اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان آئندہ ہفتے سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب کے شیڈول کو حتمی شکل دی جارہی ہے، وزیراعظم سعودی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے، وزیراعظم سعودی گرین انیشی ایٹو سمٹ میں شرکت کریں گے، وزیراعظم سعودی قیادت سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
یاد رہے کہ چند روز قبل قومی اسمبلی میں شوکت ترین نے تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ خام تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافے کے بعد پاکستان نے سعودی عرب سے درخواست کی ہے، سعودی عرب کے ساتھ تیل کی فراہمی کا معاہدہ تکمیل کے قریب ہے۔ دو سے تین روز میں تفصیلات سامنے آ جائیں گی۔
یاد رہے کہ رواں سال جون کے مہینے میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری کے اشاروں کے بعد ریاض نے پاکستان کو ادھار تیل کی فراہمی کی سہولت بحال کر دی تھی۔
درآمدی تیل پر انحصار کرنے والے پاکستان کو سعودی عرب کی جانب سے ایک سال کی مؤخر ادائیگی پر 1.5 ارب ڈالر کا تیل فراہم کیا جائے گا۔ پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے یہ اعلان حماد اظہر اور اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی ریونیو وقار مسعود کی جانب سے کیا گیا تھا۔
سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو مؤخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی کی سہولت پہلی بار نہیں دی جا رہی اور ماضی میں بھی یہ سہولت پاکستان کو چند مرتبہ فراہم کی گئی۔ تاہم 1.5 ارب ڈالر مالیت کے تیل کی مؤخر ادائیگی پر فراہمی اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی تعلقات میں گرم جوشی کے واپس آنے کی عکاسی کرتی ہے۔ جن میں کچھ عرصہ قبل کچھ رنجش پیدا ہو گئی تھی جس کی وجہ سے سعودی عرب نے تحریک انصاف کے دور حکومت میں دی جانے والی تین ارب ڈالر کی مؤخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی معطل کر دی تھی۔
خیال رہے کہ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے دس ارب ڈالر تک مصنوعات کو باہر کی دنیا سے منگواتا ہے اور آر ایل این جی کی درآمد سے توانائی کے شعبے کی درآمدات 14 سے 15 ارب ڈالر پہنچ جاتی ہے۔ پاکستان کی حکومت نے سعودی عرب سے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر مالیت کے ادھار تیل کی سہولت دوبارہ دست یاب ہونے کی تصدیق کردی ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا تھا کہ ادھار پرتیل حاصل ہونے سے پاکستان کو زرِمبادلہ کے ذخائربرقرار رکھنے میں مدد تو ملے گی لیکن قرض بڑھے گا اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
گذشتہ سال سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں گراوٹ کے باعث موخرادائیگیوں پر تیل کی فراہمی کے معاہدے پر عمل روک دیا تھا۔ سالانہ تین ارب ڈالر کے ادھار تیل کا معاہدے کے تحت سال 2020-2019 کے مالی سال میں پاکستان نے صرف پونے دو ارب ڈالر کی سہولت حاصل کی تھی۔
سعودی عرب نے 2018 کے آخر میں پاکستان کو چھ ارب 20 کروڑ ڈالر کا مالی پیکیج دیا تھا جس میں تین ارب ڈالر کی نقد امداد اور تین ارب 20 کروڑ ڈالرز کی سالانہ تیل و گیس کی موخرادائیگیوں کی سہولت شامل تھی۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہئے شوکت ترین نے کہا کہ پاکستان کی ایکسپورٹ میں کمی اور امپورٹ میں اضافہ ہورہا، اس سال ساڑھے چار ارب روپے کی کورونا ویکسین خریدی گئی، گزشتہ سالوں میں گندم کی قیمت نہ بڑھانے سے پیداوار میں کمی ہوئی، موجودہ حکومت قلت کے باعث گندم امپورٹ کر رہی ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ آج ہی ہم نے اہم فیصلہ کیا کہ ڈی اے پی بہت زیادہ سبسڈی دے رہے ہیں، چینی اور گندم کی کمی 30 سال سے حکومت کرنے والوں کی ناکامی ہے، گھبرانے کی ضرورت نہیں معیشت بہتر ہورہی ہے، اس سال 27 ملین ٹن گندم ہوئی ہم اس کو 30 ملین ٹن کا ہدف مقرر کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یقین دلاتا ہوں یہ وزیرخزانہ کہیں نہیں جارہا، پہلے بھی وزیرخزانہ اور سینیٹر رہ چکا ہوں، مجھے سینیٹر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے، یہ وزیرخزانہ تو تنخواہ بھی نہیں لیتا۔