سید سجاد حسین بخاری
سرد موسم میں سیاست بہت گرم ہے۔ اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے کیخلاف ایوان کے اندر اور باہر صف ِآراء ہوچکے ہیں۔ تحریک ِعدم اعتماد‘ لانگ مارچ‘ نوازشریف کی واپسی‘ برطانیہ کی حکومت سے معاہدہ‘ مائنس عمران‘ چاروں شریف مائنس‘ رانا شمیم کیس‘ شہبازشریف وحمزہ شہباز کو عنقریب سزا‘ فارن فنڈنگ کیس کا عنقریب فیصلہ‘ 27فروری اور 23مارچ کو لانگ مارچ‘ ٹریکٹر ٹرالی کسان مارچ‘ آرمی چیف کی مدت ِملازمت میں توسیع اور صدارتی نظام ان موضوعات نے خشک اور سرد موسم میں بھی ایوانوں کو گرمایا ہوا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ یہ تو ملکی صورتحال ہے اور اگر ملکی سیاست کے ساتھ امریکہ‘ برطانیہ‘ یورپی یونین‘ بھارت‘ افغانستان‘ چین‘ روس‘ ترکی اور ایران کو جوڑا جائے تو پھر سیاست میں گرماہٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ گزشتہ 41سال سے سیاست کی راہداریوں میں بہت کچھ دیکھا ہے اور مرحوم جونیجو کی حکومت سے لیکر موجودہ حکومت تک ایوانوں‘ سیاستدانوں‘ اسٹیبلشمنٹ‘ خفیہ اداروں اور مقتدر قوتوں کو حکومتیں بنانے اور گرانے کے طور طریقوں کو بڑی اچھی طرح سے دیکھا ہے۔ کامیاب حکومتوں کو ناکام کرنے کیلئے پہلے شوشے چھوڑے جاتے ہیں۔ مقصد عوام کا ٹمپریچر چیک کرنا ہوتا ہے۔ اگر ٹمپریچر نارمل ہے تو پھر خاموشی اور اگر نہیں تو پھر حکومت کے خاتمے اور نئی حکومت کے آنے کی چہ میگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ پرویز مشرف سے پہلے چونکہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا (پرائیویٹ) نہیں تھا تو اس وقت کا طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ اسلام آباد میں کسی ریٹائرڈ بیوروکریٹ یا ریٹائرڈ جرنیل کے گھر ڈنر کا انعقاد ہوتا تھا اور پھر اسلام آباد میں چند بڑے بڑے لوگوں کو بلاکر فلر چھوڑے جاتے۔ صبح ہوتے ہی وہ خبر اسلام آباد میں پھیلنا شروع ہوجاتی کیونکہ اسلام آباد کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہاں انسان کم اور وزیر‘ مشیر اور سفیر زیادہ ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ بڑی محدود آبادی ہوتی تھی۔ سفارتخانوں میں ہونے والے استقبالیے اور اُن کے قومی دنوں کے تہواروں پر جو اسلام آباد کی کریم جمع ہوتی تھی وہاں سے خبریں“ بھی نکلتی تھیں‘ فلر بھی چھوڑے جاتے تھے اور چہ میگوئیاں بھی ہوتی تھیں اور پھر ملک بھر میں پھیلائی جاتی تھیں۔ جونیجو کی حکومت گرانے کی پہلی پھل جھڑی ایک بیوروکریٹ کے ڈنر پر چھوڑی گئی تھی۔ اسی طرح بینظیر اور نوازشریف کی دو‘ دو مرتبہ جو حکومتیں ختم کی گئی تھی ان کیلئے بھی پہلے شوشے چھوڑے جاتے‘ پھر چہ میگوئیاں شروع ہوجاتیں اور انجام وہی ہوتا جو مقتدر قوتیں چاہتی تھیں۔
آج سوشل میڈیا کا دور ہے جو الیکٹرانک میڈیا سے بھی پہلے خبر دیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ زیادہ تر سوشل میڈیا کی خبریں جھوٹی ہوتی ہیں۔ اب بھی وہی قوتیں صدارتی نظام کی بابت شوشے چھوڑ رہی ہیں۔ مقصد صرف عوام کا مؤقف جاننا ہے حالانکہ جمہوری حکومت کبھی بھی صدارتی نظام کے حق میں نہیں ہوتی۔ نوازشریف تین مرتبہ وزیراعظم رہے‘ ان کے دور میں امیرالمومنین تک بننے کا شوشہ چھوڑا جاتا تھا۔ اسی طرح بینظیر کے دور میں بھی یہ باتیں ہوئیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جمہوری دور میں صدارتی نظام اور ڈکٹیٹر کے دور میں ٹیکنوکریٹ حکومت بنانے کے شوشے ہمیشہ چھوڑے جاتے رہے ہیں۔ قائداعظمؒ نے پارلیمانی نظامِ حکومت کی بنیاد رکھ دی جبکہ صدار ایوب خان نے اپنی من پسند حکومت بنائی۔ بھٹو نے 1973ء کا متفقہ آئین دیا جو آج تک پارلیمانی نظام ِحکومت کی گواہی دیتا ہے جبکہ ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے آئین معطل کرکے لولی لنگڑی جمہوریت قائم رکھی اور دونوں جرنیلوں کے تقریباً 20سالہ دور میں محمد خان جونیجو‘ میر ظفر اللہ خان جمالی‘ چودھری شجاعت حسین اور شوکت عزیز وغیرہ وزیراعظم بنتے رہے۔
صدارتی نظام دُنیا کے کچھ ملکوں میں ضرور چل رہا ہے اور یقینا ان ملکوں کیلئے فائدہ مند بھی ہوگا مگر پاکستان کیلئے یہ زہرقاتل ہے اور پھر 1973ء کے آئین کے ہوتے ہوئے صدارتی نظام کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے جس کیلئے دوتہائی اکثریت درکار ہے جو موجودہ حکومت کے پاس نہیں ہے لہٰذا صدارتی نظام نہ اس ملک میں آسکتا ہے اور نہ ہی چل سکتا ہے۔ ہاں اگر کوئی ایوب خان‘ ضیاء الحق اور مشرف جیسا ڈکٹیٹر جمہوریت پر شب ِخون مارکر آگیا تو یہ اور بات ہے جس کا اب کوئی امکان نہیں ورنہ صدارتی نظام کا شوشہ ماضی کی طرح ایک بار پھر چھوڑ دیا گیا ہے۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
All posts by Daily Khabrain
مری کا رُومان اور انتظامی نااہلی
مریم ارشد
کوئی بھی موسم ہو مری کا رومان اور جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔موسمِ گرما میں فضا میں رچی چناروں اور چیڑ کی خوشبو دل موہ لیا کرتی ہے۔ ستمبر کے مہینے میں مری کے آسمان کے رنگوں کی چھب ہی نرالی ہوتی ہے۔ یکا یک بادلوں کے چھا جانے سے آسمانی رنگ لاجوردی اور گلابی چادر اوڑھ لیتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مری کا آسمان گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ مری پنجاب کا وہ سیاحتی پُرفضا پہاڑی مقام ہے جو ہر خاص و عام کی پہنچ میں ہے۔ کوئی بھی اپنے بجٹ کی منصوبہ بندی کر کے یہاں کی سیر سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ اسی لیے اسے ملکہ کوہسار کہا جاتا ہے۔ لیکن مری کے مقامی ہوٹلوں والے ہمیشہ سیاحوں کی کھال اتارنے کو تیار ہی رہتے ہیں۔ چند دن پہلے بھی ویک اینڈ پہ لوگ پروانوں کی طرح مری کی برف باری دیکھنے کے عشق میں گھروں سے نکلے۔ انہیں کیا پتا تھا کہ وہ انتظامیہ کی نا اہلی کی وجہ سے ٹھنڈی سفید برف میں ٹھٹھرتے ہوئے میٹھی موت مر جائیں گے۔
یوں تو وطنِ عزیز میں بہت سے سیاحتی مقام ہیں جیسے ناران، کاغان، سوات، کالام، ہنزہ وغیرہ جانے کے لیے جیب میں کافی روپے ہونے چاہئیں۔ لہذا زیادہ تر لوگ مری کا رُخ کرتے ہیں۔ اس دفعہ بھی برف باری کے شوقین لوگوں نے مری کا رُخ کیا۔ جبکہ محکمہ موسمیات کے مطابق 3جنوری سے 8جنوری تک برفانی طوفان آنے کے پیشین گوئی کی گئی تھی۔ اس سلسلے میں تمام اداروں کو ریڈ الرٹ کر دیا گیا تھا۔ بلا شبہ مری ایک چھوٹا سا ہِل سٹیشن ہے جہاں اس کے قدیمی حسن کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے اُلٹا اس پر بہت سی تعمیرات بنائی گئی ہیں۔ مری میں زیادہ سے زیادہ35سو گاڑیاں داخل ہو سکتی ہیں لیکن اس روز مری میں تقریباً ایک لاکھ گاڑیاں داخل ہو گئیں۔ مری میں دو بڑے چوک ہیں جہاں ٹریفک بلاک ہو جانے کی وجہ سے نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ ایک جھیکا گلی اور دوسرا سنی بینک سے کلڈنہ۔ اس روز ان دونوں رستوں کو صاف کروانے کی کوئی تیاری ہی نہیں کی گئی تھی۔ فواد چوہدری صاحب کی ٹویٹ تھی: ”اتنی بڑی تعداد میں کسی سیاحتی مقام پہ گاڑیوں کے داخلے کا مطلب ہے کہ پاکستان میں لوگ خوشحال اور معیشت مظبوط ہے۔“
کوئی ان حکمرانوں سے پوچھے کہ کیا مری جیسے چھوٹے سیاحتی مقام پر اس کی قوتِ اختیار سے زیادہ گاڑیوں کا اندھا دھند داخل ہونا اور مری انتظامیہ کا غائب رہنا حکومت کی نا اہلی ہے یا معیشت کی مضبوطی۔ ملک کی معیشت مضبوط ہوتی ہے اس کے عوام کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کرنے سے۔ عوام کے لیے تعلیم و صحت کے شعبے میں ترقی دینے سے۔ عوام کے لیے بروقت سہولتیں بہم پہنچانے سے۔ اب مری کو ہی دیکھ لیجیے جب لوگ وہاں پھنسے مدد کے لیے آہ و فضاں کر رہے تھے۔ ماں اور باپ کے سامنے ان کے پھول سے بچے موت کی آغوش میں سرک رہ تھے۔ تب کوئی ان کا پُرسانِ حال نہ تھا۔ مری کی انتظامیہ شاید بھنگ پی کر سو رہی تھی۔ جب 23قیمتی جانیں میٹھی موت کے گھاٹ اتر گئیں تب کہیں جا کر اگلے روز برف صاف کرنے کی گاڑیاں پہنچیں۔ کیا یہ گاڑیاں وہاں پہلے سے موجود نہیں ہونی چاہیے تھیں۔
وزیر داخلہ شیخ رشید صاحب نے خود کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ نتھیا گلی کی طرف سے کے پی سے آنیوالی گاڑیوں کا داخلہ بروقت بند کیا جا سکتا تھا۔ اگر مری کی انتظامیہ غفلت نہ برتتی اور بروقت مدد کی جاتی تو وہ قیمتی جانیں بچ سکتی تھیں۔ اب بات کرتے ہیں اس ظلم کی جو مقامی ہوٹلوں والوں نے غریب سیاحوں پر ڈھا یا۔ ایک اُبلا انڈہ تین سو تک کا بیچا۔ منرل واٹر کی بوتل جو 60روپے میں بکتی تھی وہ پانچ سو تک کی بیچی گئی۔
گاڑیوں میں چینز لگانے والوں نے بھی منہ کھول کر پانچ ہزار روپے تک مانگے۔ لوگوں کو ناشتے دو دو ہزار روپے میں بیچے۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں بچ جانیوالی ایک فیملی اپنے تاثرات بیان کرتی ہے کہ وہ پہلے سے 10ہزار روپے پر تین دن کے لیے کمرہ بُک کروا کر گئے۔ ایک رات گزارنے کے بعد ہوٹل والوں نے کمرہ خالی کرنے کو کہا۔ جب اس شخص نے بتایا کہ میری تو پہلے سے تین دن کی بکنگ ہے تو کہا کہ پھر آج آپ 40ہزار کرایہ ادا کریں گے۔ اس شخص کا کہنا ہے کہ میں ٹوٹل 60ہزار کا بجٹ لے کر گیا تھا۔ لہذا ہم واپس آ گئے اور یوں زندہ بچ گئے۔ مری والوں نے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ایسی اہندو ناک صورتِ حال میں بغیر منافع کے اپنے دلوں کے دروازے کھول دینے چاہیئے تھے۔
اگر ایسے میں مری والے اپنے ہم وطنوں کو سہولتیں دیتے تو ان کے لیے آنیوالے دنوں میں کاروبار دُگنا ہی ہونا تھا۔ ایک سوال پرائم منسٹر عمران خان سے بھی ہے کہ آپ تو زمانے کے سیاح ہیں۔ اپنی عید کی چھٹیاں گزارنے بھی نتھیا گلی جاتے ہیں۔ کیا آپ کو اپنے وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کو نہیں بتانا چاہیے تھا کہ اتنی گاڑیاں آ رہی ہیں تو اس رش کو کنٹرول کرنے کے انتظامات کر رکھے ہیں یا نہیں۔ بعد میں عثمان بزدار کا ہیلی کاپٹر میں چڑھ کر ہوائی جائزہ لینے کا مقصد کیا تھا؟ کیا وہ معصوم لوگ جو گھروں سے سیر کرنے کو نکلے اور ملکی معیشت میں حصہ ڈلا وہ یوں اپنے بچوں سمیت مرنے کو گئے تھے؟ کیا مری کے اسسٹنٹ اور ڈپٹی کمشنر کو معلوم نہیں تھا کہ اتنی گاڑیاں آ رہی ہیں تو راستے صاف کروانے ہیں۔
حکومتِ پاکستان سے گزارش کے کہ راولپنڈی سے مری تک ٹرین ٹریک بنایا جائے اور مری کے اندر چھوٹی بس شروع کی جائے تاکہ ضرورت سے زائد گاڑیوں کے داخلے کو ممنوع قرارد دیا جائے۔ مری کی انتظامیہ کو ہر صورت محفوظ سیاحت کا بندوبست کرنا ہوگا۔ اس وقت عوام اتنی دلبرداشتہ ہے کہ وہ مری کا مکمل بائیکاٹ کر چکے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ منافع خوروں کو اور اس اہندوناک واقعہ کے ذمہ داران کو فی الفور کڑی سے کڑی سزا دے۔ مری والوں نے جان بوجھ کر سڑکیں بلاک کیں۔ کمروں کے کرایے چار گُنا بڑھا دیے۔ ٹول پلازہ والوں نے لُوٹا۔ پوری قوم طیش میں ہے۔ مری کا سب بائیکاٹ کرتے ہیں۔ ہوٹل ایسوسی ایشن والوں کو سزا دی جائے۔ آخر میں اگر کوئی پھر بھی زندگی کی رعنائیوں سے تنگ ہے اور مرنے کا ارادہ ہے تو مری چلیے۔مری کے رومان کو بالآخر مری کی انتظامیہ کی نااہلی لے ڈوبی۔
(کالم نگارقومی وسماجی ایشوزپرلکھتی ہیں)
٭……٭……٭
ضرورت سے خواہشات تک کا سفر
ڈاکٹرعبدالقادر مشتاق
آج کے دور میں انسان بہت مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ اندرونی اور بیرونی بے چینی نے اس کا جینا محال کیا ہوا ہے۔ بے چینی سے اضطراب میں اضافہ ہوتا ہے۔ اضطراب بڑھتا ہے تو انسان کوحسد کی بیماری لگ جاتی ہے۔ اس بیماری کی جڑیں آہستہ آہستہ پورے جسم کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں اور انسان کو ناکارہ کر دیتی ہیں۔ ناکارہ چیزوں کو اٹھا کر کچرے میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ہمارے آج کے معاشرے میں زیادہ تر لوگ حسد زدہ ہیں، اس لئے ناکارہ ہیں اور معاشرے میں غلاظت کا باعث بن رہے ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ حسد کی بیماری ہے کیا؟ یہ انسان کو لگتی کیسے ہے؟ اس کا ڈاکٹر کون ہے جس سے اس کا علاج کروایا جا سکے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن سے مخاطب ہونے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے سے غلاظت کے ڈھیر صاف کئے جا سکیں اور پیار و محبت کے پھولوں کی پنیری لگائی جا سکے تاکہ آنے والی نسلیں ان کی خوشبو سے اپنے آپ کو تروتازہ رکھ سکیں۔ حسد دو طرح کا ہوتا ہے۔ اول یہ کہ کسی کے پاس کوئی چیز ہو اور میرے پاس نہ ہو تو میں اس انسان سے اس لئے جلن رکھوں کہ یہ چیز اس کے پاس ہے اور میرے پاس کیوں نہیں؟ دوم، ایک انسان کسی دوسرے انسان کے قریب ہو تو میں اس سے جلن رکھوں کہ یہ اس کے قریب ہے میں کیوں نہیں؟ انسانوں کے اندر یہ دو طرح کا حسد پایا جاتا ہے۔ اب اس کی وجوہات دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے حسد انسان کے اندر جنم لیتا ہے اور پھر آگے کئی بچوں کو جنم دیتا ہے۔ سب سے پہلے انسان کیلئے ضروری ہے کہ وہ ضرورت اور خواہش میں فرق کرنا سیکھے۔ جب وہ ان دونوں میں فرق نہیں کر پاتا تو پھر حسد کی بیماری اسے گھیر لیتی ہے۔ خدا انسان کی ضرورت پوری کرتا ہے۔ اکثر ہم نے سنا ہے کہ خدا رزق دینے والا ہے۔ انسان کو خدا رزق دیتا ہے۔ رزق سے مراد انسان کی ضروریات ہیں۔ خدا انسان کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ ہم سب لوگوں کی زندگیوں میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں کہ ہمیں ایک وقت میں جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ خدا ایسے سبب پیدا کر دیتا ہے کہ ہماری وہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے اور ہم خدا کا شکر بجا لاتے ہیں۔
دوسری اہم چیز خواہش ہے۔ انسان نے اپنے سینے میں خواہشات کا انبار لگا رکھا ہے۔ ان خواہشات کو پورا کرنے کے لئے انسان دن رات ایک بھی کرتا ہے، خدا سے دعا بھی کرتا ہے کہ اس کی خواہشات پوری بھی ہوں لیکن خدا نے ضروریات پوری کرنے کا وعدہ کیا ہے خواہشات کا نہیں۔ وہ اگر ہماری بات مان لے تو اس کا کرم اور اگر نہ بھی مانے تو پھر بھی اس کا شکر۔ لیکن خواہشات نے انسان کے دل کو اتنا گھیر رکھا ہے کہ اس میں وہ کسی اور چیز کو داخل ہی نہیں ہونے دیتے۔ دل خدا کا گھر بننے کے بجائے خواہشات کا گھر بن چکا ہے۔ خدا دل میں نہیں ہے۔ عبادات ہیں لیکن خدا دل میں نہیں ہے۔ اس لئے خواہشات ان کو ظاہری طور بھی اور روحانی طور پر بھی اندھا کر دیتی ہیں۔ خدا جن کو عطا کرتا ہے انسان ان سے بھی حسد کرنے لگتا ہے کہ یہ چیز میرے پاس کیوں نہیں۔ خدا جب کسی کو عطا کرتا ہے تو یہ اس کی اس بندے پر عنایت ہوتی ہے۔ اب جب کوئی دوسرا انسان اس لئے جلن محسوس کرے کہ خدا نے اسے عنایت کیوں نہیں کیا۔ تو یہ جلن انسانوں کی انسانوں سے نہیں ہوتی بلکہ انسان کی خدا سے ہوتی ہے۔ یہ حسد انسان کا انسان سے نہیں ہوتا بلکہ خدا سے ہوتا ہے۔ خدا سے حسد رکھنا یا خدا کی عنایت کو چیلنج کرنا انسانوں کو ایمان سے فارغ کر دیتا ہے۔ پھر لاکھ نمازیں پڑھیں، روزے رکھیں لیکن خدا آپ کو جنت عطا نہیں کرئے گا کیونکہ آپ خدا کی عطا پر حسد کرتے ہیں اور جس سے آپ حسد کریں وہ آپ کو کیسے اپنے قریب کر سکتا ہے۔ اس لئے آنحضورؐ نے تکبر اور حسد کو سخت ناپسند فرمایا ہے۔ تکبر نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے سوکھی لکڑی کو آگ کھا جاتی ہے۔
خدا کی عطا پر نہ تو تکبر کرنا چاہیے اور نہ ہی حسد۔ شیطان نے اپنی عبادت پر تکبر کیا تو خدا نے اس کی ساری عبادتوں پر پانی پھیر دیا۔ اس لئے خدا جس کو عزت دیتا ہے اس کی عزت کرنی چاہیے نہ کہ اس سے حسد۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان خواہشات کو قابو کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ اس بیماری کا علاج کہاں سے ہو گا؟ اس کا ڈاکٹر کون ہے اور اس کی دوائی کیا ہے؟ اس کے علاج کیلئے مرشدکامل کی ضرورت ہے جو خواہشات کو قابو میں کرنے کے طریقے بتائے اور انہیں کمزور کرکے خدا کی رضا کے تابع کردے۔ صوفی کا تعلق ہوتا ہی انسان کے دل سے ہے۔ وہ کلمہ اور درود شریف کے ورد سے خواہشات کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کلمہ اور درود شریف وہ ہتھیار ہیں جو خواہشات سے جنگ لڑتے ہیں۔ خواہشات کو ایک ایک کر کے مارتے ہیں۔ جیسے جیسے وہ مرتی ہیں ویسے ویسے انسان کے دل میں خدا کا گھر تعمیر ہوتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ دل میں صرف خدا رہ جاتا ہے خواہشات کا صفایا ہو جاتا ہے۔ پھر محبت ہوتی ہے، عشق ہوتا ہے، جذب ومستی ہوتی ہے۔ انسان محبت کا سفیر بن جاتا ہے۔ حسد ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن ہو جاتا ہے۔ اس عشق ومستی کا عملی مظاہرہ مولانا روم کی شاعری میں ملتا ہے۔ چند اشعار بمعہ ترجمہ ملاحظہ ہو:
نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردَم
مذاقِ عاشقی دارم، پئے دیدار می گردَم
میں کْوچہ بازار میں یونہی آوارہ اور بے وجہ نہیں گھومتا بلکہ میں عاشقی کا ذوق و شوق رکھتا ہوں اور یہ سب کچھ محبوب کے دیدار کے واسطے ہے۔
خدایا رحم کْن بر من، پریشاں وار می گردم
خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم
اے خدا مجھ پر رحم کر کہ میں پریشان حال پھرتا ہوں، خطار کار ہوں، گنہگار ہوں اور اپنے اس حالِ زار کی وجہ سے ہی گردش میں ہوں۔
شرابِ شوق می نوشم، بہ گردِ یار می گردم
سخن مستانہ می گویم، ولے ہشیار می گردم
میں شرابِ شوق پیتا ہوں اور دوست کے گرد گھومتا ہوں، میں اگرچہ شرابِ شوق کی وجہ سے مستانہ وار کلام کرتا ہوں لیکن دوست کے گرد طواف ہوشیاری سے کرتا ہوں یعنی یہ ہوش ہیں کہ کس کے گرد گھوم رہا ہوں۔
گہے خندم گہے گریم، گہے اْفتم گہے خیزم
مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم
اس شعر میں ایک بیمار کی کیفیات بیان کی ہیں جو بیم و رجا میں الجھا ہوا ہوتا ہے کہ کبھی ہنستا ہوں، کبھی روتا ہوں، کبھی گرتا ہوں اور کبھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور ان کیفیات کو گھومنے سے تشبیہ دی ہے کہ میرے دل میں مسیحا پیدا ہو گیا ہے اور میں بیمار اس کے گرد گھومتا ہوں۔ دل کو مرکز قرار دے کر اور اس میں ایک مسیحا بٹھا کر، بیمار اس کا طواف کرتا ہے۔
بیا جاناں عنایت کْن تو مولانائے رْومی را
غلامِ شمس تبریزم، قلندر وار می گردم
اے جاناں آ جا اور مجھ رومی پر عنایت کر، کہ میں شمس تبریز کا غلام ہوں اور دیدار کے واسطے قلندر وار گھوم رہا ہوں۔ اس زمانے میں ان سب صوفیا کو قلندر کہا جاتا تھا جو ہر وقت سفر یا گردش میں ہے۔
(کالم نگار جی سی یونیورسٹی فیصل آبادکے
شعبہ ہسٹری کے چیئرمین ہیں)
٭……٭……٭
صوبہ جنوبی پنجاب اور قانون سازی
ڈاکٹر ممتاز حسین مونس
سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی سینٹ میں دھواں دھار تقریر کے بعد وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی تمام اپوزیشن جماعتوں کو سنجیدگی سے باقاعدہ قانون سازی کی دعوت نے امید کی نئی کرن پیدا کر دی۔ گزشتہ انتخابات سے قبل جنوبی پنجاب صوبے کی باز گشت بڑی تیزی سے سنائی دی گئی اور جنوبی پنجاب کے عوام کی نبض پر تحریک انصاف نے بالکل صحیح انداز میں ہاتھ رکھا اور اس وقت کے پارلیمنٹرین کا ایک بڑا وسیب اتحاد گروپ وجود میں آیا جس نے مخدوم خسرو بختیار کی قیادت میں ناصرف تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی بلکہ ایک باقاعدہ معاہدہ کر کے عمران خان کے ساتھ سو دن کے اندر صوبہ بنانے کا اعلان کیا۔ موجودہ حکومت کے سو دن گزرنے کے بعد اس خطے کے عوام نے تقریباً ہر جگہ پر اپنی بھر پور آواز بلند کی۔ موجودہ حکومت جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا وعدہ تو پورا نہ کر سکی لیکن ایک اچھا اقدام یہ کیا کہ باقاعدہ بہاول پور اور ملتان میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بنا کر اس خطے کی عوام کے زخموں پر پٹی کرنے کی ضرور کوشش کی لیکن اس خطے کی عوام جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو اونٹ کے منہ میں زیرہ قرار دیتے ہیں اور اختیارات کا مرکز ومنبع تخت لاہور کو گردانتے ہیں۔
راقم کے نزدیک موجودہ حکومت جنوبی پنجاب کے لیے سب سے اچھا اقدام یہ ہے کہ صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے پنجاب اسمبلی میں بل پیش کرتے وقت ایک تو جنوبی پنجاب کے 33فیصد عوام کے لیے ترقیاتی کاموں کا 33فیصد علیحدہ سے مختص کیا بلکہ پنجاب اسمبلی میں جنوبی پنجاب کا علیحدہ بجٹ کتابچہ پاس کیا، پہلے کی طرح نہیں کہ جنوبی پنجاب کے لیے مختص کیے گئے اربوں روپے کے فنڈز بجٹ میں تو پاس کروا لیے جاتے بعد میں اسے کسی اور شہر میں پُل بنانے اور اورنج ٹرین پر خرچ کر دیا جاتا۔ اب یہ ہوا کہ جنوبی پنجاب کا بجٹ جنوبی پنجاب میں ہی خرچ ہوگا۔
جنوبی پنجاب کے عوام کا اپنے علیحدہ صوبے کے لیے مطالبہ اس لیے بھی سو فیصد درست ہے کہ اس خطے کے عوام سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ اس خطے کے ساتھ آج تک آنے والی تمام حکومتوں نے ناصرف سوتیلی ماں کا سلوک کیا بلکہ تعلیم‘ صحت اور پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم رکھا۔ عجب معاملہ ہے کہ آج تک آنے والی تمام حکومتیں الیکشن سے قبل اقرار کرتی رہیں کہ ہم یہ صوبہ بنائیں اور اس خطے کا احساس محرومی ختم کیا جائے گا۔ اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ لاہور کے خشک دریائے راوی پر بارہ پْل ہیں اور جنوبی پنجاب میں دریائے سندھ پر ایک پْل بھی نہیں تھا وہ تو اللہ بھلا کرے سید یوسف رضا گیلانی کا کہ انہوں نے اپنے دور میں یہ پْل بنا دیا ورنہ پہلے گزشتہ تیس سالوں سے تمام وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ نے اس پْل کی تختیاں لگا کر یہاں کے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ کالجز‘ یونیورسٹیاں، دیگر تعلیمی ادارے بنانے تو دور کی بات سب سے کم سکول اس خطے میں ہیں اور یہاں کے سکولوں کی حالت کسی بھی صورت میں اس قابل نہیں کہ وہاں سے پڑھنے والے بچے ملک کے معمار بن سکیں۔ اس خطے میں زیر زمین پانی کڑوا ہو چکا ہے جس سے بیماریاں پھیل رہی ہیں لیکن صرف جمع تفریق پر ہی گزارا ہے۔ بے روزگاری اور بھوک‘ افلاس چیخ رہی ہے۔ پنجاب کے33فیصد اس خطے کے عوام کو دس فیصد نوکریاں ملنا کسی بھی طور پر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔
سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے گزشتہ دنوں بحیثیت اپوزیشن لیڈر خطاب کے دوران کہا کہ ہم رعایا نہیں ہیں‘ ہمیں اپنا صوبہ‘ اپنا وزیراعلیٰ‘ اپنا گورنر‘ سینٹ کی نشستیں اور اپنا سیکرٹریٹ چاہیے جسے اس خطے کے عوام نے نا صرف زبردست انداز میں سراہا بلکہ اسے حق وسچ کی آواز قرار دیا جس پر وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے نا صرف ویلکم کیا بلکہ وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار سے ملاقات کے بعد اعلان کیا کہ تمام سیاسی جماعتوں سے رابطہ کیا جائے گا اور اس صوبے کے لیے باقاعدہ افہام وتفہیم پیدا کیا جائے گا۔ مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی سمیت تمام پارلیمانی جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں سے خصوصی ملاقات کر کے متفقہ لائحہ عمل طے کر قانون سازی کی جائے گی اور چند ہفتوں کے اندر اندر باقاعدہ جنوبی پنجاب صوبے کا اعلان کر دیا جائے گا۔
یہ خبر اس خطے کے عوام کے لیے کسی بھی انقلابی خبر سے کم نہیں۔ گزشتہ انتخابات میں وزیراعظم عمران خان نے سو دن میں صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا تو 46میں سے 32قومی اسمبلی کی نشستوں پر تحریک انصاف جیتی اور آج جنوبی پنجاب کے ووٹوں کی وجہ سے ہی مرکز اور صوبے میں تحریک انصاف کو حکومت ملی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون سی جماعت کس طرح اس صوبے کی حمایت کے لیے کیا عملی اقدامات کرتی ہے لیکن یہ طے ہے کہ اس صوبے کی مخالفت کرنے والوں کو آئندہ انتخابات میں یہاں ووٹ تو دور کی بات امیدوار بھی نہیں ملیں گے۔ اس صوبے کے حوالے سے لسانیت کی بات کرنے والے کسی بھی صورت درست نہیں کیونکہ چار کروڑ کی آبادی میں آج تک سرائیکی‘ پنجابی یا کسی اور لسانی بنیاد پر ایک پتھر بھی کسی دوسرے کی طرف نہیں اچھالا گیا۔ اگر اس خطے کے عوام کو ان کا بنیادی حق صوبہ دے دیا جائے تو ناصرف پنجاب پر سب سے بڑا صوبہ ہونے کا بوجھ ختم ہو جائے گابلکہ انتظامی طور پر وہ بہتر کام کر سکیں گے اور یہاں کے عوام بھی سکھ کا سانس لے سکیں گے۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭
صدارتی‘پارلیمانی یامخلوط طرزِحکومت؟
وزیر احمد جوگیزئی
ہمارے ملک میں گزشتہ 74سال کے دوران ہر قسم کی حکومت دیکھی گئی ہے۔ صدارتی طرز کی حکومت ہو یا پھر پارلیمانی طرز کی حکومت ہو پاکستان میں سب تجربات کیے جاچکے ہیں بلکہ پاکستان میں تو صدارتی اور پارلیمانی حکومتوں کا ملغوبہ بھی رہا ہے۔ صدارتی اور پارلیمانی حکومتوں کا یہ ملغوبہ پاکستان کی ایجاد ہے۔ اس میں ایسا بھی ہوا ہے کہ صدر اور وزیراعظم دونوں ایک ہی میز پر بیٹھ کر ایک ہی میٹنگ کی سربراہی کرر رہے تھے۔ یہ بھی ہوچکا ہے۔ دیکھنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ صدارتی اور پارلیمانی فرق کیا ہے، اس پر بات کریں گے لیکن پاکستان کے تناظر میں یہ بات اہم ہے کہ پاکستان میں دونوں طرز کے نظام لاکر دیکھے جاچکے ہیں لیکن ہم دونوں طرز کے نظام لاگو کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
مثال کے طور پر صدارتی نظام میں پارلیمان جیساکہ امریکی کانگریس ایک مکمل طور پر خودمختار ادارہ ہوتا ہے اور کسی بھی طریقے سے حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہوتا ہے اور کابینہ کا چناؤ بھی پارلیمان سے نہیں ہوتا ہے اور اکائیوں میں بھی گورنر اور ان کی پارلیمان کی بھی کوئی ہیت ہوتی ہے جوکہ مرکز میں ہوتی ہے۔ ہم صدارتی نظام کو صرف اور صرف صوبوں تک محدود کرتے ہیں جوکہ صدارتی نظام کے تقاضوں کے بالکل منفی عمل ہے اور اس طرز حکومت کے تقاضوں سے ایک انحراف ہے۔ کوئی بھی طرز حکومت نافذ ہو تو پھر اس کے لوازمات کو بھی مکمل کرنا ہوتا ہے۔ جب تک کوئی نظام مکمل طور پر نافذ نہ ہو اس کی افادیت وہ نہیں رہتی جس کی توقع کی جارہی ہوتی ہے اور اگر صدارتی نظام لانے کا اتنا ہی شوق ہے تو پہلے مشورہ یہی ہوگا کہ پولیٹیکل سائنس کی کتابوں سے یا پھر دنیا میں جہاں جہاں یہ نظام نافذ ہے۔ اس سے سبق سیکھ لیں او پھر اس حوالے سے کوئی قدم بڑھایا جائے۔
صدارتی نظام جہاں دنیا کے بہت سارے ممالک میں رائج ہے وہیں پر پارلیمانی نظام حکومت بھی بہت سارے ممالک میں رائج ہے۔ پاکستان میں بھی پارلیمانی طرز حکومت رائج ہے اور اس نظام پر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور سیاسی سٹیک ہولڈرز کا اتقاق ہے اور اس طرز کی حکومت سب کو قابل قبول بھی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور عوام کی اس نظام پر رائے تقریباً ایک ہی ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہم اس نظام کے تقاضوں کو بھی پورا کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اس نظام کے ساتھ جڑی ہوئی روایات ہمارے اکابرین سے دور ہیں۔ پارلیمانی نظام میں کوئی بھی مسئلہ، کوئی بھی فیصلہ، کوئی بھی اہم حکومتی اقدام ماورائے پارلیمان نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن عملی طور پر ہمارے ملک میں ہر اہم فیصلہ پارلیمان سے بالا بالا ہی کیا جاتا ہے جوکہ افسوس کی بات ہے۔ چاہے ملک کی اندرونی پالیسی ہو یا پھر خارجہ پالیسی پارلیمان سے جنم لینی چاہیے۔ اس کے بغیر مسائل جنم لیتے ہیں لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔
پارلیمانی نظام میں اپوزیشن کا بھی اتنا ہی اہم کردار ہوتا ہے جتنا کہ حکومت کا ہوتا ہے اور دونوں کے اشتراک سے ہی گاڑی چلتی ہے۔ جمہوریت کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسا کہ ایک گاڑی جس میں عوام اس گاڑی کا انجن ہوتے ہیں، بیوروکریٹس اس گاڑی کا پٹرول ہوتے ہیں اور حکومت کی حیثیت ایک ڈرائیور کی سی ہوتی ہے جب تک یہ بیلنس ٹھیک نہ ہو، گاڑی نہیں چلتی ہے لیکن آج کل جو دور چل رہا ہے اس دور میں میں تو پارلیمانی روایات کو یکسر بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے اور اچھی پارلیمانی جمہوریت ایک خواب ہی بن کر رہ گئی ہے۔ ہم چونکہ ایک ڈکٹیٹر شپ میں بھی رہ چکے ہیں اور نظام میں سیاسی عمل سے ماروا سیاسی میدان میں وارد ہوتے ہیں۔
ہم نے ایسی حکومتیں بھی دیکھی ہیں اسی لیے شاید ہم موجودہ حکومت کو بھی برداشت کر ہی رہے ہیں حالانکہ یہ جمہوریت سے کافی دور ہے۔ موجودہ حکمران جماعت کا کوئی سیاسی تجربہ نہیں ہے لیکن خواہشات اتنی زیادہ ہیں کہ ہر خواہش پر دم نکل رہا ہے۔ خواہشات کی بنیاد پر اچھی حکمرانی نہیں کی جاسکتی ہے۔ ملک میں اچھی حکمرانی کیلئے جو چیز سب سے اہم ہوتی ہے اور جس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے وہ ہے انصاف اور انصاف کے بغیر اصلاحات ممکن نہیں ہے۔ جب تک معاشرے میں انصاف نہ ہو اورعدلیہ آزاد نہ ہو تب تک کوئی بھی حکومت بلکہ کہنا چاہیے کہ کسی بھی طرز کی حکومت کا میاب نہیں ہوسکتی ہے۔
بظاہر تو کوئی بھی طرز حکومت بُری نہیں ہے، ہر نظام کے اپنے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی ہیں لیکن بات وہی ہے کہ جب تک کسی بھی نظام کے تمام لوازمات پورے نہیں کیے جاتے ہیں اور مکمل طور پر اس نظام کو نافذ نہیں کیا جاتا تب تک کوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی ہے۔ جہاں تک ہمارے ملک کا تعلق ہے تو ہمارے ملک میں جتنے بھی نقصانات ہوئے ہیں وہ صدارتی طرز کی حکمرانی کے دوران ہی ہوئے ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ پانی کے معاملات رہے ہوں یا پھر ون یونٹ کا معاملہ یا پھر بنگلہ دیش بننے کا واقعہ تمام تکلیف دہ نقصانات اسی وقت ہوئے جب ملک میں صدارتی طرز کی حکومت تھی۔ پاکستان کی اجتماعی دانش نے اگراس ملک کیلئے پارلیمانی طرز حکومت کا انتخاب کیا ہے اور کسی وجہ سے ہی کیا ہے۔ اس نظام پر مکمل طور پر عملدرآمد ہونا ہی اس ملک کی سلامتی کی بنیاد اور ضمانت ہے۔ اگر ملک کے عوام ملک میں پارلیمانی نظام ہی چاہتے ہیں تو پھر خوامخواہ کے شوشے چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس ملک میں بہت سے تجربات ہوچکے ہیں اسی لیے تو یہ ملک اس حالت میں ہے۔ اس ملک کیلئے ایک مخلوط حکومت جوکہ صرف اور صرف جمہوریت پر یقین رکھتی ہو اور وہ اس ملک میں انصاف کا نظام قائم کرسکے تو پھر اسی حکومت کے تحت ملک کامیاب ہوسکتا ہے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭
کرونا کی سنگینی‘ ایک چیلنج
ملک منظور احمد
کروناکی پانچویں لہردنیاکے بہت سارے ممالک کوعدم تحفظ، معاشی مشکلات‘ لاک ڈاؤن جیسی پابندیوں میں بے بس کرتی نہ صرف پاکستان میں داخل ہوچکی ہے بلکہ مختصرعرصے میں بے لگام ہوکر ہسپتالوں میں بستروں کی تعداد، قرنطینہ کی سہولتوں اور بعض دوسرے حوالوں سے چیلنج محسوس ہورہی ہے۔ اگر پاکستانی قوم نے عزم وہمت کے ساتھ کرونا سے بچاؤ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی بیرونی سرگرمیاں انتہائی ضروری مصروفیات، حکومتی سطح، فلاحی تنظیموں اور مخیر افراد کی سطح پر بیروزگاری سمیت مشکلات کے شکار خاندانوں کی اعانت کا سلسلہ منظم انداز میں جاری رکھا تو کوئی وجہ نہیں کہ اس لہر پر بھی کم سے کم وقت میں قابو پایا جاسکتا ہے۔
افریقہ سے سامنے آنے والی تیزرفتار پھیلاؤ کی حامل اس لہر کی ہلاکت خیزی کے حوالے سے بہت سارے اندازے سامنے آئے تھے مگر بعد میں واضح ہوا کہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں ویکسینیشن سے لوگوں کی قوت مدافعت بڑھنے کے باعث اس کی ہلاکت خیزی کادرست اندازہ شاید نہیں ہوسکا۔ قوت مدافعت مزید بڑھانے کیلئے پاکستان سمیت دنیابھرمیں “بوسٹرویکسین” لگانے کاسلسلہ جاری ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں پچھلے دنوں کروناپربڑی حدتک قابو پالیا گیا تھا مگر افریقی قسم “اومیکرون” کی آمدکے بعد صورتحال ماضی کی طرح مزید بگڑتی نظرآرہی ہے۔ جوآنے والے دنوں میں حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔
اقتصادی، معاشی بحران نقطہئ عروج پر ہے۔کرونا کی وجہ سے ریونیو ٹارگٹ حاصل کرنا بھی حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔کرونا کے تعلیم پربھی بہت منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ دنیا میں لاکھوں طالب علموں کا مستقبل بھی خطرے میں پڑا ہوا ہے۔ اسلام آباد کے 12 تعلیمی اداروں میں 50 سے زایدکیس رپورٹ ہوچکے ہیں۔
کرونا مثبت کیسز والے تعلیمی اداروں کو فوری بند کیا جارہا ہے۔ ایک ہفتے کے دوران اسلام آباد کے 35 تعلیمی اداروں میں کرونا کے ایک سو سے زائد کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔ اگر پاکستان کے ہیلتھ مینجمنٹ سسٹم کی بات کی جائے تو ہیلتھ سسٹم کوفعال بنانے کی ضرورت ہے اور ہمارے پاکستان میں ہیلتھ کا شعبہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آیا اومیکرون دیگر اقسام کے وائرس کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہے اور کیا یہ مزید سنگین وبائی صورتحال اور امراض کی پیچیدگیوں کا سبب بنے گا یا نہیں۔ اس سے قبل ڈبلیو ایچ او نے کہا تھا کہ اومیکرون شدید انفیکشن کا خطرہ پیدا کرسکتا ہے لیکن معلومات محدود ہیں۔ موجودہ صورتحال میں دنیا اومیکرون کے بارے میں قدرے فکرمند ہے اور مختلف ممالک کی جانب سے متعدد افریقی ممالک پر سفری پابندیاں عائد کرنے سمیت انسدادِ وباء کے دیگر اقدامات میں تیزی لائی گئی ہے۔ پریشانی کی بات یہ بھی ہے کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس وائرس کے خلاف ویکسین کتنی مؤثر ہے اور ماہرین ابھی تک واضح نہیں ہیں کہ آیا موجودہ اینٹی باڈیز اومیکرون پر مؤثر ردعمل ظاہر کر پائیں گی۔ یہ بھی تشویش کن امر ہے کہ مختلف ممالک میں نئے وائرس سے متاثرہ کئی کیسز سامنے آچکے ہیں اور ممالک کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔
اومیکرون کی شناخت سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں ہوئی تھی، یہی وجہ ہے کہ جنوبی افریقہ سے کئی ممالک نے پروازیں معطل کردی ہیں جبکہ دوسرے جنوبی افریقی ممالک پر بھی متعدد ممالک کی جانب سے سفری پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ماہرین نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ نئی قسم ڈیلٹا کی مختلف اقسام سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلے گی اور متاثرہ افراد میں سنگین علامات کا سبب بنے گی۔ اومیکرون سے وبائی صورتحال کی شدت میں بھی اضافہ ہوگا جبکہ کئی یورپی ممالک میں حالیہ دنوں میں پہلے ہی نئے مصدقہ کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا تھا، ایسے میں یہ نیا وائرس ایک نیا چیلنج بن کر ابھرا ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭
حکومت کی معاشی پالیسی؟
ڈاکٹر شاہد رشیدبٹ
مہنگائی کی شرح جو کہ پہلے ہی ہفتہ وار بنیادوں پر 22فیصد سے تجاوز کر گئی ہے،میں مزید اضافے کا امکان ہے۔یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر حکومت کو 6ماہ کے بعد ہی منی بجٹ پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟ اس کا سوال کا جواب کافی آسان ہے اور وہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض کی اگلی قسط لینے کے لیے حکومت کو ان کی شرائط ماننا پڑ رہی ہیں اور حکومت کے لیے اس وقت آئی ایم ایف کی شرائط پر قرضہ لینا اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ ایک بار پھر 7ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے اور سال کے آخر تک یہ 13ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے جو کہ یقینا تشویش ناک ہے۔پاکستان کی درآمدات میں برآمدات کی نسبت ہو شربا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور کسی صورت میں بھی اس وقت ملکی معیشت کو استحکام کا حامل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔
ایک طرف ڈالر کی اونچی پرواز تو دوسری جانب بڑھتے ہوئے ٹیکسز اور توانائی کی قیمتوں نے عوام کا خون نچوڑ لیا ہے وہیں پر اس بات کا اعتراف بھی کرنا چاہیے کہ واقعی پاکستان کی معیشت اس وقت 5فیصد کی رفتار سے گروتھ کررہی ہے البتہ یہ سوال ضرور موجود ہے کہ کیا یہ گروتھ دیر پا ثابت ہو گی یا نہیں؟ میرے خیال میں یہی موجودہ صورتحال میں سب سے اہم سوال ہے۔اگرچہ کہ حکومت نے گزشتہ کچھ عرصے میں شرح سود میں کافی اضافہ کیا ہے لیکن اس کے اثرات ابھی تک سامنے نہیں آرہے ہیں دسمبر کے مہینے میں بھی جہاں پر پاکستان کی برآمدات 2.7ارب ڈالر رہیں ہیں وہیں پر پاکستان کی برآمدات 6.9ارب ڈالر کی سطح پر موجود ہیں جو کہ برآمدات کے مقابلے میں دگنی سے بھی زیادہ ہیں یہ پاکستان کی معیشت کے لیے کسی بھی طرح سے اچھا شگون نہیں ہے اور آنے والے وقت میں عوام کے لیے مزید مشکلات کا باعث بنے گا۔بہر حال بات ہو رہی تھی منی بجٹ کے حوالے سے اس بجٹ میں بھاری ٹیکس لگائے گئے۔
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ حکومت گزشتہ سال کی نسبت اس پہلے اپنا ٹیکس ہدف ایک ہزار ارب روپے زیادہ مقرر کر چکی ہے اور اب اس میں مزید 400ارب روپے کا اضافہ کیا گیا،گزشتہ سال حکومت نے 4700ارب روپے کا ٹیکس اکھٹا کیا تھا جبکہ اس سال کا ہدف 5700ارب روپے کا ٹیکس جمع کرنا ہے جس کو بڑھا کر 6100ارب روپے کر دیا گیا ہے۔حکومت کو ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرنے کی بجائے ٹیکس بیس بڑھانے کی ضرورت ہے،تاکہ جو لوگ پہلے سے ہی زیادہ ٹیکس دے رہے ہیں ان پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔لیکن حکومت گزشتہ حکومتوں کی طرح ہی ٹیکس بیس بڑھانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان کی برآمدات کا تخمینہ اس سال 32ارب ڈالر لگایا گیا ہے جبکہ تر سیلات زر کے ذریعے بھی 32ارب ڈالر آنے کی امید ہے اور ماہرین کے مطابق روشن ڈیجیٹل اکا ونٹ کے ذریعے بھی 3ارب ڈالر تک کی رقم جمع ہو سکتی ہے لیکن اس سب کے باوجود یہ سب ملا کر پاکستان کی زرمبادلہ کی آمدن 67ارب ڈالر بنتی ہے جبکہ پاکستان کی اس سال کی برآمدات اسی رفتار سے بڑھتی رہیں تو 80ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔
13 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ تیار کھڑا ہوا ہے۔یا تو برآمدات میں کمی کے لیے اسٹیٹ بینک روپے کو زیادہ گرائے گا یا پھر شرح سود میں بڑا اضافہ کیا جائے گا دونوں ہی صورتوں میں نقصان عوام اور کاروباری برادری کو پہنچے گا جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ آئی ایم ایف کی شخت ترین شرائط کو ماننے اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی کرنے اور عوام پر مہنگائی کا طوفان ڈالنے سے بہتر ہے کہ حکومت آئندہ سال کے لیے شرح نمو کے ہدف میں کمی کردے 4فیصد شرح نمو کا ہدف رکھا جائے اور ضرورت پڑے تو شرح نمو کو 3.5فیصد تک لے جایا جائے اس طرح ٖڈیمانڈ میں کمی جاسکتی ہے اور برآمدات کم ہو سکتی ہے اور روپے اور شرح سود کے حوالے سے بھی ریلیف مل سکتا ہے،پاکستان کی معیشت 5یا اس سے زیادہ شرح نمو برداشت کرنے کی اہل دیکھائی نہیں دیتی ہے۔
جب تک کہ ملکی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوجاتا ہے ملک مسائل کا شکار ہی رہے گا۔پاکستان کو ہنگامی طور پر اپنی برآمدات میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے اگر سنگا پور جیسا ملک جو کہ اسلام آباد شہر کے برابر ہے وہ 130ارب ڈالر کی برآمدات کر سکتا ہے تو پاکستان جیسا ملک جس کی 22کروڑ کی آبادی ہے وہ اس حوالے سے اتنے مسائل کا شکار کیوں ہے؟ پاکستان جیسے ملک کی برآمدات اس وقت بھی 100ارب ڈالر کے قریب ہونی چاہیے تھیں جو کہ ہماری ہی غلط پالیسوں کی وجہ سے نہیں ہوسکیں ہیں۔اگر حکومت اس سال برآمدات کا ہدف 32ارب ڈالر حاصل کر لیتی ہے تو آئندہ برس یہ ہدف کم از کم 45ارب ڈالر کے لگ بھگ مقرر کرنے ضرورت ہے اسی طرح پاکستان کو بیلنس آف پیمنٹ کے حوالے سے ریلیف مل سکتا ہے۔
میں یہاں پر یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ سی پیک کے تحت بننے والے خصوصی اقتصادی زونز آخر ابھی تک فعال کیوں نہیں ہوسکے ہیں؟ ابھی تک ان زونز سے برآمدات کیوں شروع نہیں کی جاسکی ہیں؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے؟ یہ زونز سی پیک میں شامل اسی لیے کیے گئے تھے تاکہ پاکستان کی پیدا وار اور برآمدات میں کم وقت میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ہے۔یہ یقینا ایک بڑا مسئلہ جسے بہتر انداز میں ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے۔جلد از جلد ان اقتصادی زونز کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔اگر پاکستان 2025ء تک اپنی برآمدات 60ارب ڈالر تک نہیں پہنچا سکا تو پاکستان کے لیے مسائل میں اضافہ ہی ہو تا چلا جائے گا۔
(سابق صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس ہیں)
٭……٭……٭
ریکارڈمدت میں پنجاب کے میگاپراجیکٹس کی تکمیل
طلال اشتیاق
وزیراعظم پاکستان عمران خان کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف واحد سیاسی جماعت ہے جس نے بہت تھوڑے عرصے میں گزشتہ 70 سالوں سے تباہ حال اداروں کا قبلہ درست کرنے اور ماضی کی مفلوج الحال معیشت کو استحکام دینے کیلئے سنجیدہ اور مخلصانہ اقدامات ا ٹھائے ہیں۔ صوبہ پنجاب اورکے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اس سلسلے میں متعدد اصلاحاتی اقدامات کئے جاچکے ہیں جبکہ صوبہ پنجاب کی ترقی کے لئے کیئے گئے اقدامات اپنی مثال آپ ہیں۔ باشعور عوام کے تعاون سے نہ صرف صوبہ پنجاب بلکہ پورا ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر جلد گامزن ہوچکا ہے جس کاعوام جلد ریلیف محسوس کر یں گے۔اس کی ایک وجہ پنجاب میں منجھے ہوئے پنجاب حکومت کے کاموں کی درست ترجمانی کرنیوالے ترجمان پنجاب حکومت حسان خاور اور تحریک انصاف کے عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل ہے پنجاب حکومت نے اداروں سے کرپشن اور میرٹ کی پامالی کے خاتمے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کئے ہیں اور اداروں کو بااختیار بنایا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے پنجاب کے پی کے کی مجموعی ترقی کیلئے طویل المدتی منصوبہ بندی کی ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان پاکستان اور صوبوں کو ہر لحاظ سے ترقی یافتہ اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں۔ سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر حقیقی معنوں میں عوامی خدمات کا نظام متعارف کرایا گیاہے۔ پنجاب حکومت عوام کی فلاح وبہبود اور اجتماعی ترقی کیلئے ہر لمحہ کوشاں ہیں وہ مخالفین کی بے بنیاد اور منفی پروپیگنڈوں پر توجہ دینے کی بجائے اداروں میں مثبت اصلاحات لانے پر عمل پیرا ہیں، جس سے نہ صرف ادارے مضبوط ہو رہے ہیں بلکہ عام آدمی بھی مستفید ہو رہا ہے۔ یہ واحدجماعت ہے جس نے بہتر طرز حکمرانی کی بنیاد رکھی، اداروں سے سیاسی مداخلت کا حقیقی معنوں میں خاتمہ کیا، اداروں کو ان کے حقیقی اختیارات کے مطابق فعال بنایا، جبکہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی یقینی بنائی۔اس مجموعی عمل کو متعدد پالیسیوں اور قوانین سے دیر پا بنایا تاکہ آئندہ کوئی بھی عوامی خدمات کے اداروں کو مفلوج نہ کر سکے۔ بیرونی طور پر ہمارے ملک پاکستان کی قدر میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے بیرونی ممالک سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں عمران خان ایک بہتر لیڈر ہیں جوملک کو اندھیروں سے نکال سکتے ہیں پاکستان کے ساتھ بیرونی ممالک کے سفارتی تعلقات مزید بہتر ہوئے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ہمارا ملک مہنگائی کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے لیکن یہ مہنگائی پہلی دفعہ نہیں ہوئی۔
مجھے یاد ہے 1973میں ذوالفقار علی بھٹو نے روالپنڈی عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے معلوم ہے کہ ملک میں مہنگائی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے کیا کریں جب پٹرول کی قیمت بڑھتی ہے تو مہنگائی کا جن بے قابو ہوجاتا ہے ہمارا ملک قرضے پرہے اپنے ہمسایہ ملک سعودی عرب سے تیل لے رہے ہیں۔مطلب کہنے کا یہ ہے کہ مہنگائی کا رونا آج تھوڑی ہے سابقہ ادارو میں بھی یہی مہنگائی کا طوفان برپا رہا ہے۔اس دفعہ عالمی دنیا کو کرونا جیسی موذی وبا کا سامنا ہے پوری دنیا میں مہنگائی کا طوفان آیا ہو ا ہے جس کا اثر ہمارے جیسے غریب ملک پر پڑے گا پھر بھی پوری دنیا جیسا حال ہمارے ملک میں نہیں ہے
اگر بات کی جائے تحریک انصاف کی وعدوں کی تکمیل کی تواس میں بہتری آرہی ہے کرونا جیسی موذی وبا کے باوجود عمران خان عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل پر گامزن ہیں۔صحت کارڈ جو آج تک کوئی نہ دیسکا اس سے اب ہر پاکستانی شہری کو دس لاکھ روپے تک فری علاج معالجہ کی سہولت میسر ہوگی۔صوبہ پنجاب میں نئے ہسپتال اور نئی یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اور کئی افتتاح ہوبھی چکے ہیں کئی تکمیل کے مراحل میں ہیں۔عمران خان نہ تو اپنی پبلسٹی چاہتے ہیں اور نہ کسی کو کرنے دیتے ہیں اگر اس کے برعکس دیکھا جائے تو سابقہ حکومتوں نے تو اپنی تشہیر کیلئے اربوں کے فنڈز تشہیری مہم میں جھونک دیئے۔اگر بات کی جائے صوبہ پنجاب کی تو اپوزیشن کی طرف سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی رہی ہے لیکن عثمان بزدار نے اس تنقید کا جواب دینے کی بجائے اپنے فرائض پر فوکس رکھا۔ عثمان بزدار نے اپنی تین سالا کارکردگی کا لوہا منوایا۔ یوں کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عثمان بزدار نہیں بولتے بلکہ ان کے کام بولتے ہیں۔
موجودہ سروے کے مطابق ویزراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار باقی صوبوں کے وزرائے اعلی کی نسبت کام میں پہلے نمبرپر آئے ہیں وزیرا عظم پاکستان عمران خان کا عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیراعلی بنانے کافیصلہ درست ثابت ہوا۔عثمان بزدار نے اپنے صوبے میں میرٹ کو اہمیت دی اور بیوکریسی کو پورے اختیارات دئیے اور پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا بیورکریسی بھی ان کے اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کر رہی ہے جس مثال مری سانحہ ہے اگر ایسا مری سانحہ سابقہ ا دور میں تو بغیرتحقیقات کئے کئی آفیسر معطل ہوجاتے لیکن عثمان بزدار نے ایسا نہیں کیا قانونی تقاضے پورے کئے تحقیقات کروائیں اور پھر جاکر ملوث 15اہم افسران کو عہدوں سے ہٹا دئیے اور انکوائری شروع ہوچکی ہے جومنطقی انجام کو پہنچے گی سزا جزا کا عمل ہو گا،عثمان بزدار نے میگا پروجیکٹ شروع کروائے جو ریکارڈ ٹائم میں مکمل ہوئے سابقہ دور میں مشہور تھا کہ کہ سابقہ حکومت پنجاب پر نہیں لاہور پر مہربان ہے لیکن وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے نہ صرف لاہور میں ریکارڈترقیاتی کام کروائے بلکہ پنجاب کے پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لئے اربوں روپے کے فنڈز خرچ کئے۔یہ واحد حکومت ہے جس نے شوگر مافیا کو نکیل ڈالی ہے 70سال سے چینی کا ریٹ حکومت مقرر نہیں کر سکتی تھی اب حکومت اس کا ریٹ مقرر کرتی ہے۔اگر بات کی جائے جنوبی پنجاب صوبے کی جس پر جنوبی پنجاب کی عوام نے تحریک انصاف کو بھاری مینڈیٹ دیا تھا تاکہ ان کا حق جو جنوبی پنجاب صوبہ ہے دیا جائے جس انتخابی مہم میں عمران خان نے جنوبی پنجاب کے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ان کو حق ضرور ملے گا جس کی بنیادتو عمران خان نے حکومت میں آتے ہی رکھ دی تھی۔
پنجاب حکومت نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی صورت میں جس سے عوام کو کافی ریلف ملا ہے پھر اس کا فنڈز 35فیصد وہیں خرچ کئے جارہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے جنوبی پنجاب کی عوام کو ان کا اپنا حق دینے کا اس حوالے سے وائس چیرمین تحریک انصاف،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان کو جن میں ن لیگ کے شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو کو خطوط لکھ دیئے ہیں کہ ہم سب چاہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کی عوام کو ان کا دیرینہ حق صوبہ جنوبی پنجاب دیا جائے۔ آئیں سب مل کر ایک لائحہ عمل بنائیں صوبے کے لئے پیپلز پارٹی تو چاہتی ہے۔ اب دکھنا یہ ہے کہ ن لیگ اس پر اپنا کیا ردعمل دیتی ہے جو جماعت اس کی مخالفت کرے گی وہ جماعت جنوبی پنجاب سے آؤٹ ہوجائے گی۔شاہ محمود قریشی نے ایسے وقت میں اپنا پتا کھیلا ہے جب بلدیاتی الیکشن سر پر ہیں 15مئی کو بلدیاتی الیکشن کی شنید ہورہی ہے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کیلئے امتحان ہے وہ کیا ردعمل دیتی ہے مجھے جو نظر آرہا ہے پیپلزپارٹی اور ن لیگ حمایت تو کریں گی لیکن کچھ ایشو بھی کھڑے کریں گی مطلب سانپ بھی مر جائے لاٹھی بھی بچ جائے۔
(کالم نگار سیاسی وسماجی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
”بلی بائی“ کیس میں پیش رفت اور خدشات
محبوب عالم محبوب
2021ء کی بات ہے۔ عیدالفطر کے موقع پر پاکستانی اور ہندوستانی مسلم عورتوں کی تصاویر اور سیلفیاں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہوئیں تھیں۔ ہندوستان کے مرد (جن کی اکثریت ذہنی طور پر بیمار ہے۔) میدان میں آئے تھے۔ انہوں نے ان سیلفیوں اور تصاویر پر ایسے نازیبا الفاظ میں تبصرے کئے تھے جس سے ہندوستانی ہندو معاشرے کی ذہنی گراوٹ مزید واضح ہوئی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ ان تصاویر کو یو ٹیوب چینل پر نشر کیا گیا جہاں ایک مرتبہ پھر ان تصاویر پہ نازیبا تبصرے کئے گئے۔ حتی کہ اس وڈیو کو ہندو معاشرے سے دیکھنے والوں مردوں کی طرف سے ان کی بولیاں بھی لگائیں گئیں تھیں۔ جون 2021ء میں بات کچھ اور بڑھ گئی۔ ” سسلی ڈیلز ” نامی ایک ایپ انٹرنیٹ پر آپ لوڈ کی گئی۔
بی۔ بی۔ سی۔ کے مطابق یہ ایپ 14 جون 2021ء کو شروع ہوئی تھی۔ لفظ ” سسلی ” ایک توہین آمیز اصطلاح ہے جسے شدت پسند ہندو معاشرے میں مسلمان عورتوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس ایپ پر تقریباً 90 سے زائد مسلم خواتین کی فروخت کا اشتہار دیا گیا۔ جن میں مسلم خواتین صحافیوں، کارکنوں، تجزیہ نگاروں، فن کاروں اور دیگر خواتین کو شامل کرکے نیلامی کیلئے پیش کیا گیا۔ ان خواتین کی تصاویر کے ساتھ ٹیوٹرز ہینڈلز دیے گئے تھے۔ اس ایپ پر موجود ” فائند یور سلی ڈیل ” پر کلک کرنے سے ہر مسلمان خاتون کا نام، تصویر اور ٹیوٹر ہینڈل کی تفصیلات سامنے آ جاتی تھیں۔ اگرچہ یہ کوئی حقیقی نیلامی نہیں تھی بلکہ مسلمان خواتین کی تضحیک کا ایک ظالمانہ طریقہ تھا۔ ایک سماجی کارکن شبیہ اسلم فہمی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا، ” ایک طبقے کو یقین دہانی کرا دی گئی ہے کہ وہ اگر مسلمانوں کے خلاف کوئی جرم کرتے ہیں تو بے فکر رہیں ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوگی “۔
اس وقت ایک مسلمان خاتون صحافی فاطمہ خان جو نیوز ویب سائٹ ” دی پرنٹ ” سے وابستہ تھیں، کی تصویر بھی ” سلی ڈیلز ” پر اپ لوڈ کی گئی تھی۔ ” سلی ڈیلز ” کے معاملے کو لے کر ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے بھرپور احتجاج کیا گیا اور ” گٹ ہب ” نے مذکورہ ایپ کو اپنے پلیٹ فارم سے ہٹا دیا تھا۔ اس دل خراش واقعے کے بعد بہت سی مسلم خواتین نے سوشل میڈیا کو خیر باد کہ دیا تھا۔ ایپ کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کسی بازار میں مسلمان خواتین فروخت کیلئے پیش کی جا رہی ہوں۔ خطرناک حد تک حیرت کی بات ہے کہ جب بات ” سلی ڈیلز ” کے خلاف ایف۔ آئی آر تک گئی تھی تو ہندوستانی پولیس نے تحقیقات کا دعوی تو کیا مگر ایپ بنانے والے کی شناخت بتانے سے انکار کر دیا۔ اس معاملے میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ ایسا صرف تب ہی ممکن ہے جب حکومتی ارکان کی شہ حاصل ہو ورنہ مجرم کا سامنے لایا جانا لازمی تھا۔ اصل میں ہندوستان پولیس لازمی اور غیر لازمی کو نہیں دیکھتی بلکہ ہندو توا کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ اور اب، جی ہاں اب ایک نئی ایپ ” بلی بائی ” کے نام سے لانچ ہوئی۔ یہ ایپ بھی مسلمان خواتین کی تضحیک کیلئے بنائی گئی اور اسے نئے سال کے موقع پر لانچ کیا گیا۔ اسے ” سلی ڈیلز ” کا نیو ورڑن کہا گیا۔
” بلی بائی ” میں بھی مسلمان خواتین کو نیلامی کیلئے پیش کیا گیا ہے۔ اس نیلامی میں نوجوان مسلم خاتون صحافی، سیاسی اور سماجی کارکن بھی ہیں۔ پچاس برس سے زیادہ عمرکی ماں بھی موجود ہے۔ ان میں حیدرآباد کی خالدہ پروین جیسی بزرگ خاتون بھی شامل ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ ” بلی بائی ” پر جس بھی ہندوستانی خاتون کی تصویر لگی ہے۔ ان سب نے کبھی نہ کبھی بی۔ جے۔ پی۔ کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ اگر ان کی خواتین بھی بی جے پی کے خلاف آواز اٹھائیں گی تو ہم ان کو ایسا ذلیل کریں گے کہ وہ ہمارے ہمارے خلاف آواز اٹھانے کی جرات نہ کر سکیں۔ انڈین صحافی ” عصمت آراء نے کہا، ” یقینا میں اکیلی ہی نہیں جسے ” سلی ڈیلز ” کے نئے ورڑن ” بلی بائی ” میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
” حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ” سلی ڈیلز ” کے خلاف موثر کارروائی کی جاتی تو آج ایسا دوبارہ نہ ہوتا۔ خواتین کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے کیلئے ٹیوٹر پر بنائے گئے اکاونٹ ” می ٹو انڈیا ” پر سوال کیا گیا ہے، ” ان کا کیا ہوا جنہوں نے سلی ڈیلز شروع کیا تھا؟ ” عالمی سطح پر ” بلی بائی ” کے معاملے پر ردعمل کے بعد ہندوستانی پولیس نے 3 ملزموں کو گرفتار تو کر لیا مگر اچانک اس معاملے میں ایک نئے موڑ نے معاملے کو اس طرح الجھا دیا ہے کہ اب شاید ہی ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی ہوسکے۔ حال ہی میں ایک صارف نے ٹیوٹر کے ذریعے عوامی سطح پر پولیس کو چیلنج کیا ہے اور دعوی کیا ہے کہ وہ اس ایپ (بلی بائی) کا ماسٹر مائنڈ ہے۔ ٹیوٹر صارف کا تعلق نیپال سے ہے۔ اس بار اس نے پولیس کو دھمکی دی ہے کہ وہ معصوم نوجوانوں کو ہراساں نہ کرے ورنہ ” بلی بائی 2۔0 لے آئے گا۔ اس نے کہا، ” آپ نے غلط شخص کو گرفتار کیا ہے۔
ممبئی پولیس! میں ” بلی بائی ” کا حقیقی خالق ہوں۔ آپ نے جن 3 لوگوں کو گرفتار کیا ہے وہ بے قصور ہیں اور ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ انہیں فوری طور پر رہا کرو۔ ” انتہائی خطرناک حیرت کی بات یہ ہے کہ ممبئی پولیس کمشنر ہمنیت نگرالے نے اس بیان کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ حقیقت واضح ہورہی ہے یا تو یہ سب کچھ ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف ایک بین الاقوامی سازش کیلئے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ دنوں اترا کھنڈ کے ضلع ہردوار میں 3 دنوں تک چلی دھرم سنسد میں ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف ” Hate speeches ” میں ہندو مہا سبھا کی جنرل سیکریٹری سادھوی اناپورنا عرف پوجا شکن پانڈے نے ہندوستانی مسلمانوں کو کھلے عام قتل کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” کوئی کیس نہیں ہوگا لیکن چند دنوں کیلئے بس ہلکی سی تکلیف ہوگی۔ ” اس معاملے میں نئی پیش رفت اس سے بھی بھیانک ہے۔
تازہ ترین یہ ہے کہ ” بلی بائی ” کیس میں گرفتار ملزم ” نیرج بشنوئی ” کے بارے میں دہلی پولیس کہ رہی ہے کہ ملزم جانچ میں تعاون نہیں کر رہا۔ اس نے پولیس تحویل میں دو مرتبہ خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس کو ڈر ہے کہ کہیں یہ اپنے ساتھ کوئی واردات نہ کر لے، اس لئے 24 گھنٹے اس پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی اس کا میڈیکل چیک آپ بھی کرایا گیا ہے تاکہ اس کی ذہنی حالت کا پتہ چل سکے۔ بات صاف اور روز روشن کی طرح عیاں ہو رہی ہے کہ دہلی پولیس ایسا ماحول بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ اگر ملزم نیرج بشنوئی ” تعاون ” نہیں کرتا تو ” خود کشی ” اور ” تعاون ” کرتا ہے تو ” پاگل “، جو بھی حالات کے مطابق ضروری ہوا، استعمال میں لایا جائے گا۔ سب سے عجیب اور دہشت ناک پہلو یہ ہے کہ بلی بائی سانحے پر مودی خاموش ہے۔
(کالم نگارسیاسی وسماجی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
پاکستان کس نے بنایا
کرنل (ر) عادل اختر
بیسوی صدی کے آغاز میں ہندوستان میں سیاسی بیداری بڑھی تو آزادی کی تحریکوں کا آغاز ہوا اس زمانے میں کراچی کے رہنے والے ایک نوجوان وکیل محمدعلی جناح نے اپنے سیاسی سفرکا آغاز کیا تھا۔ انہوں نے اپنے سفر کا آغاز کانگرس سے کیا وہ ایک غیر متعصب انسان تھے۔ انہیں ہندومسلم اتحاد کا سفیر کہا گیا لیکن طویل عرصہ سیاست کرنے کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ ہندوبہت تنگ نظر اور متعصب ہیں۔ ان کے دل میں دوسری قوموں کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہندوستان میں رہنے والی دوسری قوموں کو وہ کسی صورت برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے کانگرس چھوڑدی اور مسلم لیگ کا جھنڈا تھام لیا۔
آج اگرسوال پوچھا جائے پاکستان کس نے بنایا تو بچہ بچہ جواب دے گا قائداعظم نے۔ یہ جواب صحیح ہے لیکن اس کا ایک دوسرا جواب بھی صحیح ہے کہ پاکستان ہندوؤں کے تعصب اور تنگ نظری نے بنایا۔اگر ہندومسلم دشمنی پر آمادہ نہ ہوتے تو پاکستان نہ بنتا۔ دونوں ہندوستان میں رواداری کیساتھ رہ رہے ہوتے آج اس بات کو سوسال گزر چکے ہیں تعصب ختم ہونے کی بجائے بڑھ گیا ہے قائداعظم کا تجزیہ صحیح ثابت ہوگیا ہے۔
آج بھارت میں 25 کروڑمسلمان رہتے ہیں جن کیلئے عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے مسلمان پر ڈھائے جانے والے مظالم کی تصویریں دیکھ کر کلیجہ منہ کوآتا ہے۔ وہ مسلمان جو ہندوستان میں خوب گھل مل گئے تھے۔ خاص طور پر فلموں میں کام کرنے والے اداکاراور ہزاروں ادیب و دانشور وہ بھی ہندوؤں کی تنگ نظری سے خوفزدہ ہیں۔ بھارت اپنی جمہوریت کا بہت بڑا پرچارک ہے مگر بھارت کی جمہوریت میں مسلمانوں کیلئے زندہ رہنے کی گنجائش نہیں ہے۔مسلمان بادشاہوں نے ہندوستان پرکئی سوبرس حکومت کی۔ اگروہ اپنی طاقت اور خزانے کابھرپور استعمال کرتے تو لاکھوں ہندوؤں کو مسلمان بنایا جاسکتا تھا اور آج بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت ہوتی مگر مسلمان بادشاہوں کی فراخدلی کی داد دیجئے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک نظر سے دیکھا۔یہ مسلمان ہندوستان میں رچ بس گئے امیر خسرو، غالب، جہانگیر کلچر کے لحاظ سے پکے ہندوستانی ہیں۔ انہوں نے ہندوستانی تہذیب اپنالی زبان۔ تہوار رسوم و رواج اپنالیے مرے تو ہندوستان میں دفن ہوئے ایک روادار معاشرہ قیام میں لائے ہندومسلمان دوستی کی لاکھوں داستانیں مشہور ہوئیں۔ ان مداراتوں کے باوجود ہندوؤں کا ایک طبقہ متعصب ہی رہا بھارت میں جہاں کٹراور متعصب ہندو پڑی تعداد میں ہیں۔ وہاں انصاف پسند اور وفادار ہندوبھی موجود ہیں افسوس ان کی تعداد کم ہیں حال ہی میں سوسے زیادہ سینئر ہندو۔ سرکاری افسروں اور جرنیلوں نے ایک خط شائع کیا ہے جووزیراعظم نریندمودی کے نام لکھا گیا ہے۔ اس خط میں انہوں نے مودی کی توجہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم اور ناانصافی پر دلائی ہے۔ ان افسروں نے اس امر پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے بھارت کے اتحاد اور سالمیت کیلئے شدید خطرہ قرار دیا ہے۔ جینو سائیڈ واچ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے۔ اس کے بانی ممتاز امریکی دانشور ڈاکٹر گریگوری اسٹے ٹن ہیں۔ یہ تنظیم نسل کشی کے خطرات سے دنیا کو نہ صرف آگاہ کرتی ہیں بلکہ نسل کشی روکنے کی کوشش بھی کرتی ہے تنظیم نے کہا ہے کہ مودی سرکار کی پالیسی کے نتیجے میں بھارت میں روانڈااور میانمار جسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں اور ایک نسل ختم ہوسکتی ہے کال فار جینوسائیڈ آف انڈین مسلم کے موضوع پر ایک ویڈیو کال میں خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر گریگوری اسٹے ٹن نے کہا ہے گذشتہ بیس برس سے ہم ہندوستان میں مسلمانوں کی نسل کشی کو دیکھ رہے ہیں انہوں گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کی وہ مسلمانوں سے نفرت کا اظہار کھلم کھلا کرتے ہیں۔ سترسال میں جولوگ اقتدارمیں آئے ان میں وژن کی سخت کمی تھی۔ انہوں نے اپنے ملک کو مضبوط بنانے کی بجائے لوٹنے پر زیادہ توجہ دی پاکستان دنیا بھر کے مسلمان ملکوں کو اس بات پر راضی کرسکتا ہے کہ وہ بھارت پر زور ڈالیں کہ مسلمانوں کے خلاف ظلم وستم بندکرے انہیں زندہ رہنے کا حق دیں مگرافسوس اکثر مسلمان ملکوں کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ پاکستان دنیا بھر کے باضمیر دانشوروں کو اس مسئلے پر باخبر کرنے اور احتجاج کرنے پر راضی کرسکتا ہے بین الاقوامی سطح پراٹھائی گئی۔ دانشواروں کی آواز میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ دنیا کبھی باضمیر دانشوروں سے خالی نہیں رہی۔
حال ہی میں پاکستان میں نیشنل سلامتی پالیسی کی تشکیل ہوئی ہے نیشنل سکیورٹی پالیسی بنا ئے اور چلانے کی ذمہ داری پارلیمنٹ کی ہوتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں ایسے ممبروں کی اکثریت ہے جوکسی عملی مسئلے کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ نیشنل سکیورٹی پالیسی کا بنیادی مقصد تو سرحدوں کا دفاع ہے۔ لیکن اب اس میں ملک کے عوام کی ترقی اور خوشحالی (ہیومین ڈویلپمنٹ) کوبھی شامل کیاگیا ہے کوئی پالیسی عوامی امنگوں اور عوام کی ترقی سے لاتعلق نہیں رہ سکتی، اس پالیسی کو بنانے کیلئے ضرورت ہے کہ اسمبلیوں میں صرف وہ ممبر آئیں جو علمی موضوعات کو سمجھنے کی صاحیت رکھتے ہوں علم، شعور اور تجربے کی دولت سے مالامال ہوں یہ نیم خواندہ وڈیروں کے بس کی بات نہیں۔ اسمبلیوں کا الیکشن لڑنے اور ان کا ممبر بننے کیلئے بے تحاشہ دولت درکار ہے۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کے پاس یہ ہوتا نہیں وہ اسمبلیوں میں نہیں پہنچ سکتے۔ جب تک پارلیمنٹ میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے دیانتدار دانشور نہیں پہنچیں گے کوئی بھی معیاری سلامتی پالیسی نہیں بن سکے گی۔ کسی دانشور سے ایک پالیسی لکھوا کر الماری میں بند کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
پاکستان میں الیکشن میں صرف اُمرا جاگیردار، وڈہرے ہی حصہ لے سکتے ہیں جن کی تجوریوں میں اربوں کھربوں کے حساب سے روپے پڑے ہوں گے جواپنے بچوں کی شادیوں پر اربوں روپیہ خرچ کرسکتے ہوں، بیرون ملک اپنا علاج کرواسکتے ہوں۔
یہ لوگ قومی سلامتی پالیسی بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہوں اس کی باریکیوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ کیا پاکستان میں ایسے قوانین نہیں بنائے جاسکتے کہ الیکشن میں صرف متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے دانشور،وکیل، صحافی، پروفیسر ہی حصہ لے سکیں جن کے مالی معاملات بالکل شفاف Documented ہوں۔ نیشنل سکیورٹی پالیسی ایسی دستاویز نہیں ہوتی کہ اسے بناکر رکھ دیا جائے زیادہ ترممبر اسے سمجھتے نہ ہوں سکیورٹی پالیسی رگوں میں دوڑنے والے خون کی طرح ہے جسے کسی لمحے قرار نہیں قومی اسمبلی اُمرا کا کلب نہیں یہاں ہر لمحے افکار تازہ کی نمود اور غوروفکر ہوتا رہتا ہے۔ پارلیمنٹ کوئی منڈی نہیں جہاں گھوڑے بکتے ہوں۔ ہم اپنے اباؤاجداد کی حماقتوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ آنے والی نسلیں ہماری غفلتوں کا خمیازہ بھگتیں گی۔
(سیاسی ودفاعی مبصر اورتجزیہ نگار ہیں)
٭……٭……٭