Tag Archives: maryam-nawaz

نواز شریف پریشان ،مریم پُر اعتماد جبکہ کیپٹن صفدر کی دھمکیاں ،،،

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم نوازشریف جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے وقت بڑے مضطرب اور پریشان تھے، مریم نواز قدرے بااعتماد رہیں، کیپٹن صفدر نے دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا، یہ انکشافات سینئر صحافی نے نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کے دوران کئے، انہوں نے کہا کہ نوازشریف جے آئی ٹی کے سامنے پریشان نظر آئے ، نوازشریف نے ایک افسر کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ آپ کو تو پتہ ہے کہ اٹک جیل میں میرے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا، صرف کیپٹن (ر) صفدر نے آپے سے باہر جاتے ہوئے ایجنسی افسران کی جانب دیکھ کر کہا کہ پھر دوبارہ ملیں گے ، یہ الفاظ انگریزی میں ادا کئے ، حسین نواز نے جے آئی ٹی کو کہا کہ میں لکھ کر بیان دینا چاہتا ہوں اور بیٹھ کر لکھتے رہے تاہم وہ لکھا ہوا کاغذ تحقیقاتی ٹیم کو دینے کی بجائے جیب میں ڈال کر چلے گئے۔

مریم نواز نے بڑا اعلان کردیا، مقتدر حلقوں میں کھلبلی

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف پر سرکاری پیسے کی خرد برد کا الزام ثابت نہیں ہوا ہے اس لئے وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ ٹوئٹر پر ایک صارف کا ٹوئٹ ری ٹوئٹ کیا ہے جس میں صارف انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو ہم نے پانچ سالوں کے لئے منتخب کیا ہے اس لئے انہیں کسی بھی صورت میں استعفیٰ نہیں دینا چاہیے ، جس کو جواب دیتے ہوئے مریم نواز نے ٹوئٹ کیا کہ نواز شریف کے پانچوں ادوار میں ان پر سرکاری پیسوں کی خردبرد کا ایک بھی الزام ثابت نہیں ہوا اس لئے انشااللہ وہ استعفی نہیں دیں گے۔

مریم نواز نے تحقیقات کا رُخ ہی بدل ڈالا ،حقیقت کچھ اور ہی نکلی

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو شریف خاندان کے بیانات میں ویسے تو کئی ‘بے ضابطگیاں’ نظر آئی ہوں گی تاہم ان میں سے کوئی بھی چیز عوام کی اس قدر توجہ حاصل میں کامیاب نہ ہوئی جتنا کہ وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کی جمع کرائی گئی دستاویزات میں” کلیبری فونٹ “کے استعمال سے ان کا جھوٹا ثابت ہونا۔یاد رہے کہ 15 نومبر کو اپنے ٹوئٹر پیغام میں وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا تھا کہ ‘وہ لندن فلیٹس کی ٹرسٹی ہیں، مالک نہیں’۔جبکہ اس بات کے ثبوت کے طور پر انہوں نے چند دستاویزات کی تصاویر بھی اپنی ٹوئیٹ میں شیئر کی تھیں۔جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ میں سے لی گئی مندرجہ ذیل تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم نے مریم نواز کی دستاویزات پر کیا اعتراض اٹھایا۔جے آئی ٹی میں جمع کرائے گئے ڈکلیئریشن دستاویزات میں کلیبری فونٹ کا استعمال کیا گیا، جو 31 جنوری 2007 سے پہلے کمرشل بنیادوں پر دستیاب نہیں تھا، جمع کرائے گئے ڈکلیئریشن سرٹیفکیٹس میں اصل تاریخ نہیں ہے، یہ بعد میں تیار کیے گئے’۔نجی خبررساں ادارےنے کلیبری فونٹ کو تخلیق کرنے والے گرافک ڈیزائنر لوکاس ڈی گروٹ سے رابطہ کیا تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ آیا یہ فونٹ مریم نواز کے حمایتیوں کے دعوے کی طرح فروری 2006 میں (جب دستاویز پر دستخط کیے گئے) یا اس سے قبل موجود تھا، یا 2007 میں سامنے آیا۔لوکاس دی گروٹ کی کمپنی لوکاس فونٹس کی جانب سے اس سوال کا جواب کمپنی کے نمائندے لیسیلوٹ شیفر نے دیا۔ جواب میں کہا گیا کہ ‘لوکاس سے ہونے والی بات چیت کے مطابق کیلبری فونٹ کی ریلیز سے متعلق ہم یہ معلومات فراہم کرسکتے ہیں: لوکاس نے اس فونٹ کی ڈیزائننگ کا آغاز 2002 میں کیا اور فونٹ کی حتمی سورس فائلز مارچ 2004 سے قبل مائیکروسافٹ کو روانہ نہیں کی گئی تھیں’۔جواب میں مزید کہا گیا کہ ‘مائیکروسافٹ وسٹا آپریٹنگ سسٹم کے بِیٹا ورڑنز میں یہ فونٹ ممکنہ طور پر موجود ہوسکتا ہے تاہم مائیکروسافٹ کمپنی ہی اس بارے میں بتا سکتی ہے’۔لوکاس فونٹس کے مطابق ‘ونڈوز بیٹا ورڑنز، پروگرامرز اور ٹیکنالوجی کے شوقین افراد کے لیے ہوتے ہیں تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جاسکے کہ کیا یہ لوگوں میں مقبول ہوگا یا نہیں’۔کمپنی کے جواب میں یہ بھی کہا گیا کہ ‘چونکہ ایسے آپریٹنگ سسٹمز کا فائل سائز بہت بڑا ہوتا ہے اس لیے اسے حاصل کرنا دشوار امر ہے’۔مزید کہا گیا، ‘ہماری معلومات کے مطابق کلیبری کا پہلا عوامی بیٹا ورڑن 2006 میں شائع ہوا، ہم ریلیز کی تاریخ تو نہیں جانتے مگر ایسا بہت مشکل ہے کہ کوئی سرکاری دستاویزات میں استعمال کے لیے بِیٹا ماحول سے فونٹس کاپی کرے’۔دوسری جانب وکی پیڈیا پر موجود معلومات کے مطابق اس فونٹ کا پہلا عوامی بیٹا ورڑن 6 جون 2006 میں ریلیز ہوا جو مریم نواز کے کاغذات پر دستخط کرنے کے 4 ماہ بعد کی تاریخ ہے۔ لوکاس فونٹس کا بیان اس لیے بھی وزن رکھتا ہے کیونکہ سافٹ ویئرز کے بیٹا ورڑن نامکمل اور تجرباتی مرحلے میں ہوتے ہیں اور صرف کمپیوٹر سافٹ ویئر میں غیرمعمولی دلچسپی رکھنے والے افراد ہی ان کا استعمال کرتے ہیں۔ای میل میں مزید بتایا گیا کہ مائیکروسافٹ آفس 2007 پہلی پراڈکٹ ہے جس میں کلیبری کا بڑے پیمانے پر باقاعدہ استعمال ہوا، 30 نومبر 2006 میں والیوم لائسنس کسٹمرز کو فراہم کیا گیا اور 30 جنوری 2007 میں اسے ریٹیل کے لیے پیش کیا گیا۔ایک علیحدہ ای میل میں فونٹ ڈیزائنر دی گروٹ کا خود کہنا تھا کہ تھیوری میں تو ایسا ممکن ہے کہ کسی کمپیوٹر ماہر کے ہاتھوں بیٹا آپریٹنگ سسٹم سے حاصل کرکے 2006 میں دستاویز میں کلیبری فونٹ کا استعمال کرلیا جائے، لیکن سوال یہ ہے کہ 2006 میں کوئی کیوں ایک نامعلوم فونٹ کو سرکاری دستاویزات میں استعمال کرے گا؟’ڈیزائنر کا مزید کہنا تھا کہ ‘اگر کیلبری استعمال کرنے کا شوقین فرد فونٹس کو اتنا ہی پسند کرتا ہوگا تو وہ 2006 میں ا±سی فونٹ میں تحریر مزید دستاویزات بھی بطور ثبوت پیش کرسکتا ہے’۔لوکاس ڈی گروٹ کا کہنا تھا کہ ‘ان کے خیال سے مریم نواز کی دستخط شدہ دستاویزات بہت بعد میں تیار کی گئی ہیں جب کیلبری مائیکروسافٹ ورڈ کا ڈیفالٹ فونٹ تھا’۔یوں تو فرانزک ماہرین کا یہی کہنا ہے کہ 31 جنوری 2007 سے قبل عوام کی اس فونٹ تک رسائی نہیں تھی اور اس کا 2006 کی دستاویزات میں استعمال غیرمعمولی ہے تاہم کچھ افراد یہ اصرار کرتے ہیں کہ مذکورہ فونٹس کافی پہلے سے گردش میں ہے اور مریم نواز کا اسے استعمال کرنا مشتبہ نہیں۔ان ہی افراد میں سے ایک بیرسٹر ظفراللہ خان ہیں جنہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں فرانزک ماہرین کے خیال پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ایسا دعویٰ کرنے والے گوگل کریں اور دیکھیں کہ یہ اگست 2004 میں ریلیز ہوچکا تھا۔خیال رہے کہ اس حوالے سے انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے وکی پیڈیا کی معلومات میں بھی مسلسل تبدیلیوں کی نشاندہی کی جارہی ہے۔صارفین کی جانب سے بار بار فونٹ کی ریلیز کی تاریخ تبدیل کیے جانے کے بعد وکی پیڈیا نے 18 جولائی تک اس میں کسی ردوبدل پر پابندی عائد کردی ہے۔

 

دھیمے لہجے میں گفتگو ،کارکنوں کا رول ماڈل ،بوجھئے تو کون؟

اسلام آباد (آئی این پی) وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے پانامہ کیس کی تحقیقات کے لئے قائم جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد جذباتی ہوئے بغیر دھیمے لہجے اور پروقار انداز میں مدلل ‘ مفصل ‘ مدبرانہ اور منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح گفتگو کرکے نہ صرف مخالفین کو خاموش کرادیا بلکہ اپنی پارٹی کے رہنماﺅں اور کارکنوںکے لئے بھی رول ماڈل بن گئیں‘ مریم نواز جے آئی ٹی میں پیشی سے قبل جتنی پراعتماد تھیں واپسی پر وہ اس سے بھی زیادہ پراعتماد اور خوشگوار موڈ میں نظر آئیں‘ ان کی شخصیت اس بات کی عکاسی کررہی تھی کہ جے آئی ٹی ارکان کے سوالوں کے جواب دے کر وہ نہ صرف اپنے مخالفین کو زیر کرچکی ہیں بلکہ اپنی پارٹی کارکنوں کا مورال بھی بلند کردیا ہے‘ مریم نواز اعلیٰ اختیاراتی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونے والی ملک کی واحد خاتون بن گئی ہیں۔ بدھ کو وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز جے آئی ٹی میں پیشی کے لئے آئیں تو جوڈیشل اکیڈمی کے مرکزی گیٹ پر گاڑی سے اترتے ہی وہ انتہائی پراعتماد تھیں اور خوشگوار انداز میں میڈیا کے کیمروں کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔ مریم نواز کے ہمراہ ان کے خاوند کیپٹن (ر) صفدر ‘ بھائی حسین نواز اور حسن نواز ‘ بیٹی اور وزیر مملکت مریم اورنگزیب اور پارٹی کے دیگر رہنما بھی تھے۔ مریم نواز جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد جب باہر آئیں تو وہ میڈیا سے بات چیت کرنے کے لئے ڈائس پر وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اپنی بیٹی اور بھائیوں کے ہمراہ آئیں۔ مریم نواز کے پاس لکھی ہوئی تقریر یا نوٹس نہیں تھے انہوں نے میڈیا سے زبانی اور فی البدیع بات چیت کی۔ انہوں نے پروقار انداز میں انتہائی مدلل اور مدبرانہ گفتگو کی۔ وہ اپنی گفتگو میں سیاسی مخالفین کو بھی واضح پیغامات دیتی رہیں۔ اپنے خاندان کا دفاع کیا ۔ جے آئی ٹی کو بھی پیغام دیا‘ آئندہ کا سیاسی لائحہ عمل بھی بتایا اور تاریخ کے حوالے بھی دیئے۔ اپنے کارکنان اور قوم کو بھی پیغام دیا مجموعی طور پر ان کی گفتگو ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی تھی جو دانشمندی کا مجموعہ تھی۔ مریم نواز شریف خاندان اور مسلم لیگ (ن) کی واحد شخصیت اور رہنما ہیں جنہوں نے جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد انتہائی پراعتماد انداز میں مفصل گفتگو کی اور سیاسی مخالفین پر خوبصورت انداز میں تیر برسائے اور انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ حسین نواز ‘ حسن نواز اور دیگر لوگ جو جے آئی ٹی میں پیشی کے لئے آتے رہے اور میڈیا سے گفتگو کرتے رہے مریم نواز کی گفتگو ان سب سے کہیں زیادہ مدبرانہ اور مدلل تھی۔ اگرچہ مریم نواز نے میڈیا کے نمائندوں کے سوالوں کے جواب نہیں دیئے تاہم ان کی بات چیت میں ہی بے شمار سوالوں کے جواب موجود تھے۔ جب انہوں نے اپنی بات چیت مکمل کرلی اور واپسی کے لئے روانہ ہونے لگیں تو حسین نواز ڈائس پر آگئے اور انہوں نے منی ٹریل سے متعلق سوال کا جواب دیا اور کہا کہ ہم نے تو بہت پہلے منی ٹریل دے دی ہے وہ لوگ جن کی منی ٹریل پاکستان کے اندر ہے وہ ابھی تک یہ ٹریل نہیں دے سکے۔ اس موقع پر مریم نواز نے جوڈیشل اکیڈمی کے باہر آنے والے کارکنان کا شکریہ ادا کیا اور واپسی پر بھی کارکنان کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔

مریم کی بیرون ملک روانگی ،صورتحال واضح ہو گئی

اسلام آباد (ویب ڈیسک) ترجمان شریف فیملی نے مریم نواز شریف کے بیرون ملک جانے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ شریف فیملی کے خلاف گمراہ کن خبریں پھیلانا مخلفین کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے۔مریم کے بیرون ملک جانے کی خبریں گمراہ کن ہیں۔منگل کو شریف فیملی کے ترجمان نے مریم نوا ز شریف کے بیرون ملک جانے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ شریف فیملی کے خلاف گمراہ کن خبریں پھیلانا مخالفین کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے۔مخالفین ہر محاز پر ناکام ہونے کے بعد سنسنی خیز ی پھیلانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔انھون نے کہا کہ مریم نواز کے بیرون ملک جانے کی خبرین گمراہ کن ہیں۔

پا نا ما کیس فیصلہ ۔۔مریم نواز کے ٹوئٹ سے ہرطرف ہلچل

اسلام آباد(ویب ڈیسک) وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کا کہنا ہے کہ لوہا آگ میں جل کر مضبوط بنتا ہے جب کہ وزیراعظم کے لیے بھرپور سپورٹ دیکھ کر مطمئن ہوں۔وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کا سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پراپنی ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ فیصلہ چاہے جوبھی آئے لیکن وزیراعظم کے لیے بھرپور سپورٹ دیکھ کر حیران بھی ہوں اور مطمئن بھی،

maryam 1

ایک رہنما کے لیے اس سے بڑا کوئی انعام نہیں ہے۔مریم نواز کا مزید کہنا تھا کہ لوہا آگ میں جل کر ہی مضبوط بنتا ہے اور یہ انتہائی سچ بات ہے جس پر میں شکرگزار ہوں۔

maryam 1

مریم نواز نے اہم شخصیت کو سیاست میں اُتار دیا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم نوازشریف کی نواسی کے شوہر اور مریم نواز کے داماد راحیل منیر بھی سیاست میں کود پڑے، رحیم یار خان میں داخل منیر کے نام کے بینر لگ گئے۔ نجی ٹی وی کے مطابق مریم نواز کے داماد راحیل منیر کے رحیم یار خان میں بینرز لگ گئے ہیں۔ راحیل منیر کی شادی نوازشریف کی نواسی سے ہوئی تھی اس شادی میں بھارتی وزیراعظم نریندرمودی بھی شریک ہوئے تھے۔

مریم نواز کا ٹوئیٹ ”آپ نے دل جیت لیا“ مریم نواز نے یہ ٹوئیٹ کس شخصیت کو کیا ؟

لاہور(ویب ڈیسک ) گزشتہ روز لاہور میں ہونے والے پی ایس ایل فائنل کی کامیابی کے بعد وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے ایک ٹویٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”چاچو آپ کا جواب نہیں، آپ نے لاہور، پنجاب اور پاکستان کے عوام کے دل جیت لیے ہیں، آپ ملک بھر کی عوام کے لئے ایک فخر ہیں“۔

مریم نواز کا عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان سے رابطہ

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)ذرائع کے مطابق مریم نواز کا ریحام خان سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے ۔مریم نواز سے ریحام خان نے ان کی والدہ کے انتقال پر اظہار تعزیت کی اور انکے درجات کی بلندی کیلئے بھی دعا کی ہے ۔نجی ٹی وی کے مطابق ریحام خان سے ملکی اور سیاسی صورتحال پر بھی بات چیت کی گئی ہے

پانامہ کیس…. مریم نواز نے چپ کا روزہ توڑ کر سب کوپریشان کر ڈالا

اسلام آباد (ویب ڈیسک) پانامہ کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ضرورت پڑی تو وزیراعظم کو بلوائیں گے ورنہ نہیں، ابھی تو ہمیں پتہ بھی نہیں کہ دوسرے فریق نے کیا کہنا ہے جس کو بلانا پڑا بلائیں گے، سب کو سن کر فیصلہ کریں گے، عدالت نے کیا کرنا ہے جبکہجسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر عدالت شواہد ریکارڈ کرسکتی ہے۔منگل کوسپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔سماعت شروع ہوئی تو جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے کہا کہ ظفر علی شاہ کیس میں نواز شریف کو فریق بنایا گیا تھا۔ اس پر عدالت نے اعتراض کیا تھا مگر بات درست تھی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ کی درخواست میں بھی لکھا گیا تھا کہ خالد انور و کیل تھے۔ اس عدالت میں غلطی کی گنجائش نہیں فیصلے میں دیکھ لیں گے۔ توفیق آصف نے کہا کہ ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کو پڑھوں گا۔ اس فیصلے میں ذکر ہے کہ لندن فلیٹس شریف خاندان کے تھے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہماری دلچسپی اس مقدمے میں عدالتی فائنڈنگ پر ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ عدالت نے فیصلے میں مبینہ کرپشن کا ذکر کیا۔ مبینہ کرپشن کے الزام پر فیصلہ نہیں دیا۔ خالد انور کس کی جانب سے پیش ہورہے تھے۔ توفیق آصف نے کہا کہ خالد انور ظفر علی شاہ کے وکیل تھے۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ آپ نے ظفر علی شاہ کیس کی فائل پڑھی ہے نہ ہی فیصلہ آپ قانون کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کررہے ہیں۔ توفیق آصف نے کہا کہ خالد انور نے اپنے دلائل میں نواز شریف کا دفاع کیا۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ آپ اس مقدمے میں سراج الحق کے وکیل ہیں۔ کیس کی پیروی کے لئے خالد انور کے پاس وکالت نامہ نہیں تھا۔ توفیق آصف نے کہا کہ التوفیق کیس میں لندن فلیٹس گروی رکھے گئے تھے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ کو کس نے کہا کہ لندن فلیٹس گروی رکھے گئے تھے؟ دستاویز دکھا دیں کہ لندن فلیٹس کہاں گروی رکھے گئے تھے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فلیٹس حدیبیہ پیپرز مل قرضہ میں گروی نہیں تھے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ظفر علی شاہ کیس کی کتاب اب بند کردیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ نے اپنے موکل کو جتنا تباہ کرنا تھا کردیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فاضل جج نے تباہ کرنے والی بات مذاق میں کی۔ توفیق آصف نے کہا کہ التوفیق کیس میں قرضہ نواز شریف نے ادا کیا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ نواز شریف التوفیق کیس میں ادائیگی نہیں کرسکتے تھے۔ برطانیہ کیس چل رہا تھا تو نواز شریف جیل میں تھے۔ توفیق آصف نے کہا کہ کسی نے تو قرض کی رقم ادا کی۔ یہی تو پتہ کرنا ہے لگتا ہے عدالت مجھے ایک گھنٹے سے زائد سننا نہیں چاہتی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اپ دلائل دینے کیلئے گیارہ سال لے لیں جو دلائل دے چکے انہیں دوبارہ نہ دہرائیں۔ توفیق آصف نے کہا کہ نواز شریف کے خلاف سنجیدہ الزامات ہیں نا۔اہل ہوسکتے ہیں یہ انا یا ذات کا مسئلہ نہیں۔ نواز شریف کو طلب کیا جائے۔ نواز شریف سے عدالت میں سوالوں کے جوابات مانگے جائیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ضرورت پڑی تو وزیراعظم کو بلوائیں گے ورنہ نہیں ۔ ابھی تو ہمیں پتہ بھی نہیں کہ دوسرے فریق نے کیا کہنا ہے جس کو بلانا پڑا بلائیں گے۔ سب کو سن کر فیصلہ کریں گے۔ عدالت نے کیا کرنا ہے ۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر عدالت شواہد ریکارڈ کرسکتی ہے۔ توفیق آصف نے کہا کہ درخواست گزاروں نے ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری پوری کی۔ کرپشن کے خاتمے کے لئے سب کی نظریں عدالت پر ہیں۔ جماعت اسلامی خود کو احتساب کے لئے پیش کرتی ہے۔ توفیق آصف کے دلائل مکمل ہونے پر جماعت اسلامی کے دوسرے وکیل شیخ احسن الدین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ مکمل ثبوت گوشواروں کی شکل میں آیا۔ مکمل ثبوت غیر ملکی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں آئے۔ سپین میں تشدد کرکے لوگوں کا اعترافی بیان لئے جاتے تھے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اس طرف نہ لے کر جائیں جہاں ہمارے ہاتھ پاﺅں پھول جائیں کیا آپ چاہتے ہیں کہ بیانات کے لئے لوگوں پر تشدد کریں۔ شیخ احسن الدین نے کہا کہ عدالت دستیاب مواد کو قانون شہادت پر پرکھے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ قانون شہادت کے حوالہ پر پورا نہ اترے تو کیا کریں۔ شیخ احسن الدین نے کہا کہ 2012ءمیں نواز شریف کے نام اراضی خریدی گئی۔ مریم نواز 2012 میں بھی زیر کفالت تھی۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں بہت سے اعتراف کئے۔ وزیراعظم کی اسمبلی تقریر کو مکمل طور پر تسلیم کیا جائے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا وزیراعظم کے بیان کو 142 کا بیان مان لیا جائے۔ شیخ احسن الدین نے کہا کہ قطری خط تخلیق شدہ ہے۔ تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا آپ کو پتہ ہے قطری خط کس نے لکھا؟ شیخ احسن الدین نے کہا کہ ہر چیز کا کھرا نواز شریف کے گھر جاتا ہے۔ زیر کفالت معاملے پر مواد عدالت کے ساتھ رکھوں گا۔ ایسا شخص جو کسی دوسرے سے سہارا یا تائید حاصل کرے وہ زیر کفالت ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تو پھر کیا توفیق آصف آپ کے زیر کفالت ہیں؟ کیونکہ مقدمے میں آپ کا سہارا لیا جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہہ لگ گیا۔ احسن الدین نے کہا کہ دوسرے کے وسائل پر انحصار کرنے والا زیر کفالت ہوتا ہے۔ طارق اسد نے درخواست الگ بینچ میں منتقل کرنے کی استدعا کردی۔ طارق اسد نے کہا کہ نواز شریف کی نااہلی کے لئے سارا وقت ضائع کیا گیا۔ کمیشن بن جاتا تو اب تک کیس کا فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ تین رکنی بینچ کمیشن کی تشکیل کے لئے درخواست سن سکتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواستیں مقدمے سے الگ کردی گئیں۔ عدالت نے کہا کہ درخواستیں مختلف نوعیت کی ہیں درخواستوں کو الگ سے سنا جائے گا۔ دونوں درخواستوں پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جلد سماعت کیلئے چیف جسٹس کو درخواست دیں۔ مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ مخدوم علی خان کے دلائل کو بھی اپناتا ہوں۔ شاہد حامد نے مریم نواز کا تحریری جواب پڑھ کر سنایا۔ مریم صفدر کے جواب میں کیا گیا کہ میری شادی فوج کے حاضر سروس کیپٹن سے 1992 میں ہوئی۔ کیپٹن صفدر نے بعد میں سول سروس جوائن کرلی۔ کیپٹن صفدر 1986 میں فوج میں بھرتی ہوئے تھے کیپٹن صفدر 1986 سے آج تک ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ ہم نے رائے ونڈ میں شمیم ایگری فارمز پانچ میں سے ایک رہائش گاہ حاصل کی۔ اس کی مالک میری دادی تھیں۔ میرے تین بچے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ بیٹا زیر تعلیم اور ایک بیٹی کی شادی ہوچکی ہے۔ 2000ءمیں جلا وطن کیا گیا تو والدین کے ہمراہ سعودی عرب چلی گئی۔ شوہر بھی میرے ہمراہ تھے ۔میرے والد اور شوہر کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ میرے شوہر کو غیر قانونی طور پر ملازمت سے برطرف کیا گیا۔ 2007 میں جلا وطنی ختم کرکے واپس آئے۔ 2007 میں دوبارہ شمیم ایگری فارم میں رہائش اختیار کی ۔میرے شوہر 2008ءاور 2013ءمیں ایم این اے منتخب ہوئے۔ شوہر کی آمدن بطور گورنمنٹ سرونٹ آتی رہی۔ تفصیلات عدالت کو دے دیں ۔جواب میں کہا گیا کہ والد نے قیمتی تحائف پدرانہ شفقت کے تحت دیئے۔ تحفے دینے میں والدہ اور بھائیوں کی رضامندی شامل تھی۔ 1991ءکے بعد سے کبھی بھی اپنے والد کے زیر کفالت نہیں رہی۔ کبھی بھی لندن فلیٹس کی بینی فشل مالک نہیں رہی۔ عدالت نے ایک صفحے کا مریم صفدر کا جواب مسترد کردیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دستخط کے بغیر اس دستاویز کی کوئی اہمیت نہیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ دستخط کراکر دوبارہ جمع کرادوں گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دستخط اپنی موکل کی جانب سے کرنے ہوں گے۔ فلیٹس کی ملکیت تقریباً دو ملین پاﺅنڈ ہے۔ شاہد حامد نے کہا کہ مریم صفدر کے ٹیکس گوشوارے بھی جمع کرا چکے ہیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ شمیم ایگری فارم کے دستاویزات بھی عدالت کو دے چکے ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کیا قانونی طور پر اہلیہ کے اثاثے ظاہر کرنا لازمی ہیں؟ شاہد حامد نے کہا کہ قانونی طور پر لازمی نہیں کیونکہ مریم خود بھی ٹیکس دیتی ہیں۔ ٹیکس گوشوارے کاغذات نامزدگی کے ساتھ جمع کروائے گئے تھے۔ کیپٹن صفدر کا این ٹی ایم نمبر2013 میں بنا کیپٹن صفدر 1986 سے ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ پانامہ کیس کی سماعت (آج ) بدھ تک کیلئے ملتوی کردی گئی ۔