Tag Archives: dilip-kumar

کیمرہ کے سامنے مجھے کوئی پریشانی نہ تھی ‘ آخر میرے پہلے شوٹ کا دن آگیا :دلیپ کمار

قسط نمبر26
ایک عجیب وغریب سچائی یہ تھی کہ میں بالکل بھی پریشان نہ تھا، اس حقیقت کے حوالے سے کہ میں پہلی مرتبہ کیمرے کا سامنا کررہا تھا حتیٰ کہ میرے اولین شوٹ کا دن آن پہنچا۔مجھے پہننے کیلئے ایک سادہ سی پتلون اور شرٹ دی گئی اور دیویکارانی بہ نفس نفیس سیٹ پر آئیں اور میری جانب دیکھا اور مجھے ہمیشہ کی طرح پرسکون پایا۔ وہ میک اپ میں خاصی مہارت رکھتی تھیں، انہوں نے میرے میک اپ پر پڑنے والی روشنی کا جائزہ لیا۔ وہ ہر کام کےساتھ عین مطمئن تھیں ماسوائے میرے ابرو(بھویں) انہوں نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کیلئے کہا اور انہوںنے میک اپ مین سے موچنا طلب کیا اور میرے بھوو¿ں کے کچھ بال نوچ کے انہیں مناسب شکل عطا کی جب کہ میں اپنا سانس روکے بیٹھا رہا اور بال نوچنے کی وجہ سے جو تکلیف ہورہی تھی اسے برداشت کرتا رہا۔ وہ ہنسیں جب انہوں نے میری آنکھوں میں آنسو دیکھے جو بال نوچنے کی تکلیف سہنے کی وجہ سے میری آنکھوں سے جاری ہوئے تھے اور انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میںآئینے میں اپنا چہرہ دیکھوں جب کہ میک اپ مین نے جلدی جلدی متاثرہ جگہ پر کریم لگادی تاکہ مجھے کچھ سکون میسر آسکے۔ انہوںنے میرے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور مابعد وہ وہاں سے رخصت ہوگئیں۔ امیا چکرابور تھی نے مجھے میرا پہلا شوٹ(سین) سمجھایا۔ انہوں نے زمین پر ایک نشان لگاتے ہوئے مجھے بتایا۔” تم یہاں سے اپنی اپوزیشن لوگے اور تم بھاگو گے جب میں کہونگا ”ایکشن “ ۔ میں پہلے کہونگا ”اسٹارٹ کیمرہ“ لیکن وہ تمہارے لئے نہیں ہوگا۔ ایکشن تمہارے لئے ہوگا اور تم بھاگنا شروع کروگے اور تم بھاگنا اس وقت بند کروگے جب میں کہونگا ”کٹ“۔
میں نے ان سے پوچھا کیا مجھے بتایا جائیگا کہ میں کیوں بھاگ رہا تھا؟۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہیروئن کی زندگی بچانے کیلئے جو خودکشی کا ارتکاب کرنے جا رہی تھی۔ یہ ایک آو¿ٹ ڈور سین تھا اور کیمرہ کہیں نہ کہیں فاصلے پر تھا ۔ یہ برانڈ نیو کیمرہ تھا جو جرمنی سے درآمد کیا گیا تھا اور اسے پہلی مرتبہ استعمال کیا جا رہا تھا ۔ میں وہاں پر کھڑا تھا جہاں کھڑا ہونے کیلئے مجھے کہا گیا تھا ۔ میں کالج میں ایک اتھلیٹ رہا تھا اور 200میٹر کی دوڑ متواتر جیتتا رہا تھا ۔ لٰہذا میں قطعاً پریشان نہ تھا جب مجھے ”کٹ“کی آواز سننے تک دوڑنے کیلئے کہا گیا تھا بلکہ میں خوش تھا کہ یہ ایک ایسا کام تھا جو میرے لئے آسان اور سادہ تھا۔
شاٹ تیار تھا اور جس لمحے میں نے ”ایکشن“ سنا ۔ میں برق رفتاری سے بھاگا اور میں نے ڈائریکٹر کو چلاتے ہوئے سنا ۔ ”کٹ ،کٹ ،کٹ“ ۔ میں نے دیکھا کہ وہ مجھے کچھ بتانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن میںاندازہ نہ لگا سکا کہ وہ مجھے کیا بتانا چاہتا تھا۔ میں اسی جگہ پر کھڑا ہوگیا جہاں پر میں پہنچ چکا تھا اور امیاچکربورتھی میرے پاس آئے۔ وہ کسی قدر ناخوش دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ میں اس قدر تیزی کے ساتھ کہ یہ ایک دھندلی یا بگڑی ہوئی شکل جو کیمرے میں مقید ہوئی تھی۔ میں نے وضاحت کی کہ مجھے اس رفتار کا کوئی آئیڈیا نہ تھا جو رفتار میں نے برقراررکھنی تھی ۔ تب انہوں نے کہا۔
فکر نہ کرو ہم اسے دوبارہ کریں گے لیکن رفتار سست رکھنا۔یہ امر میرے لئے پریشان کن تھا جب انہوں نے مجھے رفتار سست کرنے کیلئے کہا تھا ۔ کیونکہ میں نے سوچا تھا کہ میرے لئے اس قدر تیز بھاگنا ضروری تھا جس قدر تیز میں بھاگ سکتا تھا تاکہ میں اس لڑکی کی زندگی بچا سکوں جو اپنی زندگی ختم کرنے جا رہی تھی ۔ تاہم جب امیاچکربورتھی نے ایکشن کی وضاحت بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو کیمرے میں فلم پر رجسٹر ہونی چاہئے ۔ جو ایک مخصوص رفتار سے حرکت کریگا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہرگز نہ تھا اور اداکاری کا کام ایک سادہ سا کام تھا۔
بہرکیف تین یاچار مرتبہ کٹ پکارے جانے کے بعد شوٹ اوکے ہوگیا تھا۔
مجھ سے یہ اکثر پوچھا جاتا ہے کہ میں نے اپنی اولین پرفارمنس (کارکردگی) اور اپنی اولین فلم کی بابت کیا سوچا تھا۔ جو 1944میں نمائش کیلئے پیش کی گئی تھی۔ ایمانداری کی بات ہے کہ کلی تجربہ مجھ پر زیادہ اثر انداز ہوئے بغیر ہی گزر گیا تھا۔میں نے وہی کچھ کیا جو کچھ کرنے کیلئے مجھے کہا گیا تھا اور اکثر اوقات یہ اس قدر آسان نہ تھا۔
میں نے اپنے آپ سے پوچھا۔
” کیا میں اپنی آنے والی فلموں میں ایسے ہی پرفارم کرنے جا رہا ہوں اگر اسٹوڈیو میری خدمات کو جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے ؟“میرا جواب تھا۔
”نہیں“
میں نے محسوس کیا کہ یہ ایک مشکل کام تھا اور اگر مجھے اس کام کو جاری رکھنا ہے تو مجھے اسے سرانجام دینے کا اپنا منفرد طریقہ تلاش کرنا ہوگا۔ اور اہم سوال یہ تھا کہ
”کیسے“
(جاری ہے)