سعید نے ان سے کہاں کہ نواز خاندان کی دستاویزات پکڑیں اور کچھ نکالیں۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے آج سماعت شروع کی تو ایک مرتبہ پھر ایک درخواست گزار طارق اسد سے دس منٹ تک دوبارہ بحث کی جن کا دوبارہ موقف تھا کہ وزیر اعظم کے علاوہ دیگر پانچ چھ اہم شخصیات جن کے نام پانامہ لیکس میں آئے ہیں ان کی بھی تحقیقات کی جائیں۔اس سے قبل وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی درخواست میں تحریک انصاف کی شواہد پر مبنی دستاویزات کو غلط اور ناقابل قبول قرار دیا گیا۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے الزامات ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد فراہم نہیں کیے، عمومی الزامات لگائے گئے ہیں جنھیں وہ پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کے لیے عدالت میں بظاہر کافی سخت دن تھا۔ جج ان کی کسی بھی بات کو سنجیدہ کوشش نہیں مان رہے تھے۔ عدالت کا وقت ختم ہونے پر سماعت 29 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔

” بھارتی جارحیت“ پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں …. دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے

راولپنڈی (بیورو رپورٹ) چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے بھارتی جارحیت کے سوال پر صحافی کو ایسا جواب دے دیا کہ مزید سوالوں کی گنجائش ہی نہ رہی اور جواب جان آپ کی بھی خوشی کی انتہا نہ رہے گی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلا س میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی شرکت کی جہاں انہوں نے ترک صدر کی تقریر سنی ۔جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ترک صدر کی تقریر اچھی تھی ۔اس دوران صحافی نے موقع پا کرآرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھارتی جارحیت سے متعلق سوال پوچھ لیا جس پر انہوں نے کہا کہ ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہیں ،بھارتی جارحیت پر کسی بھی پریشانی کی ضرورت نہیں ۔اسکے بعد آرمی چیف نے یہ کہہ کر مزید بات کرنے سے انکار کردیا کہ میں روز آپ سے بات کرتا ہوں آج رہنے دیں۔ ترک چیف آف جنرل سٹاف جنرل ہلوسی آکار نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود سے ملاقات کی ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردگان کے ہمراہ دورہ پاکستا ن پر آئے ترک چیف آف جنرل سٹاف جنرل ہلوسی آکار نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود سے ملاقات کی ہے۔ ملاقات میں دو طرفہ تعلقات اور باہمی تعاون کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف ، ایئر چیف اور نیول چیف بھی ملاقات میں موجود تھے۔