All posts by Daily Khabrain

تھائی شہری کی کوبراناگ سے بے مثال محبت

بنکاک (خصوصی رپورٹ) فیس بک پر وائرل ہونے والے اس تھائی باشندے کی کہانی سسی پنوں، ہیر رانجھا اور سوہنی ماہیوال سے کافی جدا ہے، کیونکہ محبوبہ سے جدا ہونے کے بعد اس شخص نے اپنی توجہ کا محور ایک 10 فٹ لمبے ”کوبرا“ ناک کو بنالیا ہے۔ تھائی لینڈ سے تعلق رکھنے والے اس شخص کا خیال ہے کہ اس کی محبوبہ نے مرنے کے بعد اس ناگ کا روپ دھار لیا ہے اس لیے گزشتہ چند سالوں سے اس نے خطرناک کو براکو ہی اپنا رفیق بنا رکھا ہے۔ چاہے کھانا کھانا ہو یا جم میں ایکسرسائز کرنے جانا ہو، کوبرا اس شخص کے ساتھ ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔

” عمران خان کاتصورِ جمہوریت اورپاکستانی بادشاہت “

وقت گزرتا چلا گیا‘ عمران کی پارٹی کا نام رکھا گیا‘ منشور بنا‘ جھنڈا تیار ہوا‘ میں نے ان کاموں میں نہ کبھی دخل دیا نہ کوئی دلچسپی لی۔ یہ روٹین کے کام تھے اور میں اپنی پیشہ وارانہ مصروفیت میں رہتا تھا۔ اکثر ملاقات ہوتی یا ٹیلی فون پر گپ شپ ہو جاتی۔ عمران ٹیلی فون پر بھی مختصر بات کرنے کا عادی ہے۔ بہرحال وقتی ناکامیوں کے باوجود وہ حوصلہ نہیں ہارا۔ عمران کی پارٹی میں کتنے لوگ آئے اور کتنے گئے‘ اگر ان کی فہرست تیار کی جائے تو ہزاروں نہیں شاید لاکھوں صفحات کی ضرورت ہو۔ یوں لگتا تھا کہ کوئی تاش کے پتے پھینٹ رہا ہے اور رمی کا کھیل جاری ہے۔ عمران کے دائیں بائیں شاید کوئی پتا ایسا ہو جو اپنی جگہ بنا سکتا ورنہ پتے آتے اور نکل جاتے‘ میں نے برسوں اس کھیل کو بہت قریب سے دیکھا ہے لیکن عمران کی پارٹی میں منشور سازی سے لے کر ان کے پہلے پارٹی الیکشن تک میں نے قطعی طور پر کبھی مداخلت نہیں کی حتیٰ کہ عمران سے اتنے قریبی تعلقات ہونے کے باوجود اگر کسی نے گزشتہ سے پیوستہ الیکشن میں یہ خواہش ظاہر کی کہ مجھے ٹکٹ دلوا دو یا کوئی عہدہ حاصل کرنے کے لیے میری سفارش کرو تو آپ آج بھی عمران سے پوچھ سکتے ہیں کہ پچھلے 20 برسوں میں پارٹی کے سلسلے میں الیکشن کے سلسلے میں نے تم سے کچھ مانگا ہو یا کسی کی سفارش کی ہو حالانکہ اس کے پاس آنے والوں کے بارے میں پسند یا ناپسند بہرحال اخبار نویس کی حیثیت سے میرے کچھ خیالات تھے‘ مثبت بھی اور منفی بھی‘ لیکن خود عمران اس کی گواہی دے سکتا ہے کہ میں نے پوری زندگی اس کے کسی ساتھی کو اچھا یا برا نہیں کہا‘ کسی کی حمایت نہیں کی‘ کسی کی مخالفت نہیں کی‘ البتہ کیا کرنا ہے کیا کرنے والے ہو‘ اس کے بارے میں بھی کبھی خود جا کر اسے کوئی مشورہ نہیں دیا ہاں اس کی اپنی خواہش پر جب کبھی مجھ سے کسی اصولی مسئلے پر ہاں یا نہ میں کچھ پوچھا گیا تو میں نے اپنی رائے آزادانہ طور پر بیان کر دی۔
ان بہت سارے برسوں میں اس نے اگر کامیابیاں حاصل کی ہیں تو میں ہرگز یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ ان میں میرا کوئی حصہ ہے یا میں نے کوئی کارنامہ انجام دیا ہے‘ لیکن اسے جو ناکامیاں ملیں ان کی وجہ بھی نہ میں تھا نہ میرا ادارہ نہ میری سوچ نہ میرا مشورہ۔ عمران کی مہربانی ہے کہ وہ پرانے دوستوں کی عزت کرتا ہے بالخصوص وہ مجھے اپنا مخلص دوست خیال کرتا ہے۔ میں نے بھی ہمیشہ نیک نیتی سے جو اس کیلئے‘ سیاست کیلئے اور ملک کیلئے بہتر سمجھا وہی کچھ اسے کہا اور جس بات سے میں متفق نہیں تھا اسے کھل کر منع کیا۔ بیشمار مرتبہ اس نے میری کسی تجویز یا مشورے کو نہیں مانا جو اس کا حق ہے لیکن بہت سے مواقع پر میری بعض تجاویز یا مشوروں پر اس نے صدق دل سے توجہ بھی دی اور ان کے مطابق چلنے کی کوشش بھی کی‘ لیکن میں اس کی سیاست کی تفصیل یا تاریخ میں نہیں جانا چاہتا‘ یہ میرا آج کا موضوع نہیں ہے‘ میں تو صرف اپنے پرانے دوست کی جو آج بہرحال اس ملک کی سیاست کا ایک بڑا نام ہے‘ شخصی اعتبار سے کچھ تاثرات آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔
عمران کسی سیاسی پارٹی کا سربراہ نہیں وہ طبعاً اورمزاجاً ایک تحریک کا قائل ہے‘ پارٹی تسلسل کے ساتھ اپنے نظریات کے مطابق چلتی ہے خواہ اس کی رفتار چیونٹی کی طرح ہو مگر اس کی سمت متعین ہوتی ہے۔ عمران فاسٹ باﺅلر ہے‘ مخالفوں کی وکٹ اڑانے میں اسے مزہ آتا ہے‘ بلے باز کی حیثیت سے چھکے لگا کر وہ شائقین سے تالیوں کا خراج وصول کرتا ہے اگر وہ کوئی تحریک نہ چلا رہا ہو دوسرے لفظوں میں کسی موومنٹ کا لیڈر نہ بنا ہوا ہو تو مہینوں اس کی پارٹی سے آپ کو کوئی نئی خبر نہیں ملے گی کیونکہ کوشش کے باوجود وہ جمہوریت کا نام لینے والے اس معاشرے میں جمہوری اصولوں کے تحت پارٹی الیکشن بھی نہ کروا سکا اور جب کروائے تو وہ ناکام ہو گئے اور پارٹی کا سفر رک گیا جس پر اسے یہ سب کچھ ختم کرنا پڑا۔ اس نے طے کیا تھا کہ مڈل کلاس کے نوجوانوں کو سیاست میں کامیاب کروائے گا اور اسمبلیوں تک پہنچائے گا لیکن اس نام نہاد اور جھوٹی جمہوریت اور بوگس انتخابات میں یہ سارے نوجوان چاروں شانے چت ہو گئے۔
پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے انگریز سے آزادی حاصل کی اور جہیز میں ہمیں برطانوی جمہوریت مل گئی جسے خدائی قانون سمجھتے ہوئے ہم نے سر پر اٹھا لیا حالانکہ برطانوی جمہوریت کیلئے عوام کی خودکفالت‘ تعلیم کی انتہائی بلند سطح‘ مستحکم ادارے‘ اچھی گورننس ضروری ہے اور سب سے بڑھ کر معاشی آزادی اور معاشی مساوات لازم ہے۔ انتہائی منصفانہ اور دیانتدارانہ انتخابی نظام مغربی جمہوریت کی بنیادی اور یہ خوبیاں ہمارے معاشرے میں قطعی طور پر موجود نہیں لہٰذا ان انتخابات سے آپ کو کبھی اچھی لیڈرشپ نہیں مل سکتی‘ ہمارے ہاں جمہوریت صرف ووٹ لینے اور اسمبلیوں میں پہنچ کر بادشاہت قائم کرنے کا نام ہے۔ جس ملک میں 43 فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہوں‘ سارے دعوﺅں کے باوجود تعلیم کی شرح انتہائی شرمناک ہو‘ جاگیرداری اور ذمہ داری نظام کے ساتھ سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کا گٹھ جوڑ ہر علاقے اور ہر انتخابی حلقے میں سیاسی اجارہ داریوں کو جنم دے چکا ہو جہاں جاگیردار‘ صنعتکار‘ سرمایہ دار خود یا ان کے گماشتے میدان میں ہوں۔ جہالت کے باعث لوگ سچے جھوٹے پیروں‘ گدی نشینوں‘ مذہبی اجارہ داروں کے چنگل میں پھنسے ہوں‘ جو قرآن گلے میں لٹکا کر ووٹ مانگتے ہوں اور گناہ گار لوگ ڈر کر جس نشان پر چاہتے ہوں دستخط کردیں۔ جہاں سرمایہ کے بل پر سیٹ حاصل کی جاتی ہو اور پھر لوٹ کھسوٹ کرکے اپنا گھر بھرا جاتا ہو اور کمائی کا کچھ حصہ اگلے الیکشن کے لئے مختص کرنے کا رواج ہو‘ جہاں الیکشن کمیشن بوڑھے اور اذکار رفتہ ججوں کو آسان اور بہترین مشاہرے پر چیئرمینی اور ممبریاں ملتی ہوں جہاں پر صوبائی حکومت اپنی مرضی کا ممبر کمیشن میں بھیجتی ہو جہاں قومی احتساب بیورو کی چیئرمینی پر اپوزیشن اور حکومتی پارٹی اتفاق رائے سے بندہ منتخب کرتی ہو‘ جہاں عدالتیں کام تو کرتی ہوں لیکن ان میں انصاف کے حصول کے لئے دولت درکار ہو کہ وکلاءکی بھاری فیسیں ہر شخص ادا نہیں کرسکتا۔ جہاں انصاف کے نام پر بے انصافی عام ہو‘ جہاں اسمبلیوں کے ارکان قانون سازی اور بجٹ سازی میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں بلکہ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر فنڈز چاہتے ہوں جن کو خرچ کرتے وقت انہیں مناسب حصہ مل سکے ۔
ہمارے ہاں منتخب ارکان اسمبلیوں میں مسائل پر بات نہیں کرتے بلکہ اپنے اپنے علاقوں میں مرضی کا ڈی سی اور ڈی پی او لگوانا چاہتے ہیں‘ وہ صاحبان اقتدار کے لئے قانون سازی میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ مقامی طور پر اپنے اپنے حلقے میں براہ راست اقتدار چاہتے ہیں تاکہ راجہ بن کر اپنی ریاست میں حکمرانی کرسکیں۔جہاں پارلیمنٹ میں کبھی کورم پورا نہ ہوتا ہو لیکن سفر‘ خرچ‘ علاج معالجے کے اخراجات کے ساتھ ساتھ نوکریوں‘ ٹھیکوں کے پس پشت سفارشوں کا نظام رائج ہو اور ہر رکن نوکریوں اور ٹھیکوں میں اپنا کوٹہ چاہتا ہو وہاں مڈل کلاس یا غریب طبقے کا کوئی شخص رکن اسمبلی بننے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ جہاں اشرافیہ کے بیرون ملک اثاثے ہوں‘ ان کے بچے وہاں تعلیم حاصل کرتے ہوں‘ ان کے لیڈروں کے بیش قیمت گھر ہوں وہاں تیزی سے بھوک‘ افلاس‘ بیکاری اور تنگدستی کی دلدل میں پھنستے اور گرتے ہوئے لوگوں کا کون مددگار ہوسکتا ہے۔ میرے دوست اور انقلابی شاعر حبیب جالب نے ٹھیک کہا تھا
چین اپنا یار ہے
اس پہ جان نثار ہے
پر وہاں جو ہے نظام
اس طرف نہ جائیو
ہمارے ہاں جب جمہوریت ہوتی ہے تو لوٹ مار کا شور مچتا ہے ماضی میں مارشل لاء آئے تو جمہوریت کے نعرے لگے‘ جہاں ہر پارٹی حکومت میں آنے کے بعد پچھلی پارٹی کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہو‘ جہاں 70 سال میں کسی نے نہ سوچا ہو کہ ہماری اگلے دس سال کی کیا ضرورتیں ہوں گی‘ جہاں فیملی پلاننگ اور پاپولیشن پلاننگ کا مقصد غریب عوام میں غبارے تقسیم کرنا ہو۔( مجھے بہت مرتبہ چین جانے کا اتفاق ہوا اور کئی بار چینی پالیسی سازوں نے یہ کہا کہ ہمارے ہاں دنیا کی سب سے بڑی آبادی کی پلاننگ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگلے پانچ سال میں ہمیں کتنے سکول‘ کتنے ہسپتال‘ روزگار کے لئے کتنی آسامیاں‘ علاج کے لئے کتنے ڈاکٹرز‘ تعمیراتی کاموں کے لئے کتنے انجینئرز اورمعمار درکار ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں پاپولیشن پلاننگ والے کسی سیمینار میں آتے ہیں اور دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک میں بڑے فخر سے یہ بتاتے ہیں کہ ہم نے اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کے لئے اتنے لاکھ اور اتنے کروڑ غبارے تقسیم کئے۔) وہاں عمران خان نے نوجوانوں کو ٹکٹ دے کر بار بار شکست فاش پائی اور پھر میرا دوست پلٹ کر اس فارمولے پر عمل کرنے لگا کہ جیسا بھی ہے اس سوسائٹی میں سیٹ جیتنے والا تلاش کیا جائے اور اسے اسمبلیوں کے لئے کامیاب کروا کے نظام بدلا جائے اسے انگریزی میں اینٹی تھیسس کہتے ہیں لیکن یہی ہوا اور پھر عمران نے گالیاں کھائیں کہ اس نے بھی استحصالی طبقوں کے مالدار لوگ جمع کرلئے ہیں۔
(جاری ہے)

پانامہ پیپرز …. 43 افراد کیخلاف کریمنل تفتیش

لندن (وجاہت علی خان سے) برطانیہ میں رواں سال اپریل سے جاری پانامہ پیپرز کے سلسلہ میں جاری تفتیش اہم ترین مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں اس ضمن میں جلد اہم انکشافات ہونے کی توقع کی جا رہی ہے ”وال سٹریٹ جرنل“ اور ”دی گارڈین“ کی تازہ ترین رپورٹس کے مطابق برطانیہ بھر اور خصوصاً لندن جسے ملک کا فنانشل سٹی بھی کہا جاتا ہے اس پورے شہر کو ممکنہ طور پر مشکوک سمجھا جا رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ لندن بیرون ملک سے آنے والے خریداروں کے لئے محفوظ جنت بن چکا ہے یہ لوگ یہاں مہنگی ترین جائیدادیں خرید کر اپنے کالے دھن کو سفید کرتے ہیں اور یہ تمام خرید و فروخت آف شور کمپنیوں کے ذریعے ہوتی ہیں، ”نیشنل کرائم ایجنسی“ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چار سال میں 36 ہزار 342 جائیدادیں صرف لندن میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے خریدی گئیں اور مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں اربوں پونڈ کی غیر قانونی اور منی لانڈرنگ کے ذریعے برطانیہ آنے والی رقوم اپنے قبضہ میں لیں ایک اندازے کے مطابق 100 ارب پونڈ ہر سال یہاں کالا دھن سفید ہوتا ہے، برطانیہ کے لارڈ چانسلر فلپ ہیمونڈ نے پارلیمنٹ کو تحریری طور پر وضاحت کی ہے کہ سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی بنائی ہوئی ٹاسک فورس جس میں ملک کی آٹھ اہم ایجنسیاں شامل ہیں وہ نیشنل آڈٹ آفس کے ساتھ مل کر 6,500 ایسے امیر ترین برطانوی افراد کی تفتیش کر رہی ہیں جن کے بارے میں شک ہے کہ وہ پانامہ پیپرز کی رپورٹ کے مطابق آف شور کمپنیوں کے ذریعہ کاروبار کرتی ہیں لارڈ چانسلر کے مطابق ان میں سے 22 افراد کے خلاف سول اینڈ کریمینل انویسٹی گیشن شروع کر دی گئی ہے جن پر ٹیکس چوری کے الزامات ہیں اور ان کا تعلق آف شور کمپنیوں سے ہے اور ان کے نام بھی پانامہ لیکس میں آئے ہیں، اس ضمن میں بعض پارلیمانی ذرائع کے مطابق مذکورہ 22 افراد کے علاوہ ایجنسیاں 43 مزید افراد کو بھی جلد شامل تفتیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں جو لندن میں پراپرٹی کا بڑے پیمانے پر بزنس کرتے ہیں ان میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق پاکستان سمیت دیگر بیرونی ممالک سے ہے لیکن ان میں سے بعض برطانوی شہریت بھی رکھتے ہیں اور ان کے نام پاناما پیپرز میں بھی آیا ہے، یاد رہے کہ وزیراعظم پاکستان کے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز بھی لندن میں پراپرٹی کی خرید و فروخت کے کاروبار سے منسلک ہیں اور ان کا نام بھی پاناما پیپرز میں شامل ہے تاہم ذرائع نے اس بات کی تصدیق یا تردید نہیں کی کہ ان دونوں کے نام ان 22 یا 43 افراد میں شامل ہیں جن سے ٹاسک فورس مصروف تفتیش ہے، لارڈ چانسلر نے ارکان پارلیمنٹ کے استفسار پر اپنے خط میں لکھا ہے کہ حکومت اس رجحان کو ایک معاشی جُرم سمجھتی ہے اور اس کے تدارک کیلئے آئندہ سخت ترین اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے برطانیہ کے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ٹاسک فورس کے ممکنہ ایکشن کے پیش نظر سینکڑوں افراد اپنے اکاﺅنٹس اَپ ڈیٹ کرنے کیلئے ٹیکس اتھارٹیز سے رجوع کر لیا ہے تا کہ قانون کی گرفت سے بچا جا سکے، ذرائع کے مطابق حکومت کا زیادہ تر فوکس ان پراپرٹی ٹائیکونز پر ہے جو لندن میں پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک اور ارب پتی ہیں، رپورٹس کے مطابق لندن کے بہت سے وکلاءاور اکاﺅنٹینٹس موساک فونیسکا کے ساتھ کام کر رہے تھے ان کی بھی تفتییش ہو گی، لارڈ چانسلر کے مطابق ہم اپنے بین الاقوامی پارٹنرز اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں اور ہمارے تفتیش کار پانامہ سے بھی ہو کر آئے ہیں، دریں اثناءپانامہ میں قائم فرم موساک فونیسکا نے اپریل میں دنیا بھر میں اپنے ان گاہکوں کے نام ظاہر کئے تھے جو آف شور کمپنیوں کے ذریعے ٹیکس بچاتے تھے کمپنی نے 11.5 ملین فائلیں افشا کی تھیں ان میں وزیراعظم نوازشریف کے بچوں سمیت پاکستان کے دیگر سیاست دانوں اور دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے نام بھی شامل تھے۔

لاہور کی مخصوص نشستوں پر کل پولنگ …. تیاریاں مکمل

لاہور(خصوصی رپورٹ)صوبے کی واحد میٹرو پولیٹن کارپوریشن لاہور 35 ضلع کونسلوں اور 11میونسپل کارپوریشنوں میں خواتین، کسان، مزدور، یوتھ اور ٹیکنو کریٹس کی مخصوص نشستوں کیلئے پولنگ کل ہوگی۔ بلدیاتی اداروں کے براہ راست منتخب ہونے والے ممبران ووٹ ڈال سکیں گے۔ الیکشن کمیشن نے تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ بیلٹ باکس، بیلٹ پیپر، پولنگ بیگ و دیگر سامان پولنگ سٹیشن پر پہنچا دیا گیا ہے۔ پولنگ لاہور میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے ہیڈ آفس جناح ہال سمیت ہر بلدیاتی ادارے کے اپنے اپنے ہیڈ آفس میں ہوگی۔ پولنگ سٹیشنوں پر اپنی اپنی جماعتوں کی طرف سے تعینات پولنگ ایجنٹ موبائل فون اپنے پاس نہیں رکھ سکیں گے۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن لاہور کیلئے کل 89 امیدوار میدان میں جن میں 45 خواتین، 10 کسان/ مزدور، 3 یوتھ، 26 غیر مسلم اور 5 ٹیکنو کریٹس ہیں۔ 35 ضلع کونسلوں کیلئے 1584 امیدوار میدان میں ہیں جن میں 741 خواتین، 326 کسان/ مزدور، 101 یوتھ، 297 غیرمسلم اور 119 ٹیکنوکریٹس امیدوار ہیں۔ 11 میونسپل کارپوریشنوں کیلئے کل 306 امیدوار میدان میں ہیں جن میں 145 خواتین، 57 کسان/ مزدور، 10 یوتھ، 51 غیر مسلم اور 34 ٹیکنوکریٹس امیدوار ہیں۔ پنجاب میں جہاں بلدیاتی اداروں کی 2284 نشستیں خالی رہ گئی ہیں، وہیں لاہور میٹروپولیٹن کارپوریشن ضلع کونسل اور میونسپل کمیٹیوں میں میونسپل کمیٹی کی صرف غیرمسلم کی ایک نشست کیلئے کسی امیدوار نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے۔ میونسپل کارپوریشنوں میں 18 امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہو چکے ہیں جن میں 3 خواتین، 6کسان/ مزدور، 2 یوتھ، 3 غیرمسلم اور 4ٹیکنوکریٹس ہیں جبکہ 35 ضلع کونسلوں میں 47 امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہوئے ہیں جن میں 25 خواتین، 5یوتھ، 12غیرمسلم اور 5 ٹیکنوکریٹس ہیں۔ میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور میں کوئی بلامقابلہ کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔
مخصوص نشستیں انتخابات

گلوکار رفیع کے بیٹے کا معافی کا مطالبہ ….

نئی دہلی (خصوصی رپورٹ) بھارتی گلوکار محمد رفیع کے صاحبزادے شاہد رفیع نے ایک بیان میں بھارتی فلم ڈائریکٹر کرن جوہر پر شدید تنقید کی ہے اورانہیں نان پروفیشنل قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی فلم ”اے دل ہے مشکل“ میں عظیم گلوکار رفیع کی بے عزتی پر مبنی جملے پر اعلانیہ معافی مانگیں اور اس جملے اور سین کو اپنی فلم سے نکال دیں ورنہ وہ عدالت جانے کا حق محفوظ
رکھتے ہیں۔ بھارتی آن لائن جریدے، بالی وڈ منترا کی رپورٹ کے مطابق عظیم گلوکار محمد رفیع کے بیٹے نے کہا ہے کہ ڈائریکٹر کرن جوہر کی فلم اے دل ہے مشکل کے اسکرپٹ کو کرن جوہر نے پڈھواکرسنا ہے اور ایک سین کو خود فلمایا ہے لیکن انہوں نے اس میں میرے والد گلوکار رفیع کے بارے میں نازیبا جملے کو نظرانداز کردیا۔ حالانکہ کرن جوہر کو یہ بات یاد ہونی چاہیے کہ ان کی فلم اے دل ہے مشکل کا نام 1956ءمیں فلم سی آئی ڈی کیلئے گائے جانے والے محمد رفیع کے معروف گانے اے دل ہے مشکل جینا یہاں سے لیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ سوشل ویب سائٹس پر ہزاروں بھارتی شائقین اس بارے میں ڈائریکٹر کرن جوہر پر تنقید کر رہے ہیں ان کی فلم اے دل ہے مشکل میں اداکارہ انوشکا شرما کہتی ہے کہ محمد رفیع …. وہ گاتے کم اور روتے زیادہ تھے۔ شائقین کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی ناقابل برداشت فقرہ ہے جس کو کرن جوہر کی فلم سے نکالا جانا چاہیے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی فوج کے فنڈز میں پانچ کروڑ روپے دے کر سینماﺅں اور تھیڑوں میں اپنی فلم چلانے کی اجازت لینے والے کرن جوہر نے اپنی فلم کے اس نئے متنازع معاملے پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔ لیکن ممبئی میں موجود ناراض و مشتعل شاہد رفیع نے اپنے وکیلوں سے اس سلسلے میں مشورہ کیا ہے کہ آیا اگر ڈائریکٹر کرن جوہر اپنی فلم میں رفیع کیلئے بے عزتی پر مبنی جملہ اور منظر نہ نکالیں یاعوامی سطح پر معافی نہ مانگیں تو ان کے خلاف کیا قانون اقدامات بروئے کار لائے جاسکتے ہیں؟ بھارتی جریدے ٹیلی گراف انڈیا کے مطابق اخبار نویسوں سے خصوصی گفتگو میں شہرہ آفاق گلوکار رفیع کے صاحبزادے شاہد رفیع نے کہا کہ یہ بہت غیر اخلاقی حرکت ہے ۔ ڈائریکٹر کرن جوہر سے اس گھٹیا حرکت کی امید نہیں تھی۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ محمد رفیع نے ان کے والد یش جوہر کی فلموں میں کامیاب اور سپرہٹ گانے گائے تھے جن کی بنیاد پریش جوہر کی 1980ءکی معروف فلم دوستانہ کامیاب ہوئی تھی۔ رفیع کے صاحبزادے شاہد رفیع کے مطابق آج کی فلمی نگری کے لونڈے لپاڑے ان کے والد کا مقام کیا جانیں؟ واضح رہے کہ یش جوہر کی فلم دوستانہ کیلئے گلوکار رفیع نے دوشاندار گانے ”میرے دوست قصہ اور سلامت رہے دوستانہ ہمارا گائے تھے اور خودیش جوہر، اس مسلمان گلوکار کے بڑے مداح تھے۔ صحافیوں سے گفتگو میں شاہد رفیع کا کہنا تھا کہ انہوں نے اب تک کرن جوہر کی یہ متنازع فلم نہیں دیکھی ہے لیکن ان کو والد کے ہزاروں مداحوں نے فون کرکے اور ہزاروں نے فیس بک اور دیگر سماجی رابطوں کے سائٹس پر اس بارے میں تفصیلات بتائی ہیں اور عظیم گلوکار کی بے عزتی پر شدید غم و غصے کا اظہار بھی کیا ہے۔ بھارتی جریدے مڈڈے ممبئی کی رپورٹ کے مطابق ڈائریکٹر کرن جوہرکی فلم میں یہ متنازعہ مکالمہ لکھنے والے فلم رائٹر نرنجن لیانگر ہیں۔ ان کے بارے میں شاہد رفیع کا کہنا تھا کہ وہ انہیں نہیں جانتے کہ وہ کون ہیں لیکن ان کے اس جملے سے اندازہ لگاتے ہیں کہ وہ ایک بے وقوف اور جاہل انسان ہیں جنہوں نے ایک انتہائی معروف اور ورسٹائل گلوکار رفیع کے بارے میں ایسی بات لکھی جس سے ان کے چاہنے والوں کی بھی دل آزاری ہوئی ہے۔بھارتی جریدے نے یاد دلایا ہے کہ گزشتہ برس بھی بھارتی گلوکارہ لتا منگیشکر اور رفیع کے صاحبزادے شاہد رفیع کے درمیان شدید لفظی جنگ ہوئی تھی۔ اس تنازع کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب لتا جی نے اپنی سالگرہ پر خودستائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ایک بار گائیکی کے دوران رفیع کے گھٹیا مذاق پر انہوں نے رفیع کے ساتھ گانا گانے سے انکار کردیا تھا اور دو سال بعد جب رفیع نے ان کو تحریری معافی نامہ لکھا تھا تو انہوں نے رفیع کو معاف کیا تھا۔ اس دعوے پر شاہد رفیع نے لتا کیخلاف ایک پریس کانفرنس میں انہیں چیلنج کیا تھا کہ اول یہ کہ ان کے والد کا معافی نامہ میڈیا میں پیش کردیں اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو میں ایک نیا معافی نامہ لتا جی کی خدمت میں پیش کروں گا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ لتا نے بعدازاں اس معاملے پر خاموشی اختیار کرلی تھی اوریوں یہ تنازع ختم ہوگیا تھا۔

الیکشن ہارنے کے بعد ہلیری کہا ں گئیں؟

واشنگٹن (خصوصی رپورٹ) امریکا میں 8نومبر 2016ءکو منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی خاتون امیدوار ہلیری کلنٹن اپنے حریف ری پبلیکن کے ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں کے بعد سیدھا گاں کا راستہ لیا اور وہ اپنے آبائی قصبے پہنچ گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہیلری کلنٹن جو اپنی آنکھوں میں قصر سفید کی نئی میزبان اور سپر پاور کی سربراہ کے سپنے سجائے سھکا دینے والی انتخابی مہم میں پیش پیش رہی ہیں اب تھکن دور کرنے کیلئے گاں لوٹ گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہیلری کلنٹن، ان کے شوہر سابق صدر بل کلنٹن نیویارک کے قریب واقع چھاپا کانامی اپنے گاں پہنچ گئے ہیں ہیلری کی ایک پڑوسن خاتون نے شکست خوردہ ہیلری کے ساتھ ایک سیلفی بھی بنوائی اور اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا …. طویل العمری کا نسخہ ….

واشنگٹن (خصوصی رپورٹ) کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ماہرین نے فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا کے استعمال کو طویل العمری کا نسخہ قرار دے دیا ہے۔ اپنی تحقیق میں امریکی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا کے صارفین نہ صرف اپنی جسمانی و دماغی صحت برقرار رکھتے ہیں بلکہ ان کی ناگہانی طبعی موت کے خطرات بھی دیگر لوگوں سے کم ہوتے ہیں۔ امریکی محققین نے اس ضمن میں ایک کروڑ سے زائد فیس بک صارفین کا ڈیٹا ریکارڈ چیک کیا۔ اس دوران بالخصوص عمررسیدہ اور نوجوان باشندوں کو فوکس کیا گیا۔ تحقیق کے نتائج سے یہ بات پتہ چلی کہ جو صارفین سماجی رابطوں کی سائٹس اور بالخصوص فیس بک پر زیادہ سے زیادہ دوست بناتے ہیں ان کی عمریں طویل ہو رہی ہیں۔ وہ فکروں سے آزاد ہیں اور زیادہ خوش رہ رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ماہرین ولیم ہوبز اور جیمس فولر نے مشترکہ تحقیق کے حوالے سے بتایا کہ ایک کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ صارفین پر کی جانے والی تحقیق میں علم ہوا ہے کہ سماجی رابطوں کی سائٹس متوازن انداز میں استعمال کرنے کے مثبت اثرات ذہن اور عمر پر پڑتے ہیں کیونکہ فیس بک اور سماجی رابطوں کی سائٹس پر آن لائن دوست احباب آپ کی خوشی اور غم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں اور آپ کے ہر ایونٹ پر ان کا رویہ اور ردعمل آپ کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے‘ جس سے جینے کی امنگ بڑھتی ہے۔ امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فیس بک کی بات کی جائے تو اس سائٹ پر مقبول ہونا بھی صارفین کی درازی عمر پر اثرانداز ہوتا ہے۔ امریکی ماہر میورا جو 2013ءسے اس تحقیق سے منسلک ہیں‘ کہتی ہیں کہ انہوں نے ایسے صارفین کا پتہ چلایا ہے جو فیس بک سمیت سماجی رابطوں کی سائٹس استعمال کرتے تھے لیکن ان کے بہت کم دوست تھے۔ ان میں سے 50فیصد صارفین جلد انتقال کر گئے البتہ ان صارفین کی صحت پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں پائے گئے جنہوں نے زیادہ سے زیادہ تعداد میں فرینڈز ریکوئسٹ وصول کیں اور بھیجیں۔ امریکی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ میں ایسے فیس بک صارفین کی کوئی کمی نہیں ہے جو عمررسیدہ ہیں اور تنہائی کا شکار ہیں۔ فیس بک کا استعمال قنوطیت اور یاسیت کا شکار ایسے تنہا افراد کیلئے نعمت ہے کیونکہ جب وہ غصے یا غم کی کیفیت میں ہوتے ہیں تو فیس بک پر ہی اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں اور اس کا مثبت اثر ان کی صحت پر پڑتا ہے۔ امریکی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے فیس بک اور سماجی رابطوں کی دیگر سائٹس کو روزانہ کی بنیاد پر دیکھنے والے معمر‘ ادھیڑ عمر اور نوجوانوں میں یہ بات مشترکہ پائی ہے کہ جو صارفین زیادہ سے زیادہ تصاویر‘ دلچسپ معلومات اور فنون لطیفہ سمیت دیگر ویڈیوز پوسٹ کرتے ہیں‘ وہ زیادہ صحتمند رہتے ہیں جبکہ جن صارفین نے معمولی استعمال کے دوران سرسری انداز میں سوشل میڈیا استعمال کیا‘ ان پر مثبت اثرات کا تناسب کم تھا۔

برطانوی باکسر ٹائیسن کا قبول اسلام ….

لندن (خصوصی رپورٹ)معطل شدہ برطانوی ہیوی ویٹ باکسر نے اپنی ویب سائٹ لمبا کرتا اور سر ٹوپی پہنے تصویر جاری کرکے سنسنی پھیلا دی، انہوں نے میڈیا اکاﺅنٹ پر اپنا نام بھی ریاض ٹائیسن محمد لکھا۔ برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ انہوں نے شاید اسلام قبول کرلیا ہے۔ البتہ خود ٹائیسن نے اس بارے میں کوئی اعلان نہیں کیا ۔ بعد میں انہوں نے اکاﺅنٹ کا عنوان بھی تبدیل کرکے نام ٹائیسن لیوک فیوری المعروف جی کے رکھ لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام مذاہب میں اتحاد چاہتا ہوں۔

ٹرمپ کیخلاف پھر مظاہرے ، ریلیاں

واشنگٹن/نیویارک (سپیشل رپورٹر سے) امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اندرون اور بیرون ملک احتجاجی لہر جاری ہے۔ امریکا کے مختلف شہروں میں انکے خلاف مظاہرے ہوئے اور ریلیاں نکالی گئیں۔نیویارک کے وسطی علاقے مین ہیٹن کی سڑکوں پر ہزاروں شہریوں نے مارچ کیا اور ٹرمپ ٹاور کے سامنے مظاہرہ کیا۔ پولیس کی جانب سے رکھی گئی رکاوٹیں عبور کرنے کی کوشش کرنے والے ایک شخص کو گرفتار کر لیا گیا۔ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں سینکڑوں لوگوں نے ریلی نکالی۔ شرکائ نے ہاتھوں میں بینرز اٹھا رکھے تھے اور نومنتخب صدر کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ریاست اوریگون کے شہر پورٹ لینڈ میں پولیس اور مظاہرین آمنے سامنے آ گئے اور پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس استعمال کی۔ٹرمپ مخالف ریلیاں شگاگو، میامی، اٹلانٹا، فلاڈیلفیا، سان فرانسسکو اور دوسرے شہروں میں بھی نکالی گئیں۔ادھر جرمنی کے دارالحکومت برلن کے برینڈن برگ گیٹ پر سات سو لوگوں نے امریکی نومنتخب صدر کے خلاف مظاہرہ کیا۔ امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بنتے ہی امریکا میں موجود تیس لاکھ مہاجرین کو ملک بدر کرنے کا اعلان کردیا۔نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منصب سنبھالتے ہی بڑا اعلان کردیا۔ امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے تارکین وطن پر نیا پالیسی وار کر ڈالا۔اپنے انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وائٹ ہاو¿س میں داخل ہوتے ہی تارکین وطن کو نکالنے کا حکم دوں گا، ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جرائم پیشہ، منشیات اسمگلر اور غیر قانونی طور پر مقیم افراد کا امریکا میں کوئی کام نہیں۔اپنے انٹرویو کے دوران ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وائٹ ہاو¿س جاتے ہی تیس لاکھ غیر قانونی طور پر امریکا میں مقیم افراد کو نکالنے کی پالیسی دوں گا۔ واشنگٹن (خصوصی رپورٹ) نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ابتدائی طور پر 30 لاکھ غیرقانونی تارکین وطن کو ملک بدر کریں گے یا پھر انہیں جیلوں میں ڈال دیں گے۔ امریکی نشریاتی ادارے کو ایک انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والوں، گینگسٹروں اور منشیات فروخت کرنے والے پناہ گزینوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ نومنتخب ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران کیے اپنے ایک اور وعدے کی تصدیق کی کہ وہ میکسیکو کے ساتھ متصل سرحد پر دیوار تعمیر کروائیں گے۔ تاہم ان کے اس وعدے میں کچھ حد تک تبدیلی آئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اب آئندہ سال 20 جنوری کو اس وقت اقتدار سنبھالیں گے جب موجودہ صدر باراک اوباما کی صدارتی مدت مکمل ہو جائے گی۔ جب ٹرمپ سے میکسیکو کی سرحد کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ دیوار تو سرحد کے بعض حصوں کے لیے مناسب ہے لیکن بعض حصوں میں باڑ بھی لگائی جا سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک بار سرحد کو محفوظ بنا دیا جائے تو دیگر غیررجسٹرڈ تارکین وطن کا جائزہ لیا جائے گا۔ یاد رہے کہ نومنتخب ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل کہا تھا کہ ان کی بنائی ہوئی دیوار ایک ہزار میل تک پھیلی ہو گی اور بچ جانے والے حصے میں قدرتی رکاوٹیں بقیہ کام کریں گی۔

بھارتی اداکارہ ریکھا پر اسرار طور پر ہلاک

ممبئی (خصوصی رپورٹ) بھارتی ملایم فلموں کی اداکارہ ریکھا موہن ریاست کیرالا میں واقع اپنے گھر میں مردہ حالت میں پائی گئیں۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ریکھا کی پر اسرار موت دو روز قبل ہوئی، اداکارہ کو کسی نے کھانے میں کچھ دیا جسکے بعد سے انہوں نے کوئی فون نہیں سنا۔پولیس حکام ابھی تک یہ پتہ کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ آیا یہ خود کشی کا واقعہ ہے یا پھر انہیں زہر دے کر مارا گیا ہے ۔ پولیس نے ادکارہ کی لاش کو پوسٹ مارٹم کیلئے تھری سور میڈیکل کالج منتقل کردیا ہے۔ واضح رہے کہ ریکھا موہن نے 1996ءمیں ملائم فلم ادھیانا پالاکن میں ماموتی کا کردار ادا کیا تھا جب کہ 1997ءمیں فلم نی وروولم میں بھی اداکارہ کی تھی۔